وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے صحت ظفرمرزا سے گفتگو
فرائیڈے اسپیشل:کورونا وائرس کے عفریت نے عالمی سطح پر جو بحران پیدا کیے ہیں، حکومت نے اس سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات تجویز کیے ہیں؟
ڈاکٹر ظفر مرزا: وفاقی حکومت نے بروقت اقدامات اٹھائے ہیں اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرنے والے صحت کے عالمی اداروں کی ہدایت پر عمل کیا ہے۔ ہم ان اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ وفاقی حکومت کی ہدایت پر صوبائی حکومتیں مناسب اور بھرپور اقدامات کے ذریعے کوشش کررہی ہیں کہ لوگ گھروں میں رہیں۔ کورونا 195 ملکوں میں 16 ہزار زندگیاں نگل گیا، دنیا کے 195 ممالک میں کورونا کے 3 لاکھ 82 ہزار مریض ہیں، جب کہ ایک لاکھ سے زائد مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے حکومت ہر ممکن اقدامات کررہی ہے، قومی سطح پر رضا کار پروگرام ترتیب دیا جا رہا ہے۔سخت اقدامات کے بعد امید ہے کہ کورونا وائرس پر قابو پالیں گے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) ہسپتال کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے کا مقصد گزشتہ میٹنگ میں کیے جانے والے فیصلوں کا جائزہ لینا اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانا تھا۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حکومت سخت اور بھرپور اقدامات کررہی ہے، کورونا وائرس کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے مطابق ضروری فیصلوں کو یقینی بنارہے ہیں۔ کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مزید بیس بیڈ تیار ہوجائیں گے اور مزید پچاس بیڈ کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے۔ عوام کو تحفظ دینے کے لیے تمام تر وسائل فراہم کریں گے۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد میں ہسپتالوں میں انتظامات کا مسلسل جائزہ لیا جارہا ہے۔ اسلام آباد کے وفاقی ہسپتالوں میں کورونا وائرس سے بچائوکے لیے بیڈز کی تعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ اس صورتِ حال میں ہم سب یک جا ہوکر قومی چیلنج کا مقابلہ کررہے ہیں۔ حکومت پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر کورونا وائرس سے بچائو کے لیے مؤثر اقدامات کررہی ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے آٹھ ہسپتالوں نے دو سو چالیس آئسولیشن رومز کی پیشکش کی ہے اور ایک ہزار سے زائد بیڈز دینے کا اعلان کیا ہے۔ نجی ہسپتالوں کی طرف سے 80 وینٹی لیٹر کی سہولت فراہم ہوگی۔ پرائیویٹ ہسپتال والے کورونا وائرس کے مریضوں کو مفت علاج فراہم کریں گے۔ وفاقی حکومت ہیلتھ پروفیشنلز کو ضرورت پڑنے پر تمام حفاظتی ماسک اور آلات فراہم کرے گی۔ جن ہسپتالوں کی لیبز میں پی سی آر کے طریقے پر ٹیسٹ کی سہولت ہوگی اُن کو کٹس بھی فراہم کریں گے۔ میں پرائیویٹ ہسپتالوں کے سربراہان کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں، ان کے جذبے کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر بھی حفاظتی اقدامات چاہتے ہیں، اس بارے میں کیا تجویز کیا گیا ہے؟
ڈاکٹر ظفر مرزا: یہ ایک ضروری بات ہے، ہم ڈاکٹروں اور طبی عملے کے لیے ایک ٹریننگ پروگرام کا انعقاد کریں گے۔ کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کو بنیادی تربیت دی جائے گی۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک تو علاج کا مرحلہ ہے، یہ اُس وقت شروع ہوگا جب تشخیص ہوجائے گی، اس سے بچائو کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
