اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی… اگلے وقتوں کی یادگار ایک اور شخصیت اِس دنیا سے کوچ کرگئی۔ پاکستان اسلام اور نظریۂ پاکستان کے اَن تھک مجاہد، ممتاز ماہرِ تعلیم اور ماہرِ معاشیات سے محروم ہو گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر شیخ رفیق احمد 25 مارچ 2020ء کو رفیقِ اعلیٰ سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے، بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں، مگر دنیا میں دوام کس کو ہے؟ یہاں چل چلائو کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گا، کُلُّ مَنْ عَلَیہًا فَانٌ۔ میر تقی میرؔ مرحوم کے بقول ؎۔
روز و شب، شام و سحر لوگ چلے جاتے ہیں
نہیں معلوم، تہِ خاک، تماشا کیا ہے؟۔
پروفیسر ڈاکٹر شیخ رفیق احمد کا انتقال محض ایک شخص کا وصال نہیں، مملکتِ خداداد پاکستان کی تاریخ کے ایک تابناک باب کی تکمیل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے قیام پاکستان سے بھی بہت پہلے خود کو علامہ اقبال کے اُس خواب سے وابستہ کیا، جب ابھی اس کا نام بھی طے نہیں ہوا تھا، اور تادمِ زیست ’’پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ‘‘ کی تصویر بنے رہے۔ ان کی عمر محض تیرہ برس تھی اور وہ ابھی اسکول کے نوخیز طالب علم تھے، جب برصغیر کے مسلمان اپنے قائد محمد علی جناح کی پکار پر لاہور کے وسیع و عریض منٹو پارک، جو اب عظیم تر اقبال پارک کہلاتا ہے، میں جمع ہوئے اور اپنے لیے ایک الگ وطن کے مطالبے پر مبنی قرارداد منظور کی، جہاں وہ اپنے دین، اسلام کے سکھائے ہوئے زرّیں اصولوں اور رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے بے مثل نظامِ حیات کے تابع زندگی بسر کرسکیں۔ اس قرارداد کے حق میں کھڑے ہونے والوں لاکھوں ہاتھوں میں کم سن رفیق احمد کے ہاتھ بھی شامل تھے جو اپنی کم عمری کے باوجود انگریز اور ہندو کی غلامی سے آزادی کا جذبہ دل میں سمائے تمام رکاوٹوں کو توڑ کر جلسہ گاہ میں پہنچے تھے۔ رفیق احمد قرارداد کے حق میں ہاتھ کھڑے کرنے کے بعد خاموش ہوکر گھر نہیں بیٹھ گئے، بلکہ اس قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قائداعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا حصہ بن کر قیام پاکستان کی جدوجہد میں دن رات ایک کردیئے۔ تحریکِ پاکستان جب عروج پر تھی تو آپ اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علم تھے، جو تحریکِ پاکستان کے ایک اہم مورچے کی حیثیت حاصل کرچکا تھا، اور یہاں کے طلبہ جدوجہدِ آزادی کا ہراول دستہ تصور کیے جاتے تھے۔ تحریکِ آزادی میں شیخ رفیق احمد کی جدوجہد کے اعتراف میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائدِ ملّت لیاقت علی خان نے اپنے دستخطوں سے انہیں ’’مجاہدِ پاکستان‘‘ کی سند عطا کی، جب کہ کارکنان تحریکِ پاکستان ٹرسٹ نے بھی آپ کی شاندار خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے 1999ء میں گولڈ میڈل سے نوازا۔
