جی ایل فوئنٹس، ترجمہ: ڈاکٹر ریحان ثروت
ایک چھوٹے سے پہاڑ کی چوٹی پر پوری وادی میں وہ واحد مکان تھا۔ اس اونچائی سے ندی اور پھولوں سے بھرے وہ اناج کے کھیت نظر آتے تھے، جن سے ہمیشہ اچھی فصل کی امید ہوا کرتی ہے۔
اس زمین کو صرف بارش یا کم از کم ترشّح کی ضرورت تھی۔ لِنکو اپنے کھیتوں سے بخوبی واقف تھا۔ اس کی نگاہ صبح سے مستقل شمال مشرق کی طرف آسمان پر ٹکی ہوئی تھی۔
’’اب ہمیں واقعی کچھ پانی مل سکے گا‘‘۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا۔
’’ہاں، اگر خدا نے چاہا‘‘۔ اس کی بیوی نے کھانا تیار کرتے ہوئے جواب دیا۔
ان کے بڑے لڑکے کھیت میں کام کررہے تھے اور چھوٹے لڑکے جو مکان کے نزدیک کھیل میں مصروف تھے، ماں کے آواز دینے پر کھانے کے لیے اندر آگئے۔ لنکو کی پیشن گوئی کے مطابق کھانے کے دوران بارش کے بڑے بڑے قطرے ٹپکنے لگے۔ شمال مشرق کی جانب سے بادلوں کے مہیب پہاڑ آتے نظر آرہے تھے۔ فرحت بخش ہوا چل رہی تھی۔ لنکو بارش کے قطروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے باہر نکل پڑا اور واپس آنے پر اس نے کہا: ’’یہ آسمان سے ٹپکتے ہوئے بارش کے قطرے نہیں بلکہ نئے سکے ہیں۔ ہر بڑا قطرہ دس پیسے اور ہر چھوٹا قطرہ پانچ پیسے کے برابر ہے‘‘۔ اس نے بارش کے پردے میں لپٹے اور پھولوں سے بھرے اناج کے کھیت کو بڑی طمانیت سے دیکھا۔ لیکن یکایک تند ہوا چلنے لگی اور بارش کے ساتھ بڑے بڑے اولے گرنے لگے، جو درحقیقت چاندی کے نئے سکے سے مشابہ تھے۔ لڑکے بارش سے محظوظ ہونے اور منجمد موتیوں کو چننے کے لیے باہر کی طرف دوڑ پڑے۔
’’یہ تو بہت ہی برا ہورہا ہے‘‘۔ لنکو نے کہا۔ ’’خدا کرے یہ جلد ہی ختم ہوجائے‘‘۔ لیکن اولوں کا گرنا جاری رہا۔ ایک گھنٹے تک اولے مکان، باغ، پہاڑ، کھیت اور پوری وادی پر ٹپکتے رہے۔ کھیت کچھ اس طرح سفید ہوگئے گویا نمک سے ڈھک گئے ہوں۔ درختوں پر ایک بھی پتّا باقی نہ رہا۔ فصل پوری طرح برباد ہوگئی۔ پودوں سے سارے پھول جھڑ گئے۔ یہ منظر دیکھ کر لنکو کا دل بے چین ہوگیا۔ جب آندھی رکی تو وہ کھیت کے درمیان جاکھڑا ہوا اور اپنے لڑکوں سے کہنے لگا ’’اگر ٹڈیوں کی آفت آتی تو بھی کچھ نہ کچھ بچ جاتا، لیکن ان اولوں نے تو کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ اس سال ہمارے پاس اناج نہیں ہوگا‘‘۔
وہ رات ان لوگوں کے لیے بہت ہی غم ناک تھی۔
’’ہماری ساری محنت رائیگاں ہوگئی‘‘۔
’’اب کوئی نہیں جو ہماری مدد کرسکے‘‘۔
’’ہم لوگوں کو اس سال بھوکا رہنا ہوگا‘‘۔
لیکن وادی کے وسط میں موجود اس تنہا مکان کے مکینوں کے دلوں میں ایک واحد امید تھی، خدا کی مدد۔
’’اس قدر پریشان نہ ہو۔ اگرچہ یہ بہت بڑی تباہی معلوم ہوتی ہے لیکن یاد رکھو، کوئی بھی بھوک سے نہیں مرتا‘‘۔
ان لوگوں نے یہی بات کہی: ’’بھوک سے کسی کی موت نہیں ہوتی‘‘۔
پوری رات لنکو اپنی صرف ایک ہی امید یعنی خدا کی مدد کے متعلق غور کرتا رہا۔ اس نے سنا تھا کہ خدا سب کچھ دیکھتا ہے، حتیٰ کہ ہمارے دل کی گہرائی میں چھپی ہوئی باتوں کو بھی۔ لنکو انسان نما ایک بیل تھا جو کھیتوں میں ایک جانور کی طرح کام کیا کرتا۔ مگر وہ کچھ لکھنا پڑھنا بھی جانتا تھا۔ دوسرے دن اتوار کو صبح ہوتے ہی اس نے ایک خط لکھنا شروع کیا اور وہ خط کسی اور کو نہیں بلکہ خدا کو لکھا جارہا تھا:
