کرسٹینا اینڈرسن۔ ہینرک پریسر لیبل/ترجمہ: ابوصباحت
سوئیڈن نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے جو طرزِِ فکر و عمل اپنائی ہے اُس نے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ پڑوسیوں نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں، مگر سوئیڈن نے کوئی اور ہی راستہ منتخب کیا ہے۔
جب کورونا وائرس نے اسکینڈے نیوین ممالک کا رخ کیا تو ناروے اور ڈنمارک نے اِس کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کا سہارا لیا۔ دونوں نے اپنی سرحدیں بند کردیں تاکہ وبا کو پھوٹنے سے روکا جاسکے۔ اِن دونوں کے پڑوسی سوئیڈن نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ناروے اور ڈنمارک نے سرحدیں بند کرنے کے بعد ملک بھر میں ریسٹورنٹ بھی بند کردیئے اور طلبہ سے کہا کہ وہ گھر میں بیٹھیں۔ سوئیڈن نے صرف ہائی اسکول اور کالج بند کیے۔ پری اسکول، گریڈ اسکول، شراب خانے اور ریسٹورنٹ بند نہیں کیے گئے۔ کاروباری اداروں کو بھی چلتا رکھا گیا اور عوام کی نقل و حرکت پر بھی کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔
دنیا بھر میں کاروباری اداروں کو بند کردیا گیا اور لوگوں کے میل جول پر پابندی لگادی گئی۔ کئی ممالک مکمل لاک ڈاؤن کی حالت میں ہیں، یعنی زندگی تھم گئی ہے، مگر سوئیڈن نے ایسا کچھ کرنا مناسب نہیں جانا۔ کیوں؟ مبصرین اور تجزیہ کار مختلف آراء کا اظہار کررہے ہیں۔ کیا سوئیڈش حکومت نے کوئی جوا کھیلا ہے؟ جس بیماری کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا اُس سے بچنے کے لیے دنیا بھر میں کیے جانے والے اقدامات سوئیڈن نے کیوں نہیں کیے؟ کورونا وائرس نے دنیا بھر میں کروڑوں ملازمتوں کو داؤ پر لگادیا ہے، کاروباری سرگرمیاں تھم گئی ہیں، صنعتوں کا پہیہ رک گیا ہے، اِس کے نتیجے میں اچھی خاصی معاشی خرابی پیدا ہوچکی ہے، ایسے میں سوئیڈن کیا یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ کورونا وائرس کوئی بلا نہیں جس سے اس قدر خوف زدہ ہوا جائے؟ اس وقت دنیا جس خرابی سے دوچار ہے وہ زمانۂ امن میں کبھی واقع نہیں ہوئی۔ جس چیز نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے اُس سے سوئیڈش حکومت کیوں خوف زدہ نہیں ہوئی؟ کیا اُسے اپنے آپ پر اِتنا بھروسا ہے کہ اس وبا کو روکنے میں مکمل طور پر کامیاب ہوجائے گی؟
ناروے کی آبادی 53 لاکھ ہے۔ وہاں کورونا وائرس کے 3770 مریض ہیں اور 19 سے زیادہ ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ ڈنمارک کی آبادی 54 لاکھ ہے۔ وہاں 2200 سے زیادہ مصدقہ مریض ہیں اور 50 سے زیادہ ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ سوئیڈن کی آبادی ایک کروڑ، ایک لاکھ بیس ہزار ہے۔ وہاں 3060 سے زیادہ کورونا کیسز ہیں اور 105 ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ ڈنمارک کے معروف اخبار ’’پولیٹیکن‘‘ نے حال ہی میں ایک شہ سُرخی جمائی ’’کیا سوئیڈن کی قیادت کورونا وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی؟‘‘
ایسی کوئی بات دکھائی نہیں دی جس سے یہ اندازہ ہو کہ سوئیڈش حکومت نے کورونا وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ہاتھ دھونے پر بہت زور دیا جارہا ہے۔ لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ میل جول کم کردیں اور فاصلہ رکھیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ معمر ترین افراد کو الگ تھلگ کردیا گیا ہے تاکہ یہ وائرس اُن تک نہ پہنچ سکے۔ دارالحکومت اسٹاک ہوم اور دیگر مقامات پر ریسٹورنٹ کھلے ہوئے ہیں۔ دو یا تین افراد کے گروپ کھانا کھاتے، کافی پیتے اور گپ شپ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کھیلوں کے میدان بچوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ شاپنگ مال بھی کھلے ہوئے ہیں۔ لوگ کام پر جارہے ہیں۔ زندگی کا سفر جاری ہے۔
