ابوسعدی
جن دنوں صلاح الدین ایوبی (1193-1169ء) صلیبیوں کے خلاف لڑ رہا تھا، ایک چور رات کو ایک صلیبی خیمے میں جا گھسا اور ایک ماں سے اس کا شیر خوار بچہ چھین کر غائب ہوگیا۔ ماں روتی پیٹتی رچرڈ شیر دل (1199-1189ء) کے پاس گئی۔ اس نے کہا کہ میں بے بس ہوں، تم صلاح الدین کے پاس جائو۔ چنانچہ وہ اسلامی خیموں سے گزر کر صلاح الدین کے پاس پہنچی۔ ایوبی نے اسے عزت سے بٹھایا، توجہ سے بات سنی اور پھر تیز رفتار سواروں سے کہا کہ جائو اور چور کو تلاش کرو۔ وہ سوار سب سے پہلے بازار میں گئے۔ انہیں معلوم ہوا کہ فلاں آدمی نے کسی ناواقف سے ایک بچہ خریدا ہے۔ یہ اس بچے کو لے کر واپس ایوبی کے پاس پہنچے۔ ماں دیکھتے ہی بچے کی طرف لپکی اور چمٹ گئی۔ ایوبی نے خریدار کو دگنی رقم دے کر وہ بچہ خرید لیا۔ اس خاتون کو گھوڑے پہ سوار کرکے بحفاظت اس کے خیمے میں پہنچا دیا۔ جب یہ کہانی رچرڈ تک پہنچی تو اس نے فوجی سرداروں سے کہا: ’’جن لوگوں کے پاس اخلاق کی یہ قوت موجود ہو، ان سے لڑنا خودکشی ہے‘‘۔
رزق کی فکر
ایک جنگلی گائے صبح سویرے صاف ستھری سبز گھاس کھانے کے لیے نکل جاتی۔ سرسبزو شاداب جزیرے میں دن بھر مزے مزے سے چرتی رہتی۔ جب خوب پیٹ بھر جاتا اور اس کا جسم توانا ہوجاتا تو پھر اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتی۔ رات کو وہ اس فکر میں مبتلا ہوجاتی کہ آج تو میں سرسبز اور خوبصورت گھاس کھا آئی ہوں، کل کیا کروں گی! ساری رات وہ اس غم میں گھلتی رہتی کہ خدا معلوم اگلے روز گھاس کھانے کو ملے یا نہ ملے۔ اگلے دن کی خوراک کی فکر جب اس کو دامن گیر ہوتی تو اس غم میں صبح تک پھر سوکھ کر کمزور ہوجاتی…
کل کی فکر میں اس کی زندگی کا بیشتر حصہ ایسے ہی گزر گیا۔ اسے یہ سمجھ نہ آئی کہ وہ کسی دن بھی تو بھوکی نہیں رہی۔ وہ اس فکر سے اپنا پیچھا نہ چھڑا سکی اور اس طرح اپنے حال کو ہمیشہ مستقبل کی فکر سے خراب اور خستہ حال بناتی رہی۔
’’گائے نما‘‘ اس انسان کو بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب خالقِ کائنات ہر روز اس کی روزی کا سامان خود مہیا کردیتا ہے تو پھر کل کی فکر میں گھلنے کی کیا ضرورت ہے!
اگر کوئی تھوڑا بہت غور کی زحمت کرے تو ہمیں پتا چل جائے گا کہ یہ گائے انسان کا نفس ہے اور سرسبز جنگل یہ دنیا ہے۔ رازق اپنی مخلوق کو ہر روز اپنے وعدے کے مطابق رزق ضرور عطا کرتا ہے، لیکن یہ کم عقل،بدفطرت اور حرص و ہوس کا مارا ہوا آدمی پھر اسی فکر میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ ہائے! کل کیا کھائوں گا۔ ارے خدا کی عطا کردہ عقل سے یہ تو سوچ کہ روزِ پیدائش سے لے کر اب تک تُو برابر کھا رہا ہے، تیرے اس رزق میں کمی نہیں آئی تو ان شاء اللہ تعالیٰ مستقبل میں بھی تیرے رزق کا وہی ضامن ہے۔ جس نے تجھے اب تک دیا ہے آئندہ بھی دے گا۔
درسِ حیات: تُوسالہا سال سے کھا رہا ہے اور تیرے رزق میںکمی نہیں آئی، پس تُو کل کی فکر کو ترک کر اور ماضی سے سبق لے۔
[حکایاتِ رومی،مولانا جلال الدین رومی،ص 188]
خاقانی شروانی
حکیم بدیل افضل الدین، خاقانی شروانی گنجہ کے مقام پر 1106ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے چچا اور مشہور طبیب مرزا کافی بن عثمانی سے حاصل کی۔ مختلف علوم و فنون میں دستگاہ حاصل کی۔ ایک روایت کے مطابق ان کی پیدائش آذربائیجان کے شہر شروان میں ہوئی، جس کے باعث خاقانی شروانی بھی کہلاتے ہیں۔ ان کی والدہ عیسائی تھیں، جو بعد میں مسلمان ہوگئیں۔ ماں کی تربیت کے باعث ان کے کلام میں عیسائی روایات اور اساطیر ملتی ہیں۔ ابتدا میں ان کا تخلص حقائقیؔ تھا، مگر شاہ خاقان منوچہر کی قدر دانی کی یادگار کے طور پر خاقانی اختیار کیا۔ خاقانی بہت پُر گو شاعر تھے۔ ایک دیوان کے علاوہ بے شمار قصائد ان کی یادگار ہیں۔ سفرِ حج سے دو مرتبہ فیض یاب ہوئے۔ دوسرے سفر میں اپنی مشہور مثنوی ”تحفۃ العراقین“ لکھی۔ علامہ اقبال نے ”ضربِ کلیم“ میں خاقانی کی توصیف کی ہے اور اسی مثنوی کے ایک شعر پر تضمین کی ہے:۔
وہ صاحبِ تحفۃ العراقین
اربابِ نظر کا قرۃ العین
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)