’’خدا‘‘، اس نے لکھا ’’اگر آپ میری مدد نہیں کریں گے تو مجھے اور میرے خاندان کو اِس سال فاقہ کشی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مجھے اپنے کھیت میں دوبارہ بیج بونے اور فصل تیار ہونے تک زندہ رہنے کے لیے ایک سو روپے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اولوں نے…‘‘
اس نے لفافے پر ’’خدا کی خدمت میں‘‘ لکھا۔ پھر اس کے اندر خط رکھا اور کچھ مضطرب سا شہر کی طرف چل پڑا۔ ڈاک خانے پہنچ کر اس نے لفافے پر ایک ٹکٹ چپکایا اور اسے لیٹر بکس میں گرا دیا۔
ڈاکیا زوردار قہقہہ لگاتا ہوا پوسٹ ماسٹر کے پاس گیا اور اس نے اسے خدا کو لکھا گیا وہ خط دکھایا۔ پوسٹ مین کی حیثیت سے اپنی پوری ملازمت کے دوران اس نے کبھی بھی ایسا پتا نہیں دیکھا تھا۔ پوسٹ ماسٹر ایک موٹا اور خوش اخلاق شخص تھا۔ وہ بھی اس لفافے کو دیکھ کر اپنی ہنسی کو ضبط نہ کرسکا، لیکن فوراً ہی سنجیدہ ہوگیا اور خط کو اپنی میز پر پٹختے ہوئے کہنے لگا: ’’واہ کیسا یقین ہے! کاش اس خط کے لکھنے والے کی طرح میرا بھی یقین ہوتا! کس قدر پختہ یقین کے ساتھ خدا کو یہ خط لکھا گیا ہوگا!‘‘
خدا کی ذات پر خط لکھنے والے کے یقین کو متزلزل نہ ہونے دینے کی غرض سے پوسٹ ماسٹر کے ذہن میں ایک خیال آیاُ یعنی خط کا جواب۔ لیکن جب اس نے لفافہ کھولا تو اسے یہ احساس ہوا کہ اس خط کا جواب دینے کے لیے خیرخواہی، روشنائی اور کاغذ سے زیادہ کسی اور چیز کی ضرورت ہے، مگر وہ اپنے ارادے پر قائم رہا۔ اس نے ڈاک خانے کے ملازمین سے کچھ روپے مانگے، خود اپنی تنخواہ کا ایک حصہ دیا اور اپنے کئی دوستوں سے خیرات کے واسطے تھوڑی سی رقم وصول کی۔
اس کے لیے یکمشت 100روپے اکٹھے کرنا ممکن نہیں تھا۔ پھر بھی وہ کسان کو نصف سے کچھ زیادہ رقم بھیجنے کے لائق ہوگیا۔ چنانچہ اس نے ایک لفافے پر لنکو کا پتا لکھاُ پھر اس میں رقم کے ساتھ ایک خط رکھا اور اس خط میں دستخط کے طور پر صرف ایک لفظ تحریر کیا: ’’خدا‘‘۔
اتوار کو لنکو معمول سے کچھ قبل یہ دریافت کرنے کے لیے ڈاک خانے پہنچا کہ کیا اس کے نام سے کوئی خط آیا ہے؟ ڈاکیے نے وہ خط اس کے حوالے کردیا اور اپنے اس نیک عمل پر مطمئن پوسٹ ماسٹر نے لنکو کو غور سے دیکھا۔
لنکو نے رقم پاکر ذرا بھی حیرت کا اظہار نہیں کیا، کیوں کہ خدا کی ذات پر اس کا کامل یقین تھا… لیکن روپے گنتے ہی وہ خفا ہوگیا۔ اس نے سوچا، خدا سے غلطی نہیں ہوسکتی، اور نہ ہی وہ مانگی گئی رقم میں کوئی کمی کرسکتا ہے۔
پھر فوراً ہی لنکو نے ڈاک خانے کی کھڑکی کے پاس جاکر کاغذ اور قلم مانگا۔ تب اس نے میز پر لکھنا شروع کیا اور لکھتے وقت خیالات کے اظہار کے لیے کی جانے والی کوشش کی وجہ سے اس کی پیشانی شکن آلود تھی۔ خط مکمل کرنے کے بعد وہ کھڑکی کی طرف گیا اور اس نے ایک ٹکٹ خرید کر اسے لفافے پر چپکا دیا۔ جیسے ہی وہ خط لیٹر بکس میں گرایا گیا ویسے ہی پوسٹ ماسٹر نے اسے نکال کر کھولا۔ اس میں لکھا تھا: ’’خدا، میں نے آپ سے جو رقم مانگی تھی اس میں سے صرف ستّر روپے ہی مجھ تک پہنچے ہیں۔ بقیہ روپے بھی جلد ہی روانہ کردیجیے، اس لیے کہ مجھے اس کی شدید ضرورت ہے۔ لیکن وہ رقم مجھے ڈاک سے نہیں بھیجیے گا کیوں کہ ڈاک خانے کے ملازمین بہت ہی بے ایمان ہیں۔ ’’لنکو‘‘۔