ذرائع ابلاغ میں زبان کا غلط استعمال

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات نے گزشتہ دنوں اخبارات اور ٹی وی چینلز پر زبان کے غلط استعمال کی نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ اس پر تنقید کرتے ہوئے اصلاحِ احوال پر زور بھی دیا ہے۔
ادھر حال ہی میں ٹیلی ویژن پروگراموں کے بارے میں ہونے والے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ ٹی وی پروگراموں میں تلفظ اور ادائیگی کی غلطیوں کے علاوہ جملوں اور فقروں کی ساخت بھی زبان کے بنیادی اصولوں کے مطابق نہیں۔ جملوں کے استعمال میں درست گرامر کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا، جبکہ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اینکر پرسن اور خصوصی طور پر نیوز کاسٹرز عمومی طور پر اردو پروگراموں میں دوسری زبانوں کا بے تحاشا استعمال کررہے ہیں، حالانکہ اُن الفاظ کے اردو میں مناسب متبادلات موجود ہیں۔ سروے کے مطابق ۯ”اردو ٹاک شو کے اینکر پرسنز “اور اُن کے مہمان 30 فیصد کے قریب انگریزی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، جبکہ اردو پروگراموں میں پنجابی، سندھی، بلوچی زبانوں کے الفاظ اور محاوروں کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب زبان دان طبقہ اچھی اور درست زبان سیکھنے کے لیے اپنے شاگردوں اور بچوں کو اخبارات پڑھنے کا مشورہ دیتا تھا۔ اس طبقے کی رائے تھی کہ اچھی اردو سیکھنے کے لیے اردو اخبارات، اور درست انگریزی جاننے کے لیے انگریزی اخبارات کا مطالعہ ضروری ہے۔ اور بڑی حد تک اُن کی یہ بات درست بھی تھی کہ برصغیر کے اردو اور انگریزی اخبارات میں اردو اور انگریزی زبان کے نابغۂ روزگار لوگ موجود تھے، جو خبر کی صحت سے بھی زیادہ زبان کی درستی پر زور دیتے تھے اور کسی غلط لفظ، جملے، ترکیب، مصرعے، شعر یا استعارے کی اشاعت اُن کے نزدیک ناقابلِ معافی جرم تھا، چنانچہ اخباری صنعت میں ایسی مثالیں موجود تھیں کہ کسی غلط لفظ یا جملے کی اشاعت پر زبان سے محبت رکھنے والے ان افراد نے یہ ادارے ہی چھوڑ دیے۔ اب اس جذباتی صورتِ حال کا خاتمہ ہوئے کئی عشرے گزر چکے ہیں۔ اب نہ تو کوئی غلط زبان کے استعمال پر استعفیٰ دیتا ہے اور نہ ہی کوئی درست زبان کے استعمال پر اس قدر جذباتی ہوتا ہے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ اردو اخبارات و جرائد میں صحافت کے ماہرین تو موجود ہیں لیکن زبان کے ماہر نہیں ہیں۔ ماہرینِ صحافت کا خیال ہے کہ اُن کا کام صرف درست اور مصدقہ اطلاعات جلد از جلد عوام تک پہنچانا ہے، اور اس عمل کے دوران اگر کبھی غلط زبان استعمال ہوجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ غلط زبان کے استعمال کے باوجود بھی عوام تک اطلاعات کی فراہمی کا اہم فریضہ ادا ہوجاتا ہے۔ ان حضرات کو صحیح اور درست زبان کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن وہ اپنے پیشہ ورانہ فرض کی ادائیگی کے دوران زبان کے غلط استعمال پر ذہنی طور پر رضامند ہوگئے ہیں اور اُن کی یہ مجبوری کسی حد تک جائز بھی ہے۔ لیکن اس سے زبان کو جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے شاید اس کا انہیں مکمل احساس نہیں ہے، اور وہ اپنے فرائض کی ادائیگی اور اپنے مؤقف پر اصرار کے دوران یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ اخبارات میں شائع ہونے اور ریڈیو اور ٹی وی پر نشر ہونے والا ہر لفظ، جملہ اور ترکیب ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کے لیے سند کا درجہ رکھتی ہے۔ وہ مزید کسی تحقیق کی زحمت کیے بغیر اس غلط لفظ یا ترکیب کا اپنی بول چال اور تحریر میں بے محابا استعمال شروع کردیتے ہیں، اور کچھ عرصے بعد یہ صریحاً غلط لفظ یا ترکیب غلط العام کی انتہائی کمزور اور بودی اصطلاح کے ساتھ زبان کا حصہ بن جاتی ہے۔ اخبارات میں تو پھر یہ گنجائش موجود ہے کہ کسی کی نشاندہی پر اخبار کے اگلے ایڈیشن یا اگلے روز کی اشاعت میں غلط لفظ یا ترکیب کی اصلاح کرلی جائے، لیکن آج کے ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر یہ گنجائش سرے سے موجود ہی نہیں۔ لائیو پروگرام میں تو خواہش اور کوشش کے باوجود ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا، بلکہ ریکارڈ شدہ پروگرام میں بھی اصلاح کے لیے اتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کہ بے چارا پروڈیوسر اس بکھیڑے میں پڑنے کے بجائے غلط لفظ یا ترکیب ہی کو آن ائر کرنے میں عافیت سمجھتا ہے۔ خبروں اور ٹکرز میں بھی یہ معاملہ اسی طرح پیچیدہ اور مشکل ہے۔ جاری پروگرام یا خبروں کے دوران اینکر پرسن یا نیوز کاسٹر کے تلفظ کی اصلاح تو پورے پروگرام ہی کو خراب کرسکتی ہے، جبکہ ٹکرز یا لوئر تھرڈ (یہ ٹی وی صحافت کی ایک اصطلاح ہے جو کسی جاری خبر یا فوٹیج کے دوران اس کے نیچے جامد سرخی کی شکل میں دی جاتی ہے) کی جب تک نشاندہی اور درستی ہوتی ہے اُس وقت تک وہ خبر یا فوٹیج چلانے کی ضرورت ہی ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ یہی صورت حال ہیڈر کی ہے۔ ہیڈر کسی خبر یا فوٹیج کے چلنے کے دوران خبر یا فوٹیج کے اوپر کے حصے میں مختصر سا عنوان یا سرخی ہوتی ہے۔ اس کی بھی جب تک اصلاح اور درستی ہوتی ہے اُس وقت تک وہ خبر یا فوٹیج تازہ خبروں کی بھرمار کی وجہ سے بلیٹن ہی سے نکل چکی ہوتی ہے۔
آج اخبارات کے صفحات اور الیکٹرونک میڈیا کے خبرناموں اور پروگراموں میں اغلاط کی بھرمار ہے۔ چنانچہ اب چار پانچ عشرے پہلے کا وہ محاورہ الٹ ہورہا ہے کہ زبان سیکھنے کے لیے اخبارات کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس کے بجائے اب زبان کے ماہرین دبے لفظوں میں یہ کہنے لگے ہیں کہ جن بچوں اور شاگردوں کی زبان درست رکھنا مقصود ہو انہیں اخبارات سے دور رکھو۔ نجی محفلوں میں لوگ اخبارات میں غلط الفاظ و تراکیب کے استعمال، اور ٹیلی ویژن پروگراموں میں تلفظ اور ادائیگی کی غلطیوں کے علاوہ جملوں کی ساخت میں موجود غلطیوں پر کھلے عام تنقید کرنے لگے ہیں۔ بدقسمتی سے آج کے اردو اخبارات میں بھی انگریزی الفاظ کا استعمال معمول بنتا جارہا ہے، جبکہ دوسری زبانوں کے الفاظ اور جملوں کو بھی محض چٹخارے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اخبارات میں تجارتی اور کھیلوں کی خبروں کے صفحات اور ایڈیشن میں انگریزی اصطلاحات کا استعمال تقریباً سو فیصد ہے، اور کوئی ان کا ترجمہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا، جبکہ ان الفاظ اور تراکیب کے جو اردو تراجم موجود ہیں اُن کو بھی استعمال کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ اس طرح نہ صرف اخبارات اور چینل زبان کے بگاڑ کے عمل میں نادانستہ طور پر شریک ہیں بلکہ وہ اخبارات کے قارئین، چینل کے ناظرین اور ریڈیو کے سامعین کو اپنی قومی زبان سے عملاً دور کرتے جارہے ہیں۔ یہ صورت حال نہ صرف تشویش ناک ہے بلکہ اصلاح کی بھی متقاضی ہے۔ اخبارات و جرائد، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذمہ داران کے علاوہ عامل صحافیوں، ماہرینِ لسانیات اور حکومتی اداروں کو اس پر سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اس صورت حال کا کوئی قابل عمل حل تلاش کرنا چاہیے۔