کورونا وائرس: مستقبل کی نئی دنیا تلاش کرنا ہوگی

دنیا میں بعض واقعات یا حادثات ایسے ہوتے ہیں جو اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ اس وقت کورونا وائرس نے پوری دنیا کے سیاسی، سماجی، نفسیاتی، انتظامی اور معاشی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت موضوعِ بحث کورونا وائرس ہے کہ اس مرض سے کیسے پوری دنیا سمیت اپنے اپنے ملکوں میں موجود لوگوں کو بچایا جائے۔ پہلی بار دنیا میں یہ مرض سامنے آیا ہے، لیکن یہ کہنا کہ مستقبل میں ایسا کچھ نہیں ہوسکے گا، ممکن نہیں۔ امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف انفیکشن ڈیزیزکے تحقیقی امور کے سربراہ انتھونی فاکی کے بقول عالمی وبا کی شکل اختیار کرنے والا کورونا وائرس ہر برس ٹھنڈ کے موسم میں حملہ کرسکتا ہے۔
کورونا وائرس کے حملے نے دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کی صلاحیتوں کو بھی بری طرح بے نقاب کیا ہے کہ وہ بڑے حادثات سے نمٹنے کی کیا صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کا سماجی، انتظامی اور معاشی ڈھانچہ کس طرح ان بڑے حادثات سے ان کو بچاسکتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے سیاسی، سماجی اور معاشی امور کے ماہرین میں یہ بنیادی نکتہ زیر بحث ہے کہ مستقبل کی دنیا کیا ہوگی، اورکیا اس کورونا وائرس کے بعد کی دنیا میں ہمیں کوئی بڑی تبدیلی روایتی حکمرانی اور فیصلوں کے تناظر میں نظر آئے گی، یا ہم اس بحران کے بعد کچھ نیا سبق حاصل کرنے کے بجائے وہی غلطیاں دہرائیں گے، جو ہماری سیاست کا حصہ ہیں؟
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ کورونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر سے جڑے بڑے فیصلوں یعنی جنگوں، سیکورٹی، تنازعات، تضادات، امیری اور غریبی، سیاسی، سماجی اور معاشی ناہمواریوں، سماجی شعبے بالخصوص صحت کے ڈھانچوں اور انسانوں پر سرمایہ کاری کے مسائل کو بری طرح بے نقاب کیا ہے۔ ہمارے جیسے ملکوں کی بات چھوڑیں، اس وقت ترقی یافتہ اور دولت مند ممالک بھی ان معاملات میں بری طرح بے نقاب ہوئے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ عالمگیریت یا سرمایہ داری پر مبنی دنیا کے سامنے اب ایک بڑا چیلنج سیکورٹی یا جنگوں پر مبنی ریاستوں کے بجائے انسانوں سے جڑی ریاستیں ہونی چاہئیں۔ ایسی ریاستیں جن کو دنیا میں ہم فلاحی ریاستوں کا نام دیتے ہیں، جہاں عملاً انسانوں سے جڑے بنیادی نوعیت یا حقوق کے مسائل اہم ہوتے ہیں۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی ادارے بھی اس وقت یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ہمیں کورونا سے متاثر غریب ممالک کے لیے کچھ غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے جن میں قرضوں کی واپسی معطل کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے، اور رعایتی قرضوں کے لیے بھی جی 20 راہنمائوں سے رجوع کیا جائے گا۔ غریب ممالک اس وقت امیر ملکوں کی طرف دیکھ رہے ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ خود امیر ممالک بھی اس وبا کا شکار ہوئے ہیں اور ان کی اپنی معیشت بھی تباہ ہوئی ہے۔ ایسے میں بڑے مالیاتی ادارے کیا کچھ کرسکیں گے یہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اسی طرح اس وبا نے ہمارے جیسے ملکوں کو بھی شدید مشکل میں ڈال دیا ہے کہ ہم کیسے اپنی معیشت کو بچا سکیں گے، اور ان برے حالات میں جب دنیا لاک ڈائون میں ہے، کمزور لوگوں کو کیسے اورکتنا بڑا ریلیف دیا جاسکے گا؟ بنیادی طور پر پوری دنیا کے سماجی، سیاسی اورمعاشی نظام میں اس وقت ایک بڑی تبدیلی ناگزیر ہوگئی ہے۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ دنیا کے بڑے ممالک اور اداروں کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں نے لوگوں کو جنگوں، تنازعات، جھگڑوں کے نتیجے میں غربت، محرومی اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کردیا ہے اب یہ نظام ایسے نہیں چل سکے گا، ہمیں امن اور ترقی کے بیانیے کو بنیاد بنانا ہوگا۔