ڈاکٹر ظفر مرزا: اگرچہ یہ بات بہت معمولی معلوم ہوتی ہے، لیکن سب سے اہم بات یہی ہے کہ لوگ غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلیں تاکہ یہ پھیل نہ سکے، اور اگر کوئی متاثرہ ہے تو وہ کسی دوسرے کو متاثر نہ کرے۔ لوگوں کو چاہیے کہ حکومت کی ہدایت پر عمل کریں۔ اصل میں اس سے ہی فائدہ ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان بھی متاثر ہوا ہے، اور دوسرے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔ آپ کے پاس تو دنیا بھر سے معلومات ہوں گی، کچھ بتانا چاہیں گے؟
ڈاکٹر ظفر مرزا:کورونا وائرس کے عفریت نے عالمی سطح پر جو بحران پیدا کیے ہیں ان سے پوری دنیا کی ترجیحات تبدیل ہوچکی ہیں اور اوّل ترجیح انسانی بقاء بن چکی ہے۔ کورونا وائرس کے عفریت سے نمٹنے کے لیے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے سارک ممالک کی ’’ویڈیو کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لیے پاکستان سے باضابطہ درخواست کرنا دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ صورت حال میں ایک غیر متوقع بات تھی، اور اس سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ سارک ممالک کی ’’سربراہی ویڈیو کانفرنس‘‘ کے حوالے سے پیشگی طور پر پاکستان کی جانب سے واضح کردیا گیا تھا کہ ’’پاکستان کے وزیراعظم اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے بلکہ ان کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا جن کی سرکاری حیثیت وزیر مملکت کی ہے، وزیراعظم کی نمائندگی کریں گے‘‘۔ اس ویڈیو کانفرنس میں میزبان ملک کے وزیراعظم نریندر مودی، افغان صدر اشرف غنی، مالدیپ کے صدر ابراہیم محمد صالح، بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد، نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما، سری لنکا کے صدر جے پاکسا، اور بھوٹان کے وزیراعظم لوٹے شیرنگ نے شرکت کی۔ پاکستان نے اس اجلاس میں بہت واضح پیغام دیا کہ عالمی برادری، خصوصاً سارک ممالک کو اس عفریت کے مقابلے کے لیے چین کے تجربے سے سیکھنا چاہیے اور استفادہ کرنا چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: سیاسی جماعتوں اور فلاحی تنظیموں نے بھی اس بحران میں کام کیا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور اس جیسی دیگر تنظیموں نے آگے بڑھ کر کام کرنا شروع کیا ہے، ان کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے؟
ڈاکٹر ظفر مرزا: تمام فلاحی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے کورونا کے حوالے سے مثبت کام کرنا شروع کیا۔
فرائیڈے اسپیشل: بنیادی آگاہی کے بعد ضروری ہے کہ اس کے علاج سے متعلق بھی معلومات فراہم کی جائیں۔
ڈاکٹر ظفر مرزا: ہماری کوشش ہے کہ عوام کو بتایا جائے کہ اس موقع پر وہ اپنی صحت اور غذا کا خیال رکھیں، قرنطینہ میں رہیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ سے یہ مرض کسی دوسرے کو نہ لگے۔ کورونا وائرس کے شکار 90 فیصد افراد خود ہی صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ جنہیں سانس لینے میں دشواری ہو انہیں ہسپتال سے مدد لینی چاہیے۔ پاکستان میں ہسپتالوں، اور ان میں بھی بستروں کی قلت ہے، اس لیے خو د ہی اسے ہینڈل کرنا پڑے گا۔ عوام پریشان نہ ہوں، گھر تک محدود ہوکر غمزدہ نہ ہوں بلکہ اپنے بچوں کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزاریں، یہ ان کی اچھی تربیت کا بہترین موقع ہے۔ کورونا کے علاج کے لیے دنیا میں تحقیق جاری ہے، اس کی ویکسین تاحال ایجاد نہیں ہوئی۔ دنیا کے بڑے ممالک سال بھر میں اس کی دوا کے مارکیٹ ہونے کی امید دلاتے ہیں۔ ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ہم نے کچھ ادویاچین بھیجی تھیں، ان کے مثبت نتائج سامنے آئے۔
