عاجزی

انسان بے بس ہے۔ بے بسی یہ ہے کہ وہ انسان ہے۔ انسان اپنے آپ میں، اپنی تخلیق میں، اپنی فطرت میں، اپنی استعداد میں، اپنے اعضا و جوارح میں، اپنے قوا میں، اپنے ظاہر اور اپنے باطن میں، اپنے حاصل اور اپنی محرومی میں، اپنی خوشی اور اپنے غم میں، اپنے ارادوں اور اپنی تمنائوں میں، اپنے مشاغل اور اپنی مصروفیتوں میں، اپنے احباب و اغیار میں، غرضیکہ اپنی تمام حرکات و سکنات میں عاجز و ناتواں ہے…!
انسان کا ہونا، اُس کے نہ ہونے تک ہے۔ اُس کا حاصل، لاحاصل تک… اُس کی آرزوئیں، شکستِ آرزو تک، خوفِ آرزو تک… اُس کی توانائی و صحت، بیماری تک، اور اُس کی ساری تگ و تاز، اُس کے اپنے مرقد تک، اُس کی بلند پروازی، اُس کی واپسی تک… اُس کا ہر تخیل، عروج خیال، اُس کے زوال تک ہی ہے… اُس کی انا ایک بچے کے غبارے کی طرح پھولتی ہے اور پھر غبارہ پھٹ جاتا ہے اور وہ عاجز و بے بس ہوکر اس کھیل سے محروم ہوجاتا ہے۔ انسان علم حاصل کرتا ہے۔ خود کو دوام بخشنے کے لیے وہ لائبریریوں میں داخل ہوتا ہے… اس کے پاس گنتی کے ایام ہیں اور کتابیں ان گنت… اس کا معلوم محدود رہتا ہے اور لامعلوم لامحدود… وہ تیزی سے علوم چاٹتا ہے اور فنا اس کی زندگی کو چاٹتی ہے… اور انجامِ کار اُس کا انجام… مکمل بے بسی، مکمل عاجزی۔
انسان عروج چاہتا ہے۔ بلندی چاہتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی، اُس پر ایک اور پہاڑ رکھتا ہے۔ اُس کی چوٹی پر ایک اور پہاڑ رکھتا ہے اور پھر یہ سلسلہ چلتے چلتے اُس وقت تک آپہنچتا ہے، جب اُس کے سر کیے ہوئے سب پہاڑ، سب چوٹیاں دھڑام سے زمیں بوس ہوجاتی ہیں… وہ افسوس کرتا ہے تو اُس کے پاس افسوس کا وقت نہیں ہوتا۔ وہ سوچتا ہے اور سوچ کر عاجز ہوجاتا ہے کہ اُس نے کیا چاہا… اُس نے کیا سوچا… اُس نے کیا پایا… اُس کے ہاتھ آنے والی ہر چیز اُس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور وہ اپنے حاصل سے نکل جانے پر مجبور ہوجاتا ہے…!
وہ مکان بناتا ہے… خوب صورت، دیدہ زیب، آسائش و زیبائش والا مکان… اُس کا اپنا مکان، اُس کے حسنِ خیال کا شہکار… اُس کا مکان خوشیوں سے جگمگاتا ہے… اور پھر یہی عشرت کدہ، ماتم کدہ بننا شروع ہوتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ اُس نے کیا بنایا… اُس کا افتخار، انجام کار بے بسی میں خاموش ہوجاتا ہے۔
انسان صحت کی حفاظت کرتا ہے، خوراک کا اہتمام کرتا ہے، بڑے جتن کرتا ہے۔ وہ طویل عمر چاہتا ہے اور طویل عمر، نقصِ عمر سے دوچار ہوتی ہے… زندگی قائم بھی رہے تو بینائی قائم نہیں رہتی۔ سماعت ختم ہوجاتی ہے… اور پھر یادداشت کسی صدمے کا شکار ہوجاتی ہے… وہ زندہ رہتا ہے، زندگی کے لطف سے محروم… وہ نہ بھی مرے تو اس کے عزیز، اس کے اقربا، اس کے محبوب رخصت ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور اپنی زندگی میں خود کو اپنی نظروں میں بیگانہ سمجھنے لگتا ہے… اُس کے پاس اُس کی یادوں کا کوئی شریک نہیں رہتا، اور پھر یہ یادیں بھول جاتی ہیں… اُس کی پھیلی ہوئی کائنات سمٹ جاتی ہے۔ وہ ہجوم میں تنہا ہوجاتا ہے۔ اس کا سب غرور، عاجز و بے بس ہوجاتا ہے۔ اُس کا اپنا مکان اسے نکال باہر کردیتا ہے… اور کچھ عرصے بعد اُس کی تصویریں دیواروں اور البموں سے ہٹالی جاتی ہیں… اور کسی کو یاد نہیں رہتا کہ وہ تھا… تھا بھی کہ نہیں…!
انسان سفر کرتا ہے۔ فاصلے طے کرتا ہے۔ محدود زندگی میں لامحدود فاصلے کیسے طے ہوں! زمین و آسمان کا عظیم سلسلہ فاصلوں سے بھرا ہوا ہے۔ فاصلے ہی فاصلے ہیں، راستے ہی راستے ہیں، مسافرت ہی مسافرت ہے۔ لاکھوں میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلنے والی روشنی، یہ فاصلے کروڑوں سال میں طے نہیں کرسکتی، انسان کیسے طے کرے گا…! انسان کے پاس عاجزی اور بے بسی کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا!
(”قطرہ قطرہ قلزم“…واصف علی واصفؔ)

نیادِ مجلس اقبال

چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی

علامہ بسا اوقات غفلت اور بے عملی میں ڈوبی ہوئی اپنی قوم کو جگانے کے لیے غصے اور جلال کا مظاہرہ بھی کرتے ہیںتو اگلے لمحے یہ بتا دیتے ہیں کہ میرے کلام کی تلخی دراصل اس کڑوی دوا کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مریض کو شفا نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض اوقات کسی مہلک زہر کا مقابلہ بھی ایسے اجزا پر مشتمل دوا سے کیا جاتا ہے جو زہر کو کاٹ کر بے اثر کر دیتی ہے اور اسے تریاق کہا جاتا ہے۔