کورونا وائرس جیسی وبا کا پوری دنیا کے لیے بڑا سبق یہ ہے کہ وہ انسانوں پر سرمایہ کاری کرے، اوراپنے اپنے معاشروں میں سماجی اور معاشی شعبوں میں عوام سے جڑے معاملات میں ایسے ڈھانچے، انتظامات اور ادارے تشکیل دے جو لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام جس کی بنیاد انسان کم اور منافع زیادہ ہے، اس نے غریب اورکمزور ملکوں کو جکڑ لیا ہے، اوران غریب ملکوں کے سماجی سطح پر موجود ڈھانچے قابلِ رحم ہیں۔ پاکستان جو خود کورونا وبا کا شکار ہوا ہے، اس سے نمٹنے میں ہمارے سماجی اورمعاشی ڈھانچے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، اور یہاں تمام حکومتوں سمیت ریاست کی ترجیحات میں عام آدمی سے جڑے مسائل یا لوگوں کو بااختیار کرنا بہت پیچھے نظر آتا ہے۔ صرف صحت اور تعلیم کے شعبوں کو ہی دیکھ لیں کہ ہمارے طرزِعمل نے بنیادی نوعیت کے ان دونوں شعبو ں کا کس بے دردی سے استحصال کیا ہے۔ لوگوں کی معاشی حالت اس حد تک کمزور ہے کہ ہم تواتر کے ساتھ ان میں غربت اور محرومی کی سیاست کو پختہ کرکے عملاً ریاست اور عوام میں خلیج پیدا کررہے ہیں۔
دنیا کورونا وائرس کی اس وبا سے سبق سیکھتی ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر پاکستان اور بھارت کو اپنے موجودہ طرزِعمل پر بہت کچھ نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اوربھارت کو حالیہ بحران کے نتیجے میں سیکھنا ہوگا کہ نہ صرف ان دونوں ممالک، بلکہ اس خطے کی ترقی، سلامتی، خوشحالی اور عام طبقے کی طاقت کا بڑا انحصار دو طرفہ سیاسی، انتظامی، سفارتی، معاشی اور سماجی تعلقات کی بہتر ی میں ہے۔ اس وقت بھارت بھی مکمل لاک ڈائون ہے اور اُس کی بڑی معیشت بھی اس بحران کا شکار ہوئی ہے، ایسے میں بھارت کی ریاست اور حکومت کو بھارت سمیت خطے کے ممالک کے لوگوں کے لیے کچھ نیا سوچنا ہوگا۔ اس وقت خطے کی سیاست میں پاکستان اور بھارت پہل کرکے ایک بڑے سماجی چارٹر کی طرف بڑھیں جس کا مقصد عام لوگوں کو طاقت دینا اوراپنے اپنے ملکوں میں سیکورٹی یا جنگوں پر سرمایہ کاری کرنے کے بجائے سماجی اورمعاشی ڈھانچوں کو مضبوط کرنا ہونا چاہیے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اب دونوں ملک دوستی کو بنیاد بناکر آگے بڑھیں اور جو بھی تنازعات ہیں جن میں مسئلہ کشمیر سرفہرست ہے، دو طرفہ بات چیت کی مدد سے حل کریں۔ یہ امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کا بھی ایجنڈا ہونا چاہیے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری میں عملی کردار ادا کریں۔ اسی طرح دونوں ممالک کو سوچنا اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے دفاعی بجٹ میں تواتر کے ساتھ کٹوتی یا کمی کریں، اور یہ پیسہ بنیادی ضرورتوں تعلیم، صحت اور روزگار پر لگا کر ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دیں۔ حکمرانی کے حقیقی بحران کو حل کرنے کے لیے دونوں ممالک کو اپنے اپنے ملکوں میں غیر معمولی اقدامات کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی جگہ ابتدائی طور پر اُن منصوبوں کو فوقیت دی جائے جو عام آدمی کی زندگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں لوگوں کو محض نجی شعبوں پر چھوڑ کر ان کی زندگیوں میں بڑی مصیبتیں پیدا نہیں کرنی چاہئیں، بلکہ بنیادی ضرورتوں کی فراہمی میں ریاست اور حکومتوں کے کردار، نگرانی اور جوابدہی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم کے فارمولے کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی بحث کو طاقت دینا ہوگی۔
لوگوں کو سماجی اور معاشی تحفظ دے کر ہی ہم قابلِ قبول معاشرہ بن سکتے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کو نئی پالیسی بنانی ہوگی کہ ان کی کمزور ملکوں کی پالیسی طاقت ور ملکوں کے مقابلے میں مختلف ہو۔ انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کی موجودہ پالیسیوں نے کمزور ملکوں میں محرومی اور غربت کی سیاست کو مضبوط کیا ہے۔ ایک جیسی پالیسی کی بنیاد پر دنیا سے نمٹنا درست حکمت عملی نہیں۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ کورونا وبا کو بنیاد بناکر اپنے داخلی سیاسی، سماجی، انتظامی، معاشی، معاشرتی اور حکمرانی کے نظام میں ایک بڑی سرجری کرے۔ یہ غیر معمولی کام ہوگا اور اس کے لیے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اپنے سماجی ڈھانچوں کی ازسرنو تشکیل، اور اپنی ترجیحات کے تعین میں منصفانہ اور شفاف پالیسی کو بنیاد بناکر خود کو ایک بڑی ترقی سے جوڑنا ہوگا۔