امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کا اچانک دورہ کابل
جنگی قیدیوں کی رہائی کے بارے میں طالبان، کابل حکومت کے مابین گفتگو
ایک طرف جہاں ساری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے اور یہ نامراد جرثومہ اولادِ آدم کی حیات اور اسبابِ حیات سب ہی غارت کرنے میں مصروف ہے، وہاں افغانستان سے کچھ مثبت خبریں آرہی ہیں، یا یوں کہیے کہ مایوسی و بدامنی کی طویل سرنگ کے سرے پر موہوم سی روشنی کا گمان ہوتا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے سفری پابندیوں کے باوجود امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو 23 مارچ کو اچانک کابل پہنچ گئے۔ دو دن پہلے جناب زلمے خلیل زاد بھی افغانستان آئے تھے۔
افغان امن معاہدے کے بعد امریکی فوج کی واپسی کا آغاز ہوچکا ہے، اورکورونا وائرس کی وجہ سے امریکہ انخلا میں تیزی کا خواہش مند ہے۔نیٹواعلامیے کہ مطابق افغانستان میں تعینات اس کے چار سپاہیوں کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔ امریکیوں کو ڈر ہے کہ اگر افغانستان میں یہ وبا پھوٹ پڑی تو اس سے ملک میں موجود نیٹو کی چھائونیوں اور اڈوں کو محفوظ رکھنا مشکل ہوگا، تو دوسری طرف یہ جرثومہ امریکی اقتصادیات کو گھن کی طرح چاٹ گیا ہے۔ سیانوں کے خیال میں اس وبا سے امریکی معیشت کو کم ازکم 4000 ارب ڈالر کا ٹیکہ لگ چکا ہے، جبکہ حالات کے مزید بلکہ کہیں زیادہ خراب ہونے کے امکانات خارج از امکان نہیں۔ چنانچہ خزانے پر دبائو کم کرنے کے لیے اس کمبل سے جلد از جلد جان چھڑانا اور بھی ضروری ہوگیا ہے۔
طالبان فوجی انخلا کے آغاز کو امریکہ کی جانب سے امن معاہدے پر مخلصانہ عمل درآمد قرار دے رہے ہیں، اور اسی بنا پر اُن کے ترجمان ملّا سہیل نے مکمل امن کے قیام کے لیے بین الافغان مذاکرات جلد از جلد شروع کرنے پر زور دیا ہے۔ لیکن کابل کے سیاسی بحران کی وجہ سے افغان حکومت اب تک اپنے وفد کا تعین ہی نہیں کرپائی۔ قارئین کو یقیناً علم ہوگا کہ افغان سیاست دانوں نے گزشتہ صدارتی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے افغان صدارت کا حلف اٹھالیا ہے، بلکہ جنرل عبدالرشید دوستم کی مدد سے شمالی افغانستان میں متوازی گورنروں کا تقرر بھی شروع ہوگیا ہے۔
قطر معاہدے کا اہم نکتہ جنگی قیدیوں کی رہائی ہے۔ معاہدے کے مطابق پانچ ہزار طالبان قیدیوں کا افغان فوج کے ایک ہزار سپاہیوں سے تبادلہ ہونا ہے۔ صدراشرف غنی نے شروع میں تو طالبان قیدیوں کی رہائی سے صاف صاف انکار کردیا، لیکن دوسری مدت کا حلف اٹھانے کے بعد انھوں نے ’خیرسگالی‘ کے طور پر 1500 قیدیوں کو مشروط طور پر رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی، جس کے مطابق رہائی پانے والے ہر قیدی کو یہ تحریری ضمانت دینی تھی کہ آزاد ہوکر وہ دوبارہ ہتھیار نہیں اٹھائے گا۔ طالبان نے مشروط رہائی سے انکار کردیا۔ طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھی جنگی قیدی ہیں جن کی رہائی دونوں فریق کی باہمی رضامندی سے ہورہی ہے۔ یہ لوگ مجرم نہیں کہ انھیں رہائی سے پہلے نیک چال چلن کی ضمانت دینی پڑے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا تنازع قیدیوں کی شناخت کا تھا۔ قطر مذاکرات کے دوران طالبان نے اپنے قیدیوں کی مکمل فہرست امریکی وفدکے حوالے کی تھی، جسے بطور ضمیمہ اس معاہدے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت اخلاقی جرائم میں بند کئی قیدیوں سے بھاری بھاری رشوت لے کر انھیں طالبان کے نام پر رہا کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے طالبان نے شرط لگائی ہے کہ رہائی سے پہلے ان کے نمائندے ہر قیدی کی فرداً فرداً شناخت کریں گے۔ قیدیوں کے تبادلے میں تعطل پر طالبان نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن علاقوں میں حملوں سے گریز کیا جہاں نیٹو کے اڈے ہیں، تاکہ انخلا کا سلسلہ پُرامن انداز میں جاری رہے، لیکن دوسرے علاقوں میں افغان فوج کی گوشمالی جاری رکھی۔
