کرونا وائرس، عالمی اسٹیج پر خُدا اور مذہب کی واپسی

آنکھوں سے نظر نہ آنے والے کورونا وائرس نے جدید مغربی تہذیب کے سارے سائنسی، تکنیکی، تہذیبی، علمی، سیاسی، معاشی اور عسکری تکبر کو ’’کلین بولڈ‘‘ کردیا ہے

مغربی دنیا کے فلسفیوں، ادیبوں، سیاست دانوں اور سائنس دانوں نے گزشتہ تین سو برسوں میں خدا اور مذہب کی تذلیل میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری نے اپنے ایک مضمون میں مغرب کی تین ممتاز ترین شخصیتوں کے اقوال کا ذکر کیا ہے۔
نٹشے نے کہا: خدا مر گیا۔
مارلو نے کہا: انسان مر گیا۔
لارنس نے کہا: انسانی تعلقات کا ادب مر گیا۔
نٹشے نے تصور کی سطح پر خدا کو مارا۔ مغرب نے فکر و عمل کے ہر دائرے میں خدا کا انکار کردیا۔ اس نے بے خدا معاشرہ تخلیق کیا۔ بے خدا سیاست کو جنم دیا۔ بے خدا معیشت کو اُبھارا۔ اس نے لامذہب تہذیب پیدا کی۔ اس نے لامذہب ثقافت کو وجود بخشا۔ لامذہب آرٹ کو فروغ دیا۔ خدا مر گیا تو انسان کا مرنا لازمی تھا۔ اس لیے کہ انسان، خدا کی وجہ سے انسان بھی ہے اور زندہ بھی ہے۔ انسان مر گیا تو انسانی تعلقات بھی انسانی تعلقات نہ رہے، بلکہ حیوانی تعلقات بن گئے۔ لیکن صرف نٹشے نے خدا کی توہین نہیں کی۔
سائنٹفک کمیونزم کے بانی کارل مارکس نے کہا کہ مذہب عوام کی افیون ہے، چنانچہ خدا کا تصور بھی ’’نشے‘‘ کا حصہ بن گیا۔ روسی انقلاب کے قائد لینن نے کہا: خدا تمہاری طرف ہے۔ کیاخدا قدامت پسند ہے؟ شیطان میری طرف ہے وہ بہت اچھا کمیونسٹ ہے۔ ایک کمیونسٹ اخبار کے مطابق روس کے عظیم رہنما جوزف اسٹالن نے فرمایا: ہم اہلِ ایمان سے نہیں لڑ رہے، ہم ملّائوں سے نہیں لڑ رہے، ہم خدا سے لڑ رہے ہیں، تاکہ ہم اس سے اہلِ ایمان کو چھین سکیں۔ جرمنی کے عظیم رہنما نے کہا کہ عیسائیت بیمار ذہنوں کی پیداوار ہے۔ اٹلی کے عظیم رہنما مسولینی نے خدا کو دھمکی دی کہ اگر تُو کہیں موجود ہے تو مجھے مار کر دکھا۔ امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی نے خدا کے ساتھ بڑی ’’رعایت‘‘ کی۔ اس نے کہا کہ امریکہ خدا کا ایجنٹ ہے اور اس کے پاس خدا جیسی صلاحیتیں ہیں۔ اس فقرے میں کینیڈی بظاہر خدا کے وجود کو تسلیم کررہا ہے مگر اس نے امریکہ کو خدائی صلاحیتوں کا حامل قرار دے کر خدا اور امریکہ کو مساوی الحیثیت بنا ڈالا۔ نائن الیون ہوا تو امریکہ کے سب سے بڑے اینکر پرسن لیری کنگ نے سی این این پر ایک پروگرام کیا۔ اس پروگرام کا بنیادی سوال یہ تھا کہ اگر خدا ہے تو پھر اس نے نائن الیون کیوں ہونے دیا؟ اسٹیفن ہاکنگ کو آئن اسٹائن کی سطح کا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ اُس نے ایک جگہ لکھا ہے کہ یہ کائنات عدم سے فطری قوانین کے تحت وجود میں آئی ہے اور اس کے خالق کی موجودگی کا کوئی امکان نہیں۔ یووال نوح حراری اس وقت مغرب کا مشہور ترین مؤرخ ہے۔ اس کی کتاب Homo Deus دنیا کی دو درجن سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ کتاب اتنی مقبول ہے کہ ہمارے بعض ٹیلی ڈراموں میں روشن خیال افراد اس کا مطالعہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یووال نوح نے Homo Daus میں صاف کہا ہے کہ انسان اور زندگی کا کوئی خالق نہیں۔ اس کے بقول سائنس اب اتنی ترقی کرگئی ہے کہ موت ایک تکنیکی مسئلہ ہے، اور انسان بہت جلد موت پر قابو پاکر اپنی زندگی کا مالک بن جائے گا۔ اس نے لکھا ہے کہ موت خدا کی وجہ سے واقع نہیں ہوتی بلکہ انسان کا دل، گردے یا جگر کام کرنا بند کردیتے ہیں، چنانچہ انسان مرجاتا ہے۔ نوح حراری نے قیاساً کہا کہ ایک سو سال میں ہم موت پر قابو پانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ مغرب کے نوبیل انعام یافتہ ادیب ولیم فاکسز نے 20 ویں صدی کے وسط میں کہا تھا کہ ایٹم بم نے ہمارے تمام روحانی مسائل ختم کردیے ہیں، اور اب مسئلہ صرف جسمانی سطح پر زندہ بچ جانے کا ہے۔ عسکری صاحب اس فقرے پر بہت ناراض ہوئے اور انہوں نے اپنے مضمون ’’زرپرستی اور شعورِ ذات‘‘ میں لکھا کہ اگر ایٹم بم کی وجہ سے ہمارے روحانی مسائل ختم ہوگئے ہیں تو پھر ذہنی آزادی کا مسئلہ بھی ختم ہوگیا ہوگا۔ عسکری صاحب نے یہ لکھنے کے بعد کہا کہ اب فاکسز صاحب بتائیں کہ ایٹم بم کے مقابلے میں جسم کو صرف جسم سے کیسے بچایا جاسکتا ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ خلا میں جانے والا پہلا خلا باز سوویت یونین کا یوری گیگرن تھا۔ وہ 1961ء میں خلا نورد بنا۔ یوری گیگرن خلا سے واپس لوٹا تو روس کے صدر نکیتا خروشیف نے کہا کہ یوری گیگرن نے خلا میں جاکر ہر طرف دیکھا مگر اسے خدا کہیں نظر نہ آیا۔ جدید مغربی تہذیب نے خدا اور مذہب کی تحقیر کو صرف اپنے آپ تک محدود نہ رکھا، آج ہندو تہذیب مغربی تہذیب کے آگے ہتھیار ڈالے ہوئے ہے، یہودیت پوری طرح مشرف بہ مغرب ہوچکی ہے۔ بدھ ازم فکری اور عملی سطح پر تقریباً میوزیم میں رکھی ہوئی چیز بن چکا ہے۔ موجودہ پوپ یورپ کی نئی نسلوں کو روحانی اور مذہبی معنوں میں گمشدہ نسلیں قرار دے چکے ہیں۔ روئے زمین پر صرف اسلام اور اسلامی تہذیب جدید مغربی تہذیب کی مزاحمت کررہے ہیں، مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا بھی یہ حال ہے کہ ان کی زندگی میں خدا صرف ایک تصور بن چکا ہے، اور ان کی زندگیوں میں خدا اتنا ہی موجود ہے جتنا آٹے میں نمک ہوتا ہے۔ حالانکہ ان کی زندگیوں میں خدا کو نمک میں آٹے کے برابر موجود ہونا چاہیے۔ گھبرائیے نہیں ان باتوں کا کورونا وائرس کے بعد سامنے آنے والے عالمی منظرنامے سے گہرا تعلق ہے۔ لیکن اس منظرنامے کے ذکر سے پہلے آپ سلیم احمد کی تقریباً چالیس سال پہلے لکھی گئی ایک حمد ملاحظہ کیجیے: ۔

ابھرتے سورج کی نرم کرنیں
فصیلِ شب کے حصار میں رقص کررہی ہیں
یہ رقص آغازِ زندگی ہے
اُبھرتا سورج نئے زمانے کی آگہی ہے
نیا زمانہ کہ عہدِ انکار سے گزر کر حیاتِ اثبات بن رہا ہے
خدائے گم کردہ پھر سے آفاق کی حدوں پر اُبھر رہا ہے
خدائے زندہ معاف کردے
گناہ میرے جو سب کریں گے
وہ لفظ میرے جو سب کہیں گے
وہ درد میرے جو سب سہیں گے

سلیم احمد کی اس نظم کا ایک پس منظر ہے۔ مغرب میں بعض بڑے مفکرین اور دانش وروں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ ان میں سے ایک مفکر رینے گینوں تھے۔ گینوں کے بارے میں عسکری صاحب نے لکھا ہے کہ گزشتہ چھے سو سال میں یورپ نے اتنا بڑا مفکر پیدا نہیں کیا۔ گینوں جدید مغرب کا سخت ناقد بھی ہے اور منکر بھی۔ ہمارے لیے اس کی یہی بات سب سے اہم ہے۔ اس تناظر میں سلیم احمد کو یہ محسوس ہورہا تھا کہ نئی دنیا خدا کے انکار کا دائرہ مکمل کرکے اب خدا کے اثبات کے مرحلے میں داخل ہورہی ہے، اور شاید اب ایک نیا عہد شروع ہونے والا ہے۔ سلیم احمد کی مذکورہ بالا خواہش بڑی نیک تھی، مگر اس میں خوش گمانی کا عنصر بہت زیادہ اور معروضیت کم تھی۔ سلیم احمد کو پوری طرح اندازہ نہیں تھا کہ عالمی اسٹیج پر خدا اور مذہب کی واپسی کے لیے بہت زیادہ بڑے واقعات کی ضرورت ہوگی۔ تو کیا کورونا وائرس اتنا ہی بڑا واقعہ ہے؟ نہیں۔ لیکن کورونا وائرس، اس کے خوف، اور اس کی اب تک کی تباہ کاریوں نے جو نتائج پیدا کیے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔
روس سابق سوویت یونین کا حصہ تھا اور روس میں 70 سال تک خدا اور مذہب کا جس طرح مذاق اڑایا گیا اور جس طرح خدا اور مذہب کی تحقیر کی گئی اس کا سرسری ذکر مذکورہ بالا سطور میں ہوچکا ہے۔ مگر تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ روس کے صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ خدا کے تصور کو روسی آئین کا حصہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی کو مسترد کرنے اور شادی کے روایتی تصور کو بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ (بی بی سی ڈاٹ کام۔ 3 مارچ 2020)
امریکہ کے ممتاز اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کی ویب سائٹ پر Pray and Wash کے عنوان سے پوسٹ ہونے والے مضمون میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے بڑھتے ہوئے عوامی اضطراب نے خدا پر ایمان کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔
Southernestrem یونیورسٹی کے پروفیسر کرس گرین نے اسی مضمون میں گواہی دی ہے کہ انہوں نے وبا کے دوران قدامت پسندوں ہی کو نہیں، لبرل عیسائیوں کو بھی دعا کی جادوئی قوت پر یقین کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (12 مارچ 2020ء)
امریکہ آج بھی دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ امریکہ نے دنیا میں خدا اور مذہب کے انکار کو جتنا فروغ دیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ کینیڈی نے خدا اور امریکہ کو ہم معنی ہی بنادیا تھا، مگر کورونا کی دہشت کے بعد امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خدا بڑی شدت سے یاد آیا اور انہوں نے کورونا وائرس سے نجات کے لیے دعا کرائی۔ ڈونلڈ ٹرمپ وہ آدمی ہے جس پر ڈیڑھ درجن خواتین زنا بالجبر کا الزام لگاچکی ہیں۔ امریکہ جدید مغربی تہذیب کی ترقی اور طاقت کی سب سے بڑی علامت ہے، مگر کورونا کے سامنے اس کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے گھبراہٹ میں ملیریا کی دو دوائوں کو کورونا کے توڑ کے طور پر پیش کردیا ہے۔
چین امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے۔ کمیونسٹ خدا اور مذہب کے بارے میں کیا کہتے ہیں اس کے کچھ حصے ہم نے آپ کے سامنے پیش کردیے ہیں۔ چین اتنا بڑا اسلام دشمن ملک ہے کہ اس نے لاکھوں مسلمانوں کو کئی ماہ سے محصور کیا ہوا ہے اور وہ انہیں لامذہب بنانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ مگر کورونا کی وبا کی تباہی دیکھ کر چین کے صدر شی جن پنگ خود مسلمانوں سے ملنے پہنچے۔ انہوں نے ایک مسجد کا دورہ کیا۔ انہوں نے مسلمانوں میں قرآن کے نسخے تقسیم کروائے اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ کورونا کے خاتمے کے لیے اپنے ’’خدا‘‘ سے ’’دعا‘‘ کریں۔ تو کیا مغربی تہذیب اور اس کے علَم بردار خدا اور مذہب کی طرف لوٹ رہے ہیں؟
ابھی اس سلسلے میں وثوق سے کچھ بھی کہنا دشوار ہے، البتہ ایک بات عیاں ہے، آنکھوں سے نظر نہ آنے والے کورونا وائرس نے جدید مغربی تہذیب کے سارے سائنسی، تکنیکی، تہذیبی، علمی، سیاسی، معاشی اور عسکری تکبر کو ’’کلین بولڈ‘‘ کردیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ باطل ہمیشہ سے طاقت پرست ہے۔ فرعون کی قوم پر جب کوئی آفت یا عذاب نازل ہوتا تھا فرعون فوراً حضرت موسیٰؑ سے کہتا تھا کہ آپ اپنے خدا سے آفت یا عذاب کے خاتمے کے لیے دعا کریں۔ حضرت موسیٰؑ دعا کرتے تھے اور آفت یا عذاب ختم ہوجاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی فرعون ایک بار پھر منکرِ خدا بن کر کھڑا ہوجاتا تھا۔ سیرتِ طیبہ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ کافروں اور مشرکوں کی اکثریت اُس وقت ایمان لائی جب مکہ فتح ہوگیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغربی تہذیب کے تمام علَم برداروں کے خدا پرست اور مذہب مرکز ہوجانے کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔ مگر کورونا وائرس نے اس تہذیب کو بنیادوں سے ہلادیا ہے جو موت کو ایک تکنیکی مسئلہ باور کرا رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ انسان جلد ہی موت پر قابو پاکر امر ہوجائے گا۔ کورونا وائرس نے بتایا کہ موت تو دور کی بات ہے، مغربی تہذیب کے پاس ایک چھوٹے سے وائرس پر قابو پانے کی صلاحیت بھی ابھی تک موجود نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ مغرب میں کورونا وائرس کی تباہیاں بہت بڑھیں تو مغرب میں خدا اور مذہب ایک نئے تناظر میں بڑی قوت بن کر اُبھر سکتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا جلد ختم ہوگئی تو مغرب اور اُس کے علَم بردار ایک بار پھر لاالٰہ الاانسان، اور لاالٰہ الاالمغرب کا نعرہ بلند کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ ہے کہ خدا اور مذہب کے تناظر میں کورونا وائرس کی ’’معنویت‘‘ کیا ہے؟
مذاہبِ عالم کی تاریخ شاہد ہے کہ بہت زیادہ طاقت ور باطل کو ایک معمولی قوت سے شکست دینا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مچھروں کی فوج کے ذریعے نمرود کی فوج کو شکست دی، اور صرف ایک مچھر نے نمرود کا کام تمام کیا۔ اس کی ایک جھلک ابن کثیر نے اپنی تصنیف ’’قصص الانبیاء‘‘ میں بیان کی ہے، ملاحظہ کیجیے:۔
’’حضرت زید بن اسلمؓ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نمرود بادشاہ کی طرف ایک فرشتہ بھیجا تاکہ وہ اسے ایمان باللہ کا حکم دے۔ لیکن نمرود نے فرشتے کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ فرشتے نے اُسے پھر اللہ کی طرف بلایا مگر اُس نے پھر انکار کردیا، فرشتے نے تیسری طرف دعوت دی لیکن وہ پھر بھی نہ مانا، تب فرشتے نے کہا: تُو اپنا لشکر جمع کرلے اور میں اپنا لشکر جمع کرتا ہوں۔ نمرود نے سورج کے طلوع ہوتے ہی اپنے لشکر اور جماعت کو اکٹھا کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے مچھروں کا ایک لشکر جرار بھیجا کہ سورج نظر ہی نہ آتا تھا، اور اسے ان کافروں پر مسلط کردیا۔ مچھروں کی اس فوج نے ان کے گوشت کاٹ کھائے اور خون پی ڈالے۔ کل جو اپنی خدائی اور بزرگی کے دعویدار تھے آج ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آرہے تھے۔ ایک مچھر مغرور بادشاہ کی ناک میں گھس گیا اور چارسو سال تک اسے اذیت سے دوچار کیے رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دشمن کو حقیر سی مخلوق مچھر کے ذریعے عذاب دیا۔ ان چار سو برسوں میں لوہے کی سلاخوں کے ساتھ اس کے سر پر ٹھوکریں لگتی رہیں، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کردیا‘‘۔
(قصص الانبیاء۔ ابن کثیر۔ صفحہ 165)
قرآن مجید فرقانِ حمید کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کے لشکر کو پرندوں کے ایک جھنڈ سے کنکریاں مروا کر بھس میں تبدیل کردیا۔ غزوۂ بدر میں 313کے جنگی ساز و سامان سے محروم ایک لشکر نے ایک ہزار کے کیل کانٹے سے لیس لشکر کو منہ کے بل گرادیا۔ ہم نے 20 ویں صدی میں دیکھا کہ افغانستان میں مٹھی بھر مجاہدین نے معمولی اسلحہ سے وقت کی سپر پاور سوویت یونین کو شکست دے دی۔ ہم نے 21 ویں صدی میں دیکھا کہ مجاہدین کی معمولی سی قوت نے وقت کی واحد سپر پاور امریکہ کو بدترین ہزیمت سے دوچار کردیا۔ اب کورونا وائرس کے آگے امریکہ، یورپ، چین اور روس لرز رہے ہیں۔ بلاشبہ ابھی کورونا نے مغربی تہذیب کی خدائی کو شکست نہیں دی، مگر اس نے مغربی تہذیب کے سرپر موجود خدائی کے تاج کو گرادیا ہے۔ یہ کیسا عجیب منظر ہے کہ ایک وائرس ڈائناسار نظر آرہا ہے اور خدائی کی دعویدار مغربی تہذیب کا ڈائنا سار ایک وائرس کے سامنے چیونٹی دکھائی دے رہا ہے۔ مغرب نے خدا اور مذہب کی جو تذلیل کی ہے اس کے تناظر میں مغرب کی یہ حالت ’’معنی خیز‘‘ ہے۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعتاً عذابِ الٰہی ہے؟ اور اگر یہ عذابِ الٰہی ہے تو عذابِ الٰہی کے اصول کیا ہیں؟
