ضدی زکام سے شروع ہونے والا کورونا وائرس، بگڑے نمونیے کے بعد متعدی بیماری اور اب ایک خوفناک عالمی وبا (Pandemic) بلکہ خوفناک بلا کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ ایسی بلا جو انسانی حیات کے ساتھ اسبابِ حیات کو بھی نگلے جارہی ہے۔ بہت سے اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ بیماری سے زیادہ افراد اس کے نتیجے میں آنے والی بے روزگاری اور کساد بازاری میں بھوک اور افلاس سے ہلاک ہوں گے۔ اٹلی میں نوجوانوں نے فیس بُک پر ’قومی انقلاب‘ کے نام سے ایک جماعت قائم کرلی ہے جس کے ارکان کی تعداد 26 ہزار سے زیادہ ہے۔ قومی انقلاب کا کہنا ہے کہ لاک ڈائون کی وجہ سے شہریوں کے پاس اشیائے خورونوش خریدنے کی سکت نہیں، چنانچہ انھیں یہ سامان بلاقیمت فراہم کیا جائے۔ کئی دکانوں سے نوجوان کھانے پینے کا سامان قیمت ادا کیے بغیر اٹھاکر لے گئے۔ اب اکثر دکانوں پر مسلح پولیس تعینات کردی گئی ہے۔ گھروں میں بند لوگ کثرتِ شراب نوشی سے گردے اور جگر کی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں، اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ گرین لینڈ کی ملکہ مارگریٹ دوم نے دارالحکومت نوک (Nuuk) میں شراب کی فروخت پر پابندی لگادی ہے جس کی وجہ سے مئے نوش مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئے۔
صدر ٹرمپ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر لاک ڈائون بہت دن جاری رہا تو بھوک اور خودکشی سے مرنے والوں کی تعداد کورونا مرض کا شکار ہونے والوں سے زیادہ ہوگی۔ لاک ڈائون سے امریکیوں میں چڑچڑاہٹ بڑھ گئی ہے، میاں بیوی کی نوک جھونک قابلِ دست اندازیِ پولیس مارپیٹ تک آپہنچی ہے۔ شراب و منشیات کے استعمال نے معاملہ اور بھی خراب کردیا ہے کہ والدین اپنے معصوم بچوں کے سامنے مئے نوشی اور چرس و گانجہ سے شوق فرما رہے ہیں۔ ہر شخص آہٹ بلکہ سائے سے بھی خوف زدہ ہے، کھانسی اور چھینک پر موت کا گمان… بس یوں سمجھیے کہ زندگی اجیرن بلکہ بوجھ ہوکر رہ گئی ہے۔ آمدنی صفر اور بازاروں میں روزمرہ استعمال کی اشیاء دستیاب نہیں۔ کچھ ریاستوں میں اشیائے خورونوش کے مراکز پر نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے نیم فوجی دستے تعینات کردیے گئے ہیں۔ چوری چکاری کی وارداتوں میں کئی جگہ سفید پوش گھرانوں کے بچے پکڑے جارہے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کاروبار کی بندش نے اقتصادیات کا قافیہ تنگ کردیا ہے۔ اس نامراد جرثومے سے زندگی کے ساتھ معیشت و معاشرت سبھی کچھ غارت ہوگیا ہے۔
یہ بلا کیسے نازل ہوئی، اس کے بارے میں عالمی ادارۂ صحت (WHO) کا سرکاری مؤقف تو یہی ہے کہ اس وبا نے گزشتہ سال کے اختتام پر وسطی چین کے صوبے خوبے (Hubei)کے دارالحکومت ووہّان میں جنم لیا تھا۔ WHOکے ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس نزلہ، زکام،کھانسی اور سانس کی بیماریوں کا موجب بننے والے جرثوموں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے، جس میں سوائن فلو اور سارس جیسے جرثومے بھی شامل ہیں۔ تاہم یہ جرثومہ اس سے پہلے انسانوں میں نہیں پایا گیا۔ سرکاری طور پر 7 جنوری کو اس دشمنِ جان و ایمان جرثومے کو نویل کورونا وائرس کا نام دیا گیا۔ نویل (نیا)کا سابقہ اس لیے ٹانکا گیا کہ اس سے پہلے یہ جرثومہ نہیں پایا گیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ زندہ چوہے، بھنی بلی یا چمگادڑ سے یہ جرثومہ پہلی بار کسی انسان میں منتقل ہوا، جس کے بعد یہ چار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ اس جرثومے سے پھیلنے والی بیماری کو طبی اصطلاح میں Corona Virus Disease of 2019 یاCOVID-19کہا جاتا ہے۔