ادھر کچھ دنوں سے افغان فوج میں بغاوت کے آثار بھی نظر آرہے ہیں۔ حکومت اسے فوج میں چھپے طالبان ہمدردوں کی کارروائی قرار دے رہی ہے، لیکن وارداتوں کی ہیئت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اِکادُکا واقعات نہیں۔ اس سلسلے کا ایک بڑا واقعہ زابل صوبے میں پیش آیا۔ صوبائی کونسل (صوبائی اسمبلی) کے سربراہ عطا حق بایان نے 20 مارچ کو کابل میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ رات کو صوبائی دارالحکومت قلات کے فوجی اڈے میں ایک سپاہی نے محو ِخواب اپنے 24 سپاہیوں کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ بایان صاحب نے بتایا کہ فائرنگ کے بعد یہ فوجی وہاں موجود اسلحہ لے کر طالبان سے جا ملا۔ اس خبر نے عسکری حلقوں کو چونکا کر رکھ دیا، اور کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہ تھاکہ ایک سپاہی اڈے کا سارا اسلحہ تن تنہا ڈھوکر لے جاسکتا ہے۔ تفصیلی تحقیقات پر پتا چلا کہ اس واقعے میں دو فوجی اور تین پولیس والے ملوث تھے جو اس قتلِ عام کے بعد سارا اسلحہ چار ٹرکوں میں لاد کر لے گئے۔ اگلے دو دنوں کے دوران کپیسا اور بغلان صوبوں سے بھی افغان فوجیوں کے درمیان تصادم کی خبریں آئیں۔ بغلان صوبے کی پل چرخی چھائونی میں بغاوت کرنے والوں میں پشتونوں کے ساتھ تاجک سپاہی بھی شامل تھے۔ ان حملوں میں مجموعی طور پر 20 فوجی مارے گئے۔کابل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ طالبان نے افغان فوج میں اپنے حامی بھرتی کرا دیے ہیں جو موقع ملنے پر اس قسم کی کارروائی کررہے ہیں۔ لیکن پینٹاگون کے ذرائع اور غیر جانب دار مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ سے معاہدے کے بعد افغان فوج میں مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتِ حال پیدا ہورہی ہے اور بہت سے سپاہی طالبان سے اپنے معاملات ’درست‘ کرنے میں مصروف ہیں۔ قندوزکی امام صاحب چھائونی، سرائے پل، غور، غزنی، بامیان، فرح اور ہرات کی چھائونیوں سے بھی کشیدگی کی خبریں آرہی ہیں۔
ڈاکٹر اشرف غنی کا خیال ہے کہ طالبان کے ساتھ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور جنرل عبدالرشید دوستم افغان فوج میں بددلی پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ڈاکٹر اشرف غنی اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ زابل کا شب خون منظم بغاوت نہیں بلکہ چند سپاہیوں کے آپس میں جھگڑے کا شاخسانہ تھا۔ لیکن امریکیوں کو افغان فوج میں پھیلی بے چینی پر سخت تشویش ہے۔ پینٹاگون خدشہ ظاہر کررہا ہے کہ انخلا کے دوران افغان فوج میں بغاوت ان کے لیے مشکلات اور شدید خطرے کا سبب بن سکتی ہے۔ ان خطرات کے پیش نظر امریکہ بیک وقت دو سفارتی محاذوں پر کام کررہا ہے، یعنی ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ میں سیاسی مفاہمت، تاکہ کابل میں ایک مستحکم حکومت قائم ہو اور ڈاکٹر اشرف غنی پر دبائو ڈال کر جنگی قیدیوں کا غیر مشروط تبادلہ، تاکہ امن معاہدے کے مطابق بین الافغان بات چیت کا آغاز ہوسکے۔
ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے قیدیوں کی رہائی میں ٹال مٹول پر طالبان ناخوش ہیں، لیکن امریکہ جنگی قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے اپنے وعدے پر قائم نظر آرہا ہے، اور طالبان ذرائع کے مطابق زلمے خلیل زاد اس معاملے پر طالبان کے ترجمان ملّا سہیل شاہین اور طالبان کے نائب امیر ملّا عبدالغنی برادر سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ انھوں نے طالبان کو یقین دلایا ہے کہ امریکہ قطر معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرے گا۔
گزشتہ ہفتے کابل میں صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران زلمے خلیل زاد نے جنگی قیدیوں کا مسئلہ اٹھایا، جس کے بعد انھوں نے اپنے ایک انگریزی، پشتو اور فارسی ٹویٹ میں کہا کہ ’’امریکہ معاہدے کے مطابق جنگی قیدیوں کی جلد ازجلد رہائی چاہتا ہے۔ دونوں جانب سے وعدے کے برخلاف اب تک ایک قیدی بھی رہا نہیں ہوا‘‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’کورونا وائرس کے تناظر میں جلد تبادلہ اور بھی ضروری ہوگیاہے کہ یہ انسانی جانوں کا معاملہ ہے۔‘‘