اس سوال کے جواب کے سلسلے میں ہم مولانا مودودیؒ کے مضمون ’’نزولِ عذابِ الٰہی کا قانون‘‘ کی طرف چلتے ہیں۔ یہ مضمون جون 1933ء کے ترجمان القرآن میں شائع ہوا تھا۔ مولانا مودودیؒ نے اس سلسلے میں کیا فرمایا، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ مولانا لکھتے ہیں:۔
’’قرآن مجید میں جگہ جگہ ان قوموں کا ذکر آیا ہے جن پر گزشتہ زمانے میں خدا کا عذاب نازل ہوا ہے۔ ہر قوم پر نزولِ عذاب کی صورت مختلف رہی ہے۔ عاد پر کسی طرح کا عذاب اُترا۔ ثمود پر کسی اور طرح کا۔ اہلِ مدین پر کسی دوسری صورت میں۔ آلِ فرعون پر ایک نئے انداز میں۔ مگر عذاب کی شکلیں اور صورتیں خواہ کتنی ہی مختلف ہوں، وہ قانون جس کے تحت یہ عذاب نازل ہوا کرتا ہے، ایک ہی ہے اور ہرگز بدلنے والا نہیں۔
(سورۃ احزاب:62:33)
نزولِ عذاب کے اس قانون کی تمام دفعات پوری تشریح کے ساتھ قرآن مجید میں درج کی گئی ہیں۔ اس کی پہلی دفعہ یہ ہے کہ جب کسی قوم کی خوشحالی بڑھ جاتی ہے تو وہ غلط کاری اور گمراہی کی طرف مائل ہوجاتی ہے، اور خود اس کی عملی قوتوں کا رُخ اصلاح سے فساد کی طرف پھرجایا کرتا ہے:
’’اور جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ کسی بستی کو ہلاک کریں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم (طبعی) دیتے ہیں اور وہ لوگ اس بستی میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں۔ پھر وہ بستی عذاب کے حکم کی مستحق ہوجاتی ہے، پھر ہم اس کو تباہ و برباد کرڈالتے ہیں‘‘۔ (بنی اسرائیل 16:17)۔
دوسرا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ خدا کسی قوم پر ظلم نہیں کرتا۔ بدکار قوم خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتی ہے۔ خدا کسی قوم کو نعمت دے کر اس سے کبھی نہیں چھینتا۔ ظالم قوم خود اپنی نعمت کے درپے استیصال ہوجاتی ہے اور اس کے مٹانے کی کوشش کرتی ہے۔
یہ اس لیے کہ اللہ کبھی اس نعمت کو بدلنے والا نہیں ہے جو اس نے کسی قوم کو بخشی ہو، تاوقتیکہ وہ قوم خود اپنے آپ کو نہ بدل دے۔‘‘ (سورۃ انفال8:53)۔
’’اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان پر ظلم کرتا۔ وہ تو خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ التوبہ: 70:9)۔
پھر یہ بھی اسی قانون کی ایک دفعہ ہے کہ خدا ظلم (بہ نفس خود) پر مواخذہ کرنے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ڈھیل دیتا ہے اور تنبیہیں کرتا رہتا ہے کہ نصیحت حاصل کریں اور سنبھل جائیں۔
’’اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کے بدلے میں پکڑتا تو روئے زمین پر کوئی متنفس باقی نہ رہتا۔ مگر وہ لوگوں کو ایک مقررہ مدت تک مہلت دیا کرتا ہے۔‘‘ (النحل 16:16)۔
’’ہم نے تم سے پہلے کی قوموں میں بھی اسی طرح پیغمبر بھیجے اور ان کو سختی اور تکلیف میں گرفتار کیا تاکہ شاید وہ ہماری طرف عاجزانہ جھکیں۔ پس جب ان پر ہماری طرف سے مصیبت آئی تو کیوں نہ وہ ہمارے آگے گڑگڑائے؟ مگر ان کے دل تو سخت ہوچکے تھے اور شیطان نے ان کی نگاہوں میں ان کے اعمال کو خوشنما بنادیا تھا۔‘‘ (سورۃ انعام 42:43)۔
