نثار احمد
یوں تو وطنِ عزیز پر گزرتی آزمائشوں کا سلسلہ خاصا طویل ہے۔ زلزلوں اور سیلابوں سے لے کر بدامنی کے ادوار تک ہر طرح کی ارضی، سماوی اور انسان کی پیدا کردہ آفات نے ہماری قوم پر طبع آزمائی کی ہے۔ نتیجے میں عزم، ہمت، استقلال اور ایک دوسرے کو سہارا دے کر پھر سے اٹھانے کی جو داستانیں ہم نے بحیثیتِ قوم رقم کی ہیں وہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ’’مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں‘‘ کے مصداق ان آفات نے ہمیں کندن بنادیا ہے، اور ہم میں کسی حد تک مشکلوں کو مواقع میں بدلنے کی صفت پیدا ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بڑی آفت کے موقع پر ہم تمام تر اختلافات پسِ پشت ڈال کر ایک متحد قوم کی صورت میں ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اسی لیے دنیا ہمیں ریزیلینٹ اور سب سے زیادہ خیرات دینے والی قوموں میں شمار کرتی ہے۔
پاکستان میں آفات سے جڑے دیگر تمام حقائق اپنی جگہ، لیکن ایک حقیقت الخدمت فاؤنڈیشن بھی ہے جو ہر آفت کے موقع پر مشکلات اور متاثرین کے درمیان ایک ڈھال کی صورت میں نظر آئی ہے۔ چترال میں بارشوں سے تباہی پھیلے یا سندھ میں قحط سے لوگ مریں، گلگت میں برف کا طوفان ہو یا کراچی میں آگ بستیاں اجاڑے، کشمیر میں دشمن کے ستائے لوگ ہوں یا فاٹا میں انتہا پسندی سے بے گھر لاکھوں خاندان، 2005ء کا زلزلہ ہو یا 2010ء اور2016ء کے سیلاب… وطنِ عزیز پر جب بھی کوئی برا وقت آیا ہے الخدمت کے بے لوث کارکنان اپنے متاثرہ بہن بھائیوں کی خدمت میں ہمیشہ پہلی صفوں میں نظر آئے ہیں۔ حال ہی میں جب ڈینگی وائرس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا، عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 47 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے اور 75افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، اس موقع پر الخدمت فاؤنڈیشن نے پورے ملک میں حکومتی اداروں سے ساتھ مل کر اس وائرس کے پھیلاؤکو روکنے کے لیے ہر طرح کی مدد کی۔ ملک کے طول و عرض میں ڈینگی مار اسپرے مہم سے لے کر بیماری کی تشخیص کے لیے اپنی لیبارٹریوں اور متاثرین کے علاج کے لیے اسپتالوں کے دروازے کھول دیئے تھے۔
آج کورونا وائرس کی شکل میں ایک نادیدہ بلا نے پھر سے ہماری قوم کو ایک آفت میں مبتلا کردیا ہے۔
کورونا وائرس کیا ہے؟ کہاں سے آیا؟ کیسے پھیلتا ہے؟ اس پر ہر سُو باتیں ہورہی ہیں۔ بہرحال پھیلاؤ اور نقصانات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بلاشبہ یہ وبا ایک بہت بڑی آفت ہے، اورکئی حوالوں سے پچھلی تمام آفات سے مختلف اور زیادہ خطرناک ہے۔ چونکہ اس آفت نے ملک کے طول و عرض میں بلا تفریق ِ خاص و عام سب کو یکساں خطرے میں ڈال رکھا ہے، سبھی اپنی بساط بھر خود کو بچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، کیوں کہ بقول جون ایلیا ’’اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے‘‘، اس لیے عوام کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرنا کسی حد تک ناممکن ہوگیا ہے، بلکہ وبا کے خوف سے لوگوں نے خود کو گھروں اور کمروں تک محدود کرلیا ہے، ایسے میں الخدمت کے کارکن اپنی حفاظتی تدابیر کے ساتھ سڑکوں پر لوگوں میں ماسک تقسیم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں وبا کے پھیلنے کے خوف سے مارکیٹیں، دفاتر، یہاں تک کہ خدا کے گھر بھی عوام کے لیے بند کیے جارہے ہیں، وہاں الخدمت اپنے دفاتر اور لیبارٹریز میں عوام کی آگاہی کے لیے ڈیسک قائم کررہی ہے، بیماری کی بنیادی تشخیص کے لیے اپنی لیبارٹریز پیش کررہی ہے، اور مشتبہ متاثرین کے لیے آئیسولیشن کی سہولیات کے طور پر ملک کے طول و عرض میں اپنے اسپتالوں کے دروازے کھول رہی ہے۔