وباؤں سے نمٹنے کے سرکاری ماہر اینڈرز ٹیگنل کہتے ہیں: ’’ہم کورونا وائرس کا پھیلاؤ کنٹرول کرکے اُس سطح پر لانا چاہتے ہیں جہاں اِس سے بہتر طور پر نمٹا جاسکے۔ اس حوالے سے کسی کوتاہی کی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے سوئیڈن کی حکمتِ عملی الگ ہے۔ عوام اس حوالے سے ذہنی طور پر تیار رہتے ہیں۔ تقریباً سبھی کچھ رضاکارانہ بنیاد پر ہوتا ہے۔ بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت بڑھانے پر غیر معمولی توجہ دی جاتی ہے۔ ملک بھر میں امیونائزیشن سسٹم بہت اچھی طرح کام کررہا ہے۔ مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگانے کا معاملہ 98 فیصد تک ہے۔ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ جو کچھ عوام کے لیے بہترین ہے وہ اُنہیں بتادیا جائے، اور وہ اُسی کے مطابق کام کرتے ہیں۔‘‘
یہ سب کچھ بہت ہی عجیب دکھائی دیتا ہے۔ بھارت نے 21 روزہ لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے۔ فرانس میں حکومت نے شہریوں کی نقل و حرکت محدود رکھنے کے لیے انہیں اس بات کا پابند کیا ہے کہ جب بھی کہیں جائیں تو فارم پُر کرکے دیں۔ جرمنی میں دو سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہے۔ استثنا صرف خاندانوں کو دیا گیا ہے۔ برطانیہ میں پولیس افسران کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ لوگوں کو گھروں تک محدود رکھیں۔
سوئیڈن نے اسکینڈے نیویا اور باقی دنیا کے حوالے سے جو سوچ اپنائی ہے وہ بہت مختلف ہے، مگر یہ بات ابھی پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ جو کچھ سوئیڈش قیادت نے سوچا اور کیا ہے وہ مطلوبہ نتائج یقینی بنانے میں کامیاب ہو بھی سکے گا یا نہیں۔ یہ سب کچھ سمجھنے کے لیے سوئیڈن کے پورے نظام کو سمجھنا پڑے گا۔ تاریخ دان لارز ٹریگرڈ کہتے ہیں کہ سوئیڈن میں اعتماد کا گراف بہت بلند ہے۔ مرکزی حکومت صحتِ عامہ اور دیگر بہت سے معاملات میں مقامی سطح کی انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت سے حتی الامکان گریز کرتی ہے۔ مرکزی حکومت نچلی سطح پر جاکر تمام معاملات کو ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کرتی۔ بہت سے معاملات کو مقامی انتظامیہ کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور اُس پر بھروسا بھی کیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ پڑوسی ممالک کے برعکس سوئیڈن میں گورننس کی سطح پر بہت کچھ مختلف دکھائی دیتا ہے۔
سوئیڈن کی پبلک ہیلتھ ایجنسی نے اب تک سرحدیں بند کرنے اور لوگوں کے اجتماع پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے کوئی تجویز نہیں دی۔ اگر پبلک ہیلتھ ایجنسی ایسا کچھ کہتی تو سوئیڈن کی مرکزی حکومت عمل کرتی۔