تحریکِ پاکستان میں شب و روز کی مصروفیات کے باوجود انہوں نے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو بھی متاثر نہیں ہونے دیا، اور یہاں سے تکمیلِ تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کی خاطر برطانیہ چلے گئے۔ وہاں کی رنگینیوں میں کھو جانے کے بجائے پوری محنت اور توجہ سے تعلیم مکمل کی، اور معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اپنے خوابوں کی سرزمین پاکستان واپس آکر درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے، تاکہ اپنے علم و ہنر سے اپنے محبوب وطن کی نوجوان نسل کو فیض یاب کرسکیں۔ ان کے جذبات کی ترجمانی مصورِ پاکستان علامہ اقبالؒ نے ان الفاظ میں کی تھی ؎ ۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے، جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
درس و تدریس میں مختلف مراحل طے کرتے ہوئے انہیں رئیس الجامعہ کے اعلیٰ اور محترم منصب تک کی ذمہ داریاں ادا کرنے کا موقع ملا۔ پہلے انہیں جامعہ اسلامیہ بہاولپور کا رئیس مقرر کیا گیا تو انہوں نے اس کی تعمیر و ترقی اور معیارِ تعلیم بلند کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا اور ’’بغداد الجدید‘‘ کے خوبصورت، بامقصد اور تاریخی نام سے بہاولپور شہر سے باہر جامعہ اسلامیہ کا ایک نیا جدید سہولتوں سے آراستہ کیمپس قائم کیا۔ 1984ء میں انہیں ملک کی قدیم ترین اور باوقار جامعہ پنجاب کا رئیس مقرر کیا گیا تو انہوں نے طلبہ اور اساتذہ کے تعاون سے یہاں کے تعلیمی و تحقیقی ماحول اور معیار کو مزید نکھارنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کردیں۔ جامعہ پنجاب کی تاریخ میں اُن کا دور بلاشبہ ایک روشن باب کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا۔ جامعہ اسلامیہ بہاولپور اور جامعہ پنجاب دونوں کی سربراہی کے دنوں میں 1981-82ء اور 1987-88ء میں وہ تمام جامعات کے سربراہان پر مشتمل وائس چانسلرز کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اس دوران ایک اعلیٰ ماہرِ تعلیم اور جان دار منتظم کے طور پر اُن کی خدمات کا ہمیشہ اعتراف کیا گیا۔ رئیسِ جامعہ کی ذمہ داریوں سے سبکدوشی کے بعد بھی انہوں نے جامعہ پنجاب سے تحقیق و تدریس کا رشتہ قائم رکھا، اور جامعہ کے مرکز تحقیق برائے جنوبی ایشیا سے مشیر کے طور پر وابستہ ہوگئے۔ جامعہ نے اُن کی گراں قدر خدمات پر انہیں پروفیسر امریتس کے اعزاز سے سرفراز کیا۔
ڈاکٹر رفیق احمد مرحوم کو بارہا بیرونِ ملک علمی و تحقیقی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کا موقع ملا اور انہوں نے متعدد ممالک کے دورے کیے۔ 1984ء میں پاکستانی اہلِ علم و دانش کے ایک وفد نے جرمنی کی مختلف جامعات کا دورہ کرکے وہاں کے نظامِ تعلیم و تحقیق کا مطالعہ کیا۔ اس وفد کی قیادت کا اعزاز ڈاکٹر رفیق احمد صاحب کے حصے میں آیا۔ وہ بہت سی ملکی اور غیر ملکی جامعات اور دیگر اداروں سے مختلف حیثیتوں سے منسلک رہے جن میں امریکن اکنامک ایسوسی ایشن، برطانیہ کی رائل اکنامکس سوسائٹی، پاکستان اکنامک ایسوسی ایشن، سی ایس سی ڈی اور کولمبیا کے مارگا انسٹی ٹیوٹ کے نام نمایاں ہیں۔ پاکستان میں جامعہ اسلامیہ بہاولپور اور جامعہ پنجاب میں شاندار خدمات کے علاوہ انہوں نے نجی شعبے میں بہت سی جامعات اور تعلیمی اداروں کی تاسیس و تشکیل سے تعمیر و استحکام تک ہر ہر مرحلے پر ماہرانہ مشاورت اور عملی خدمات فراہم کیں۔ مثال کے طور پر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس، نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز، فاسٹ، انسٹی ٹیوٹ آف لیڈرشپ اینڈ مینجمنٹ (آئی ایل ایم) اور پاک ایمز جیسے معروف اداروں نے اپنے بورڈ آف گورنرز میں آپ کو اعزاز جان کر شامل کر رکھا تھا۔ تحقیق کے میدان میں بھی آپ نے درجنوں مقالات تحریر کیے جو مختلف ملکی و بین الاقوامی جرائد کی زینت بنتے رہے۔ آپ اقتصادی امور سے متعلق جرائد ’’اکنامک ان سائٹ‘‘، اور ’’پاکستان اکنامک اینڈ سوشل ریویو‘‘ کی ادارت کے فرائض بھی ادا کرتے رہے۔ ملک کے نویں پنج سالہ منصوبے میں تعلیم سے متعلق رپورٹ آپ کی تحریر کردہ تھی۔ یہی نہیں، ’’پاکستان کی اقتصادی تعمیرنو‘‘، ’’پاکستان میں آمدنیوں میں عدم توازن‘‘، ’’اسلامی اقتصادی اصلاحات کے اصول‘‘، ’’پاکستان بھارت تعلقات‘‘ اور ’’پاکستان کے سمندری وسائل‘‘ کے نام سے انگریزی زبان میں آپ کی 6 کتب شائع ہوچکی ہیں، جب کہ اردو زبان میں تعلیم، معاشیات اور پاکستانیات پر مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ مضامین کا مجموعہ ’’ستاروں سے آگے‘‘ کے نام سے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے ڈائریکٹر تحقیق و مطبوعات نعیم احمد نے مرتب کیا ہے، جو جلد زیورِ طباعت سے آراستہ ہونے کی توقع ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر شیخ رفیق احمد میں پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کے فروغ کے لیے عمر بھر کوشاں رہے، تاہم باقاعدہ تعلیمی مصروفیات سے فراغت کے بعد انہوں نے خود کو اسی کام کے لیے وقف کردیا اور اس مقصد کی خاطر متحرک و فعال دو اہم اداروں کی سرگرمیوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا، ان میں سے پہلا ادارہ ’’ہمدرد مجلسِ شوریٰ‘‘ ہے جسے حکیم محمد سعید شہید نے خالصتاً ملّی مقاصد کے لیے پہلے ’’شامِ ہمدرد‘‘ کے نام سے شروع کیا، اور پھر یکم جنوری 1995ء کو ’’ہمدرد مجلسِ شوریٰ‘‘ کی حیثیت دے دی۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد کو خود حکیم محمد سعید شہید نے اس کے بانی ارکان میں شامل کیا۔ ڈاکٹر صاحب اس کی سبجیکٹ کمیٹی کے کنوینر تھے جو ملک بھر میں ہر ماہ ’مجلسِ شوریٰ‘ کے اجلاسوں کے لیے موضوعات کا تعین کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مجلسِ شوریٰ کے اجلاسوں میں بھرپور دلچسپی لیتے اور صدرِ مجلس کی کسی وجہ سے غیر حاضری کے باعث بعض اوقات اجلاسوں کی صدارت بھی اُن کے حصے میں آجاتی، جسے وہ پوری متانت اور سنجیدگی سے نبھاتے۔ ادارۂ ہمدرد نے ڈاکٹر رفیق احمد کی زبردست خدمات کے اعتراف کے طور پر اُن کی زندگی میں خصوصی تقریبِ پذیرائی کا اہتمام کیا جس میں اعترافِ عظمت و خدمات کے طور پر ڈاکٹر صاحب کو اعزازی شیلڈ پیش کی گئی۔ ڈاکٹر صاحب کی ’ہمدرد مجلسِ شوریٰ‘ کی ماہانہ نشست میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ناسازیِ طبع کے باوجود مارچ کے پہلے بدھ کو ہونے والی اپنی زندگی کی آخری نشست میں بھی شرکت کی، اور مجلس کے سیکرٹری سید علی بخاری کے بقول وہ نشست کے بعد خاصی دیر تک ان کے ساتھ بیٹھ کر مجلس کے مختلف امور اور موضوعات پر مشورے دیتے رہے۔