جونہی کورونا کی وبا پاکستان میں پھیلنا شروع ہوئی، الخدمت فاؤنڈیشن اس کے پھیلاؤ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے میدان میں آگئی۔ مرکزی سطح پر پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن کی سربراہی میں ٹاسک فورس تشکیل دی گئی، جس نے پہلے مرحلے میں کورونا کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کی ملک گیر مہم شروع کی۔ سوشل میڈیا، اخبارات، بینرز اور پوسٹرز کے ذریعے کروڑوں لوگوں تک اس وبا سے حفاظت کا پیغام پہنچایا گیا۔ بنیادی حفاظتی اقدامات کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں لوگوں میں ماسک، صابن اور سینی ٹائزر تقسیم کیے گئے۔ حکومت کو متاثرہ مریضوں کے لیے انتظامات میں مسئلہ درپیش ہوا تو الخدمت نے ملک بھر میں اپنے26 اسپتال قرنطینہ اور آئیسولیشن کی سہولیات کے لیے پیش کردیئے۔ اس کے علاوہ بنیادی تشخیصی سہولیات کے لیے کراچی، ملتان اور فیصل آباد میں 3 بڑی لیبارٹریز کے بلا معاوضہ استعمال کی پیشکش کردی۔ اس کے نتیجے میں اب تک الخدمت نعمت اللہ خان اسپتال تھرپارکر، الخدمت رازی اسپتال اسلام آباد، الخدمت مشال میڈیکل کمپلیکس مردان، اور الخدمت اسپتال چترال متعلقہ اضلاع میں شعبہ صحت کے حوالے کردیئے گئے ہیں، اور باقی پر بھی کام جاری ہے۔
اگرچہ کورونا کا کوئی توڑ تاحال دریافت نہیں ہوسکا ہے، تاہم احتیاط، صفائی اور سماجی دوری(social distancing) اختیار کرکے اس کے پھیلاؤ کا توڑ ممکن ہے۔ حکومت کی طرف سے ہماری روزمرہ کی سرگرمیوں کو محدود کرنا، دفاتر، ہوٹلوں، پارکوں اور دیگر عوامی اجتماعات کی جگہوں کو عارضی طور پر بند کرنا ہمارے فائدے کے لیے ہے۔ ہمیں ایسے اقدامات میں نہ صرف حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے بلکہ اپنے تئیں بھی پوری احتیاط برتنی چاہیے۔ ان اقدامات کے ذریعے بلاشبہ اس مہلک وبا کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔ البتہ یہ بات سوچنے کی ہے کہ جو اقدامات عوام کوکورونا سے بچانے کے لیے بجاطور پر اٹھائے جارہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ان سے دہاڑی دار مزدوروں کے چولہے بجھ جائیں؟ اگر ایسا ہے تو یقیناً ایسے لوگوں کی کفالت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن نے ایسے بے سہارا غریبوں کے لیے راشن کا انتظام کرنا شروع کردیا ہے۔ لیکن چونکہ الخدمت کے لیے اپنے محدود وسائل میں تمام ضرورت مندوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہے، اس لیے معاشرے کی صاحبِ ثروت شخصیات بھی براہِ راست ایسے مستحق خاندانوں کی مدد کرکے، یا الخدمت فاؤنڈیشن کے ساتھ تعاون کرکے اس کارِ خیر کا دائرہ بڑھا سکتی ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس وبا سے محفوظ رکھے اور ہمیں اس مشکل وقت سے بخیر و عافیت نکال دے۔ آمین