یہ بیماری کیا ہے، اس کی مختصر تاریخ اور دنیا پر اس کے اثرات کے بارے میں دونشستوں میں تفصیل سے گفتگو ہوچکی ہے۔ آج ذکر ایک نئے پہلو کا، جو تادمِ تحریر نظریۂ سازش سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے، کہ کسی بھی فریق نے اس کے بارے میں ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے، اور زیادہ تر باتیں مبہم سیاسی بیانات، جواب، وضاحت اور جواب الجواب پر مشتمل ہیں۔
الزام تراشی کا آغاز اُس وقت ہوا جب فروری کے اختتام پر ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر ٹام کاٹن نے الزام لگایا کہ یہ وائرس حادثاتی طور پر نہیں پھوٹا بلکہ اسے ایک منصوبے کے تحت جنم دیا گیا ہے۔ 42 سالہ ٹام کاٹن سابق امریکی فوجی ہیں جو عراق اور افغانستان میں جنگ لڑچکے ہیں۔ سیاست میں موصوف اس اعتبار سے نووارد ہیں کہ عراق سے واپسی پر 2012ء میں یہ اپنی آبائی ریاست آرکنساس (Arkansas) سے ایوانِ نمائندگان کے رکن منتخب ہوئے، اور دوسال بعد انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک سینئر رہنما ٹام پرائر سے سینیٹ کی نشست چھین کر میدانِ سیاست میں سنسنی پیدا کردی۔ مسٹر پرائر اس نشست پر اس سے پہلے دو بار کامیاب ہوچکے تھے۔ اس زبردست کامیابی نے مسٹر کاٹن کو پارٹی میں ایک ممتاز مقام عطا کردیا، اور وہ آج کل صدر ٹرمپ کے بہت قریب تصور ہوتے ہیں۔ ان کے قریبی رفقاء کا خیال ہے کہ ٹام کاٹن 2024ء کے انتخابات میں امریکی صدارت کے لیے قسمت آزمائی کریں گے۔
ٹام کاٹن نے چین کے آزاد آن لائن سائنسی جریدے ChinaXiv کے حوالے سے چینیوں کے اس دعوے کی تردید کی جس میں کہا گیا ہے کہ ووہان کی مچھلی مارکیٹ سے یہ وائرس کسی انسان کو منتقل ہوا۔ جریدے کے مطابق نومبر کے آخر میں ووہان سے باہر کسی مقام پر یہ جرثومہ کسی انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوا۔ اس دوسرے آدمی یا Patient Zero سے یہ جرثومہ ووہان کے کسی قصاب اور کارکن کو منتقل ہوا، جس کے بعد وہاں آنے والے صارفین متاثر ہوئے۔ اگر یہ بات درست مان لی جائے تواس سے چینی حکومت اور WHOکے ماہرین کا یہ مفروضہ غلط ثابت ہوتا ہے کہ یہ بیماری کسی زندہ چوہے یا چمگادڑ نے پھیلائی ہے۔ سینیٹرکاٹن باربار اصرار کررہے ہیں کہ Patient Zero کی تفصیل فراہم کی جائے۔ انھوں نے دھمکی دی ہے کہ امریکی حکومت چاہے نہ چاہے، وہ چینی حکومت کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ جاری رکھیں گے۔
امریکہ میں انسدادِ دہشت گردی کے ماہر اور فوجی محکمہ سراغ رسانی کے سابق افسر فلپ جیلارڈی نے اپنے ایک مقالے میں لکھا کہ کئی رپورٹیں اس جانب اشارہ کررہی ہیں کہ (کورونا) وائرس کے کچھ حصے فطری نہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی افزائش بلکہ پیدائش ہتھیار بندی کے لیے کی گئی ہے۔ مسٹر جیلارڈی کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس تغیر پذیری (Mutation)کی فطری صلاحیت سے عاری ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسے لیبارٹری میں جنم دیا گیا ہے، یعنی اس پر ایک حیاتیاتی ہتھیار ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ جیلارڈی صاحب کا کہناہے کہ یہ جرثومہ ووہان کے انسٹی ٹیوٹ برائے جرثومیات (Virology) سے لیک ہوکر کسی انسان یا جانور کے جسم میں داخل ہوگیا، جہاں سے مچھلی مارکیٹ پہنچا، اور اب ساری دنیا میں قیامت ڈھا رہا ہے۔ جناب جیلارڈی کے اس تجزیے کے بعد سینیٹر ٹام کاٹن کے مؤقف میں بھی مزید سختی آگئی ہے۔ سینیٹر صاحب کے خیال میں کورونا وائرس کی تخلیق چینی فوج کا کارنامہ ہے جسے ووہان کے فوجی انسٹی ٹیوٹ برائے جرثومیات میں تخلیق کیا گیا۔ اپنے ساتھی کے اس الزام کے بعد صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس کو ’ووہان جرثومہ‘، ’غیر ملکی جرثومہ‘ اور ’چینی جرثومہ‘ کہنا شروع کردیا تھا، لیکن اپنی ٹیکنیکل ٹیم کے مشورے پر انھوں نے یہ سلسلہ ترک کردیا ہے۔
