کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران گوگل عوامی سطح پر لوگوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کرے گا، تاکہ یہ جان سکے کہ کورونا وائرس کی وبا کیسے پھیلتی ہے۔ ٹیکنالوجی کمپنی گوگل برطانیہ کے ایک ایک دیہی علاقے کے مختلف مقامات اور افراد کی نقل و حرکت سمیت دیگر 130 ممالک کے افراد کا ایسا ہی ڈیٹا شائع کرے گی۔ اس منصوبے کا مقصد لوگوں کی گزشتہ دو سے تین روز کی سرگرمی کا مسلسل جائزہ لینا اور باقاعدگی سے ان کے اعداد و شمار جاری کرنا ہے، تاکہ بہتر طور پر لوگوں کی نقل و حرکت کے بارے میں جانا جاسکے۔ تاہم کمپنی نے یہ وعدہ کیا ہے کہ صارفین کی پرائیویسی کا خیال رکھا جائے گا۔ یہ اعداد و شمار گوگل میپس ایپ یا کسی فرم کی دوسری موبائل سروسز کے ذریعے جمع کردہ لوکیشن ڈیٹا پر مبنی ہیں۔ گوگل عام طور پر ایسا ڈیٹا اُس وقت استعمال کرتی ہے جب مخصوص عجائب گھروں، دکانوں اور دیگر مقامات پر زیادہ رش ہونے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹریفک جام کی صورت میں متبادل راستے بتانے ہوں، تاکہ ڈرائیوروں کو ٹریفک سے بچنے میں مدد مل سکے۔ تاہم اس صورت میں گوگل اس ڈیٹا کو توڑ کر یہ جائزہ لے گی اور یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ درج ذیل مقامات پر لوگوں کی نقل و حرکت اب کے مقابلے میں اس برس کے آغاز میں جب لاک ڈاؤن نافذ نہیں کیے گئے تھے، کتنی تھی۔
خریداری اور تفریحی مقامات،سودا سلف اور میڈیکل اسٹور،پارک، ساحل اور پلازے،بسوں، ٹرینوں اور سب وے اسٹیشنوں پر، دفتری عمارات اور دیگر کام کی جگہوں پر،رہائشی مقامات پر،گوگل کا کہنا ہے کہ امید ہے اس معلومات کو صحتِ عامہ کے سربراہان اور دیگر حکام کورونا کی وبا کو محدود کرنے میں مدد کے لیے استعمال کرسکیں گے۔ اسی طرح لوگوں کی جانب سے بس اڈوں، ٹرین اسٹیشنوں یا دیگر ٹرانسپورٹ کے مقامات پر متواتر دوروں کی صورت میں سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے مزید بسوں اور ٹرینوں کی نشاندہی کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے بہت سے انفرادی صارفین کی پرائیویسی برقرار رکھنے کے لیے ان کے ڈیٹا ریکارڈ کو بے نام کردیا ہے اور اس کو بے ترتیبانہ طور پر تیار کردہ اعداد و شمار میں ملا دیا ہے۔ تاہم صارفین خود بھی ان اعداد و شمار کی فراہمی نہ کرنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔
کیا گرم موسم کورونا وائرس کو روک دے گا؟
کیا درجۂ حرارت بڑھنے سے کورونا وائرس کی نئی قسم کمزور ہوجائے گی؟ وائرس سے متعلق امراض کے ماہر (وائرولوجسٹ) تھوماس پیٹشمان بتاتے ہیں کہ موسم بہار سے کیوں امیدیں وابستہ ہیں اور خواتین کیسے کووڈ 19 مرض سے مقابلہ مردوں کی نسبت بہتر طور پر کرسکتی ہیں؟ گرمی کی شدت بڑھنے سے کورونا وائرس کی وبا تھم جائے گی؟ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو نیا کورونا وائرس وبائی زکام کے وائرس جیسا ہوجائے گا۔ اس کے بعد درجۂ حرارت میں اضافے سے مرض پھیلانے والا جرثومہ ختم ہوجائے گا جس سے کووڈ19 مرض بھی رک جائے گا۔ موسم بہار اور گرمی کی شدت بڑھنے سے امیدیں تو وابستہ ہیں لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ نیا کورونا وائرس بھی وبائی زکام کے وائرس کی طرح کام کرے گا۔ تھوماس پیٹشمان کا کہنا ہے کہ ماہرین اس بات کی پیش گوئی اس لیے نہیں کر سکتے کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس وائرس کو ابھی تک نہیں جانتے۔
وائرس؟ نامعلوم!
اس ضمن میں جرمن شہر ہینوور کے ایک تحقیقی ادارے سے وابستہ تھوماس پیٹشمان کا مزید کہنا ہے کہ ’’اس وائرس کی خاص بات یہ ہے کہ انسانوں کو پہلی مرتبہ اس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چین سے حاصل کردہ ڈیٹا سے ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ یہ وائرس جانوروں سے ایک انسان تک پہنچا اور پھر وہاں سے پھیلنا شروع ہو گیا۔‘‘
علاوہ ازیں بیرونی صورتِ حال بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کے لیے مددگار ہے، جس میں ایک عنصر درجہ حرارت کا بھی شامل ہے۔ سانس کی نالی کے ذریعے پھیلنے والے وائرس کے لیے سرد موسم سازگار ہوتا ہے۔ پیٹشمان کا کہنا تھا’’کم درجہ حرارت میں وائرس مستحکم ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے فریج میں رکھا ہوا کھانا زیادہ دیر تازہ رہتا ہے۔‘‘
خواتین میں مزاحمت مردوں کے مقابلے میں زیادہ
بخار، کھانسی اور ٹھنڈ لگنا وائرل امراض کی علامات ہوتی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ جسم اس بیرونی حملہ آور کے خلاف مزاحمت کررہا ہے۔ اس مزاحمت کی شدت کا تعلق متاثرہ مریض کی عمر اور صحت کے ساتھ ساتھ جنس سے بھی ہے۔اب تک کے دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ خواتین میں کورونا وائرس کے خلاف مدافعت مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے مرد مریضوں میں شرح اموات 2.8 فیصد ہے جب کہ خواتین میں ہلاکتوں کی شرح 1.7 فیصد ہے۔