باخبر ذرائع کے مطابق افغان رہنمائوں سے اپنی ملاقاتوں میں جناب خلیل زاد نے کہا کہ قیدیوں کے تبادلے اور بین الافغان مذاکرات میں تاخیر سے امن معاہدے کا مستقبل دائو پر لگ سکتا ہے۔ امریکی نمائندے نے باور کرایا کہ طالبان کا پیمانۂ صبر لبریز ہورہا ہے اور اُن کے صبر کو مزید آزمانا خطرناک ثابت ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان صدارت کا بحران اور اس کے نتیجے میں افغان امن عمل میں پیدا ہونے والا تعطل کسی کے حق میں نہیں۔ صدارت کے حوالے سے ڈاکٹر صاحبان کی چپقلش ملک کی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہے اور قیادت کو عوام اور ملک کو مقدم رکھنا چاہیے۔
امن معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات 10 مارچ کو شروع ہونے تھے لیکن قیدیوں کی رہائی میں تاخیر اور صدارتی تنازعے کی وجہ سے اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ تجزیہ نگار خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اگر جنگی قیدیوں کا مسئلہ جلد حل نہ ہوا تو طالبان کے حملوں میں شدت آسکتی ہے۔ شاید اسی دبائو کا نتیجہ ہے کہ 21 مارچ کو اشرف غنی نے جنگی قیدیوں کی رہائی کا عندیہ دیتے ہوئے طالبان کو تفصیلات طے کرنے کے لیے کابل آنے کی دعوت دے دی، جس کا خیرمقدم کرتے ہوئے طالبان نے کہا کہ وہ قیدیوں کی شناخت اور روانگی کی تفصیلات طے کرنے کے لیے بات چیت پر راضی ہیں۔ چنانچہ طالبان اور کابل حکومت کے درمیان اسکائپ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے قیدیوں کے تبادلے پر براہِ راست مذاکرات ہوئے۔ گفتگو کے فوراً بعد اپنے ایک بیان میں جناب خلیل زاد نے بتایا کہ فریقین نے قیدیوں کی رہائی اور دیگر امور پر گفتگو کی۔ جناب خلیل زاد کے مطابق دو گھنٹے جاری رہنے والی بات چیت مثبت اور خوشگوار تھی۔ اخباری ذرائع کے مطابق طالبان نے افغانستان کے چار مختلف مقامات سے کانفرنس میں شرکت کی۔ زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ قیدیوں کا تبادلہ امن معاہدے کا ایک کلیدی جزو ہونے کے علاوہ انسانی اہمیت کا معاملہ ہے جس میں تاخیر کے نتائج بہت بھیانک ہوسکتے ہیں۔ امریکی نمائندے کا کہنا تھا کہ بات چیت کے دوران طالبان اور افغان حکومت دونوں نے امن معاہدے پر عمل درآمد اور بین الافغان مذاکرات کے بارے میں اپنے عزم کا اظہار کیا۔ خلیل زاد نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ہم دو دن بعد رہائی کے انتظامات اور تفصیلات طے کرنے کے لیے دوبارہ بات چیت کریں گے۔
گفتگو کی تفصیل بتاتے ہوئے افغان قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے کہا کہ بات چیت کے دوران پُرتشدد واقعات میں کمی، مکمل جنگ بندی، بین الافغان امن مذاکرات اور قیدیوں کی رہائی کے لیے تکنیکی امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ قومی سلامتی کے لیے ڈاکٹر اشرف غنی کے مشیر حمداللہ محب نے جاوید فیصل کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ’’گفتگو کے دوران فریقین نے تشدد میں کمی، براہِ راست مذاکرات اور مکمل و جامع جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیا۔ ملاقات میں دونوں فریق نے ان اقدامات پر گفتگو کی جن کے ذریعے قیدیوں کی رہائی کا راستہ ہموار کیا جاسکے‘‘۔ حمداللہ محب نے کہا کہ بات چیت میں قطر اور امریکہ کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
دلچسپ بات کہ طالبان کے ترجمان ملّا سہیل شاہین نے ویڈیو کانفرنس کی تفصیل بتاتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ گفتگو قیدیوں کے تبادلے کے ایک نکاتی ایجنڈے تک محدود رہی، اس دوران صرف قیدیوں کے تبادلے پر بات ہوئی اور رہائی کی تفصیل کے لیے ٹیکنیکل کمیٹی بنانے پر اتفاق ہوا۔
