پروفیسر اطہر صدیقی
پہلا اہم سبق: ’’میرا نام یاد رکھیے‘‘۔
کالج میں دوسرے مہینے ہی میرے پروفیسر نے ایک سرپرائز امتحان لے ڈالا۔ میں بہت محنتی طالب علم تھا اور آسانی سے سارے سوالات حل کرلیے تھے، سوائے آخری سوال کے:
’’جو عورت آپ کے اسکول کی صفائی کرتی ہے اس کا کیا نام ہے؟‘‘
یقیناً یہ کسی قسم کا مذاق تھا۔ میں نے صفائی کرنے والی عورت کو بارہا دیکھا تھا۔ وہ لمبی تھی، کالے بالوں کے ساتھ وہ پچاس کے پیٹے میں رہی ہوگی، لیکن مجھے اس کا نام کیسے معلوم ہوتا؟ میں نے ٹیسٹ واپس دیا اور آخری سوال چھوڑ دیا۔ کلاس ختم ہونے سے پہلے ہی ایک طالب علم نے پوچھا کہ کیا آخری سوال پر بھی نمبر دیئے جائیں گے اور وہ گریڈ میں شامل ہوں گے؟
’’یقیناً‘‘ پروفسیر نے جواب دیا ’’اپنی معاشی زندگی میں آپ بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں۔ سب کی اہمیت ہے، وہ آپ کی توجہ اور خیال کے مستحق ہیں۔ اگر آپ صرف مسکرا دیں اور ’’ہیلو‘‘ کہہ دیں تو یہی کافی ہے‘‘۔
میں یہ سبق کبھی نہیں بھول سکا۔ میں نے معلوم کیا اس عورت کا نام ’’ڈورتھی‘‘ تھا۔
دوسرا اہم سبق: ’’بارش میں مدد‘‘۔
ایک رات ساڑھے گیارہ بجے ایک عمررسیدہ افریقن امریکن عورت ایلاباما ہائی وے پر سڑک کے کنارے موسلادھار بارش کا مقابلہ کررہی تھی۔ اس کی کار خراب ہوگئی تھی اور وہ بہت بے چینی سے کسی سواری کی تلاش میں تھی۔ وہ بے حد بھیگ چکی تھی اور اس نے اگلی کار کو ہاتھ کے اشارے سے روک لینا طے کیا۔ ایک سفید فام نوجوان اس کی مدد کرنے کے لیے رک گیا، جو 1960ء کے رنگ و روغن کی تفریق اور جھگڑوں کے زمانے میں ایک انہونی بات تھی۔ وہ شخص اس کو حفاظت سے اپنے ساتھ لے گیا اور ایک ٹیکسی دلانے میں اس کی مدد کی۔ گوکہ وہ بہت زیادہ جلدی میں دکھائی دیتی تھی، لیکن پھر بھی اس نے اس شخص کا پتا لکھ لیا اور شکریہ ادا کیا۔ سات دن بعد اس شخص کے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ اس کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ ایک بڑا رنگین ٹیلی ویژن سیٹ اس کے گھر پہنچایا گیا تھا۔ ایک نوٹ اس کے ساتھ نتھی تھا، جس پر لکھا تھا:
’’اُس رات ہائی وے پر میری مدد کرنے کے لیے تمہارا شکریہ۔ بارش نے نہ صرف میرے تمام کپڑے بھگو دیئے تھے، بلکہ میری روح تک کو ہلا دیا تھا۔ تب تم وہاں پہنچ گئے۔ صرف تمہاری وجہ سے میں اپنے شوہر کے بستر مرگ پر اس دنیا سے رخصت ہوجانے سے ذرا پہلے پہنچ سکی تھی۔ خدا تمہیں اس کا اجر دے۔ فقط
مخلص… مسز نیٹ کنگ کول
(نیٹ کنگ کول بیسویں صدی میں امریکہ کا بہت ہی مشہور اور نامور گلوکار تھا۔)
تیسرا اہم سبق: ’’اُن لوگوں کو ہمیشہ یاد رکھیے جو خدمت کرتے ہیں‘‘۔
عرصہ ہوا جب آئس کریم سنڈے بہت کم قیمت پر مل جاتی تھی۔ ایک دس سالہ لڑکا ایک ہوٹل کی کافی شاپ میں داخل ہوا اور ایک میز پر بیٹھ گیا۔ ایک ویٹریس نے اس کے سامنے ایک گلاس پانی کا رکھ دیا۔ اس لڑکے نے پوچھا:
’’آئس کریم سنڈے کی کیا قیمت ہے؟‘‘
’’پچاس سینٹ (پچیس روپے)‘‘ ویٹریس نے جواب دیا۔
چھوٹے لڑکے نے اپنی جیب سے ہاتھ نکال کر اپنی ریزگاری کو دیکھا اور دریافت کیا:
’’اچھا، سادہ آئس کریم کی پلیٹ کتنے کی ہوگی؟‘‘
اب کافی شاپ میں لوگ بھی خالی میز کے منتظر تھے اور ویٹریس بے صبری ہوتی جارہی تھی۔
’’پینتیس سینٹ (سترہ روپے)‘‘ اس نے روکھے پن سے جواب دیا۔
چھوٹے لڑکے نے پھر اپنی ریزگاری گنی اور کہا:
’’میں سادہ آئس کریم کھانا چاہوں گا‘‘۔