اس ڈھیل کے زمانے میں اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ظالم قوموں کو خوشحالی کے نشے میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ وہ اس سے دھوکا کھا جاتی ہیں اور واقعی یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ ہم ضرور نیکوکار ہیں ورنہ ہم پر نعمتوں کی بارش کیوں ہوتی؟
’’کیا یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ہم جو مال اولاد سے ان کی امداد کیے چلے جارہے ہیں (تو اس کے معنی یہ ہیں کہ) ہم ان کو فائدہ پہنچانے میں جلدی کررہے ہیں؟ (حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے، اصلی بات جو کچھ ہے) اسے یہ نہیں سمجھتے‘‘۔
(المومنون 23:54۔55)
آخرکار جب وہ قوم کسی طرح کی تنبیہ سے بھی نہیں سنبھلتی اور ظلم کیے ہی جاتی ہے تو خدا اس کے حق میں نزولِ عذاب کا فیصلہ کردیتا ہے، اور جب اس پر عذاب کا حکم ہوجاتا ہے تو کوئی قوت اس کو نہیں بچا سکتی۔
’’یہ بستیاں (جن کے آثار تم دیکھ رہے ہو) ان کو ہم نے اس وقت تباہ کیا کہ جب انہوں نے ظلم کیا، اور ہم نے ان کے ہلاک ہونے کے لیے ایک وقت مقرر کردیا تھا۔‘‘ (الکہف 18:59)۔
’’اور جب تیرا رب ظالم بستیوں کو پکڑتا ہے تو وہ ایسی ہی بُری طرح پکڑتا ہے اور اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہوا کرتی ہے۔‘‘ (ہود 11: 102)۔
’’اور جب خدا کسی قوم کے حق میں برائی کا ارادہ کرتا ہے تو کوئی قوت اس کی شامت کو دفع کرنے والی نہیں ہوتی، اور پھر خدا کے مقابلے میں ان کا کوئی مددگار نہیں نکلتا۔‘‘ (سورۃ الرعد 13: 14)۔
یہ عذابِ الٰہی کا اٹل قانون جس طرح پچھلی قوموں پر جاری ہوتا رہا ہے اسی طرح آج بھی اس کا عمل جاری ہے۔ اور اگر بصیرت ہو تو آج آپ خود اپنی آنکھوں سے اس کے نفاذ کی کیفیت ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ مغرب کی وہ عظیم الشان قومیں جن کی دولت مندی و خوشحالی، طاقت و جبروت، شان و شوکت، عقل و ہنر کو دیکھ دیکھ کر نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں، اور جن پر انعامات کی پیہم بارشوں کے مشاہدے سے یہ دھوکا ہوتا ہے کہ شاید یہ خدا کے بڑے ہی مقبول اور چہیتے بندے اور خیر و صلاح کے مجسمے ہیں، ان کی اندرونی حالت پر ایک غائر نگاہ ڈالیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ اس عذابِ الٰہی کے قانون کی گرفت میں آچکی ہیں اور انہوں نے اپنے آپ کو خود اپنے انتخاب و اختیار سے اس دیو ظلم (ظلم بہ نفس خود) کے چنگل میں پوری طرح پھنسا دیا ہے جو تیزی کے ساتھ انہیں تباہی و ہلاکت کی طرف لیے چلا جارہا ہے۔
وہی صنعت و حرفت کی فراوانی، وہی تجارت کی گرم بازاری، وہی دہائے سیاست کی کامیابی، وہی علومِ حکمیہ و فنونِ عقلیہ کی ترقی، وہی نظامِ معاشرت کی سربفلک بلندی جس نے ان قوموں کو دنیا پر غالب کیا، اور روئے زمین پر ان کی دھاک بٹھائی، آج ایک ایسا خطرناک جال بن کر ان کو لپٹ گئی ہے جس کے ہزاروں پھندے ہیں اور ہر پھندے میں ہزاروں مصیبتیں ہیں۔ وہ اپنی عقلی تدبیروں سے جس پھندے کو کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا ہر تار کٹ کر ایک نیا پھندا بن جاتا ہے، اور رہائی کی ہر تدبیر مزید گرفتاری کا سبب ہوجاتی ہے؎۔

از سرگرہ زندگرہِ ناکشودہ را

یہاں ان تمام معاشی، سیاسی اور تمدنی مصائب کی تفصیل کا موقع نہیں ہے جن میں مغربی قومیں اس وقت گرفتار ہیں۔ بیانِ مدعا کے لیے اس تصویر کا ایک پہلو پیش کیا جاتا ہے جس سے معلوم ہوجائے گا کہ یہ قومیں کس طرح اپنے اوپر ظلم کررہی ہیں اور کس طرح اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا سامان مہیا کیے جارہی ہیں۔