لارز ٹریگرڈ کے مطابق حکومت پر عوام کو جو بھروسا ہے وہ بہت سے معاملات سے عیاں ہے۔ معاملہ صرف معاش کا نہیں، سماج کا بھی ہے۔ عوام کو حکومت پر ہر معاملے میں بھرپور اعتماد ہے۔ شہری آپس میں بھی اعتماد کے رشتے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ناروے نے سوئیڈن سے جڑی ہوئی اپنی ایک ہزار میل کی سرحد مکمل طور پر بند نہیں کی تاہم اتنا ضرور ہے کہ بیرونِ ملک سے آنے والے ہر شہری کو پندرہ دن کے لیے قرنطینہ میں رہنا پڑتا ہے۔ چرواہوں اور یومیہ بنیاد پر سفر کرنے والوں کو استثنا حاصل ہے۔ فن لینڈ نے اپنے سب سے گنجان آبادی والے علاقوں والی سرحد بند کی ہے۔ ان میں دارالحکومت ہیلسنکی بھی شامل ہے۔ یہ اقدام تین ہفتوں کے لیے ہے۔
ناروے میں پانچ سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد ہے۔ اور درونِ خانہ بھی (رشتہ داروں کے سوا) 6 فٹ کا فاصلہ رکھنا لازم ہے۔ ڈنمارک نے سرکاری ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ گھر بٹھایا ہے، اور دیگر تمام ملازمین پر زور دیا ہے کہ وہ، اگر ممکن ہو تو، گھر سے کام کریں۔ تمام نائٹ کلب، شراب خانے، ریسٹورنٹس اور کیفے بند ہیں اور 10 سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد ہے۔
سوئیڈن نے ابتدائی مرحلے میں 500 سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد کی۔ تقریبات کے منتظمین نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ 499 ٹکٹ ہولڈرز کو شرکت کی اجازت دی جائے۔ جب عملے کے افراد بھی کورونا وائرس کا شکار پائے گئے تب یہ تجویز واپس لے لی گئی۔ اینڈرز ٹگنل کہتے ہیں: ’’کوئی بھی پابندی مکمل طور پر کبھی کارگر ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ لوگ کہیں سے گنجائش نکال ہی لیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سوئیڈن کی قیادت کورونا وائرس کی سنگین نوعیت سے آگاہ نہ تھی اور پڑوسیوں کے اقدامات کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتی تھی۔ وبا جس مرحلے میں ہے اُس میں سرحدوں کو بند کرنا قدرے غیر منطقی معلوم ہوتا ہے۔ یہ کوئی ایسا مرض نہیں جو بہت مختصر میعاد کا ہو، یا طویل میعاد میں جائے۔ ابھی ہم اِسے روکنے کے مرحلے میں نہیں ہیں۔ یہ مرحلہ اِسے دبوچنے کا ہے۔ اسکول بند کرنے کا آپشن کھلا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسکول کھلے رکھنے ہی کا سوچ لیا گیا ہے۔‘‘
ہالینڈ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہے اور 700 سے زائد اموات بھی واقع ہوچکی ہیں، مگر اس کے باوجود ولندیزی حکومت نے بھی وہی راستہ منتخب کرنے کا عندیہ دیا ہے جو سوئیڈش قیادت نے منتخب کیا ہے۔ ایک کروڑ 71 لاکھ کی آبادی والے ملک کے وزیراعظم مارک رَٹ نے 16 مارچ کو کہا کہ وبا پر قابو پانے کے حوالے سے بہت محتاط رہتے ہوئے ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جن سے لوگوں کی نقل و حرکت کم سے کم متاثر ہو۔ اور یہ کہ سرحدیں بند کرنے کے حوالے سے بہت دیر ہوچکی ہے۔
سوئیڈن کے معروف اخبار ’’سوینسکا ڈیگبلاڈیٹ‘‘ کے ایک سروے میں 52 فیصد سوئیڈش باشندوں نے کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے سے متعلق حکومتی اقدامات کی حمایت کی۔ صرف 14 فیصد نے کہا کہ معیشت کو نقصان سے بچانے کے لیے صحتِ عامہ پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔
بیشتر سوئیڈش باشندے اپنے آبائی علاقوں اور تفریحی مقامات کے لیے رختِ سفر باندھ رہے ہیں۔ ان میں کورونا وائرس کے حوالے سے تشویش کا پایا جانا فطری امر ہے۔ پبلک ہیلتھ ایجنسی نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ فی الحال اندرون ملک سفر سے گریز کریں۔ حکومت نے یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ’’کیبن بین‘‘ کا اعلان بھی کیا ہے۔
