سلاطینِ دہلی کے مذہبی رجحانات

پروفیسر خلیق احمد نظامی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد تھے۔ ان کے قلم سے یہ کتاب نکلی، جس کو ندوۃ المصنّفین کے روحِ رواں حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمٰن نے بڑے اہتمام سے طبع کیا تھا، اب اس کو ڈاکٹر تحسین فراقی نے مجلسِ ترقیِ ادب سے پہلے ایڈیشن کا عکس لے کر طبع کروا دیا ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی تحریر فرماتے ہیں:۔
’’پروفیسر خلیق احمد نظامی (1925ء۔ 1997ء) کا شمار برعظیم پاک و ہند کے نامور مؤرخین میں ہوتا ہے۔ وہ متعدد زبانوں (بشمول فارسی و عربی) کے ماہر تھے۔ اردو اور انگریزی میں بلاتکان لکھتے تھے، اور ان زبانوں میں ان سے کئی اعلیٰ کتابیں یادگار ہیں جن میں تاریخِ مشائخِ چشت، سرسید احمد اور علی گڑھ تحریک، شاہ ولی اللہ دہلوی کے سیاسی مکتوبات، Life and Times of Sh. Nizam-ud-din Aulia, Some Aspects of Religion and Politics in India During the 13th Century اور سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی دو اور کتابیں: تاریخی مقالات اور تاریخی خطبات بھی بلند پایہ ہیں اور قارئین کی خصوصی توجہ چاہتی ہیں۔
نظامی صاحب ایک طویل عرصے تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے وابستہ رہے۔ بعدازاں اسی یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر بھی ہوئے۔ 1975ء سے 1977ء تک مصر میں حکومتِ ہند کے سفیر بھی رہے۔ دنیائے علم میں ان کی پہچان ایک منفرد، غیر جانب دار اور نکتہ آفریں تاریخ دان کی ہے، اور ان کی یہ حیثیت بعداز وفات بھی ثابت و سالم ہے۔
پروفیسر نظامی کی پیش نظر کتاب ’’سلاطینِ دہلی کے مذہبی رجحانات‘‘ ان کی تصانیف میں گلِ سرسبد کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس فاضلانہ کتاب میں قطب الدین ایبک سے سلطان ابراہیم لودھی تک کے عرصے میں سلاطین کے مذہبی رجحانات سے اعتنا کیا گیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ خلیق نظامی کس قدر وسیع المطالعہ شخص تھے، قدیم تاریخی منابع پر کیسی اطمینان بخش نظر رکھتے تھے اور ان میں نتائج کے استخراج کی صلاحیت کس قدر غیر معمولی تھی۔
کتاب کے ابتدائی اوراق میں فاضل مصنف نے اسلامی نظام حکومت کے اساسی اصول کی نشاندہی کردی ہے، یعنی اللہ اور رسول کے احکامو اولوالامر کے لیے واجب التعظیم ہیں اور ان کی پابندی ان پر لازم۔ سلاطینِ دہلی اسلامی احکام پر بہت حد تک عامل ضرور رہے کہ مسلمان تھے، تاہم انہیں اسلام کے نمائندے قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان میں سے بعض کو اس بات کا شعور ضرور تھا کہ الملک والدین توأمان جیسا کہ محمد بن تغلق نے ایک موقع پر اس قول کو دہرایا۔ نظامی صاحب نے صدرالدین حسن نظامی کے معروف قلمی نسخے ’’تاج المآثر‘‘ سے تین شعر نقل کیے ہیں… ’’برادر بود پادشاہی ودیں‘‘ اور ظاہر کیا ہے کہ گویا یہ صاحبِ تاج المآثر کے اقوال ہیں، مگر ایسا نہیں۔ یہ شعر فردوسی کے ہیں، اور یہ امر معلوم ہے کہ برعظم کے سلاطین اور مغل بادشاہ شاہنامہ فردوسی کا بہ دقّت مطالعہ کرتے تھے اور حکمرانی کے باب میں اس سے بھی رہنمائی کے جویا رہتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ الملک والدین توأمان (ملک اور دین دو جڑواں بھائی ہیں) دراصل اردشیر بابکاں کا قول ہے۔
زیر نظر کتاب کے مطالعے سے اس بات کا بھی بھرپور احساس ہوتا ہے کہ سلاطینِ دہلی مذہباً بہت روادار تھے۔ پرسنل لا کے باب میں ہندو مسلم دونوں آزاد تھے۔ مظلوم کافر ہو یا مسلمان، انصاف پاتا تھا۔ سلاطین اس امر سے آگاہ تھے کہ الملک یبقیٰ مع الکفر ولایبقیٰ مع الظلم (بحوالہ سیاست نامۂ طوسی)۔ ایبک اور ایلتمش کو کیے گئے نصائح بڑے قابل اعتنا ہیں۔ ایک موقع پر قطب صاحب نے سلطان کو ہدایت کی تھی:۔
’’اے والیِ دہلی! تجھے چاہیے کہ غریبوں، فقیروں، مسکینوں کے ساتھ نیکی سے پیش آئے اور خلق کے ساتھ نیکی کرے، رعیت پرور ہو۔ جو بھی رعیت کے ساتھ نیکی کا برتائو کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے دشمن (بھی) اس کو دوست سمجھنے لگتے ہیں‘‘۔ (ص116)۔
اے کاش عہدِ موجود کی بھارتی اقلیتوں اور خصوصاً مظلوم مسلمانوں کے خون کے پیاسے موجودہ ’’والیِ دہلی‘‘ کو بھی اس طرح کے نصائح پر کان دھرنے کی توفیق ہوتی!۔

تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو!۔

نصائح کا یہ سلسلہ دراصل مسلم ادبی و ثقافتی آثار میں اپنی ایک پوری تاریخ رکھتا ہے۔ اس ضمن میں مولانا عبدالماجد دریابادی کی ایک مختصر تالیف ’’تحفۂ خسروی‘‘ کا مطالعہ بہت مفید ہوسکتا ہے، اور خسرو کی قران السعدین میں کیقباد (سلطان معزالدین) کو کی گئی نصیحتیں بھی بڑی قابلِ توجہ ٹھیرتی ہیں جن کا حوالہ زیر نظر کتاب کے ص196 پر دیکھا جاسکتا ہے۔ نظامی صاحب نے لکھا ہے کہ ’’خسرو نے جس بے باکی سے بادشاہ پر تنقید کی ہے وہ حیرت انگیز ہے، اس لیے کہ یہ مثنوی کیقباد کی فرمائش پر لکھی گئی تھی‘‘۔ مصنف کا کہنا ہے کہ مسلمان بادشاہوں پر سب سے سخت تنقید امام غزالیؒ کی ’’احیاء العلوم‘‘ میں ملتی ہے۔
’’سلاطینِ دہلی کے مذہبی رجحانات‘‘ نہ صرف اپنے موضوع کے حوالے سے قابلِ قدر ہے، بلکہ اِس سے اُس طویل عہد کی علمی و ثقافتی تاریخ کی طرف بھی عمدہ اشارے ملتے ہیں۔ محمد بن تغلق اور علا الدین خلجی ذات پات کے امتیازات کے سخت دشمن تھے اور صرف ذاتی قابلیت کو معیار گردانتے تھے۔ عہد ِ علائی میں بے مثال علما کی قابلِ لحاظ تعداد نظر آتی ہے۔ یہ علما اپنے اپنے فن میں طاق تھے۔ ان میں ایک مولانا شمس الدین یحییٰ بھی تھے جو شیخ نظام الدین اولیا کے ممتاز خلفا میں تھے۔ انہی کے بارے میں شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی نے کہا تھا:۔