اپنے معاشی، تمدنی اور سیاسی احوال کی خرابی کے اسباب تشخیص کرنے اور ان کا علاج تجویز کرنے میں اہلِ فرنگ سے عجیب عجیب غلطیاں ہورہی ہیں۔ منجملہ ان کے ایک غلطی یہ ہے کہ وہ اپنی مشکلات کا بڑا بلکہ اصلی سبب آبادی کی کثرت کو سمجھنے لگے، اور ان کو اس کا صحیح علاج یہ نظر آیا کہ افزائشِ نسل کو روکا جائے۔ معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ یہ خیال نہایت تیزی کے ساتھ مغربی ممالک میں پھیلنا شروع ہوا اور دلوں میں کچھ اس طرح بیٹھا کہ لوگ اپنی نسل کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے لگے، باَلفاظِ دیگر اپنی نسل کے سب سے بڑے دشمن بن گئے، چنانچہ ضبطِ ولادت کے نئے نئے طریقے جو پہلے کسی کے ذہن میں بھی نہ آتے تھے، عام طور پر رائج ہونے شروع ہوئے۔ اس تحریک کو ترقی دینے کے لیے نہایت وسیع پیمانے پر تبلیغ و اشاعت کی گئی۔ کتابیں، پمفلٹ، رسائل اور جرائد خاص اسی موضوع پر شائع ہونے لگے، انجمنیں اور جمعیتیں قائم ہوئیں۔ ہر عورت اور مرد کو اس کے متعلق معلومات بہم پہنچانے، اور عملی آسانیاں فراہم کرنے کا انتظام کیا گیا۔ غرض یورپ اور امریکہ کے عمرانی ’’مصلحین‘‘ نے اپنی نسلوں کے خلاف ایک زبردست جنگ چھیڑ دی اور جوشِ اصلاح میں ان کو یہ سوچنے کا ہوش بھی نہ آیا کہ آخر یہ جنگ کہاں جاکر رکے گی۔‘‘
(تفہیمات۔ مولانا مودودیؒ۔ حصہ اوّل)
مسئلہ یہ ہے کہ کورونا سے صرف خدا بیزار، منکرِ مذہب مغربی و مشرقی اقوام ہی متاثر نہیں، خود مسلم ملکوں میں بھی کورونا تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق کورونا 195 ممالک کو لپیٹ میں لے چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان تو منکرِ خدا اور منکرِ مذہب نہیں۔ سرِدست اس سلسلے میں ہم اپنی جانب سے کچھ نہیں کہنا چاہتے، چنانچہ یہاں امام غزالیؒ کی ’’احیاء العلوم‘‘ سے چند اقتباسات پیش ہیں:۔
’’اس دور کے اہلِ ایمان کے یقینِ تقلیدی کا تعلق دلوں کے بجائے زبانوں سے ہے۔ وہ بظاہر مومن ہیں، حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کی پابندی سے منحرف ہیں، اعمالِ صالحہ ترک کر بیٹھے ہیں اور شہوات و معاصی میں مشغول ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ظاہری مومن بھی اس مغالطے میں کفار کے شریک ہیں، آخرت کی زندگی پر دنیا کی زندگی کو ترجیح دینے میں وہ ان سے کسی طرح کم نہیں ہیں، تاہم ان کا معاملہ اس لیے زیادہ شدید نہیں کہ وہ اصل ایمان کی دولت سے مالامال ہیں، اور یہ دولت انہیں دائمی عقوبت سے محفوظ رکھے گی، وہ دوزخ میں جائیں گے لیکن اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر باہر آجائیں گے۔ اگرچہ وہ آخرت کے معترف ہیں، اور زبان سے اُخروی زندگی کو دنیا پر ترجیح دیتے ہیں، لیکن عملی طور پر دنیا کی طرف مائل ہیں اور اسے ترجیح دیتے ہیں۔ کامیابی کے لیے محض ایمان کافی نہیں ہے جب تک اس کے ساتھ اعمالِ صالحہ نہ ہوں۔
ایمان کے ساتھ عمل ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور میں ایسے لوگوں کے لیے بڑا بخشنے والا بھی ہوں جو توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں، پھر راہ پر قائم رہیں‘‘۔
(پ16، ر13، آیت 82)
’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔‘‘ (بخاری و مسلم)۔
قرآن کریم میں جہاں بھی مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے وہ ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ مشروط ہے، صرف ایمان کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ آج کے مسلمانوں کے اعمال پر نظر ڈالیے، کیا وہ اس معنی میں کفار کے ہم مشرب نہیں ہیں کہ جس طرح وہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں، اسی طرح یہ بھی دیتے ہیں۔ یہ لوگ دنیا پر خوش ہوتے ہیں، اس کی لذات میں غرق ہیں، موت کو پسند نہیں کرتے۔ اس لیے نہیں کہ اللہ کے احتساب کا خوف ہے، بلکہ اس لیے کہ موت سے دنیا کی لذت چھوٹ جائیں گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس مغالطے میں کافر اور مومن سب شریک ہیں۔‘‘
