آج کل ہر جگہ ’’قرنطینہ‘‘ کا چرچا ہے۔ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ یہ عربی کا لفظ ہے جو انگریزی میں کورنٹائن ہوگیا ہے۔ شاید اس کی وجہ قرنطینہ میں ’ق‘ اور ’ط‘ کی موجودگی ہے۔ ’ط‘ عام طور پر عربی کے الفاظ میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرنطینہ عربی سے نہیں آیا۔ یہ اطالوی زبان کا لفظ ہے اور اس کی اصل QUARANTINA ہے جو QURANTA سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب ہے چالیس۔ ابتدا میں قرنطینہ کی مدت 40 دن ہوتی تھی۔ اب یہ مدت بیماری کی نوعیت پر منحصر ہے۔ یورپ کی بیشتر زبانوں میں یہی اطالوی لفظ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ مستعمل ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس وقت اٹلی ہی میں کورونا وائرس کا زور ہے اور ایک طرح سے پورا ملک قرنطینہ میں ہے۔ انگریزی میں یہ اطالوی لفظ QUARANTINE ہوا، اور فرانسیسی میں QUARANTAINE، ہسپانوی میں QUARANTENA اور جرمنی میں QUARANTANE ہے۔ انگریزی کے حروف Q اور U مشترک ہیں۔ ویسے بھی انگریزی میں Q کے بعد U لازمی طور پر آتا ہے۔ قرنطینہ میں وبا زدہ علاقوں سے آنے والے مسافروں کو طبیبوں کی نگرانی میں دوسروں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس معاملے میں خاصی لاپروائی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
ایک اخبار کی 18 مارچ کی اشاعت میں ایک فیچر میں ’’ممکنہ مواقعے‘‘ پڑھا۔ یعنی موقع کی جمع ’مواقع‘ سے کام نہیں چلا، اس کی مزید جمع ’’مواقعے‘‘ بنالی گئی۔ جسارت میں بھی کبھی کبھی ’’مواقعوں‘‘ نظر سے گزر جاتا ہے۔ ہمارے اعتراض پر ایک ساتھی نے کہا کہ ہمارے وزیراعظم بھی تو ’’واقعاتوں‘‘ کہتے ہیں۔ ہفتہ کے دن جیو ٹی وی پر خبر چل رہی تھی ’’بلاضرورت سے‘‘۔ اس میں ’سے‘ زائد ہے، ’’بلاضرورت‘‘ کافی ہے۔ یہ چھوٹی موٹی غلطیاں ہیں جن سے باآسانی بچا جاسکتا ہے۔ 18 مارچ ہی کے ایک اخبار میں سرخی میں ’’زائد المعیاد‘‘ ہے، جب کہ متن میں صحیح یعنی ’زائد المیعاد‘ ہے۔ صحافی حضرات تھوڑی سی توجہ دیں۔ معیاد اور میعاد کی طرح ’علاوہ‘ اور ’سوا‘ کا جھگڑا بھی طے نہیں ہوا۔ 19مارچ کے ایک اخبار کی سرخی ہے ’’فش ہاربر کے علاوہ سندھ کی تمام جیٹیاں بند‘‘۔ حالانکہ خبر یہ ہے کہ فش ہاربر کی جیٹی کھلی رہے گی، اس کے سوا تمام جیٹیاں بند رہیں گی۔ ’علاوہ‘ کے بارے میں پہلے بھی وضاحت کی گئی تھی لیکن کم ہی توجہ دی گئی ہے۔ برسبیلِ تذکرہ ’جیٹی‘ انگریزی کا لفظ ہے لیکن اب اردو میں داخل ہوگیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کراچی کی ’’نیٹی جیٹی‘‘ بڑی مشہور ہے جب کہ یہ ’نیٹی‘ بھی انگریزی کا لفظ ہے اور NATIVE(نیٹو) ہے۔ نیٹو کا مطلب ہے ’مقامی‘۔
