مولوی عبدالحق کا خصوصی مطالعہ

.میر حسین علی امام نستعلیق قسم کے آدمی ہیں۔ علمی، ادبی حلقوں میں معلوماتِ عامہ کے پروگراموں کے حوالے سے معروف ہوئے، متعدد قیمتی انعامات اور اعزازات سے نوازے گئے، طلبہ اور شائقین کے لیے معلوماتِ عامہ کی کئی کتابیں مرتب کیں۔ سائنس کوئز انسائیکلوپیڈیا اور اسلامی، دینی، معلوماتی انسائیکلوپیڈیا اس حوالے سے مقبول ہیں۔ اسلامی انسائیکلوپیڈیا کا پیش لفظ حکیم محمد سعید شہیدؒ نے لکھا اور اپنے رسالے ’’نونہال‘‘ میں ’’معلومات افزا‘‘ کا کالم مرتب کرنے کی ذمہ داری دی۔
آپ کی مرتب کردہ ’’احکامِ قرآن‘‘، ’’دعوتِ قرآن‘‘، ’’عقیدت کے پھول‘‘، ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں‘‘، ’’فضائلِ سنت‘‘، بہادر یار جنگ کی پچاس ویں برسی کے موقع پر ’’نواب بہادریار جنگ تحقیقی مطالعہ‘‘ جسے بہادر یار جنگ اکادمی نے شائع کیا۔ اسی طرح سرسید احمد خان کے دو سو سالہ جشن پیدائش کی تقریبات کے موقع پر ’’سرسید احمد خان تاریخ ساز شخصیت‘‘ جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد دکن) کی سو سالہ تقریبات کے موقع پر ’’جامعہ عثمانیہ کے سو سال‘‘ جسے ’’ایوانِ اردو‘‘ نے کراچی سے شائع کیا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے 150 ویں جشنِ پیدائش کے موقع پر جو 30 اگست 2020ء سے منایا جائے گا، آپ کی علمی، تحقیقی کتاب ’’بابائے اردو مولوی عبدالحق کا خصوصی مطالعہ‘‘ بہترین تحفہ ہے۔
میر حسین علی فروغِ کتب اور کتب بینی کے حوالے سے بھی سرگرم ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے ’’میر اکادمی‘‘ جو مفتی حسام اللہ شریفی اور صاحب زادہ ذکاء العزیز کی قیادت میں فعال ہے، ’’ادارہ علم دوست‘‘ میں شبیر ابنِ عادل کے ساتھ ہیں، بہادر یار جنگ اکادمی سے گزشتہ بیس سال سے بطور ڈائریکٹر منسلک ہیں، اور اس کے زیرانتظام کتب خانے، کتابوں کی اشاعت، ان کی اعزازی تقریبات منعقد کرنے میں پروفیسر میر حامد علی اور خواجہ قطب الدین کی معاونت کرتے ہیں۔
سابق معتمد اعزازی انجمن ترقی اردو ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ’’اظہارِ خیال‘‘ میں کہا:
’’میر حسین علی امام نے ’’مولوی عبدالحق کا خصوصی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے جو کتاب ترتیب دی ہے، اس میں بڑی چھان بین کے ساتھ وہ تمام ضروری مواد شامل کیا گیا ہے جو بابائے اردو کی ذات، فکر اور کارناموں کی متعدد جہتوں کا احاطہ کررہا ہے۔ انہیں مولوی عبدالحق کی ذات سے ایک خصوصی لگائو ہے، اور ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کے لیے ان کی خدمات کی اہمیت نے اس کام کی جانب مائل کیا جسے انہوں نے پورے خلوص سے انجام دیا۔ کتاب کی ابتدا میں دو صفحات ’’بابائے اردو ایک نظر میں‘‘ کے عنوان سے ہیں، جس میں ان کی پوری زندگی کو تاریخ وار اس طرح سمیٹا ہے کہ محققین کے لیے تاریخوں کی سند حاصل کرنا آسان بنادیا ہے‘‘۔ (کتاب کے صفحہ 17 پر تاریخ ولادت کو درست کریں جوکہ 30 اگست 1870ء ہے۔)۔
اردو لغت بورڈ کے سابق مدیراعلیٰ عقیل عباس جعفری ’’اظہارِ رائے‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’میر حسین علی تحقیق کے آدمی ہیں۔ مولوی عبدالحق پر یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے، پہلا حصہ حیات، دوسرا حصہ تصانیف، اور تیسرے حصے میں مولوی صاحب کی ادبی خدمات کا مطالعہ ہے۔ ہر حصے میں مستند ادیبوں کی کتابوں اور مقالہ جات سے مضامین منتخب کیے گئے ہیں، اور مولوی صاحب پر خاصا تحقیقی مواد جمع کیا گیا ہے۔ یہ کتاب دیگر محققین کو بھی افکارِ عبدالحق پر کام کرنے کی طرف راغب کرے گی‘‘۔