ویٹریس سادہ آئس کریم لے آئی اور بل میز پر رکھ کر وہاں سے چلی گئی۔ لڑکے نے آئس کریم ختم کی، خزانچی کو پیسے دیئے اور کافی شاپ سے باہر چلا گیا۔
جب ویٹریس واپس میز کی صفائی کرنے آئی تو اس کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو بھر آئے… یہ دیکھ کر کہ وہاں خالی پلیٹ کے پاس پانچ پینی اور پانچ سینٹ کے دو سکے (سات روپے) رکھے ہوئے تھے۔
آپ نے دیکھا… وہ لڑکا سنڈے آئس کریم نہیں کھا سکتا تھا، کیوں کہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ ویٹریس کے لیے ٹپ بھی چھوڑ سکے۔
چوتھا اہم سبق: ’’ہمارے راستے کے پتھر‘‘۔
زمانہ قدیم میں ایک بادشاہ نے سڑک پر ایک بہت بڑا پتھر رکھوا دیا اور خودروپوش ہوکر یہ دیکھنے لگا کہ کیا کوئی شخص اتنے بڑے اور بھاری پتھر کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کرے گا۔ بادشاہ کے درباری وزیر اور بڑے بڑے رئیس سوداگر آئے اور پتھر سے بچ کر اِدھر اُدھر سے گزر گئے۔ بہت سوں نے سڑک کو صاف نہ رکھنے پر بادشاہ کو ذمہ دار بھی ٹھیرایا، لیکن کسی نے بھی راستے سے پتھر کو ہٹانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
تب ایک کسان سر پر سبزیوں کا گٹھر اٹھائے اِدھر سے گزرا۔ پتھر کے پاس پہنچنے پر اپنا بوجھ سر سے اتار کر ایک طرف رکھا اور راستے سے پتھر ہٹانے کی کوشش کی۔ خاصی محنت اور دقت سے وہ آخر کار کامیاب ہوگیا۔ اپنی سبزیوں کا بوجھ اٹھانے کے بعد اس نے دیکھا کہ جہاں پتھر رکھا ہوا تھا وہاں ایک بٹوا سڑک پر پڑا ہوا ہے۔ بٹوے میں سونے کی کئی اشرفیاں تھیں اور بادشاہ کی طرف سے ایک نوٹ بھی تھا، جس پر لکھا تھا کہ یہ سونا اُس شخص کے لیے ہے جو راستے سے پتھر ہٹادے گا۔ کسان نے ایسا سبق سیکھا جو ہم میں سے بہت لوگ کبھی نہیں سمجھ پاتے۔ ہر رکاوٹ ہمیں خود کو بہتر بنانے کا موقع دیتی ہے۔
پانچواں اہم سبق: ’’وہاں دینا جہاں اس کی اہمیت ہو‘‘۔
کئی برس گزرے جب میں ایک رضاکار (والنٹیئر) کی حیثیت سے ایک اسپتال میں کام کرتا تھا تو میں ایک لڑکی سے واقف ہوا۔ اس کا نام لز تھا اور وہ ایک مہلک بیماری میں مبتلا تھی۔ ایک ہی صورت تھی اس غیر معمولی بیماری سے نمٹنے کی، کہ اسے اپنے پانچ سالہ چھوٹے بھائی کا خون چڑھایا جاسکے، جو معجزاتی طور پر اس بیماری میں مبتلا ہونے سے بچ گیا تھا، اور اس مہلک بیماری کے خلاف اور اسے ختم کرنے کے لیے اینٹی باڈیز (Antibodies) اس کے جسم میں موجود تھیں۔ ڈاکٹر نے معاملے کی نوعیت اس کے چھوٹے بھائی کو سمجھائی اور اس چھوٹے لڑکے سے پوچھا: کیا وہ اپنی بہن کو اپنا خون دینا چاہے گا؟ میں نے لمحہ بھر کے لیے اسے ہچکچاتے ہوئے دیکھا۔ ایک لمبی گہری سانس لے کر اس نے کہا:
’’جی ہاں، میں ایسا ضرور کروں گا اگر ایسا کرنے سے وہ بچ جائے‘‘۔
خون چڑھائے جانے (ٹرانسفیوژن) کے دوران لڑکا بہن کے برابر بستر پر لیٹا ہوا مسکرا رہا تھا اور ہم سب بھی مسکرا رہے تھے یہ دیکھ کر کہ لڑکی کے گالوں پر سرخی لوٹ رہی تھی۔ تب اس لڑکے کا چہرہ پیلا پڑگیا، اس کی مسکراہٹ غائب ہوگئی، اور اس نے کانپتی آواز میں پوچھا:
’’کیا میں فوراً ہی مرنا شروع ہوجائوں گا؟‘‘
چھوٹی عمر ہونے کی وجہ سے لڑکے نے ڈاکٹر کو غلط سمجھ لیا تھا، اس نے سوچا تھا کہ وہ اپنی بہن کو بچانے کے لیے اپنا تمام خون دینے جارہا تھا۔
دیکھیے… آخرکار سمجھ اور رویہ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