ڈنمارک کے وزیراعظم میٹ فریڈرکسن نے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسٹر کی تعطیلات کے دوران اسکیئنگ کے لیے سوئیڈن جانے سے گریز کریں۔ گزشتہ ہفتے سوئیڈن میں الپائن کے پہاڑی سلسلے میں اسکیئنگ کے ایک نمایاں مرکز ’’ایر‘‘ میں کورونا وائرس کے متعدد کیس سامنے آئے، جس کے بعد حکام نے فضائی ٹرام اور گونڈولا کی بندش کے ساتھ ساتھ شراب خانوں اور نائٹ کلبس کی بندش کا بھی اعلان کیا۔ اسکینڈے نیویا میں کورونا وائرس کے سیکڑوں کیس اٹلی اور آسٹریا میں اسکیئنگ ٹرپ مکمل کرکے واپس آنے والوں میں پائے گئے ہیں، اور اُنہی سے پھیلے ہیں۔ اب سوشل میڈیا پر ایک عمومی درخواست گردش کررہی ہے کہ اسکیئنگ سلوپس بند کردی جائیں۔
سوئیڈن میں چند شہری یہ سوچ رہے ہیں کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے قوم کا ریسپانس ضرورت سے قدرے کم ہے۔ پبلک ہیلتھ ایجنسی نے اس خیال کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ سوئیڈن میں بھی کورونا وائرس کا شکار ہونے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اب 50 سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ شہری البتہ اب تک الجھے ہوئے سے ہیں۔ ایک طرف تو وہ خوش ہیں کہ کاروباری ادارے کھلے ہوئے ہیں اور نقل و حرکت پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے، اور دوسری طرف انہیں یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ کہیں یہ وبا زیادہ نہ پھیل جائے۔ الزابیتھ ہیٹلیم ہوٹل چلاتی ہے۔ وہ اس بات سے خوش ہے کہ ہوٹل کو بند نہیں کروایا گیا، تاہم وہ اور اُس کا ’’پارٹنر‘‘ اپنے 6 بچوں کو اسکول بھیجنے سے گریزاں ہیں۔ الزابیتھ ہیٹلیم کا کہنا ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن معیشت کے لیے مکمل تباہی لائے گا، تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سوئیڈن میں کورونا وائرس کی وبا کے مزید پھیلنے کا خدشہ ہے۔ اُس کے خیال میں اُسے ایک بہت بڑے تجربے کا سامنا ہے اور اُسے اِس تجربے کا حصہ بنانے کے لیے اجازت لینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔
۔(نیویارک ٹائمز…28مارچ 2020ء)۔
کورونا اندازے سے کم ہلاکتیں
بیماریوں اور وباؤں پر تحقیقی رپورٹس شائع کرنے والے طبی سائنسی جرنل ”دی لیکنٹ“ میں شائع تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اب تک دنیا بھر میں کورونا وائرس سے اندازوں سے کہیں کم ہلاکتیں ریکارڈ کی جارہی ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق دی لیکنٹ میں شائع تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حالیہ ہلاکتوں، متاثرہ افراد اور ان کے علاج معالجے کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ کورونا وائرس سے ہلاکتیں ایک ماہ قبل لگائے گئے اندازوں سے کم ہورہی ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتیں ماضی میں لگائے گئے اندازوں سے کم ہورہی ہیں، تاہم اب بھی ان کی تعداد سیزنل انفلوئنزا سے ہونے والی ہلاکتوں سے زیادہ ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ اس وقت کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے 0.66فیصد ہلاکتیں ہوں گی جو کہ ایک اعشاریہ سے بھی کم ہیں۔ ابتدائی طور پر ماہرین یہ کہتے سنائی دیتے تھے کہ کورونا وائرس کے 98 فیصد افراد صحت یاب ہوجاتے ہیں جب کہ دو فیصد افراد ہلاک ہوجاتے ہیں، تاہم تحقیق سے پتا چلا کہ ہلاکتوں کی تعداد ان اندازوں سے بہت کم ہے۔