سینیٹر کاٹن کے جواب میں چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لیجیان زائو (Lijian Zhao) نے روس کے ایک سائنسی جریدے میں شائع ہونے والے مقالے کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ COVID-19کی جائے پیدائش امریکہ ہے۔ چینیوں کے خیال میں ووہان آنے والے امریکی فوج کے کھلاڑیوں نے کورونا وائرس ووہان میں پھیلایا، جہاں گزشتہ سال اکتوبر میں دنیا کے فوجی کھیل منعقد ہوئے تھے۔ ان مقابلوں میں شرکت کے لیے پینٹاگون نے 280 کھلاڑیوں پر مشتمل امریکی فوج کی 17 ٹیمیں ووہان بھیجی تھیں۔ چینیوں کو شک ہے کہ کھلاڑیوں کے روپ میں آنے والے حیاتیاتی جنگ کے ماہرین نے یہ جرثومہ ووہان میں پھیلایا ہے۔
اپنے ایک ٹویٹ میں جناب زائو نے سینیٹر کاٹن کی جانب سے چینی Patient Zero کا نام بتانے کے اصرار پر کہا کہ:
٭امریکہ کے Patient Zeroکا نام بتایا جائے۔
٭دنیا کو بتایا جائے کہ امریکہ میں کُل کتنے لوگ اس جرثومے سے متاثر ہوئے۔
٭اُن ہسپتالوں کا نام بتایا جائے جہاں یہ لوگ زیرعلاج ہیں۔
٭بہت ممکن ہے کہ امریکی فوج کے سپاہی یہ مرض لے کر ووہان آئے تھے۔
٭ تمام معلومات اور اعدادوشمار شفاف رکھنے کی ضرورت ہے۔
٭ہم امریکہ سے وضاحتوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔
چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ، فرانس، جاپان اور آسٹریلیا میں جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہوئے ہیں اُن میں سے کم از کم پانچ افراد ایسے ہیں جنھوں نے نہ ملک سے باہر سفر کیا اور نہ ہی کسی مریض سے ان کی ملاقات ہوئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ووہان میں پھوٹ پڑنے سے پہلے کورونا وائرس چین سے باہر بھی موجود تھا۔
جناب زائو نے اس موقع پر 11مارچ کو امریکی ایوانِ نمائندگان کی ذیلی کمیٹی کے سامنے بیماری کی روک تھام مرکز (CDC) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ریڈفیلڈ کے بیان کا حوالہ دیا جس میں ارکانِ کانگریس کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے مسٹر ریڈفیلڈ نے کہا تھاکہ امریکہ میں کئی ایسی اموات ہوئی ہیں جو بظاہر انفلوئنزا کا نتیجہ تھیں، لیکن بعد از مرگ ٹیسٹ اور رپورٹوں کے تفصیلی تجزیے سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ بدنصیب کورونا وائرس کا شکار ہوئے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے سوال کیا کہ چین میں وبا پھوٹنے سے پہلے یہ امریکی اس جرثومے کا شکار کیسے ہوئے؟ ان کا کہنا تھا کہ امریکی مریضوں کی اکثریت دارالحکومت کے قریب رہائش پذیر لوگوں کی تھی جہاں سے امریکی فوج کی فورٹ ڈیٹرک حیاتیاتی لیبارٹری بہت دور نہیں۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے اس ٹویٹ پر چینی حکومت کی جانب سے مزید کوئی بیان یا تبصرہ سامنے نہیں آیا لیکن بیجنگ نے اس کی تردید بھی نہیں کی۔ جب واشنگٹن میں صدر ٹرمپ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں اسےfake news قرار دیتے ہوئے اس پر تبصرے سے انکار کردیا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ چینی قیادت سے مسلسل رابطے میں ہیں لیکن انھوں نے ایسی کوئی بات کسی سے نہیں سنی۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ چیئرمین ژی ہنگامی صورتِ حال کی نگرانی میں مصروف ہیں اور انھوں نے کئی دن سے کسی سربراہ سے بات نہیں کی۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے علاوہ جنوبی افریقہ میں چین کے سفیر نے بھی اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ چین میں پھوٹ پڑنے والے اس تباہ کن وائرس کی (چین کے) باہر سے آمد خارج از امکان نہیں۔ تاہم چینی سفیر نے اس سلسلے میں کسی ملک کا نام نہیں لیا۔
روسی اخبار ’اسپتنک‘ کا کہناہے کہ کورونا وائرس شمالی یورپ کے ننھے سے بلقانی ملک لیٹویا (Latvia) میں نیٹو کی ایک فوجی تجربہ گاہ میں تولد ہوا۔ ایرانی، چینی اور روسی ذرائع ابلاغ نے امریکی قانون دان پروفیسر لارنس بوائل کا ایک بیان بھی نقل کیا ہے جس میں پروفیسر صاحب نے شک ظاہر کیا کہ کورونا وائرس امریکہ کا حیاتیاتی اسلحہ ہے جسے جرثومے کی شکل میں پھیلایا گیا۔ قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جناب لارنس بوائل انسدادِ حیاتیاتی دہشت گردی کے ماہر ہیں، اور انھوں نے ہی امریکہ کے حیاتیاتی دہشت گردی کے خلاف قانون مجریہ 1989کا ابتدائی مسودہ تحریر کیا تھا۔
دوسری طرف ایران کے ’پریس ٹی وی‘ کا دعویٰ ہے کہ امریکی ریاست میری لینڈ میں فورٹ ڈیٹرک کے حیاتیاتی اسلحہ کے ریسرچ سینٹر پر امریکہ اور اسرائیل کے ماہرین نے یہ جرثومہ تخلیق کیا ہے۔ پریس ٹی وی نے اپنی رپورٹ کے دفاع میں اسرائیلی سائنس دانوں کا یہ دعویٰ پیش کیا جس میں کہا گیا کہ 90 روز میں Infectious Bronchitis Virus (IBV) کے خلاف ویکسین تیار کرلی جائے گی۔ ایرانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کی تیکنیکی تفصیل سے صاف ظاہر ہے کہ یہ COVID-19کی ویکسین ہے۔ اسی کے ساتھ وبائی امراض پھوٹ پڑنے کے امکانات کے بارے میں مائیکرو سوفٹ کے بانی بل گیٹس کے خطابات کی بازگشت بھی عام ہے۔
2015ء میں ایبولا وائرس کے اختتام پر ماہرین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جناب گیٹس نے مغربی افریقہ میں ایک خوفناک وبائی نزلے کا خدشہ ظاہر کیا تھا جو اُن کے خیال میں ایک کروڑ افراد کو لقمۂ اجل بنا سکتا ہے۔ اُن کا یہ خطاب جسے TED Talk کہا جاتا ہے، اُن ناگہانی خطرات کے بارے میں تھا جن کا دنیا کو سامنا ہوسکتا ہے۔ جناب گیٹس کا کہنا تھا کہ دنیا میں علاج معالجہ، خاص طور سے وبائی امراض سے حفاظت کے انتظامات ناکافی اور غیر تسلی بخش ہیں جس کی بنا پرکئی ملک کسی بڑی وبا کا مؤثر انداز میں مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔
2017ء میں ڈیووس (سوئٹزرلینڈ) کے مشہورِ زمانہ عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر امریکی ٹیلی ویژن CBS سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے ایک بار پھر اس خدشے کا اعادہ کیاکہ ترقی یافتہ ممالک بھی کسی بڑی وبا سے نمٹنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ گفتگو کے دوران بل گیٹس نے بہت زور دے کر کہا تھا کہ کسی بھی وباکے پھوٹ پڑنے پر اس کے مقابلے کے لیے ویکسین کی بروقت تیاری سب سے اہم اور مقدم ہے، لیکن دنیا کے ڈاکٹر، سائنس دان اور تحقیقاتی ادارے اس کے لیے تیار نہیں۔
