قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
صفوان بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: ”کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟“ فرمایا:۔ ”ہاں“۔ پھر پوچھا گیا:۔
”کیا مومن کنجوس ہو سکتا ہے؟“ فرمایا: ”ہاں“۔ پھر پوچھا گیا:۔
”کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟“ فرمایا: ”نہیں“۔ (مالک بیہقی)۔
سید طاہر رسول قادری
ترجمہ: ”(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو۔ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ وہ غفور و رحیم ہے۔ پلٹ آئو اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جائو، قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر کہیں سے تمہیں مدد نہ مل سکے۔ اور پیروی اختیار کرلو اپنے رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی، قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آئے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی شخص کہے ’’افسوس میری اس تقصیر پر جو میں اللہ کی جناب میں کرتا رہا۔ بلکہ میں تو الٹا مذاق اڑانے والوں میں شامل تھا‘‘۔ یا کہے ’’کاش اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہوتی تو میں بھی متقیوں میں سے ہوتا‘‘۔ یا عذاب دیکھ کر کہے ’’کاش مجھے ایک موقع اور مل جائے اور میں بھی نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہوجائوں‘‘۔ (اور اس وقت اسے یہ جواب ملے کہ) ’’کیوں نہیں، میری آیات تیرے پاس آچکی تھیں۔ پھر تُو نے انہیں جھٹلایا اور تکبر کیا، اور تُو کافروں میں سے تھا‘‘۔ (الزمر: 53 تا 59)۔
یہ خطاب تمام انسانوں سے ہے جو حاضر ہیں اور دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اُن سے بھی ہے جو مستقبل میں آنے والے ہیں۔ ان کے لیے بھی یہ آیتیں ہیں خواہ وہ کسی زمین اور علاقے کے ہوں۔ خواہ وہ کسی عمر کے ہوں اور کسی صنف سے ہوں، اور گناہوں کا کتنا ہی بار اپنے سر پر لادے ہوئے ہوں… ان سب کو عام معافی کی خوش خبری یہ آیتیں سنا رہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے تمام بندوں سے کہہ رہا ہے: اے میرے بندو… سب اللہ ہی کے بندے ہیں۔ اگر تم ہنوز کفر و شرک، الحاد اور بے دینی میں مبتلا ہو، تو اب بھی موقع ہے اسلام قبول کرلو اور اپنے رب کے مطیع و فرماں بردار بن جائو، اور اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قرآن کے بتائے ہوئے اوامرو نواہی پر کاربند ہوجائو، تمہارے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے اور تم عذابِ الٰہی سے بچ جائوگے… اور اگر مسلمان ہو اور مسلمان ہوکر خدا کی نافرمانیوں کے مرتکب ہو، اور گناہوں میں مبتلا رہے ہو تو موت کے یقینی قریب وقت سے پہلے پہلے رب غفور و رحیم سے معافی مانگ لو۔ سچے دل سے تمام گناہوں سے توبہ کرلو۔ رجوعِ الی اللہ کرلو اور اس کے احکامات و ہدایات کی پیروی کرو تو اس کی گرفت سے بچ سکتے ہو… ورحمتی وسعت کل شی… مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے (الاعراف آیت:156)۔ یعنی اللہ تعالیٰ سراسر قہر و غضب نہیں ہے، بلکہ وہ مہربان مالک، شفیق آقا ہے۔ وہ جس طریقے پر خدائی کررہا ہے اس میں اصل چیز غضب نہیں ہے، جس میں کبھی کبھی رحم و فضل کی شان نمودار ہوجاتی ہو۔ بلکہ اصل چیز رحم ہے، جس پر سارا نظامِ عالم قائم ہے، اور اس میں غضب صرف اُس وقت نمودار ہوتا ہے جب بندوں کا تمرد حد سے فزوں ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی اسی شانِ رحمت کی وجہ سے اس عام معافی کا اعلان فرما رہا ہے کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، دامنِ رحمت میں سب کے لیے جگہ ہے جو اس میں پناہ لینا چاہے۔
اسلام کے ذریعے دنیائے انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا کتنا عظیم احسان ہے کہ اس نے گنہگار ترین انسان کے لیے بھی گنجائش رکھ دی ہے کہ وہ جب چاہے اپنی زندگی کا رخ موڑ سکتا ہے اور اصلاح کی تدابیر اختیار کرکے صالح، نیکوکار بن سکتا ہے۔ غیر مسلم اسلام قبول کرکے اور اللہ کے نازل کیے ہوئے پیغام کی پیروی کرکے، اور مسلم توبہ، انابت اور عملِ صالح کرکے نجات حاصل کرسکتا ہے۔
إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٧٠﴾ وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّـهِ مَتَابًا﴿٧١﴾ (الفرقان آیت نمبر 69،70)۔
ترجمہ:”اِلاّ یہ کہ کوئی توبہ کرچکا ہو اور ایمان لاکر عملِ صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائی سے بدل دے گا، اور وہ بڑا غفور ورحیم ہے۔ جو شخص توبہ کرکے نیک عملی اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے۔“۔
یہ تمام آیتیں بشارت ہیں اُن لوگوں کے لیے جن کی زندگی پہلے طرح طرح کے جرائم مثلاً شرک، قتل، زنا، چوری، ڈکیتی اور دیگر گناہوں سے آلودہ رہی ہو۔ اب اگر وہ اپنی اصلاح پر آمادہ ہوں تو اسلام قبول کرکے، توبہ، رجوعِ الی اللہ اور عملِ صالح کے ذریعے اپنی زندگی کو بدل سکتے اور نیکوکار بن سکتے ہیں۔
یہ وہ آیتیں ہیں جو بگڑے ہوئے معاشرے کے لاکھوں انسانوں کو جامہِ انسانیت و شرافت سے ممتاز کرچکی ہیں، اور آج بھی اور آئندہ بھی انسانیت کے بلند مرتبے پر پہنچا سکتی ہیں… یہ آیتیں آدمی کو مایوس ہوکر ابلیس بننے سے بچانے والی اور قعرِ مذلت سے نکال کر شرفِ انسانیت بخشنے والی ہیں… دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اسلام اور توبہ اور عملِ صالح کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اَنِیْبُوْا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْ
معافی ملنے کی شرائط یہ ہیں کہ پلٹ آئو اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جائو۔
دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کا حکم دیا ہے ان کی تعمیل، اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے تحذیر (بچنا)۔
سوم یہ کہ کام محدود وقت کے اندر ہونا چاہیے۔ یعنی موت کے آخری لمحات سے پہلے تک، یا قیامت آجانے سے پہلے تک موت کی آخری ہچکی آگئی یا صورِ قیامت پھونک دیا گیا… تو پھر توبہ و انابت کے دروازے بند ہوجائیں گے اور اس اعلانِ عام سے فائدہ اٹھانے کا وقت ختم ہوجائے گا… اور صداقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تکذیب اور اللہ اور اس کے پیغمبروں اور اس کی ہدایات کے مقابلے میں تکبرانہ رویّے کی سزائیں بھگتنا ہی پڑیں گی۔
(52 دروسِ قرآن، انقلابی کتاب …حصہ دوئم(۔