فرائیڈے اسپیشل:کورونا وائرس سے معیشت کو ہونے والے نقصان کے بارے میں کچھ معلومات شیئر کریں گے؟
ڈاکٹر ظفر مرزا: کورونا وائرس سے معیشت کو ہونے والے نقصان پر اسٹیٹ بینک نے رعایتی اقدام کرتے ہوئے ایکسپورٹ فنانس اور طویل مدتی قرضوں پر چھوٹ کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ ایکسپورٹ ری فنانس پارٹ ون کے تحت قرض لینے والوں کو 6 ماہ کی رعایت دی گئی ہے، یہ چھوٹ جنوری سے جون کے درمیان ایکسپورٹ آرڈرز کے لیے ہے۔ یکم جنوری سے 20 مارچ تک ایکسپورٹ ری فنانس کے آرڈرز کی شپمٹ نہ ہونے پر جرمانہ ختم کردیا گیا ہے، اور اگر کسی ایکسپورٹر سے جرمانہ وصول کیا گیا ہے تو اس کو واپس کیا جائے گا۔ ایکسپورٹ ری فنانس پیرا ٹو کے تحت قرض لینے والوں کے لیے ہدف میں کمی کی گئی ہے، پیرا ٹو کے ایکسپورٹ ری فنانس لینے والوں کو 2 گنا کے بجائے 1.5 کیا گیا ہے۔ ایکسپورٹرز کو اپنی کارکردگی کا ہدف پورا کرنے کے لیے 6 ماہ کی رعایت بھی دی گئی ہے۔ ایکسپورٹرز کو ای ایف اور ای ای اسٹیٹمنٹ جمع کرانے کے لیے 31 جنوری 2021ء تک توسیع کردی گئی ہے۔ اسی طرح برآمدی صنعت کے لیے مشینری کی خریداری کی طویل مدتی قرض اسکیم کی شرائط بھی نرم کی گئی ہیں۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس کے معیشتوں پر بدترین وار جاری ہیں۔ پاکستانی اسٹاک مارکیٹ میں بھی 2 ہزار 159 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی۔ کورونا وائرس کا اب نیا ایشو سامنے آگیا ہے جس نے نہ صرف انسانی صحت کے حوالے سے دنیا کو مسائل سے دوچار کردیا ہے، بلکہ اس سے معیشت بھی متاثر ہورہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:کورونا وائرس کے خطرات کے پیش نظر پورا ملک لاک ڈائون ہوگیا ہے۔ سندھ اور گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر اور صوبہ پنجاب میں بھی لاک ڈائون کردیا گیا۔ آزاد کشمیر میں 3 ہفتوں کے لیے، جبکہ پنجاب میں 2 ہفتوں کے لیے لاک ڈائون کا اعلان کیا گیا ہے۔ خیبر پختون خوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی فوج طلب کرلی گئی۔ یہ انتظامات کس حد تک مفید ہیں؟
ڈاکٹر ظفر مرزا: یہ بہت فائدے والے اقدامات ہیں۔ عوام میں آگاہی مہم شروع کردی گئی ہے، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں بھی پابندیاں سخت کردی گئی ہیں۔ کراچی، حیدرآباد، سکھر، شکارپور، میرپورخاص کی مختلف شاہراہوں پر فوج، رینجرز اور پولیس نے فلیگ مارچ کیا۔ کراچی میں مختلف مقامات پر کنٹینر لگا کر روڈ بند کیے گئے ہیں۔ کورونا کے ٹرانسمیشن کیسز کی تعداد روکنے کے لیے لاک ڈائون کا سخت فیصلہ کیا گیا۔ محکمہ صحت نے اب تک 3450 ٹیسٹ کیے ہیں، ان میں سے 3020 منفی قرار دیئے گئے ہیں جبکہ 394 مثبت آئے ہیں۔ سندھ میں کام کرنے والے 10 اسپتالوں میں کورونا وائرس کے نمونوں کے ٹیسٹ کی مجموعی گنجائش 1200 یومیہ ہے۔کراچی کے کیسز میں سے 88 افراد وہ ہیں جنہیں مقامی طور پر وائرس منتقل ہوا جو خطرے کی بات ہے، کیونکہ اب وائرس مقامی طور پر منتقل ہو رہا ہے، اس لیے عوام احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ اسلام آباد پولیس نے وفاقی دارالحکومت کے علاقے بارہ کہو میں تبلیغی جماعت کے 6 افراد میں کورونا کی تصدیق کر دی،جماعت میں شریک باقی 6 افراد کے بھی ٹیسٹ کروائے جا رہے ہیں،تمام علاقے کو قرنطینہ میں بدل دیا گیا ہے،ضلعی انتظامیہ اہلِ علاقہ کے ٹیسٹ کروارہی ہے۔