کورونا وائرس کا جن کسی صورت قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہا، اور دسمبر کے آخر میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والا زکام اب ایک خوفناک عالمی وبا یا Pandemic کی صورت میں چاردانگ عالم میں پنجے گاڑ چکا ہے۔ منجمد براعظم انٹارکٹیکا کے سوا دنیا کا کوئی خطہ اس عفریت سے محفوظ نہیں۔ افریقہ میں ابھی تک صورت حال قابو میں ہے۔ اس ضمن میں منچلوں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس زرد اور سفید فام نسل کو نشانہ بنارہا ہے اور افریقی نژاد اس سے نسبتاً محفوظ نظر آرہے ہیں۔ تاہم اس منحوس وبا کے بارے میں کئی مفروضے غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ پہلے کہا جارہا تھا کہ کورونا وائرس صرف معمر افراد کے لیے مہلک ہے، اور کڑیل جوان اس کا حملہ آسانی سے برداشت کرسکتے ہیں، لیکن اٹلی میں اس وائرس سے مرنے والوں کی بڑی تعداد 18 سے 30 سال کے لوگوں کی ہے۔ بلتستان میں بھی ایک جوانِ رعنا ڈاکٹر اسامہ ریاض اس مرض میں جاں بحق ہوگئے۔ ڈاکٹر اسامہ کئی ہفتوں سے کورونا وائرس کے مریضوں کی تیمارداری اور علاج میں مصروف تھے۔
اس مرحلے پر کچھ ذکر دنیا میں کھلی چھت کی سب سے بڑی جیل یعنی غزہ کا۔ بحر روم کے کنارے صحرائے سینائی پر 32 میل لمبی اور 11 میل چوڑی پٹی کو خاردار تاروں سے گھیر کر اسرائیل نے اس کی کنجی جنرل السیسی کو دے رکھی ہے۔ اس پنجرے میں 18 لاکھ نفوس بند ہیں۔ وسط مارچ تک غزہ کورونا وائرس سے پاک تھاکہ مکمل ناکہ بندی کی بنا پر یہاں آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن گزشتہ ہفتے دو افراد جو علاج کی غرض سے پاکستان گئے ہوئے تھے، مصر کے راستے واپس آنے پر اُن کا ٹیسٹ مثبت پایا گیا۔ یہ دونوں معمر حضرات رفحہ پھاٹک پر ہی قائم عارضی قرنطینہ میں زیرعلاج ہیں۔
ساری دنیا کے ممالک اس موذی وائرس سے بچنے کی تیاری کررہے ہیں۔ ہسپتالوں میں اضافی بستر ڈالے جارہے ہیں۔ عملے کے لیے ماسک اور مریضوں کے لیے وینٹی لیٹر اور دوسرا ضروری سامان خریدا جارہا ہے۔ سینی ٹائزر اور خاص قسم کے صابن درآمد ہورہے ہیں۔ ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے نرسوں اور دوسرے عملے کو خصوصی تربیت دی جارہی ہے۔ لیکن غزہ میں ان ’’عیاشیوں‘‘ کا تصور بھی ممکن نہیں۔ آیتِ کریمہ کے ورد اور دعائوں کے سوا ان غریبوں کے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ ناکہ بندی ایسی سخت کہ سوئی کی درآمد بھی ناممکن۔ دوسری طرف اسرائیلی فوج کی جانب سے پکڑ دھکڑ بدستور جاری ہے۔ فلسطینی بستیوں میں پولیس نافرمانی کی سزا گھروں کا انہدام ہے۔ کچھ دن پہلے نجب کے علاقے میں سبزیوں کے باغ اور زیتون کے درختوں کو نذرِ آتش کردیا گیا۔ جب کسانوں نے اپنی محنت کو شعلوں کی نذر ہوتے دیکھ کر احتجاج کیا تو کفر قسیم گائوں میں ایک درجن گھر مسمارکردیے گئے۔