(احیاء العلوم۔ امام غزالیؒ۔ جلد سوم۔ صفحہ 83۔582)
جیسا کہ ظاہر ہے امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں آج سے 900 سال پہلے کے مسلمانوں کا ذکر کیا ہے۔ آج مسلمانوں کی روحانی اور اخلاقی حالت 900 سال پہلے کے مسلمان سے کہیں زیادہ خراب ہے۔
چنانچہ مسلمانوں کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار نہ ہوں۔ امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں مسلمانوں کی رہنمائی اور تنبیہ کے لیے انسانی تاریخ کے دو اہم واقعات کا ذکر کیا ہے۔ غزالیؒ لکھتے ہیں:۔
’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کے لیے مغفرت کی دعا کی تھی، لیکن ان کی دعا قبول نہیں ہوئی۔ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ السلام نے اپنی والدہ محترمہ کی قبر کی زیارت اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی اجازت چاہی تو صرف زیارت کی اجازت دی گئی، دعائے مغفرت کرنے سے روک دیا گیا۔ آپؐ نے قبر کی زیارت فرمائی اور وہاں بیٹھ کر قربت و تعلق کی وجہ سے دیر تک روئے، آپؐ پر اس قدر گریہ طاری ہوا کہ جو لوگ اُس وقت وہاں موجود تھے وہ بھی رونے لگے۔‘‘ (مسلم۔ ابوہریرہؓ)۔
(احیاء العلوم۔ ازامام غزالیؒ۔ جلد سوم۔ صفحہ 588)
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ مغربی تہذیب باطل ہے اور مسلمانوں میں اس باطل کا ہر مرض عام ہے۔ کچھ مسلمان تو سیکولر اور لبرل ہی ہوگئے ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمران مغرب کو معاذ اللہ خدا بنائے ہوئے ہیں۔ مسلم دنیا کے علماء، دانش وروں اور مذہبی طبقات کا یہ عالم ہے کہ وہ فکری اور عملی سطح پر مغرب کے باطل کی مزاحمت کا حق ادا ہی نہیں کررہے، حالانکہ باطل کی مزاحمت کے بغیر ’’شہادتِ حق‘‘ کا حق ادا ہی نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ ہے کہ شہادتِ حق کا فرض ادا نہ کرنے والے اللہ کے انعام کے مستحق ہوں گے یا اس کی سزا کے؟ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک آفت کچھ لوگوں کے لیے عذاب اور کچھ لوگوں کے لیے آزمائش ہوسکتی ہے۔ عذاب اور آزمائش کا تعین اس بات سے ہوگا کہ آفت نے متاثرین کو خدا کے قریب کیا یا خدا سے دور کیا؟ جس آفت نے اہلِ ایمان کو خدا سے دور کیا وہ عذاب ہے۔ جس آفت نے اہلِ ایمان کو خدا سے قریب کیا وہ آزمائش ہے۔ زندگی میں ایک چیز
تقدیری امر بھی ہوتی ہے۔ تقدیری امر یہ ہے کہ ابوعبیدہ بن جراحؓ ایک وبا میں شہید ہوئے۔ عطار ہمارے اکابر صوفیہ میں سے ہیں۔ وہ نیشاپور میں تھے کہ تاتاری لشکر نیشا پور کے قریب پہنچا۔ عطار نے خانقاہ میں اپنا پیالہ الٹ دیا۔ نیشا پور اچانک تاتاری لشکر کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ تاتاری لشکر دوسرے دن پھر نیشاپور پر حملے کے لیے آیا۔ عطار نے اپنی خانقاہ میں پھر پیالہ الٹ دیا۔ نیشاپور پھر تاتاری لشکر کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ تاتاری لشکر حیران و پریشان لوٹ گیا۔ تاتاری لشکر تیسرے دن پھر آیا۔ عطار نے پیالے کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر ندا آئی اب بس کرو۔ عطار کا ہاتھ رک گیا۔ تاتاری لشکر نے کچھ ہی دیر میں نیشا پور کو روند ڈالا۔ تاتاری لشکر نے ابتدائی حملے میں جن لوگوں کو شہید کیا عطار اُن میں سے ایک تھے۔