لیاقت بلوچ کا دورہ ایران

ظفر علی خان فکری فورم سے خطاب

پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات جو کبھی مثالی تھے اب شکوک وشبہات کی زد میں ہیں،کبھی پاکستان کو ایران سے شکایات پیدا ہوتی ہیں تو کبھی ایران پاکستان کے رویوں پر شاکی نظر آتا ہے۔ پاک سعودیہ تعلقات پر ایران کو تحفظات ہیں، تو ایران بھارت تعلقات پر پاکستان کی بھی فکر مندی صاف ظاہر ہے، اور اب ایران امریکہ تعلقات کے بگاڑ کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں وہ گرمجوشی نظر نہیں آرہی جس کی دونوں ملکوں کے مسلم عوام خواہش رکھتے ہیں۔ تاہم دونوں ہمسایہ ملکوں کے عوام کے درمیان محبت کا ایک لا فانی رشتہ اب بھی قائم و دائم ہے۔ اس رشتے کو مضبوط تر کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ یہ کوششیں کبھی تیز ہوجاتی ہیں اور کبھی مدھم پڑنے لگتی ہیں، مگر دم کبھی نہیں توڑتیں۔people to people contact کی ایک ایسی ہی کوشش گزشتہ دنوں دیکھنے میں آئی جب جماعت اسلامی کے نائب امیرجناب لیاقت بلوچ کی سربراہی میں16 جنوری سے 22جنوری تک پاکستان کی آٹھ دینی جماعتوں کے ایک وفد نے ایران کا دورہ کیا، اور تہران، مشہد اور قم میں ایرانی حکام، علماء، دانشوروں، پروفیسروں اور سائنس دانوں سے تبادلہ خیالات کیا۔ وفد نے ایران کے رہبر اور نائب رہبر، وزیر خارجہ جواد ظریف، امورِ خارجہ کمیٹی کے ارکان، پارلیمنٹ کے اسپیکر اور نائب اسپیکر، ایران میں اہلِ سنت کے نمایاں علماء، مشہد میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ اور مشہد کے امام سے ملاقاتیں کیں۔ امام غزالی اور فردوسی کی یادگاروں،امام رضا کے روضہ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک، فردوسی یونیورسٹی، اورتہران میں ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا اور جنرل سلیمانی کے اہلِ خاندان سے تعزیت کی۔
لاہور میں استادِ صحافت ڈاکٹر شفیق جالندھری کی قیادت میں سرگرم مولانا ظفر علی خان فکری فورم کی دعوت پر وفد کے قائد جناب لیاقت بلوچ نے اس دورے کی تفصیلات سے صحافیوں اور اہلِ دانش کو آگاہ کیا۔ اپنے سات روزہ دورے کے تاثرات بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ استعماری سامراجی قوتوں کی دخل اندازی اور مشرق وسطیٰ میں تسلط و غلبے کے باوجود گزشتہ اکتالیس سال سے ایران کی انقلابی حکومت اور ایرانی عوام میں انقلابی جذبہ موجود ہے۔ اقتصادی پابندیوں کے باوجود پوری قوم میں تعمیر و ترقی کا جنون ہے۔ انقلاب کے بعد سے ایرانیوں نے اپنے انقلابی جذبے کو آگے بڑھایا ہے، کم نہیں ہونے دیا۔ ایرانیوں کی رگ رگ میں مقابلے و مسابقت کا جذبہ دیوانگی کی حد تک ہے۔ وہ خطرے کا آگے بڑھ کر مقابلہ کرنے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ انہوں نے عراق اور یمن میں بھی آگے بڑھ کر مقابلہ کرنے کی راہ اپنائی ہے۔ قدس اور قبلہ اول کی آزادی ایرانیوں کا نصب العین ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی جان اسرائیل کے طوطے میں ہے۔ اگر امریکہ نے کبھی براہِ راست ایران پر حملہ کیا تو ایران بیک وقت اسرائیل کے تمام شہروں پر میزائیل برسا سکتا ہے۔ اس لیے امریکہ براہِ راست ایران پر حملے کے بجائے اِدھر اُدھر کی شرارتیں کرتا ہے۔ ایرانی بھی امریکیوں کے آئل ٹینکرز پر حملے کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے ٹینکرز کو راستہ نہیں ملتا تو پھر خلیج میں امریکہ کے ٹینکرز کو بھی راستہ نہیں ملے گا۔ اسی لیے امریکہ کی طرف سے ایران کو خلیجی ممالک کے سامنے مسلسل ایک خطرے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