’دڑبا‘ یا ’ڈربا‘؟ یعنی ’د‘ سے یا ’ڈ‘ سے؟ کسی لغت میں یہ ’د‘ سے ہے اور کسی میں ’ڈ‘ سے۔ ہم تو اسے ’د‘ ہی سے کہتے اور سنتے آئے ہیں۔ جسارت کے ایک مضمون کی سرخی میں یہ ’ڈ‘ سے ہے۔ نوراللغات میں دڑبا دے کر لکھا ہے ’’دیکھیے ڈربا‘‘۔ یعنی صحیح ’ڈربا‘ ہے، جب کہ فیروزاللغات نے ’دڑبا‘ دیا ہے۔ اب مرغیوں سے کون پوچھے کہ انہیں کیا پسند ہے۔ وہ بند ہوتے ہوئے ڈرتی ہیں تو ممکن ہے اسے ڈربا سمجھتی ہوں۔ پنجابی میںکہتے ہیں ’’دڑ وٹ جا‘‘۔ یعنی خاموش رہ، بات کو پی جا، شور نہ کر۔ یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ اہلِ لاہور ’ر‘ کی جگہ بھی ’ڑ‘ استعمال کرتے ہیں، مثلاً میڑ تقی میڑ۔ ایک نوجوان سیاستدان اس کے برعکس ڑا کی جگہ را کہتے ہیں، مثلاً لرکا، لرکی۔ ’ڑ‘کو رائے ہندی کہتے ہیں کیونکہ یہ حرف عربی، فارسی یا کسی اور زبان میں نہیں صرف ہندی میں ہے۔ چنانچہ جہاں بھی ’’ڑ‘‘ آئے، سمجھ لیں کہ یہ لفظ ہندی کا ہے جیسے گھوڑا، لڑکا، تڑکا، بھڑکا۔ مرزا غالب نے اپنے بھتیجے کو فارسی سکھانے کے لیے کچھ اشعار کہے تھے، ان میں سے ایک یہ ہے:۔
ڑا سے پہلے ’گھو‘ اگر لگ جائے ہے
اسپ کی ہندی وہیں بن جائے ہے
یعنی گھوڑا تیار ہوگیا۔
اخبارات میں ایک ترکیب ’’حیرانگی‘‘ دیکھنے میں آرہی ہے۔ کیا صرف ’حیرانی‘ سے کام نہیں چل سکتا؟ ایک مصرع ہے ’’پہلے حیرانی ہوئی پھر دیر تک روتے رہے‘‘۔ ممکن ہے شاعر کو ’’حیرانگی‘‘ سن کر رونا آیا ہو۔ ویسے بھی پہلے عرض کیا تھا کہ ’گی‘ اُن الفاظ میں لگائی جاتی ہے جن کے آخر میں ’ہ‘ آتی ہو، مثلاً دیوانگی، شرمندگی وغیرہ۔ مگر اب تو ’’ہراسگی‘‘ بھی چل رہا ہے۔ ایک اخبار میں ’’متجاوز کرگئیں‘‘ پڑھا۔ متجاوز میں کرنا، ہونا کا مفہوم شامل ہے، چنانچہ صرف ’متجاوز‘ سے کام چل سکتا ہے، اور اگر ’کر گئیں‘ کا اضافہ ضروری ہے تو ’تجاوز‘ سے کام چلایا جائے۔
صحافی بھائیوں کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ ’کوئی‘ کے ساتھ واحد استعمال کیا جائے، مثلاً کوئی ضرورت، کوئی ہدایت یا کوئی قدم وغیرہ۔ کوئی ضروریات یا کوئی ہدایات سے گریز کیا جائے۔ گوکہ مفہوم تو واضح ہوجائے گا لیکن اچھی اردو یا اچھی زبان استعمال کرنا بھی اچھی بات ہے۔ یاد رہے کہ اہلِ زبان ہونا اور زبان پر عبور رکھنا دو مختلف باتیں ہیں۔
علامہ اقبال کی نظم ہے ’’بالِ جبرئیل‘‘۔ کچھ قارئین نے پوچھا ہے کہ جبرئیل کے بال کا کیا مطلب ہے؟ کیا جبرئیل کے سر پر بال ہیں؟ ویسے بالِ جبرئیل کا تلفظ تو بالے جبرئیل بنتا ہے، اور عام طور پر جن کا نام اقبال ہوتا ہے انہیں پیار سے بالے کہتے ہیں۔ تاہم بال جبرئیل کا مطلب ہے جبرئیل کے پر۔ بلکہ بال کی مزید تصریح ہے کہ پرندوں کے بازوئوں کا جوڑ، جس کی قوت سے اڑنے میں مدد ملتی ہے۔ ’بال‘ فارسی میں پرندوں کو کہتے ہیں اور اردو میں بال بچے کہا جاتا ہے۔ بال مگس، بال پروانہ یعنی پر۔ مصحفی کا شعر ہے:۔
کھل پڑا نامہ مرا اس کے پروں سے یا رب
یا یہ اڑنے میں کوئی بالِ کبوتر ٹوٹا
بال کا مطلب بازو بھی ہے۔ عربی میں بال کا مطلب ہے حال، شان، تن آسانی، اطمینانِ خاطر، دل۔ ان معنی میں فارغ البال کی ترکیب اردو میں مستعمل ہے۔ بال آنا، بال پڑنا وغیرہ اس بال کے کئی مطلب ہیں۔