بلوچستان ایپکس کمیٹی کا اجلاس

کورونا وائرس متاثرین میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ

بدھ 25مارچ 2020ء کو بلوچستان اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی، اور کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف کی صدارت میں ہونے والے اس اجلاس میں وزیر داخلہ بلوچستان ضیاء لانگو، جی او سی 41 ڈویژن، آئی جی ایف سی (نارتھ)، سی او ایس سدرن کمانڈ، آئی جی پولیس، چیف سیکرٹری بلوچستان، محکمہ صحت اور دوسرے محکموں کے حکام شریک ہوئے۔ اجلاس میں موجودہ صورتِ حال کے ضمن میں پیش رفت پر بریفنگ دی گئی، آئندہ کی منصوبہ بندی پر غور ہوا، صوبے بھر کی جیلوں میں قیدیوں کے ٹیسٹ کرانے اور ساتھ قانون کے مطابق پیرول اور جرمانے کی ادائیگی پر ان کی رہائی کا جائزہ بھی لیا گیا۔ صوبے کی مختلف جیلوں میں قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ اجلاس میں کوئٹہ کے ہزارہ ٹائون اور مری آباد کی آبادیوں کے اندر آمد و رفت محدود کرنے اور وہاں کے باسیوں کو ٹیسٹنگ سہولیات فراہم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ماہرینِ طب اور ڈبلیو ایچ او کے ماہرین پر مشتمل ایڈوائزری کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ صوبے کے لیے ٹیسٹنگ کٹس، تین وینٹی لیٹر، اسپرے اور طبی آلات کی خریداری کے عمل کو تیز کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اور بھی کئی فیصلے ہوئے، مختلف پہلوئوں پر سوچ بچار کی گئی۔ چناں چہ کوئٹہ کے بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں 49 وینٹی لیٹر کی ہنگامی بنیادوں پر فراہمی ہوئی، جن میں 7 آئی سی یو، 2 پورٹیبل اور 40 ڈسپوزیبل وینٹی لیٹر شامل ہیں۔
کوئٹہ کے اندر کورونا وائرس متاثرین میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ ایران سے آنے والے زائرین کے بعد اب مقامی افراد میں بھی وائرس پایا گیا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، یورپ اور دیگر ممالک سے محض بلوچستان آنے والے افراد کی تعداد سات ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح قُم کے اندر وبا پھیلنے کے بعد ساڑھے نو لاکھ افراد ایران سے مختلف ذریعوں سے پاکستان پہنچے ہیں، اور یہ تمام افراد اس وقت اپنے اپنے علاقوں میں اپنے خاندانوں میں رہائش پذیر ہیں۔ یعنی اس وبا کے پھیلنے کی زائرین کے علاوہ بڑی وجہ یہ پہلو بھی ہے، اور آئندہ اگر وائرس پھیلتا ہے تو اس کی بھی یہی وجہ ہوگی۔ جہاں تک زائرین کی بات ہے تو وہ معلوم لوگ ہیں جنہیں آئیسولیشن میں رکھا گیا ہے، اور جو وائرس سے محفوظ تھے، وہ اپنے علاقوں اور گھروں کو منتقل ہوچکے ہیں۔
صوبائی حکومت کہتی ہے کہ لاک ڈائون کے دوران ایسے آٹھ لاکھ افراد کی نشاندہی کرلی گئی ہے جو روزانہ اُجرت پر کام کرتے ہیں ۔ چناں چہ روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کو دو ارب چالیس کروڑ روپے فراہم کیے جائیں گے، اور ہر ڈویژن کے کمشنر کو ایک ایک کروڑ روپے ریلیز کیے گئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کو ایک ارب سے زائد کی رقم جاری ہوئی ہے۔ پاسکو ڈیڑھ لاکھ ٹن گندم فراہم کرے گا۔ یقیناً اس میں حسبِ ضرورت اضافہ کیا جاتا رہے گا۔