جناب لیاقت بلوچ نے بتایا کہ ایران کی درسگاہوں اور ریسرچ سینٹرز میں بہت بڑے بڑے اسکالر کام کررہے ہیں۔ وہاں وسط ایشیا کے محققین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ایرانی نوجوانوں میں قرآن فہمی کا ذوق و شعور پیدا کرنے کے لیے قرآنی تعلیمات کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ بڑی تعداد میں حفاظِ قرآن تیار کیے جارہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے محبت کو انہوں نے اپنے ایمان کا حصہ بنا لیا ہے اور سیرتِ نبوی کی تعلیم کو عام کیا جارہا ہے۔ ثقافتی یا مذہبی رجحان کی وجہ سے ایران میں قرآن تجوید و حسن قرات کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔ربیع الاول کا عشرہ ذوق و شوق سے منایا جاتا ہے۔ نوجوانوں میں تعلیم اور تحقیق کا ذوق پیدا کردیا گیا ہے۔ ایرانی جس طرح ان ذرائع کو اپنے قومی مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں وہ قابلِ تحسین ہے۔ قم میں جہاں بڑے بڑے علما موجودہیں، وہاں اسلامک سافٹ وئیر تیار کرنے والا ادارہ قرآن و حدیث کی تعلیمات عام کرنے کے سلسلے میں اہم کام کررہا ہے۔ فردوسی یونیورسٹی میں طلبہ وطالبات کی تعداد اکتیس ہزار سے زائد ہے۔ کم از کم بائیس دوسرے ممالک کے طلبہ و طالبات بھی اس یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ تہران یونیورسٹی میں بیالیس ہزار سے زائد طالب علم زیر تعلیم ہیں، جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ پوری ایرانی قوم نفیس الطبع ہے، صفائی ستھرائی کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ تمام خواتین حجاب کا استعمال کرتی ہیں، اور قومی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ طب اور ادویہ کے سلسلے میں وہاں بہت اہم تحقیق ہورہی ہے۔ ایران کی سڑکیں شاندار ہیں۔ موٹر ویز کا اچھا نیٹ ورک موجود ہے۔ ائیر لائنز مثالی ہیں، اور ٹرینوں کے اسٹیشن اور ٹرینیں بہت عمدہ ہیں۔
لیاقت بلوچ نے بتایا کہ ایرانی قیادت، اسکالرز اور عام ایرانی شہریوں سے پاکستان ایران تعلقات، اتحادِ ملّت اور اقتصادی روابط پر بات چیت ہوئی۔ کشمیر پر ایران کی پالیسی کے سلسلے میں بھی بہت مفید بات چیت ہوئی۔ ایرانیوں کی پالیسی کا محور و مرکز فلسطین اور بیت المقدس ہے۔ اس سلسلے میں ان میں بہت جوش و جذبہ موجود ہے۔ ایرانی عوام قائداعظم، اقبال اور سید قطب کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں۔ مولانا مودودی نے امام خمینی کی جدوجہد کی شاہ کے زمانے ہی میں تائید و حمایت کی تھی جس کا احساس موجودہ قیادت میں موجود ہے۔ وفد نے اہلِ سنت کے ادارے بھی دیکھے۔ حکومت نے ان کے اور فقہ جعفریہ کے لوگوں کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا۔ اہلِ سنت کو شاہ کے زمانے کے مقابلے میں زیادہ سہولتیں حاصل ہیں۔
اس وقت ایران کے داخلی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ اقتصادی ہے۔ ایران میں معاشی بحران شدت سے موجود ہے، اس کے باوجود وہاںگندم، چاول، چینی اور تیل جیسی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دیاگیا، نہ ہی ان کی فراہمی میں کسی طرح سے کمی ہوئی ہے۔ عام ضرورت کی اشیاء سب کو ملتی ہیں۔ وہاں اشیائے ضرورت پاکستان سے کم قیمت پر ہی مل رہی ہیں۔ ایرانیوں نے اپنی زندگی میں سادگی اور کفایت کو اپنا لیا ہے۔ بڑی بڑی دعوتوں میں بھی دو تین سے زائد ڈشیں نہیں ہوتیں۔