غلیظ اور گنجان اسرائیلی جیلوں میں وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ان عقوبت کدوں میں گنجائش سے تین گنا قیدی بند ہیں۔ ایک اندازے کے مطاق تنگ و تاریک کھولیوں میں 5000 فلسطینی ٹھنسے ہوئے ہیں۔ 18 مارچ کو چار فلسطینی قیدیوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔ اسرائیل حکام کا خیال ہے کہ تفتیش یا سادہ الفاظ میں تشدد کے دوران اسرائیلی سپاہیوں سے یہ جرثومے قیدیوں میں منتقل ہوئے۔ غزہ میں ایک بھی مکمل ہسپتال نہیں۔ دو تین چھوٹے ہسپتال اور چند کلینک ہیں جو 18 لاکھ نفوس کی طبی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ ہاں غزہ کے ڈاکٹر اور طبی عملہ ہنگامی صورتِ حال کا گہرا تجربہ رکھتے ہیں، کہ اسرائیلی بمباری یہاں روز کا معمول ہے اور جاں بلب زخمیوں کی مرہم پٹی اور اس سے زیادہ لواحقین کی دلجوئی میں ان کا جواب نہیں، کہ مہنگی دوائیں تو ایک طرف سر درد کے لیے اسپرین بھی مشکل سے دستیاب ہوتی ہے۔ سخت پابندیوں کے نتیجے میں غذائی قلت ہے اور بچوں کو کم خوراکی سے پیدا ہونے والے عارضے لاحق ہیں۔
اس پس منظر میں اہلِ غزہ حفاظتی اقدامات کے ذریعے کورونا وائرس کو اپنی ریاست سے دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اب تک باہر سے آنے والے ان دو افراد کے سوا کورونا کا کوئی اور مریض سامنے نہیں آیا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ یہاں ٹیسٹ کی سہولتیں بے حد محدود ہیں اور علامات ظاہر ہونے سے پہلے ٹیسٹ اہلِ غزہ کے لیے ایک عیاشی ہے جس کے یہ لوگ متحمل نہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارۂ صحت دنیا بھر کی حکومتوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔ اس مقصد کے لیے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے ادارے مدد بھی فراہم کررہے ہیں، لیکن دنیا نے غزہ کی طرف سے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ عرب و اسلامی دنیا کو بھی فلسطینیوں کا کوئی خیال نہیں، اور ڈر ہے کہ اگر یہاں وبا پھوٹ پڑی تو غزہ کی پوری آبادی موت کے منہ میں چلی جائے گی۔
عالمی سطح پر کورونا وائرس کا حملہ اپنے عروج پر ہے۔ اس ضمن میں ایک مثبت خبر یہ ہے کہ چین میں اس وبا پر بظاہر قابو پا لیا گیا ہے، اور اب ووہان شہر میں حالات معمول کے مطابق ہیں۔ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں سے رکاوٹیں ہٹادی گئی ہیں اور تمام دکانیں، دفاتر اور کارخانے کھول دیے گئے ہیں۔ چین کے باقی علاقوں میں بھی صورتِ حال معمول پر آگئی ہے اورکارخانون کا پہیہ پوری قوت سے گھومنے کے قریب ہے۔
گروپ 20 یا -20 Gکے سربراہ سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر گروپ کا ایک ہنگامی سربراہی اجلاس طلب کیا ہے۔ یہ خصوصی ویڈیو اجلاس 26 مارچ کو ہوگا۔ G-20 سربراہی کانفرنس اس سال نومبر میں ریاض میں ہوگی۔ کھیلوں کے شائقین کے لیے ایک مایوس خبر یہ ہے کہ 2020ء کا اولمپک ملتوی کردیا گیا۔ یہ مقابلے اس سال 24 جولائی سے ٹوکیو میں شروع ہونے تھے۔ 1896ء سے شروع ہونے والے اولمپک اس سے پہلے صرف تین بار منسوخ ہوئے ہیں۔ 1916ء کا برلن اولمپک جنگ عظیم اوّل، 1937ء کا ٹوکیو اولمپک جاپان و چین جنگ، اور 1944ء کا اٹلی اولمپک جنگِ عظیم دوم کی وجہ سے منسوخ ہوچکا ہے۔ گویا اولمپک کی سواسو سالہ تاریخ میں پہلی بار اولمپک کھیل کسی وبا کی وجہ سے ملتوی کیے جارہے ہیں۔ 1918ء سے 1920ء تک بھی دنیا کو کورونا وائرس ہی کی طرز کے ہسپانوی نزلے یا Spanish Flu کا سامنا تھا، اس کے باوجود 1920ء کے اولمپک مقابلے اینٹورپ، بیلجیم میں وقت پر منعقد ہوئے۔