سالت العلم من احیاک حقا
فقال العلم شمس الدین یحییٰ

(ص 229)
زیر نظر کتاب میں غوریوں کے بعد عہدِ خلجی کو موضوعِ گفتگو بنایا گیا ہے۔ اس ضمن میں جلال الدین خلجی کا ذکر بھی آتا ہے جس کے عہد میں قاری،سیدی مولا جیسے حیرت انگیز اور محیر العقول کردار سے تعارف ہوتا ہے۔ جلال الدین خلجی کا زمانہ شریعت ِحقہ سے وابستگی کا مظہر تھا، مگر اسی کے عہد میں سیدی مولا کے وحشیانہ قتل کا واقعہ رو پذیر ہوتا ہے جسے خلجی کے اقتدار کی سفید چادر پر ایک بدنما داغ کہنا چاہیے۔
کتاب میں ایسے متعدد سلاطین کا مذکور بھی ہے جو داد و دہش میں بھی بے نظیر تھے اور نماز و نوافل سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے۔ مثلاً سکندر لودھی، جس کا معمول تھا کہ نماز تہجد پڑھتا تھا اور پھر کھڑے ہوکر دست بستہ تین پارے قرأت کرتا تھا۔ اسے ادبی، علمی اور دینی مسائل سے بڑی دلچسپی تھی۔ اس کی مذہبی فکر نظامی صاحب کے خیال میں بھگتی تحریک کے خلاف ایک صدائے احتجاج کی حیثیت رکھتی ہے (ص 467)۔ اسی طرح سلاطینِ لودھی میں ابراہیم لودھی اخلاقِ حمیدہ کا مالک اور حسنِ فراست کا حامل تھا۔
’’سلاطینِ دہلی کے مذہبی رجحانات‘‘ کا مطالعہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ خلیق احمد نظامی کس قدر وسیع النظر عالم اور غیر جانب دار مؤرخ تھے۔ انہوں نے متعدد تاریخی، علمی اور متصوفانہ متون اور قلمی نسخوں کے مطالعے کے بعد اپنے نتائجِ تحقیق پیش کیے ہیں۔ انہوں نے بعض سلاطین کے بارے میں معاصر مؤرخوں کی غلط بیانیوں کو بھی ایک غیر جانب دار محقق کی طرح طشت ازبام کیا ہے، اور بعض جگہ اہم نفسیاتی اور علمی نکتے بیان کیے ہیں۔
فاضل مصنف نے یہ اہتمام بھی کیا ہے کہ جہاں جہاں فارسی منابع سے اقتباسات آئے ہیں، ان کے بہت عمدہ اور درست اردو تراجم بھی ساتھ ساتھ دیئے ہیں جس سے کتاب کی افادیت اور بڑھ گئی ہے۔
اس عہدِ نافرجام میں جب ہماری مشرقی زبانیں اور خصوصاً فارسی، لغتِ غریب بنتی جارہی ہیں، پروفیسر خلیق نظامی کا وجود ایک نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔ اب ہماری پاکستانی دانش گاہوں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ تاریخ کے اساتذہ برعظیم کے عہدِ سلاطین و مابعد کی تمدنی تاریخ کے اصل منابع یعنی فارسی (اور کسی قدر عربی وغیرہ) میں پڑھنے سے قاصر ہیں۔ وہ ایلیٹ اینڈ ڈاسن کی تعصبات پر مبنی انگریزی میں لکھی گئی تاریخوں پر فدا ہیں اور اصل مصادر کے باب میں بے علم… اور حد یہ ہے کہ انہیں اس کا ایک لمحے کے لیے بھی احساسِ زیاں نہیں۔ ایسے کم سواد استادانِ تاریخ کو پروفیسر خلیق نظامی جیسے بے مثال فضلا سے کسبِ فیض کرنا چاہیے جنہوں نے اپنی سب کتابوں بشمول کتابِ حاضر کے ضمن میں عربی، فارسی کے سیکڑوں منابع سے بھی خوبی اور صحت کے ساتھ استفادہ کیا، اور اردو اور انگریزی کے کثیر مصادر کو بھی درخورِ اعتنا سمجھا‘‘۔
پروفیسر خلیق احمد نظامی کا بیان ہے کہ اس کتاب کی ترتیب میں ہر ممکن ماخذ سے رجوع کیا گیا ہے۔ مذہبی لٹریچر بالخصوص ملفوظات و مکتوباتِ مشائخ سے پہلی بار تاریخی واقعات کی ترتیب و تہذیب کا کام لیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں سکوں، کتبات، تذکروں، دواوین وغیرہ سے بھی پوری مدد لی گئی ہے۔
کتاب سفید کاغذ پر طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