بلوچستان حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی امداد کے حصول کے لیے بھی سوچ بچار شروع کررہی ہے۔ کورونا وائرس کی سب کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ یہ کمیٹی قومی اور بین الاقوامی ڈونرز، ملکی اور غیر ملکی این جی اوز سے رابطے کرے گی اور امداد کی درخواست کرے گی۔کمیٹی کے چیئرمین سیکرٹری کھیل عمران گچکی، اور اسپیشل سیکرٹری محکمہ خزانہ رکن ہوں گے۔ اس پوری صورتِ حال میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کو فعالیت پر توجہ مرکوز رکھنی ہوگی۔ بدعنوان عناصر خواہ وہ بیوروکریسی کے ہوں یا مختلف سطح کے سرکاری اہلکار… ان کے خلاف قانون کو ہمہ وقت متحرک رہنا چاہیے،کیوں کہ کئی حوالوں سے صورتِ حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ یہ امر یقینی ہے کہ اس وبا و آزمائش کے عالم میں بھی سرکاری عمال خوردبرد سے گریز نہیں کریں گے۔ چناں چہ اچھی شہرت اور صفات کے حامل افسران کو بھاری و اہم ذمہ داریاں سونپی جائیں۔ تشہیر و نمود و نمائش کے بجائے عملی کام پر توجہ دینی چاہیے۔ جب سے زائرین تفتان آنا شروع ہوئے ہیں تب سے مختلف مدات و امور میں شفافیت نظرانداز دکھائی دی ہے۔ صوبے اور کوئٹہ کے اندر لاک ڈائون پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ وسطی شہر کے اندر اگرچہ کسی حد تک لاک ڈائون کی فضا ہے، مگر اطراف اور قرب و جوار میں آمد و رفت، کاروبارِ زندگی اور میل ملاپ بدستور جاری ہے۔ صوبے کے دیگر اضلاع کے اندر شدید بے احتیاطی اور پامالی ہورہی ہے۔ افغانستان اور ایران سے ملحق سرحدیں تو بند ہیں، مگر ایران سے غیر روایتی راستوں پر پوری طرح بندش نہیں لگائی جا سکی ہے۔ افغانستان کے ساتھ ضلع پشین کی سرحد سے آمد ورفت اب بھی ہورہی ہے۔ سرحدوں پر رقم لے کر آنے اور جانے کی اجازت دی جارہی ہے۔ کوئٹہ شہر کے اندر دوسرے صوبوں کے مزدور اور بھکاری بڑی تعداد میں شاہراہوں پر موجود رہتے ہیں۔ انہیں کہیں محدود کرنے یا اُن کے علاقوں کو بھیجنے کا فوری بندوبست ہونا چاہیے۔ کراچی سے ٹرکوں کے ذریعے بلوچستان کے لوگ کوئٹہ منتقل کیے گئے ہیں، جو بغیر ٹیسٹ یا دیگر طبی لوازمات پورے کیے اپنے اپنے علاقوں کو پہنچ گئے ہیں یا پہنچ رہے ہیں۔ ظاہر ہے قومی شاہراہوں پر رشوت لے کر انہیں چھوڑا جارہا ہے۔ مساجد کے اندر، ملک کے سرکردہ علماء کی ہدایت کے باوجود باجماعت نمازوں کی ادائیگی جاری ہے۔ یعنی علماء کی ہدایت پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ جمعہ کے اجتماعات میں مسجدیں نمازیوں سے بھری رہیں۔ چناں چہ ضروری ہے کہ بالخصوص ضلع کوئٹہ کے اندر کرفیو کا نفاذ ہو۔ اس طرح لوگ گھروں تک محدود ہوجائیں گے۔ ضرورت کے تحت فوج طلب کرنے کی بات مذکورہ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں بھی ہوئی ہے۔ خوردنی اشیاء کی ترسیل میں جمود یا تعطل سے مسائل پیدا ہوں گے۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ ریلوے اور این ایل سی سے استفادہ کیا جائے۔ لہٰذا یہ پہلو ہمہ وقت نگاہ میں رہنا چاہیے۔
سیاسی جماعتیں گھروں تک محدود ہوگئی ہیں۔ ان حالات میں ان کے کارکنوں کو اپنے علاقوں اور محلوں میں کردار نبھانے کی ضرورت ہے، تاکہ عوام کو گھروں میں محدود رکھا جائے اور انہیں حالات کی حساسیت سے آگاہ کیا جائے۔اور سیاسی کارکنان حکومت کو اپنا تعاون پیش کریں، جیسے جماعت اسلامی کی پوری قیادت نچلی تنظیم تک طبی آگاہی، غذا کی فراہمی اور ہمہ وقت دوسری خدمات نبھا رہی ہے۔