دنیا بھر میں کورونا سے متاثر مریضوں کی تعداد اب 5 لاکھ کے قریب ہے، اور 18 ہزار سے زیادہ لوگ اس مرض سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ یورپ لاک ڈائون کی لپیٹ میں ہے اور سڑکیں سنسان ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں کے بستر سڑکوں تک آگئے ہیں۔ پہلے کہا جارہا تھا کہ اٹلی میں مصیبت اپنے عروج پر پہنچ چکی، کہ گزشتہ دوروز سے اموات کی تعداد میں کمی آرہی تھی، لیکن 24 مارچ کو صرف ایک دن میں 743 افراد کی ہلاکت نے امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اب وہاں مرنے والوں کی تعداد 7000 ہوگئی ہے جو چین سے بھی زیادہ ہے، جبکہ آبادی کے لحاظ سے اٹلی کا چین سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔کچھ ایسا ہی حال اسپین کا ہے جہاں صرف ایک دن میں 500 افراد ہلاک ہوگئے۔ موت کے گھاٹ اترنے والے ہسپانویوں کی مجموعی تعداد 3000 تک پہنچ گئی ہے۔ اسپین 14 مارچ سے مکمل لاک ڈائون میں ہے، اس کے باوجود یہ وبا تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ ملک کے تمام ہوٹلوں کو قرنطینہ مراکز میں تبدیل کردیا گیا ہے، اور ہسپانوی فوج کی مدد کے لیے نیٹو کے سپاہی بھی اسپین پہنچ گئے ہیں۔
برطانیہ میں گزشتہ ہفتے لاک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا۔ یہاں 24 مارچ کو 87 افراد ہلاک ہوئے، جس کے ساتھ فوت ہونے والوں کی مجموعی تعداد 422 ہوگئی۔ برطانیہ میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 9000 کے قریب ہے۔ کچھ ماہرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اگر احتیاط نہ کی گئی تو کورونا وائرس سے ڈھائی لاکھ برطانوی متاثر ہوسکتے ہیں۔
فرانس نے بڑے پیمانے پر کورونا وائرس ٹیسٹ کا اہتمام کیا، 25 ہزار افراد کے ٹیسٹ مثبت نکلے، 11 ہزار افراد ہسپتالوں میں داخل کردیے گئے، جن میں سے 3000 افراد انتہائی نگہداشت کے شعبے میں زندگی اور موت کی جنگ لڑرہے ہیں۔
ہندوستان میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد صرف 450 ہے، لیکن عالمی ادارۂ صحت کو ان اعداد و شمار پر اعتماد نہیں، ماہرین کا خیال ہے کہ وہاں بہت کم ٹیسٹ کیے گئے ہیں اس لیے صحیح صورت حال سامنے نہیں آئی۔ ہندوستان نے بھی ملک گیر لاک ڈائون شروع کردیا ہے جو تین ہفتے جاری رہے گا۔ اس وقت جب ساری دنیا کی توجہ کورونا وائرس کی طرف ہے، دِلّی سرکار اسلحہ خریدنے میں مصروف ہے۔ اس ہفتے ہندوستان نے اسرائیل سے ہلکی مشین گنیں خریدنے کا سودا کیا جس کی لاگت 12 کروڑ ڈالر ہے۔ بھارتی کمیونسٹ پارٹی کی رہنما شریمتی کویتا کرشنن نے اس فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب ملک پر کورونا وائرس کا خطرہ منڈلا رہا ہے، نریندر مودی دوائیں، ماسک، آلۂ تنفس خریدنے اور ہسپتالوں کے نظام کو بہتر بنانے کے بجائے خطیر رقم اسلحہ خریدنے پر خرچ کررہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں معاملے کی سنجیدگی اور نزاکت کا شعور ہی نہیں۔
عالمی ادارۂ صحت نے خبردار کیاہے کہ چین کے بعد امریکہ کورونا وائرس کا مرکز یا epicenter بننے والا ہے۔ اس وقت امریکہ میں 55000 مریض ہیں، جبکہ مرنے والوں کی تعداد 8 سو کے قریب ہے۔ نیویارک شہر اس وباکی لپیٹ میں ہے۔ آدھے سے زیادہ امریکہ مکمل لاک ڈائون ہے اور باقی علاقوں میں سماجی فاصلے یا Social distancing پر سختی سے عمل درآمد کروایا جارہا ہے۔
