قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ کے نزدیک محبوب ترین لوگ وہ ہیں جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے ہوں۔ اور اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ خوشی ہے جو آپ کسی مسلمان کو دیں، یا اس کی کوئی پریشانی دور کردیں، یا اس کی بھوک کو مٹادیں، یا اس کا قرض ادا کردیں۔“
(ترجمہ)”مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو۔ کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا۔ ان پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت ٹوٹ پڑا، یا دن دہاڑے ایسے وقت آیا جب کہ وہ آرام کررہے تھے۔ اور جب ہمارا عذاب ان پر آگیا تو ان کی زبان پر اس کے سوا کوئی صدا نہ تھی کہ واقعی ہم ظالم تھے۔ پس یہ ضرور ہوکر رہنا ہے کہ ہم ان لوگوں سے بازپرس کریں، جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں،اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں (کہ انہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیںاس کا کیا جواب ملا)، پھر ہم خود پورے علم کے ساتھ ساری سرگزشت ان کے آگے پیش کردیں گے، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے۔ اور وزن اس روز عین حق ہوگا۔ جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیںگے، اور جن کے پلڑے ہلکے رہیں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میںمبتلا کرنے والے ہوںگے، کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے۔ہم نے تم کو زمین میںاختیارات کے ساتھ بسایا اور تمھارے لیے یہاں سامانِ زیست فراہم کیا، مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔“(تفہیم القرآن ، جلد دوم،سورہ الا عراف،سورہ نمبر7)
اصل دعوت جو اس خطبے میں دی گئی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جس ہدایت اور رہنمائی کی ضرورت ہے، اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنے وجود کی غرض و غایت سمجھنے کے لیے جو علم اسے درکار ہے، اور اپنے اخلاق، تہذیب، معاشرت اور تمدن کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جن اصولوں کا وہ محتاج ہے، ان سب کے لیے اسے صرف اللہ رب العالمین کو اپنا رہنما تسلیم کرنا چاہیے، اور صرف اسی کی ہدایت کی پیروی اختیار کرنی چاہیے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے بھیجی ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے رہنما کی طرف ہدایت کے لیے رجوع کرنا اور اپنے آپ کو اس کی رہنمائی کے حوالے کردینا انسان کے لیے بنیادی طور پر ایک غلط طریق کار ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میںنکلا ہے اور ہمیشہ تباہی کی صورت میں ہی نکلے گا۔ تمھاری عبرت کے لیے اُن قوموں کی مثالیں موجود ہیں جو خدا کی ہدایت سے منحرف ہوکر انسانوں اور شیطانوں کی رہنمائی پر چلیں، اور آخرکار اس قدر بگڑیں کہ زمین پر ان کا وجود ایک ناقابلِ برداشت لعنت بن گیا، اور خدا کے عذاب نے آکر ان کی نجاست سے دنیا کو پاک کیا۔ آخری فقرے سے مقصود دو باتوں پر متنبہ کرنا ہے۔ ایک یہ کہ تلافی کا وقت گزر جانے کے بعد کسی کا ہوش میں آنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا بےکار ہے۔ سخت نادان ہے وہ شخص اور وہ قوم جو خدا کی دی ہوئی مہلت کو غفلتوں اور سرشاریوں میں ضائع کردے اور داعیانِ حق کی صداؤں کو بہرے کانوں سے سنے جائے، اور ہوش میں صرف اُس وقت آئے جب اللہ کی گرفت کا مضبوط ہاتھ اس پر پڑچکا ہو۔ دوسرے یہ کہ افراد کی زندگیوں میں بھی اور اقوام کی زندگیوں میںبھی ایک دو نہیں بے شمار مثالیں تمھارے سامنے گزر چکی ہیں کہ جب کسی کی غلط کاریوں کا پیمانہ لبریز ہوچکتا ہے اور وہ اپنی مہلت کی حد کو پہنچ جاتا ہے تو پھر خدا کی گرفت اچانک اسے آپکڑتی ہے، اور ایک مرتبہ پکڑ میں آجانے کے بعد چھٹکارے کی کوئی سبیل اسے نہیں ملتی۔ پھر جب تاریخ کے دوران میںایک دو دفعہ نہیں سینکڑوں اور ہزاروں مرتبہ یہی کچھ ہوچکا ہے تو آخر کیا ضروری ہے کہ انسان اس غلطی کا بار بار اعادہ کیے چلا جائے اور ہوش میںآنے کے لیے اسی آخری ساعت کا انتظار کرتا رہے جب ہوش میں آنے کا کوئی فائدہ حسرت و اندوہ کے سوا نہیں ہوتا۔ بازپرس سے مراد روزِ قیامت کی بازپرس ہے۔ بدکار افراد اور قوموں پر دنیا میںجو عذاب آتا ہے وہ دراصل اُن کے اعمال کی بازپرس نہیں ہے اور نہ وہ ان کے جرائم کی پوری سزا ہے۔ بلکہ اس کی حیثیت تو بالکل ایسی ہے جیسے کوئی مجرم جو چھوٹا پھر رہا تھا، اچانک گرفتار کرلیا جائے اور مزید ظلم و فساد کے مواقع اس سے چھین لیے جائیں۔ تاریخِ انسانی اس قسم کی گرفتاریوں کی بے شمار نظیروں سے بھری پڑی ہے، اور یہ نظیریں اس بات کی ایک صریح علامت ہیں کہ انسان کو دنیا میں شتر بے مہار کی طرح چھوڑ نہیں دیا گیا ہے کہ جو چاہے کرتا پھرے، بلکہ اوپر کوئی طاقت ہے جو ایک حدِ خاص تک اسے ڈھیل دیتی ہے، تنبیہات پر تنبیہات بھیجتی ہے کہ اپنی شرارتوں سے باز آجائے، اور جب وہ کسی طرح باز نہیں آتا تو اسے اچانک پکڑ لیتی ہے۔ پھر اگر کوئی اس تاریخی تجربے پر غور کرے تو بآسانی یہ نتیجہ بھی نکال سکتا ہے کہ جو فرماں روا اس کائنات پر حکومت کررہا ہے اُس نے ضرور ایسا ایک وقت مقرر کیا ہوگا جب ان سارے مجرموں پر عدالت قائم ہوگی اور ان سے ان کے اعمال کی بازپرس کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر کی آیت کو جس میں دنیوی عذاب کا ذکر کیا گیا ہے، بعد والی آیت کے ساتھ لفظ ”پس“ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ گویا اس دنیوی عذاب کا بار بار واقع ہونا آخرت کی بازپرس کے یقیناً واقع ہونے پر ایک دلیل ہے۔ آخرت کی بازپرس سراسر، رسالت ہی کی بنیاد پر ہوگی، ایک طرف پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے نوعِ انسانی تک خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے کیا کچھ کیا۔ دوسری طرف جن لوگوں تک رسولوں کا پیغام پہنچا اُن سے سوال کیا جائے گا کہ اس پیغام کے ساتھ تم نے کیا برتاؤ کیا۔ جس شخص یا جن انسانی گروہوں تک انبیاء کا پیغام نہ پہنچا ہو، ان کے بارے میںتو قرآن ہمیں کچھ نہیں بتاتا کہ ان کے مقدمے کا کیا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔ لیکن جن اشخاص و اقوام تک پیغمبروں کی تعلیم پہنچ چکی ہے اُن کے متعلق قرآن صاف کہتا ہے کہ وہ اپنے کفر و انکار اور فسق و نافرمانی کے لیے کوئی حجت نہ پیش کرسکیں گے، اور ان کا انجام اِس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ حسرت وندامت کے ساتھ ہاتھ مَلتے ہوئے جہنم کی راہ لیں۔ اُس روز خدا کی میزانِ عدل میں وزن اور حق دونوں ایک دوسرے کے ہم معنی ہوں گے۔ حق کے سوا کوئی چیز وہاں وزنی نہ ہوگی، اور وزن کے سوا کوئی چیز حق نہ ہوگی۔ جس کے ساتھ جتنا حق ہوگا اتنا ہی وہ باوزن ہوگا۔ اور فیصلہ جو کچھ بھی ہوگا وزن کے لحاظ سے ہوگا۔ کسی دوسری چیز کا ذرہ برابر لحاظ نہ کیا جائے گا۔ باطل کی پوری زندگی خواہ دنیا میں کتنی ہی طویل و عریض رہی ہو اور کتنے ہی بظاہر شاندار کارنامے اس کی پشت پر ہوں، اس ترازو میں سراسر بے وزن قرار پائے گی۔ باطل پرست جب اس میزان میںتولے جائیں گے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ دنیا میںجو کچھ وہ مدت العمر کرتے رہے وہ سب ایک پرکاہ کے برابر بھی وزن نہیں رکھتا۔ یہی بات ہے جو سورہ کہف 103 تا105 میںفرمائی گئی ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی میں سب کچھ دنیا ہی کے لیے کرتے ہیں اور اللہ کی آیات سے انکار کرکے جن لوگوں نے یہ سمجھتے ہوئے کام کیا کہ انجام کار کوئی آخرت نہیں ہے اور کسی کو حساب دینا نہیں ہے، ان کے کارنامہ زندگی کو ہم آخرت میں کوئی وزن نہ دیں گے۔ اس مضمون کو یوں سمجھیے کہ انسان کا کارنامہ زندگی دو پہلوؤں میںتقسیم ہوگا۔ ایک مثبت پہلو اور دوسرا منفی پہلو۔ مثبت پہلو میں صرف حق کو جاننا اور ماننا اور حق کی پیروی میں، حق ہی کی خاطر کام کرنا شمار ہوگا، اور آخرت میں اگر کوئی چیز وزنی اور قیمتی ہوگی تو وہ بس یہی ہوگی۔ بخلاف اس کے حق سے غافل ہوکر یا حق سے منحرف ہوکر انسان جو کچھ بھی اپنی خواہشِ نفس یا دوسرے انسانوں اور شیطانوں کی پیروی کرتے ہوئے غیر حق کی راہ میںکرتا ہے وہ سب منفی پہلو میں جگہ پائے گا، اور صرف یہی نہیں کہ یہ منفی پہلو بجائے خود بے قدر ہوگا بلکہ یہ آدمی کے مثبت پہلوؤں کی قدر بھی گھٹا دے گا۔
پس آخرت میں انسان کی فلاح و کامرانی کا تمام تر انحصار اس پر ہے کہ اس کے کارنامہ زندگی کا مثبت پہلو اس کے منفی پہلو پر غالب ہو، اور نقصانات میں بہت کچھ دے دلا کر بھی اس کے حساب میں کچھ نہ کچھ بچا رہ جائے۔ رہا وہ شخص جس کی زندگی کا منفی پہلو اس کے تمام مثبت پہلوؤں کو دبالے، تو اس کا حال بالکل اس دیوالیہ تاجر کا سا ہوگا جس کی ساری پونجی خساروں کا بھگتان بھگتنے اور مطالبات ادا کرنے ہی میںکھپ جائے اور پھر بھی کچھ نہ کچھ مطالبات اس کے ذمہ باقی رہ جائیں۔