لیاقت بلوچ نے بتایا کہ وفد کے ارکان پارلیمنٹ ہائوس پہنچے تو اُس وقت وہاں اپوزیشن لیڈر مہدی بازرگان، جو وزیراعظم بھی رہے ہیں، حکومت پر برس رہے تھے کہ ان جبے عماموں والوں کی بلٹ پروف گاڑیوں تک کسی کی گولی تک نہیں پہنچ سکتی تو کسی غریب کی آواز کیسے پہنچے گی! دراصل کچھ عرصے میں ایران کے عام انتخابات ہونے والے ہیں اور وہاں اس طرح کی کشمکش موجود ہے۔ ایرانی انتخابات کی نگرانی کے لیے بزرگوں کی ایک کمیٹی ہے جو سب کچھ مانیٹر کرتی ہے۔ انتخاب میں وہی شخص حصہ لے سکتا ہے جسے یہ کمیٹی کلیئر کرتی ہے۔ یہ بظاہر غیر ضروری قدغن اس نظام کی مضبوطی کا بھی باعث ہے۔ ایران میں رہبر خامنہ ای صاحب کا مقام بہت اہم ہے۔ لیکن وہ اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ ان کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ جزل قاسم کے امریکہ کی طرف سے مارے جانے کے واقعے نے پوری قوم کو یک زبان کردیا ہے۔ اس طرح کے واقعات کو پوری قوم میں اتحاد و یک جہتی پید ا کرنے کے لیے استعمال کرلینا ایرانی قیادت خوب جانتی ہے۔ ہر چوراہے اور ہر دکان پر جزل قاسم کی تصویر نظر آتی ہے۔ ہر جگہ ’’مرگ بر امریکہ‘‘ کے پوسٹر اور بینر لگائے گئے ہیں۔ جنرل قاسم کے اہلِ خانہ سے تعزیت کے لیے ہماری ملاقات کے وقت ان کی بیٹی نے کہا کہ امریکہ نے ہمارے والد کو قتل کیا ہے، میں امریکہ سے اس کا انتقام اتحادِ ملّت کے ذریعے چاہتی ہوں۔ انہوں نے اپنے والد کی ایک خوبصورت تصویر بھی ہمیں تحفے میں دی۔ اس طرح کے واقعات کے علاوہ ایران میں مذہبی عقیدت کے مراکز کو بھی قومی یک جہتی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایران نے یہ روش اختیار کرلی ہے کہ جہاں بھی موقع ملے اسے قومی اتحاد اور جوش و جذبے کے لیے استعمال کرلیا جائے۔
جہاں تک سعودیہ اور ایران کی کشمکش کے سلسلے میں پاکستان کے رویّے کا تعلق ہے، ہم اسے دونوں برادر ملکوں کے وسائل کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ آخر ایران یمن، شام اور عراق میں کیوں ہے؟ پاکستان اور اہلِ پاکستان کا یہ نقطہ نظر ہے کہ اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی براہِ راست مسلم امہ کا نقصان ہے۔ اس حقیقت کو جس قدر جلد سمجھ لیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ عالم اسلام کی خوشیاں اور غم مشترک ہیں۔ ایران اور پاکستان کے درمیان مضبوط تعلقات دونوں ملکوں کے ہر طرح کے مسائل کا حل ہیں۔ لیکن اس راہ میں ایران اور سعودی عرب کی کشیدگی ایک پہاڑ بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ اگر سعودی عرب اور قطر کے تعلقات درست ہوسکتے ہیں تو ایران اور سعودیہ کے تعلقات کا بہتر ہوجانا بھی بڑی بات نہیں۔ اس سے پورے عالم اسلام کے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں۔ ہمارے اقتصادی مسائل کا حل بھی اسی میں ہے کہ ہم اپنا کشکول توڑ کر اسلامی بلاک کی طرف بڑھیں۔ منفی پروپیگنڈا ختم کرنے کے لیے باہمی روابط اور ابلاغ کے لیے مضبوط ذرائع تلاش کیے جانے چاہئیں۔ انھوں نے کہا کہ خفیہ ہاتھ پاکستان اور ایران کے تعلقات کو خراب کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ انڈین جاسوس کو پاکستان بہت پہلے ہی پکڑ چکا تھا لیکن اس کی گرفتاری کو اُس وقت ظاہر کیا گیا جب ایرانی صدر پاکستان کا دورہ کررہے تھے۔ ممکن ہے سعودیہ میں اپنا کنٹرول جاری رکھنے کے لیے یہ امریکن حکومت کی پالیسی ہو۔ انھوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ایران شیعہ مسلک کا ملک ہے جبکہ ہم اہلِ سنت ہیں، لیکن ہمارے بنیادی مشترکات ایک ہیں۔ باہم اختلافات کو ہوا دینا اور تفریق پیدا کرنا ہمارے فائدے میں نہیں۔ اس تقسیم سے کوئی دوسرا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اپنے رویّے درست نہ کرسکے تو دوسرے اس سے فائدہ اٹھاتے اور ہمیں نقصان پہنچاتے رہیں گے۔ ہمیں پوری ملّت کے فائدے اور بھلائی کے لیے ایک ہونا چاہیے۔ وسیع تر ملّی مفاد کو نظرانداز کرکے الگ الگ رہنے میں کسی کا فائدہ نہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکہ ایران پر کبھی حملہ نہیں کرے گا، ایک دوسرے کے خلاف جنگ کی باتیں ٹوپی ڈراما ہیں؟ لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ اس میں کچھ حقیقت نہیں ہے۔ جنرل قاسم کی ہلاکت کے جواب میں ایران نے امریکی اڈے پر جو راکٹ حملہ کیا اس میں ایک سو کے قریب امریکی زخمی یا ہلاک ہوئے ہیں۔ بہت سے ہسپتالوں میں امریکی فوجی داخل ہیں۔ یہ سب دنیا کے سامنے ہے۔ حملہ نہ ہونے کی باتیں بلاوجہ کا شک و شبہ ہے۔
سینئر صحافی ہمایوں خان کے اس سوال پر کہ امریکہ نے سعودی عرب کو ہر طرح سے دبائو میں رکھا ہوا ہے، اس صورت میں ایران سعودی تعلقات کیسے بہتر ہوسکتے ہیں؟ لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ ملکوں کی قیادت کا کام ہے کہ وہ کوئی راستہ نکالیں۔ تاہم سعودی حکمران جیسے بھی ہوں، انہیں صحیح راستے پر لایا جاسکتا ہے۔
عمر مبین قریشی کا سوال تھا کہ ایران کے تعلقات انڈیا سے زیادہ بہتر ہیں یا پاکستان سے؟ لیاقت بلوچ نے جواباً کہا کہ ایران کے انڈیا سے اقتصادی تعلقات ہیں، لیکن عسکری طور پر تو ہمیشہ ایران اور پاکستان کے تعلقات ہی رہے ہیں۔ ایران والے تو یہی کہتے ہیں کہ پاکستان کیوں ہم سے زیادہ سے زیادہ اقتصادی تعلقات قائم نہیں کرتا؟ انڈیا ایران پر امریکی پابندیوں کے باوجود وہاں بینک قائم کررہا ہے اور پاکستان سے کہیں بڑھ کر اقتصادی تعلقات بھی قائم کررہا ہے۔ پاکستان ایرانیوں کی ترجیح ہے لیکن پاکستان یہ تعلقات نہیں بنا رہا۔ تعلقات ٹھیک کرنا ہمارا اپنا کام ہے۔ ایران میں سرمایہ دار انڈین لابی کا اثر رسوخ ہے۔ یہ لیڈرشپ کا کام ہے کہ وہ ان اثرات اور لابیز کا مقابلہ کرے۔ پاکستان، ایران اور افغانستان کے تعلقات درست ہوجائیں تو اس سے خطے کے بے شمار مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
آخر میں ممتاز کالم نگار اور ظفرعلی خان ٹرسٹ کے سیکرٹری جنرل جناب رئوف طاہر نے معزز مہمان اور اپنے دورِ طالب علمی کے دوست جناب لیاقت بلوچ کا شکریہ ادا کیا، جبکہ چیئرمین مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ جناب خالد محمود نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ جناب لیاقت بلوچ نے سنجیدہ مسائل پر بہت شگفتہ انداز میں گفتگو کی ہے۔ ایرانی معاشرے میں انقلابی روح کا ایک طاقتور جذبے کے طور پر موجود ہونا ایک حقیقت ہے۔ ہمارے لیے یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ایرانیوں کی پوری توجہ قرآن پاک پر مرکوز ہوچکی ہے۔ قرآنی روح معاشرے میں سرایت کرجائے تو پھر یقیناً یہ قوم مسائل سے نکل آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید ہمارے دونوں ملکوں کی انتظامیہ دونوں قوموں کے قریب آنے کی راہ میں حائل ہے۔ اگر ملکوں کی قیادت قریب آنا چاہے تو پھر کوئی ان کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا۔ جو بھی مسائل ہمارے درمیان ہیں، دونوں ملکوں کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ مسائل کے حل کا کوئی راستہ نکال کر باہم اتفاق و اتحاد سے رہیں۔ دونوں ملک قریب آئیں، جڑ جائیں اور معاملات کو درست کریں۔ اتحاد کے اس سفر کا آغاز پاکستان سے ہونا چاہیے۔