24 مارچ کو امریکہ کے مشہور ڈراما نگار اور ہم جنس تحریک کے سرگرم رہنما تیرنس مک نیلی (Terrence McNally) اس مرض سے ہلاک ہوگئے، آنجہانی کی عمر 81 برس تھی۔ CNNکے سینئر اینکر اینڈرسن کوپر ٹیسٹ کے نتائج مثبت آنے کی بنا پر قرنطینہ میں ہیں۔ اسی طرح ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما اور سابق صدارتی امیدوار محترمہ ایمی گلوبچر کے شوہر نامدار زیرعلاج ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر پال رینڈ کا ٹیسٹ مثبت ہے اور دوسرے چار سینیٹر رضاکارانہ قرنطینہ میں ہیں، جس کی وجہ سے صدر ٹرمپ کو پارلیمانی محاذ پر مشکلات کا سامنا ہے۔ ان سینیٹرز کی رخصت سے سینیٹ میں صدر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کا حجم 53 سے گھٹ کر 48 ہوگیا ہے جس کی وجہ سے انھیں قانون سازی میں مشکل پیش آرہی ہے۔ امریکی فوج کے 174 اہلکار اس وبا سے متاثر ہیں۔ دوسری طرف نیٹو اعلامیے کے مطابق افغانستان میں تعینات اس کے چار سپاہیوں کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔ اسی بنا پر امریکیوں نے افغانستان سے انخلا تیز کردیا ہے۔ انھیں ڈر ہے کہ اگر یہ وبا بڑے پیمانے پر پھوٹ پڑی تو نیٹو کی چھائونیوں اور اڈوں کو محفوظ رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔ کورونا سے امریکہ کے انتخابات بھی متاثر ہورہے ہیں اور بیس سے زیادہ ریاستوں میں پارٹی ٹکٹ کے لیے پرائمری انتخابات ملتوی کردیے گئے ہیں۔
اس وقت ایک بڑا مسئلہ دوسرے ملکوں سے آنے والے شہریوں کا ہے۔ چین نے اس وبا پر قابو پالیا تھا لیکن جب بین الاقوامی پروازیں بحال ہونے پر چینی منگل کو واپس آئے تو ان میں سے 47 کے ٹیسٹ مثبت پائے گئے۔کچھ ایسا ہی معاملہ جنوبی کوریا کا ہے، جہاں باہر سے آنے والے 100 افراد کے نتائج مثبت پائے گئے۔ بہت سے ملکوں میں لاک ڈائون کے باوجود اندرون ملک پروازیں معمول کے مطابق چل رہی ہیں جس کی وجہ سے مرض ایک شہر سے دوسرے شہر تک پھیل رہا ہے۔ امریکہ میں کورونا وائرس ٹاسک فورس نے اپنے حکم میں نیویارک شہر سے ملک کے دوسرے حصوں میں جانے والے تمام افراد سے کہا ہے کہ وہ کم ازکم پندرہ دن کے لیے قرنطینہ میں چلے جائیں۔
پاکستان اور تیسری دنیا کے ملکوں کے ساتھ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ماسک، گائون اور دوسرے سامان و آلات کی شدید قلت ہے۔ صدر ٹرمپ کی درخواست پر امریکہ کے موٹر ساز اداروں جنرل موٹرز اور فورڈ موٹرز نے آلۂ تنفس (respirator) اور Ventilators بنانے شروع کردیے ہیں۔ وبا کی وجہ سے موقع پرستوں نے فیس ماسک، Sanitizer، میڈیکل گائون اور دوسری ضروری اشیا کی ذخیرہ اندوزی کرکے مصنوعی قلت پیدا کردی ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے وبا کے دوران استعمال ہونے والی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کو وفاقی جرم قرار دے دیا ہے، جس کے تحت پولیس کو تلاشی کے لیے گوداموں سمیت رہائشی عمارات میں داخل ہونے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔
لاک ڈائون کے معیشت پر منفی اثرات سے صدر ٹرمپ بے حد پریشان نظر آتے ہیں۔ ماہرینِ اقتصادیات بے روزگاری اور کساد بازاری کے خوفناک طوفان کی پیشن گوئی کررہے ہیں۔ گزشتہ چار سال کے دوران امریکہ میں اقتصادیات کے تمام اشاریے انتہائی مثبت رہے۔ بازارِ حصص میں 10 ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہوا اور بے روزگاری کی شرح ڈھائی فیصد سے بھی نیچے آگئی۔ لیکن کورونا وائرس امریکی معیشت کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔ بازارِ حصص گر کر 17000 کی سطح پر آگیا۔ لاک ڈائون کی وجہ سے معیشت کا پہیہ جام ہے۔ صدر ٹرمپ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ بے روزگاری و کساد بازاری کورونا وائرس سے زیادہ مہلک ہے۔ نقل و حرکت پر بندش سے دوسری مشکلات جنم لے رہی ہیں، پریشان حال خودکشی کررہے ہیں، اور یہ اموات کورونا وائرس سے زائد ہوسکتی ہے۔ منگل کو پریس بریفنگ کے دوران انھوں نے ایسٹر کے موقع پر ملک کو کھول دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو غیر معینہ مدت تک بند نہیں رکھا جاسکتا، متاثرہ علاقوں میں لاک ڈائون برقرار رکھ کر باقی ملک کو جلد از جلد کھول دینا چاہیے۔
لاک ڈائون اور آمد و رفت پر پابندی سے ائرلائنز، پُرتعیش بجروں، ہوٹل، تفریحی مقامات، ریستوران، مئے کدوں، جوا خانوں اور رقص گاہوں کے ساتھ عام دکانیں بند ہیں۔ ہزاروں صنعتی ادارے ٹھپ ہوگئے ہیں۔ قیمتوں میں زبردست کمی نے امریکی تیل کی صنعت کو منجمد کردیا ہے، کہ نئی قیمتیں پیداواری لاگت سے بھی کم ہیں۔روایتی کاروبار کے ساتھ سوشل میڈیا بھی مندی کا شکار ہے اور فیس بک کا کہنا ہے کہ اشتہاروں سے اس کی آمدنی 25 فیصد کم ہوگئی ہے۔
کورونا وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے روزگاری اور مشکلات کا شکار امریکی صنعت اور عوام کے لیے صدر ٹرمپ نے 1600 ارب ڈالر کا ایک امدادی پیکج ترتیب دیا ہے، لیکن اس کی ہیئت پر ڈیموکریٹس اور سرکار کے درمیان شدیداختلافات ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی چاہتی ہے کہ:
٭سرکاری اعانت سے فائدہ اٹھانے والے ادارے چھانٹی یا تالا بندی نہ کرنے کی ضمانت دیں۔
٭ملازمین کو تنخواہ کے بغیر جبری چھٹی پر بھیجنے یا مراعات میں کٹوتی کرنے والے اداروں کو سرکاری مدد کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔
٭حکومت سے ملنے والی رقم ملکیت میں اضافے کی غرض سے حصص خریدنے کے لیے استعمال کرنے کی ممانعت ہو۔
٭بڑی کارپوریشنوں کے ساتھ چھوٹے تاجروں کو بھی امداد فراہم کی جائے۔
٭عوام کے لیے صرف ایک چیک ناکافی ہے، بحران کے خاتمے تک امریکیوں کو ہر ماہ اعانت فراہم کی جائے۔
مزے کی بات کہ صحافیوں کے سامنے باتیں کرتے ہوئے قائد حزبِ اختلاف چک شومر، اور وزیرخزانہ تاثر دیتے ہیں کہ اکثر نکات پر حکومت اور ڈیموکریٹس میں مکمل اتفاق ہے، لیکن ایک ہفتے بعد بھی یہ بل منظور نہ ہوسکا۔
امریکہ تو ایک خطیر رقم خرچ کرکے لاک ڈائون اور بندشوں کے نتیجے میں عوام کو پہنچنے والی مشکلات کا جزوی اور وقتی طور پر کسی حد تک مداوا کرسکتا ہے، لیکن غریب ممالک کے لیے ایسا کرنا بہت مشکل ہوگا۔ پاکستانی وزیراعظم بعد از کورونا صورتِ حال کا اکثر ذکر کرتے ہیں۔ توقع ہے کہ اسلام آباد اس ضمن میں ٹھوس منصوبہ بندی بھی کررہا ہوگا۔