اسی معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے پیر (23مارچ) کی صبح مائیک پومپیو اچانک کابل پہنچے۔ ان کے دورے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ افغان معاملے میں بہت سنجیدہ ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے امریکی حکام کی نقل و حرکت بہت محدود کردی گئی ہے۔ کابل آمد پر جناب پومپیو نے پہلے ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ سے الگ الگ، اور اس کے بعد دونوں لیڈروں سے ایک ساتھ ملاقات کی۔ طلوع نیوز کے مطابق مشترکہ ملاقات میں زلمے خلیل زاد بھی شریک تھے۔ گفتگو کے بعد جناب پومپیو صحافیوں سے گفتگو کیے بغیر واپس وطن روانہ ہوگئے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے بھی اس سلسلے میں کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا۔
کابل میں صدارتی ترجمان صادق صدیقی نے ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ صدر اشرف غنی اور مائیک پومپیو ملاقات میں امن معاہدے اور افغان امن عمل کے اگلے مرحلے پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے دوران افغان امن کے تناظر میں علاقائی معاملات اور افغانستان کی سیاسی اور سلامتی کی صورتِ حال بھی زیرِ غور آئی۔
کابل کے صحافتی ذرائع کاکہنا ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے ملاقات میں جناب پومپیو نے صدارت کے معاملے میں بحران کو جلد ازجلد حل کرنے پر زور دیا۔ اسی کے ساتھ انھوں اشرف غنی سے کہا کہ وہ طالبان قیدیوں کو بلا تاخیر رہا کردیں، تاکہ بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہوسکے۔ افغان وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق امریکی وزیرخارجہ نے واضح کیا کہ امریکہ مکمل فوجی انخلا سے پہلے بین الافغان مفاہمت اور مکمل داخلی امن کا خواہش مند ہے، لیکن واشنگٹن اس کے لیے غیر معینہ مدت تک انتظار نہیں کرسکتا۔ معاہدے میں طالبان سے جو توقع کی گئی ہے وہ بس یہ ضمانت ہے کہ نیٹو کے انخلا کے بعد افغان سرزمین دہشت گردی یا امریکہ کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ مکمل جنگ بندی اور افغان گروہوں میں مفاہمت امریکہ کی خواہش تو ہے لیکن معاہدے کا حصہ نہیں، اور نہ ہی فوجی انخلا کی لازمی شرط۔
وطن واپس آتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ نے قطر میں طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر سے 75منٹ ملاقات کی، جس میں جنگی قیدیوں کی رہائی اور کورونا وائرس کی بنا پر فوجی انخلا میں تیزی لانے پر گفتگو کی گئی۔ملاّ صاحب نے واپس ہوتی نیٹو سپاہ کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کے علاوہ اپنے اس وعدے کا اعادہ کیاکہ انخلا کے بعد افغان سرزمین امریکہ کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ واشنگٹن سے جاری ہونے والے ایک بیان میں مائیک پومپیو نے ڈاکٹر صاحبان کے باہمی تنازعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے افغان حکومت کے لیے امریکہ کی امدادمیں ایک ارب ڈالر کٹوتی کا مڑدہ سنادیا۔ اگلے برس مزید ایک ارب کی کمی کی جائے گی۔
کابل اور قطر میں ملاقاتوں کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ مائیک پومپیو کابل کے ڈاکٹر صاحبان کو صرف یہ باور کرانے آئے تھے کہ صدارت کا قضیہ نمٹاکر طالبان سے جلد از جلد معاملات ٹھیک کرلو، کہ امریکہ لمبے عرصے تک کابل حکومت کی چوکیداری کے لیے تیار نہیں۔ دیکھنا ہے کہ اَنا کے گنبدوں میں بند ڈاکٹر صاحبان کب معقولیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان میں دیرپا امن کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ سوا تین کروڑ افغان گزشتہ41 سال سے اپنے لہو سے غسل کررہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ خاک اور راکھ کے اس ڈھیر کو کورونا وائرس چاٹ جائے طالبان، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور کابل انتظامیہ کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔
………………………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