کوروناوائرس:خیبرپختونخوا میں جزوی لاک ڈائون

طبی ماہرین بار بار یہ ہدایات دے رہے ہیں کہ اس موذی مرض کا مقابلہ صرف گھروں تک محدود ہونے اور سماجی رابطے فی الفور منقطع کرنے کے ذریعے ہی ممکن ہے

کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خطرات کے تناظر میں ملک بلکہ دنیا بھر کی طرح خیبرپختون خوا میں بھی ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد جزوی لاک ڈائون جاری ہے۔ پورے صوبے کو ایک انجانے خوف نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، لیکن اس کے باوجود عمومی سطح پر کوئی بھی اس وبا کے بڑھتے ہوئے خدشات کو سنجیدہ لیتے ہوئے اس ضمن میں کم از کم حفاظتی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ خیبر پختون خوا کے حوالے سے اس وبا کا ایک تشویش ناک پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ جب شروع میں کورونا وائرس سے متاثرہ کیسز کراچی اور بلوچستان میں سامنے آنے لگے تو اہلِ خیبر پختون خوا کا یہ خودساختہ خیال تھا کہ وہ چونکہ اس موذی مرض سے متاثرہ علاقوں سے جغرافیائی طور پر دوری پر واقع ہیں، اس لیے شاید یہ وائرس ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، لیکن جب اچانک یہاں کیسز سامنے آنے کے ساتھ ساتھ ملک میں پہلی موت بھی یہاں واقع ہوئی تب صوبائی حکومت جو اب تک سوئی ہوئی تھی، کے ہوش ٹھکانے آنے لگے، اور یہاں کی عام آبادی کو بھی اس معاملے کی شدت کا احساس ہونے لگا۔ لیکن یہ بات قابلِ تشویش ہے کہ حکومت کی جانب سے تعطیلات کے اعلان اور بعد ازاں جزوی لاک ڈائون کے اقدامات کے باوجود لوگوں نے نہ تو گھروں سے نکلنا چھوڑا ہے اور نہ ہی خوشی اور غمی کی تقریبات میں کچھ کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ چند پوش اور بڑی آبادیوں کو چھوڑ کر اکثر دیہات اور دورافتادہ کچی آبادیوں میں زندگی کا کارواں تمام تر خطرات اور خدشات کے باوجود اب بھی رواں دواں ہے۔ صوبے کے کئی علاقوں سے مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ لوگ حکومتی پابندیوں کو درخورِ اعتناء سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور ان علاقوں میں شادی ودیگر سماجی تقریبات جوں کی توں جاری ہیں، جن میں سینکڑوں اور ہزاروں افراد تمام تر حفاظتی تدابیرکو پسِ پشت ڈالتے ہوئے معمول کی سماجی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ اس وباء سے بچنے اور اس کا مقابلہ کرنے کا اب تک جو واحد حل سامنے آیا ہے وہ باہمی میل جول اور رابطوں کو منقطع کرنا ہے۔ چونکہ یہ ایک وائرل مرض ہے جو ایک فرد سے دوسرے فرد کو نہ صرف بڑی تیزی سے منتقل ہوتا ہے بلکہ متاثرہ فرد کو اپنی لپیٹ میں لے کر موت کے منہ میں پہنچانے کا باعث بھی بن سکتا ہے، اس لیے طبی ماہرین بار بار یہ ہدایات دے رہے ہیں کہ اس موذی مرض کا مقابلہ صرف گھروں تک محدود ہونے اور سماجی رابطے فی الفور منقطع کرنے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لیکن یہ بات قابلِ افسوس بلکہ انتہائی حد تک خطرناک ہے کہ من حیث القوم ہم نے اب تک نہ تو اس وبا کی شدت کو محسوس کیا ہے اور نہ ہی ہم کسی بھی سطح پر اس موذی مرض کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں جس نے ترقی یافتہ دنیا کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
کورونا کی وبا نے جہاں ہماری اخلاقی حالت کو عیاں کیا ہے، وہاں اس سے حکومتی دعوے بھی طشت ازبام ہوچکے ہیں۔ کیا یہ ہماری حکومت اور شعبۂ صحت کے کارپردازوں کے منہ پر طمانچہ نہیں ہے کہ 22کروڑ آبادی والے ملک میں جسے دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہونے کا زعم بھی ہے، جاں بلب مریضوں کو مصنوعی سانس فراہم کرنے والے صرف دو ڈھائی ہزار وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں! یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ کورونا سے متاثر مریضوں کو جو فوری اور شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے وہ سانس لینے میں دشواری ہے، کیونکہ کورونا وائرس پھیپھڑوں پرحملہ آور ہوکر سانس لینے کی صلاحیت کو سلب کرلیتا ہے، لہٰذا ایسے میں متاثرہ مریضوں کو مصنوعی سانس کی ضرورت ہوتی ہے جو وینٹی لیٹر ہی فراہم کرسکتے ہیں۔ اس صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ مرض مزید تیزی سے پھیلا تو اس سے نمٹنے میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ کورونا نے ہمیں انتظامی طور پر ایکسپوز کیا ہے۔ جس کا ثبوت کورونا کے خلاف حفاظتی انتظامات اپنانے کے حوالے سے بڑے پیمانے پر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جانا ہے۔ دراصل خیبر پختون خوا جیسے پسماندہ صوبے میں یہ بات لوگوں کو سمجھانے میں اور بھی زیادہ مشکلات پیش آرہی ہیں کہ کورونا ایک عالمی وبا ہے، اور اس سے نمٹنے کے لیے چند احتیاطی تدابیر کا اختیار کیا جانا ضروری ہے۔ یہ بات درست ہے کہ حکومت نے اپنے تئیں تعلیمی اداروں، بازاروں، شادی ہالوں اور سماجی ارتباط کے تمام مراکز اور مقامات کو عام پبلک کے لیے بند کرکے نوگوایریا بنادیا ہے، لیکن پھر بھی معاشرے کا ایک بڑا طبقہ ان پابندیوں کو قبول کرنا تو درکنار، ان کی دھجیاں اڑانے پر تلا بیٹھا نظر آتا ہے، جس کی واضح مثالیں گھروں، بیٹھکوں اور حجروں میں شادی کی تقریبات کا جاری رہنا ہے۔ اسی طرح فوتگی کے واقعات میں بھی لوگ حفاظتی تدابیر کی مسلسل خلاف ورزیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ ان مقامات پر وہی میل ملاپ، مصافحے اور معانقے جاری ہیں۔ تعطیلات اور لاک ڈائون کی وجہ سے چونکہ زیادہ تر لوگ گھروں تک محدود ہیں، اس لیے ان کے لیے اپنے علاقوں میں کسی بھی خوشی اور غم کی تقریبات نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہورہی ہیں، بلکہ عام روایات سے ہٹ کر وہاں گھنٹوں بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف دیکھے جاسکتے ہیں جن میں پسندیدہ موضوع کورونا ہی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں کسی منچلے نے گزشتہ روز ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے جس میں پشاور موٹر وے کی شہر میں داخلے پر واقع ایک بڑے چوک میں جسے سبزہ زار میں تبدیل کیاگیا ہے، سینکڑوں افراد جن میں بچے، بوڑھے اور جوان سبھی شامل ہیں، دنیا و مافیہا سے بے خبر کھیل کود اور خوش گپیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کورونا کی صورتِ حال پر ہمیں اپنے اردگرد بعض لوگ دینی نقطہ نظر سے بھی تبادلۂ خیال کرتے نظر آتے ہیں، جن کی اکثریت سوشل میڈیا پر خاصی متحرک ہے۔ ایک طبقہ مذہبی نقطہ نظر سے کورونا کو بطور عذاب اور امتِ مسلمہ کے برے نامۂ اعمال کے نتیجے کے طور پر پیش کررہا ہے، اور بعض لوگ اسے اللہ تعالیٰ کا عذاب قرار دے کر امتِ مسلمہ کو اجتماعی توبہ اور استغفار کے مشورے دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ شروع میں ایک خاص مذہبی طبقہ نہ تو کورونا کے ایشو کوکوئی اہمیت دینے کے لیے تیار تھا، اور نہ ہی طبی ماہرین کی جانب سے جاری کردہ ہدایات پر کان دھرنے پرآمادہ تھا، خاص کر مساجد میں نماز باجماعت اور جمعۃ المبارک کے اجتماعات کے ساتھ ساتھ تبلیغی اجتماعات، اور اکثر مساجد میں قائم چھوٹے بڑے مدارس میں جاری درس وتدریس کی سرگرمیوں کی بندش پر آمادہ نہیں تھا، لیکن اب جب ایک جانب حکومت نے اس حوالے سے قدرے سختی کا مظاہرہ کیا ہے اور دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن، جناب سراج الحق، مفتی تقی عثمانی، مولانا طارق جمیل اور مفتی منیب الرحمٰن جیسے جید علمائے کرام اور مذہبی راہنمائوں کی جانب سے عوام الناس کو حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے حوالے سے بار بار ہدایات جاری کی جارہی ہیں، اور جماعت اسلامی و جمعیت(ف) جیسی بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی عوام میں شعور وآگہی پیدا کرنے کی مہمات چلانے کے ساتھ ساتھ رفاہی میدان میں بھی عوامی سطح پر خدمات فراہم کی جارہی ہیں تو اس سے نہ صرف مذہبی طبقے کی جانب سے کورونا وبا کے حوالے سے حکومتی اقدامات میں تعاون کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، بلکہ منبر ومحراب سے عوام میں آگاہی بھی پیدا کی جارہی ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ اگر ہم نے اس نازک گھڑی میں بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا، اور اس بحرانی کیفیت میں بھی ایک زندہ اور منظم قوم ہونے کا عملی ثبوت نہ دیا تو خدانخواستہ یہ وبا نہ صرف ہماری موجودہ بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی ایک بڑی آزمائش اور مصیبت کا سبب بن سکتی ہے۔