کورونا کی صورت میں دنیا پر ٹوٹنے والی مصیبت نے صدیوں سے مروج نظام، منجمد اصول و ضوابط، رواج و روایات، روزانہ برتائو کے انداز واطوار سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ پوری دنیا کی مصیبت ہے، ایک زمانے کا دکھ اور خوف ہے۔ اس مصیبت نے کسی کو کسی دوسرے شخص اور ملک وقوم پر ہنسنے اور طنز کرنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ یہ گلوبل ولیج کی گلوبل مصیبت اور آفت ہے۔ شاید دنیا بہت زیادہ سکڑ اور سمٹ گئی تھی۔کرۂ ارض کا قدرتی تنوع ختم ہوگیا تھا اور اس کی جگہ روبوٹس کی دنیا تخلیق ہوگئی تھی۔ لاک ڈائون اور کرفیو جیسی باتیں ایک زمانے کے لیے یکسر نئی ہیں، مگر دنیا میں کچھ علاقے ایسے بھی تھے جہاں لاک ڈائون اور کرفیو زندگی کا معمول بن رہ گئے تھے۔ فلسطین اور کشمیر ان میں سرفہرست تھے۔ غزہ تو بہت عرصے سے اسرائیل کے لاک ڈائون کی زد میں تھا، مگرکشمیر گزشتہ برس پانچ اگست سے اس اصطلاح سے متعارف ہوا۔ پھر دنیا بھی کشمیر کے پس منظر میں یکایک اس اصطلاح سے آشنا ہوتی چلی گئی۔ کشمیری گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے اور ان کے گھروں کے باہر اور گلیوں کے نکڑ پر مسلح فوجی پہرہ دیتے رہے۔ کسی نے گھر سے نکلنے کی کوشش کی تو فوجیوں نے اسے ذلت آمیز رویّے کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھر کے اندر دھکیلنے میں لمحوں کی تاخیر نہیں کی۔ پاکستان اور کشمیری دنیا بھر میں ’’لاک ڈائون‘‘ کی چیخ پکار کرتے رہے، مگر دنیا نے اس اصطلاح کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، اور اگر سمجھا تو اس پر غضِِ بصر سے کام لے کر کشمیریوں کو لاک ڈائون کے سپرد کردیا۔ اقوام متحدہ کے ایوانوں سے واشنگٹن اور لندن کی سڑکوں تک کشمیر کے لاک ڈائون کے خلاف صدائیں بلند ہوئیں، مگر مجال ہے کہ کسی کان پر جوں تک رینگی ہو۔ دنیا مودی کی اس یقین دہانی پر اعتبار کیے بیٹھی رہی ہے کہ یہ لاک ڈائون کشمیریوں کے فائدے میں ہے، جونہی کشمیر میں کسی پُرتشدد کارروائی کا امکان باقی نہیں رہے گا حالات معمول پر آجائیں گے۔
سری نگر جامع مسجد اور درگاہ حضرت بل کشمیر کی تہذیبی اور مذہبی زندگی کی علامتیں ہیں۔ یہاں کشمیری نمازوں میں گڑگڑاتے ہیں۔ خواتین چادریں پھیلا کر گریہ و زاری کرتی ہیں۔کشمیر کے جوان اور بزرگ مناجات پڑھ کر آنسو بہاتے ہیں۔ مودی کے لاک ڈائون نے ان مراکز پر تالے ڈال دئیے اور لاک ڈائون نے کشمیریوں سے ان کی پہچان اور روایت نالۂ نیم شبی چھین لی۔
ابھی کشمیر لاک ڈائون کا شکار ہی تھا کہ چین کے شہر ووہان میں ایک وائرس نمودار ہوا۔ اسے کورونا کا نام دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ وائرس انسانی جانوں کو چاٹتا چلا گیا، یہاں تک کہ چین کو ووہان سمیت کئی شہروں میں لاک ڈائون کرکے عوام کو گھروں میں جبری طور پر محصور کرنا پڑا۔ پھر ایک کے بعد دوسرے ملک کی باری آتی چلی گئی، یہاں تک کہ پوری دنیا لاک ڈائون کے ذائقے سے آشنا ہوگئی۔ دلچسپ بات یہ کہ کورونا وائرس کے خطرے کے بعد کشمیر میں کسی نئے لاک ڈائون کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی بلکہ سات ماہ سے چلے آنے والے لاک ڈائون میں دی گئی وقتی نرمی کو ہی دوبارہ سخت کرنا پڑا۔ گویا کہ کشمیر ابھی تک لاک ڈائون کا شکار ہی تھا کہ پوری دنیا ’’کشمیر‘‘ بن کر رہ گئی۔ دنیا سات ماہ تک جس اصطلاح کو سمجھنے سے قاصر رہی، وہ اصطلاح اسے پورے سیاق وسباق کے ساتھ اب سمجھ میں آنے لگی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں کی نئی نسلیں کرفیو اور لاک ڈائون سے ناآشنا تھیں، اب انہیں ان اصطلاحات سے عملی طور پر واسطہ پڑ رہا ہے۔آج جب دنیا لاک ڈائون کا شکار ہے ابھی تک کسی کشمیری نے کھڑکی سے جھانک کر کسی بھارتی فوجی یا آزاد دنیا اور آزاد ضمیر سے نہیں پوچھا کہ کیسا لگا لاک ڈائون؟ حد تو یہ کہ اب نریندر مودی نے بھارت میں لاک ڈائون کا اعلان کردیا ہے۔ مودی کے اس اعلان کو بھارت کے این ڈی ٹی وی کے ایک اینکر رویش کمار نے کشمیر کے تناظر میں خود ہی موضوعِ بحث بنایا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ مودی کے لاک ڈائون کا موازنہ کشمیر کے لاک ڈائون سے نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ بھارت میں انٹرنیٹ چل رہا ہے، فون ہے، لوگ خریداری کررہے ہیں، سڑکیں چل رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پلیز اس لاک ڈائون کی تُلنا (موازنہ) کشمیر کے لاک ڈائون سے نہ کریں، یہ اچھا نہیں۔کشمیر میں انٹرنیٹ بند رہا۔ اب بھی کشمیر میں انٹرنیٹ بحال ہوا ہے تو اس کی رفتار اتنی سست ہے کہ ایک کشمیری ڈاکٹر نے کہا کہ وہ کورونا کے حوالے سے کچھ معلومات حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ سے مدد لینا چاہتے تھے مگر انٹرنیٹ کی سست رفتاری کے باعث ناکامی ہوئی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر میں لاک ڈائون کتنا سخت ہوا ہوگا۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ لاک ڈائون کے دوران کیا ہوا۔ رویش کمار لاک ڈائون سے ناراض بھارتی شہریوں کو مخاطب کرکے پوچھتے ہیں کہ آپ پتا کرسکتے ہیں کہ کشمیر کے مزدوروں کے لیے یہ اعلان کیا گیا کہ انہیں ہر ہفتے پیسے دئیے جائیں گے جس سے وہ اپنی زندگی جی سکیں۔ چھوٹے دکان داروں کے لیے، شکارے والوں کے لیے جو آپ کے ہنی مون کی تصویر کو خوبصورت بناتے ہیں،کیا ہزار دو ہزار کے پیکیج کا اعلان کیا گیا! اس طرح آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کشمیر نے کتنا مشکل دور دیکھا ہوگا۔ یوں خود ایک بھارتی اینکر کو بھارت میں ہونے والے لاک ڈائون نے کشمیر کے لاک ڈائون کی یاد دلادی۔
تجسس کا معاملہ یہ ہے کہ نجانے آج لاک ڈائون کا شکار آزاد اور ترقی یافتہ دنیا کو عمران خان کی کسی تقریر، کسی ٹویٹ، لندن اور واشنگٹن کے دریائی جلوسوں، اقوام متحدہ کے ایوانوں کے باہر اور اندر گونجنے والے نعروں، یا سی این این اور الجزیرہ کی کسی رپورٹ، نیویارک ٹائمز اور گارجین کی کسی خبر میں کشمیر کے تناظر میں سنی گئی’’لاک ڈائون‘‘کی اصطلاح یاد آرہی ہوگی؟ شفیق سلیمی کی زبان میں لاک ڈائون کا شکار دنیا سے ’’لاک ڈائون کیسا لگا ہے؟‘‘ کے انداز میں پوچھا جا سکتاہے