کورونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو مفلوج کردیا ہے۔ سالِ گزشتہ کے آخری ماہ میں اس وبا کا آغاز چین کے ایک شہر ووہان سے ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ چین کی ایک سائنسی تجربہ گاہ سے مہلک کورونا وائرس حادثاتی طور پر باہر نکل گیا۔ چونکہ دنیا اب ایک عالمی گائوں میں تبدیل ہوگئی ہے، اس لیے یہ وبا بھی عالمی شکل اختیار کرگئی، اور آخری اطلاعات کے مطابق تقریباً 190 ممالک اس وبا سے متاثر ہوچکے ہیں، وبائی مرض میں مبتلا ہونے والوں اور ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے اٹلی، چین اور ایران سرفہرست ہیں، لیکن اس کی تباہی کو روکنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات نے پوری دنیا کے نظامِ زندگی کو مفلوج کردیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے بعد کی دنیا بہت مختلف ہوگی۔ اِس وقت تو صورتِ حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں نظام زندگی جس طرح مفلوج ہوا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ لاکھوں افراد کو ہلاک کرنے والی قدرتی اور انسانی آفات اس سے قبل بھی آئی ہیں، لیکن بہ یک وقت عالمی سطح پر کسی آفت کی تباہ کاری پہلی بار ہوئی ہے۔ صورتِ حال اتنی سنگین ہوچکی ہے کہ امریکہ، یورپ اور چین جیسے ترقی یافتہ ممالک مکمل ’’لاک ڈائون‘‘ کا شکار ہوچکے ہیں، تمام اقتصادی، سیاسی، سماجی، ثقافتی سرگرمیاں بند ہوگئی ہیں۔ چند مہینوں میں دو ارب آبادی گھروں میں قید ہوچکی ہے۔ ہر انسان خوف زدہ ہے۔ جدید ٹیکنالوجیکل ترقی جس نے انسان کے لیے زندگی آسان بنادی ہے، وہی ترقی اب انسانوں کے لیے عذاب بن گئی ہے۔ ماہرین یہ بات بیان کررہے ہیں کہ کورونا وائرس کی بیماری سے ہلاک ہونے والوں کا تناسب صرف ایک سے تین فیصد تک ہے، لیکن اس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے معمولاتِ زندگی کو مفلوج کردینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔
اس عالمی وبا کے خاتمے کے لیے دنیا کی حکومتوں اور عالمی اداروں کو کھربوں ڈالر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں، جبکہ عالمی معیشت کو پہنچنے والے نقصان سے عام اور غریب آدمی کو فاقہ کشی سے بچانا سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ یہ مسئلہ صرف غریب اور ترقی پذیر ممالک کا ہی نہیں ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک بہ شمول امریکہ کے عام شہری اپنی روز کی آمدنی پر گزارا کرتے ہیں۔ شہروں کے لاک ڈائون سے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کی فاقہ کشی کا خطرہ بھی پیدا ہوگیا ہے، صورتِ حال اتنی سنگین ہوچکی ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے عالمی سطح پر جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں کہا ہے کہ ’’ہماری دنیا کو ایک مشترکہ دشمن کرونا کا سامنا ہے جو کسی قومیت، لسانیت، فرقے یا مذہب کو نہیں دیکھتا، جب دنیا میں مسلح تنازعے میں اضافہ ہوتا ہے تو خواتین، بچوں، معذور افراد اور نقل مکانی کرنے والوں کو سب سے زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ ان لوگوں کو کورونا وائرس سے ہونے والے نقصانات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جنگ زدہ علاقوں میں صحت کا نظام تباہ ہوچکا ہے۔ صحت کے ماہرین کو جو پہلے ہی بہت تھوڑی تعداد میں ہیں، اکثر ہدف بنایا جاتا ہے۔ وائرس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال اس بات کو واضح کرتی ہے کہ جنگ کتنی بڑی حماقت ہے۔ یہ وقت مسلح تنازعے کو لاک ڈائون کرنے اور اپنی توجہ زندگیوں کے لیے حقیقی خطرے سے لڑنے پر مرکوز کرنے کا ہے‘‘۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے جنگ بندی کی اپیل جنگوں کے خاتمے اور امن کے لیے قائم ہونے والے ادارے کے سربراہ کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت جتنی بھی جنگیں ہورہی ہیں اُن کی سرپرستی وہ عالمی طاقتیںکررہی ہیں جو اقوام متحدہ میں فیصلہ کن اختیار رکھتی ہیں۔ خاص طور پر نائن الیون کے بعد اقوام متحدہ کے بینر تلے امریکہ اور عالمی طاقتوں نے ظلم، وحشت اور درندگی کا جو بازار گرم کیا ہے، اس کا مکمل ریکارڈ بھی مرتب نہیں کیا جاسکا ہے۔ فلسطین، کشمیر کا لاک ڈائون، ایران پر اقتصادی پابندیاں… افغانستان، عراق، شام، لیبیا، یمن اور روہنگیا میں جو انسان کُشی ہوئی ہے اس کی ذمے داری اقوام متحدہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ کیا کورونا وائرس کی وبا ربِ کائنات کی جانب سے انسانیت کے مجرموں کو دی جانے والی سزا ہے؟ یہ بات واضح ہے کہ دنیا پر اس وقت خدا کے باغیوں کو غلبہ و تسلط حاصل ہے۔ ماضی میں نمرود و فرعون روئے زمین کے کسی ایک خطے کے خدا بنے ہوئے تھے، لیکن عہدِ جدید کے ملحدوں کو پوری دنیا پر غلبہ حاصل ہے، اسی لیے وہ نمرود و فرعون کی طرح اپنی خدائی کا اعلان کررہے ہیں، لیکن ایک چھوٹی سی وبا نے عالمی طاقتوں کی بے بسی کا منظر دکھا دیا ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے کہ جس کا علاج زیادہ ہلاکت خیز بن گیا ہے، اس کے باوجود اس بات کا یقین نہیں ہے کہ جلد ہی اس آفت سے نجات حاصل کرلی جائے گی۔ یہ وبا پوری انسانیت کو بالعموم اور عالمِ اسلام کو بالخصوص یہ پیغام دے رہی ہے کہ خالقِ کائنات کی طرف رجوع کیا جائے۔ توبہ و استغفار کے سوا نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ توبہ و استغفار کا مطلب یہ ہے کہ دنیا سے نظامِ ظلم کا خاتمہ کیا جائے اور اس نظام رحمت کو غالب کیا جائے جس کے لیے رب کائنات نے اس کائنات میں آدم اور ابنِ آدم کو اپنا خلیفہ بناکر پیش کیا ہے۔ عہدِ جدید کے نمرودوں اور فرعونوں نے نظامِ خلافتِ الٰہیہ کو ’’دہشت گردی‘‘ قرار دے دیا ہے۔