2018ء میں امریکی ریاست میساچیوسٹس (Massachusetts) کی میڈیکل سوسائٹی کے سالانہ لیکچر میں بل گیٹس نے کہا کہ تعلیم و ایجادات کی وجہ سے دنیا کے زیادہ تر لوگوں کا معیارِ زندگی نسبتاً بلند ہوگیا ہے، لیکن اب بھی کسی عالمی وبا کے مقابلے کے لیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی تیار نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ دنیا کو وبا سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسی نوعیت کی تیار کرنی چاہیے جیسی دنیا کے ممالک جنگ اور فوجی حملے کے مقابلے کے لیے کرتے ہیں۔
2019ء میں امریکہ کی مشہور میڈیا کمپنی Netflixکی Next Pandemic کے عنوان سے بننے والی دستاویزی فلم میں بل گیٹس نے چین کے کسی مچھلی بازار سے ایک خوفناک وائرس کے پھوٹ پڑنے کا خطرہ ظاہر کیا تھا۔ مچھلی بازار کے بجائے جناب گیٹس نے wet market کا لفظ استعمال کیا تھا۔ دستاویزی فلم میں چینی شہر لیانگ ہوا (Lianghua)کا ایک گوشت بازار بھی دکھایا گیا جہاں جانوروں کو صارفین کے سامنے ذبح کرکے گوشت فروخت ہوتا ہے۔ لیانگ ہوا جنوبی چین کے ساحلی صوبے گوانگ ڈونگ میں واقع ہے۔ یہاں بھی ووہان کے ہونان مچھلی بازار کی طرح مچھلی اور جانوروں کا تازہ گوشت فروخت ہوتا ہے۔ یقیناً یہ حُسنِ اتفاق ہے، لیکن کورونا وائرس کا ظہور بالکل اسی انداز میں ہوا جس کا خدشہ بل گیٹس نے اس دستاویزی فلم میں ظاہر کیا تھا۔
29 مارچ کو پاکستان کے سابق عبوری وزیرخارجہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے جناب عبداللہ حسین ہارون نے اعداد وشمار اور استثنائی حقوق (Patent) کی تفصیل کے ساتھ کورونا وائرس کو امریکہ کا حیاتیاتی ہتھیار ثابت کیا ہے۔ اپنے طویل ویڈیو خطاب میں انھوں نے کہا کہ اس قسم کا ہتھیار شام میں بھی استعمال کیا جاچکا ہے۔ جناب حسین ہارون کا کہنا تھا کہ Chiron کمپنی کی جانب سے امریکہ اور اس کی ویکسین کے لیے یورپ سے استثنائی حقوق حاصل کیے گئے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ وائرس کی تخلیق برطانیہ میں ہوئی اور اسے ائرکینیڈا کے ذریعے چین بھیجا گیا۔ اس کی ویکسین اسرائیل نے بنائی ہے جسے صرف وہی ملک خرید سکیں گے جن کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں۔ جناب حسین ہارون کا کہنا تھا کہ وائرس سے چین کو ہدف بنانے کا مقصد چین کو معاشی طور پر مفلوج کرنا تھا جو حجم کے اعتبار سے امریکہ کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ انھوں نے بل گیٹس فائونڈیشن اور امریکہ کے طبی علوم کے مشہور تحقیقی مرکز جامعہ ہاپکنز کو بھی اس کام میں ملوث قرار دیا۔ احباب کو یقیناً علم ہوگا کہ کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے کام کی نگرانی جامعہ ہاپکنز کررہی ہے۔
جناب حسین ہارون کے اس انکشاف پرکسی بھی جانب سے کوئی تبصرہ، تردید یا وضاحتی بیان نہیں آیا۔ ہارون صاحب نے اعدادوشمار اور استثنائی سند کے نمبر تو دیے، لیکن ان کی ویڈیو پیشکش میں کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہ تھا۔ اسی طرح چینی حکام، ایرانی میڈیا، روسی جرائد اور امریکی سیاست دانوں اور ماہرین کے بیانات بھی ابھی تک مفروضوں، خدشات اور قیاس پر مشتمل ہیں۔ کسی بھی جانب سے کوئی ٹھوس دستاویزی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ سیانے کہتے ہیں کہ جنگ کی سب سے پہلی ’شہید‘ سچائی ہوتی ہے۔ جیسے یہ فتنہ پرور جرثومہ ننگی آنکھ تو دور کی بات، عام خوردبین سے بھی نظر نہیں آتا، ویسے ہی اس انسانیت سوز شرارت کے ذمہ دار بھی شاید کبھی بھی منظرعام پر نہ آسکیں۔ 9/11کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
اب آپ مسعود ابدالی کی تحریر و مضامین اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ تفصیل کے لیے www.masoodabdali.com پر تشریف لائیں۔