’’آپ بیتی‘‘ کے عنوان سے بابائے اردو کی کہانی خود اُن کی زبانی سید معین الرحمٰن نے مدیر ’’نقوش‘‘ محمد طفیل کے اصرار پر مولوی صاحب کی تحریروں کو یکجا کرکے اس طرح مرتب کی ہے کہ بقول علامہ نیاز فتح پوری ’’وہ سچ مچ مولوی صاحب کی خودنوشت بن گئی ہے‘‘۔
ڈاکٹر معراج نیر ’’مولوی عبدالحق کا تصنیفی و تالیفی سرمایہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’مولوی عبدالحق صاحب کا باقاعدہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ 1905ء میں مولانا ظفر علی خان کی کتاب ’’جنگِ روس و جاپان‘‘ کے مقدمے سے شروع ہوا، اور اس کی آخری کڑی ’’قاموس الکتب‘‘ کا مقدمہ ہے، جو انہوں نے بسترِ مرگ پر 22 جون 1961ء کو جناح اسپتال کے کمرہ نمبر 13 میں مکمل کیا۔‘‘
ڈاکٹر اسلم فرخی اپنے مقالے ’’مولوی عبدالحق معلمِ اعظم اردو‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’عبدالحق بیسویں صدی کی عظیم المرتبت شخصیت تھے، وہ شخصیت جس نے اپنے عمل سے اپنا لوہا منوا لیا اور دنیا پر یہ ثابت کردیا کہ محنت، خلوص اور سعیِ مسلسل سے انسان امر ہوجاتا ہے۔ مولوی عبدالحق کی زندگی سراپا عمل تھی۔ انہوں نے اردو زبان و ادب کی گراں قدر خدمات انجام دیں، ان کا اسلوب منفرد اور نکھرا ہوا ہے، ان کی تحریروں نے علم کا شعور اور زندگی کا حسنِ بہار دیا۔ مولوی صاحب ایک صاحبِ طرز ادیب ہی نہیں، ذہنی آزادی کے علَم بردار اور مصلح بھی تھے، جہادِ آزادی میں بھی حصہ لیا۔ ان کا مطمح نظر ذہنی آزادی تھا اور وہ ساری زندگی اس محاذ پر لڑتے رہے۔ ذہنی آزادی کی تاریخ مولوی صاحب کے اس کارنامے کو فراموش نہیں کرسکتی۔
اردو زبان کے فروغ کے لیے مولوی صاحب کو بیک وقت دو محاذوں پر جنگ کرنا پڑی۔ پہلا محاذ غیر ملکی زبان کے تسلط اور عالمگیری کا تھا۔ غلامی میں قوموں کا ضمیر بدل جاتا ہے اور حکمران قوم کی ہر چیز محبوب ہوجاتی ہے، انگریزی زبان کی تعلیم حاصل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اس کے مقابلے میں اپنی زندگی کو حقیر بوجھ سمجھنا قومی غداری ہے۔ یہ احساس مولوی عبدالحق نے ہی پیدا کیا۔ انہوں نے اپنی زبان کی وسعت اور ہمہ گیری کا بھی ثبوت بہم پہنچایا۔ قواعد اور لغت کی طرف توجہ کی۔ علوم و فنون کی اہم کتابوں کو اردو میں منتقل کرنے کا ڈول ڈالا، اور قدیم (علمی) خزانوں کو ملک کے سامنے پیش کیا۔‘‘
262 صفحات کی اس کتاب میں پڑھنے والے کے لیے بڑا تحقیقی مواد موجود ہے۔ بابائے اردو، سرسید احمد خان، شبلی نعمانی اور مولانا الطاف حسین حالی کے تسلسل کی کڑی ہیں۔ انہوں نے سیاسی طور پر اردو کے لیے بڑی جدوجہد کی، ہندی کو سیاسی طور پر قومی زبان قرار دلوانے کی گاندھی جی کی سیاست کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
کتاب یونیورسل پبلشر کے سید نور علی نے شائع کی جو علمی حلقوں میں معروف ہیں۔ پروف ریڈنگ پر مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ فہرست عنوانات میں مضمون کے سامنے صفحہ نمبر درج کرنا بہت ضروری ہے۔ قیمت 250 روپے مناسب ہے۔