’پاکستانیت‘ کو نئی نسل تک منتقل کرنے کے لیے دوسرا ادارہ جو ڈاکٹر رفیق احمد کی سرگرمیوں کا تادمِ زیست مرکز و محور رہا وہ ’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘ تھا جہاں قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد کے حصول، نظریۂ پاکستان کی ترویج، مفکرِ پاکستان علامہ اقبال اور بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے افکار کے فروغ کی خاطر ڈاکٹر رفیق احمد نے بے لوث، اَن تھک اور مجاہدانہ کوششیں کیں۔ ان کی فنا فی الپاکستان کی کیفیت کے پیش نظر انہیں 1999ء میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری کے منصب کی پیشکش کی گئی، جسے انہوں نے ٹرسٹ کے چیئرمین مجید نظامی مرحوم کے اصرار پر قبول کرلیا اور اس ادارے کو ایک مؤثر، بامقصد قومی اور نظریاتی ادارہ بنانے میں بطور سیکرٹری کلیدی کردار ادا کیا۔ 2008ء میں آپ کو ٹرسٹ کا وائس چیئرمین بنا دیا گیا۔ ڈاکٹر رفیق احمد ٹرسٹ کو علامہ اقبال اور قائداعظم کے افکار کے ابلاغ کا عالمی مرکز بنانے کی تمنا دل میں بسائے ہوئے تھے، چنانچہ انہوں نے ٹرسٹ کے عظیم الشان اور کثیرالمقاصد منصوبے ’ایوانِ قائداعظم‘ میں خصوصی دلچسپی لی اور اس کی تکمیل کے لیے ہر طرح کے وسائل کی فراہمی کے لیے آخری دم تک کوشاں رہے۔ آپ نے نوجوان نسل کی نظریاتی تربیت اور انہیں قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان سے متعلق اسلامی، فلاحی اور جمہوری مملکت کے تصورات سے آگاہ کرنے کے لیے ٹرسٹ کے زیراہتمام ’’پاکستان آگہی پروگرام‘‘ اور ’’نظریاتی سمر اسکول‘‘ کے نام سے پروگراموں کا آغاز کیا، جن کے تحت طلبہ کے علاوہ اساتذہ کی نظریاتی تربیتی نشستوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے تاکہ اساتذہ نظریۂ پاکستان کے حقیقی تصور کو نئی نسل تک منتقل کرسکیں۔
پاکستان کے بارے میں مایوسی پھیلانے والوں سے ڈاکٹر رفیق احمد سخت نالاں تھے اور اکثر کہتے تھے کہ اگرچہ ہمارے حکمرانوں کی غلطیوں، کوتاہیوں اور ناعاقبت اندیشیوں کے باعث ہمیں سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے سمیت بہت سی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا، اس کے باوجود حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم نے 1947ء میں بے سروسامانی کے عالم میں صفر سے اپنا سفر شروع کیا تھا اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم دنیا کی ساتویں اور عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہیں۔ ان کا یقین تھا کہ ہمارے نوجوانوں میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں، ہمارے ملک میں وافر قدرتی وسائل دستیاب ہیں، جب کہ ہمارے پاس ستاروں پر کمند ڈالنے والا زبردست نظریہ موجود ہے، ہم پاکستان کی عظمت اور اہمیت کو اپنے دل و دماغ پر نقش کرلیں اور خداداد صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں تو پاکستان کو ترقی اور استحکام کی منزل حاصل کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔
ذاتی طور پر ڈاکٹر صاحب بہت باہمت اور بلند حوصلہ شخصیت کے مالک تھے، انتقال سے ٹھیک تین برس قبل 25 مارچ 2017ء کو ان پر فالج کا حملہ ہوا، مگر انہوں نے اپنی قوتِ ارادی کے بل پر جلد ہی اس بیماری پر قابو پا لیا۔ وفات کے وقت ان کی عمر 92 برس تھی۔ اس ضعیف العمری میں وہ چاہتے تو امریکہ میں مقیم اپنے اطاعت شعار اکلوتے بیٹے ڈاکٹر جواد احمد کے پاس زندگی کے آخری دن آرام و سکون سے گزار سکتے تھے، مگر انہوں نے زندگی کے اوائل میں پاکستان کے قیام اور اس کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کرنے کا جو عہد کیا تھا، آخری دم تک نہ صرف اس پر قائم رہے بلکہ اس کی خاطر متحرک و فعال بھی رہے۔ وفات سے ایک ماہ قبل 25 فروری 2020ء کو نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی بارہویں سالانہ نظریہ پاکستان کانفرنس میں نہ صرف ضعف کے باوجود تشریف لائے بلکہ جب منتظمین نے انہیں پیشکش کی کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ کر ہی خطاب کرلیں تو کہنے لگے ’’نہیں، مجلس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد دیکھ کر مجھ میں بھی جوانوں والا جذبہ اور طاقت عود کر آئی ہے‘‘۔ چنانچہ روسٹرم پر کھڑے ہو کر تفصیلی خطاب میں نوجوانوں کو قیام پاکستان کے مقاصد سے روشناس کرایا۔
راقم الحروف کو 1990ء کی دہائی کے اواخر میں ڈاکٹر صاحب کی میاں میر کے علاقے میں نہر کنارے رہائش گاہ کے پُر سکون ماحول میں پاکستان کے معاشی و سماجی مسائل خصوصاً بجٹ کے حوالے سے سیر حاصل انٹرویو کا موقع ملا، اس کے علاوہ بھی شہر میں ہونے والی مختلف تقاریب میں اُن کے خیالات سے استفادے کا موقع ملتا رہا۔ ابھی چند ماہ قبل اُن سے ملاقات کا وقت طے تھا، مگر شاید سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کی آمد کے سبب راستے بند ہونے کے باعث طے شدہ وقت پر ملاقات ممکن نہ ہوسکی اور فون پر اگلے روز حاضری کی اجازت چاہی، انہوں نے ہامی بھر لی۔ اگلے دن ملاقات تو ہوگئی مگر وہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے کسی تعمیری منصوبے پر مشاورت میں مصروف تھے، کہنے لگے اس وقت تو انٹرویو مشکل ہوجائے گا، پھر کبھی سہی۔ میرے پاس احتراماً اثبات میں سر ہلانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ مگر ’’وہ پھر کبھی‘‘… کبھی نہ آسکا۔
کشادہ پیشانی، سر پر کم ہوتے سفید بال، چہرے پر نظر کی عینک کے پیچھے سے جھانکتی آنکھوں سے ذہانت اور متانت ٹپکتی تھی، ہمیشہ سنجیدہ لہجے اور مدبرانہ انداز میں ٹھیر ٹھیر کر فکر انگیز گفتگو کرتے، کبھی کوئی فضول یا زائد از ضرورت لفظ اُن کی زبان سے سنا نہیں گیا، ایک ایک لفظ بولنے سے پہلے احتیاط سے تولتے۔ اخلاص سے بھرے جملے اُن کے منہ سے نکلتے اور ’’از دل ریزد بر دل خیزد‘‘ کے مصداق اثر پذیری کی بے پناہ قوت کے ساتھ سننے والے کے دل و دماغ میں اترتے چلے جاتے تھے۔ معروف صحافی اور شاعر شہباز انور خان نے ڈاکٹر صاحب کی وفات پر بجا طور پر ان کے چاہنے والوں کے جذبات کی عکاسی کی ہے ؎۔