اعجاز صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1920ء میں علامہ اقبالؒ بعض عزیزوں سے کچھ کبیدہ خاطر تھے۔ اس بات کا ’’میاں جی‘‘ کی طبیعت پر بوجھ سا تھا۔ اعجاز صاحب لاہور گئے تو ان کی زبانی میاں جی نے علامہ کو پیغام بھیجا کہ ان کی طبیعت اداس رہتی ہے۔ علامہ ان کی اداسی کی وجہ سمجھ گئے۔ جواب میں جو خط میاں جی کو لکھا وہ اس قابل ہے کہ حرف بہ حرف نقل کردیا جائے:
’’اعجاز کی زبانی آپ کا پیغام پہنچا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ آپ کی طبیعت اداس رہتی ہے۔ کئی سال ہوئے، میں نے ایک کتاب یورپ میں خریدی تھی، مگر آج تک اس کے پڑھنے کی نوبت نہ آئی تھی۔ ان تعطیلوں میں اسے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کا آغاز اور اختتام یہ فقرہ ہے:
’’میری کوئی چیز نہیں اور میرے لیے تمام اشیا کا عدم وجود برابر ہے‘‘۔
یہ ساری کتاب اسی جملے کی تشریح ہے اور حقیقت میں بہت خوب ہے۔ حقیقی شخصیت یہی ہے کہ انسان اپنی اصلی حقیقت کا خیال کرکے تمام تعلقات سے آزاد ہوجائے، یعنی بالاتر ہوجائے۔ نبی کریمؐ کی زندگی میں بھی اس کی مثال ملتی ہے۔ اُن سے زیادہ اپنے عزیزوں سے محبت کرنے والا اور کون ہوگا؟ لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا تھا جب آپؐ کو نہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ عائشہؓ کون ہے اور ابوبکرؓ کون ہے، نہ یہ کہ محمدؐ کون ہے۔ ہمارے صوفیہ نے اس کو فنا سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن سچ بات یہ ہے کہ یہ شخصیت یا خودی کا کمال ہے۔ اسے فنا نہیں کہنا چاہیے، اور انسانی حیات کی یہی کیفیت حیات بعدالموت کی تیاری ہے۔ لیکن آپ اس نکتے کو مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
ہمارے عزیزوں میں جب آپس میں بگاڑ ہوجاتا ہے تو ہم، جو اُن کی صلح و آشتی میں خوش ہوتے ہیں، اُن کا بگاڑ دیکھ کر رنجیدہ اور پریشان ہوجاتے ہیں، جب اسی قسم کا بگاڑ اور لوگوں میں ہو جو عام معنوں میں ہمارے عزیز یا رشتے دار نہیں ہیں تو ہم کو کوئی رنج نہیں ہوتا اور کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ جو آدمی انسانی زندگی کی حقیقت سے آگاہ ہے اُسے معلوم ہے کہ تمام بنی نوع انسان آپس میں عزیز رشتے دار ہیں، کیونکہ حیاتِ انسانی کی جڑ ایک ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ چند آدمیوں کے بگاڑ سے، جن کو ہم خاص طور پر اپنا رشتے دار کہتے ہیں، ہم کو رنج ہوتا ہے، اور باقی لوگوں کے بگاڑ سے ہم پر کچھ اثر نہیں ہوتا، حالانکہ عزیز تو حقیقت میں وہ بھی ہیں۔ انسان اس فطری میلان سے مجبور ہے کہ جو آدمی خون کے اعتبار سے ہمارے قریب تر ہیں اُن کو اپنا رشتے دار کہتا ہے، اور جو دور ہیں اُن سے بے تعلق ہوجاتا ہے۔ حالانکہ خون اور زندگی میں قرب اور بُعد، نزدیکی و دوری کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔
اس سے ظاہر ہے کہ تعلقات کی وجہ سے جو پریشانی ہم کو لاحق ہوتی ہے، اُس کی بنا اصل میں ناانصافی پر ہے۔ ناانصافی یہ کہ بعض افراد کو قُربِ خونیں کی وجہ سے قریب جاننا اور بعض کو بُعد خونیں کی وجہ سے بعید جاننا، حالانکہ زندگی کی حقیقت قرب و بُعد سے معرا ہے۔ کامل انسان تمام عالم کے لیے رحمت ہے۔ بہ الفاظِ دیگر یوں کہیے کہ کامل انسان تعلقات سے بالاتر ہے‘‘۔
بیاد مجلس اقبال
ہو اگر قوت فرعون کی در پردہ مرید
قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللّٰہی
علامہ نے برصغیر میں برطانوی سامراج کی غلامی سے قوم کو نکالنے کے لیے جن سامراجی چالوں سے آگاہ کیا اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دشمن کے ایجنٹ بظاہر دوست بن کر اپنے آپ کو لیڈر ظاہر کرتے ہیں، اور اپنی مکرو فریب پر مبنی چالوں کے ذریعے اصل میں آزادی کے دشمن حکمرانوں کی چاپلوسی کرتے ہیں۔ ایسے لیڈر و دانشور جو اندر سے فرعونی طاقتوں کے مددگار مگر ظاہر میں اپنے آپ کو قومی رہنما بتاتے ہیں تو علامہ کے الفاظ میں وہ اپنی قوم کے حق میں لعنت کے سوا کچھ نہیں… اور سچ یہ ہے کہ آج اسلامی دنیا بشمول پاکستان میں قدم قدم پر ایسی جھوٹی کلیمی کی مثالیں دکھائی دیتی ہیں۔