اسٹیفن ڈاؤلنگ
سنہ 2019ء کے اواخر میں شروع ہونے والی کورونا وائرس کی وبا اب پوری دنیا میں پھیل چکی ہے، اور اب تک تقریباً 13 ہزار لوگ اس سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ مگر یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ کسی عالمی وبا نے اتنے بڑے پیمانے پر جانیں لی ہوں۔ تقریباً ایک سو سال قبل دنیا دو کروڑ لوگوں کی جانیں لینے والی پہلی عالمی جنگ کے بعد سنبھل ہی رہی تھی کہ اچانک لوگوں کو ایک اور چیز سے مقابلہ کرنا پڑا جو اس سے بھی زیادہ مہلک تھی۔ یہ تھی فلو کی وبا۔ اس عالمی وبا کو ہسپانوی فلو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ مغربی محاذوں پر فوج کے تنگ اور پُرہجوم کیمپوں سے پھوٹی۔ فرانس کی سرحد کے ساتھ صفائی کی ناقص صورت حال، خصوصاً خندقوں میں اس کی نشوونما ہوئی، اور پھر یہ پھیلتا ہی گیا۔ جنگ نومبر 1918ء میں ختم ہوئی لیکن یہ فوجی اپنے ہمراہ وائرس لے کر گھروں کو لوٹے، جہاں جنگ سے بھی زیادہ جانی نقصان ہونے والا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وبا سے پانچ کروڑ سے دس کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ دنیا میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران کئی وبائیں پھوٹیں جن میں کم از کم تین فلو کی قسمیں تھیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اتنا مہلک نہیں رہا جتنا یہ تھا۔ اس وقت جب دنیا بھر میں اس سے کئی گنا کم جان لیوا نئے کورونا وائرس کے باعث پھوٹنے والی وبا کووڈ 19 کے پھیلاؤ کی خبریں ہلچل مچائے ہوئے ہیں تو بی بی سی فیوچر نے سنہ 2018ء میں ہسپانوی فلو کے سو سال پورے ہونے پر کی گئی خصوصی رپورٹ پر نظر ڈالی جس میں دیکھا گیا تھا کہ ہم نے حالیہ تاریخ کی سب سے جان لیوا بیماریوں سے کیا سیکھا۔
نمونیا عمومی قاتل
کووڈ 19 کے باعث ہونے والی ہلاکتیں ہسپانوی فلو کے مقابلے میں کہیں زیادہ کم ہیں۔ معمر افراد یا ایسے لوگ جن کی قوتِ مدافعت کسی بیماری کی وجہ سے کمزور ہوچکی تھی، اب تک اس وائرس سے ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ اور یہ لوگ ان انفیکشنز کے حوالے سے خاصے حساس تھے جو نمونیا کا باعث بنتے ہیں۔
کچھ مقامات بچ گئے
جس وقت ہسپانوی فلو کا حملہ ہوا فضائی سفر ابتدائی دور میں تھا۔ لیکن کرۂ ارض پر کچھ مقامات ایسے بھی تھے جو اس کے خوفناک اثرات سے محفوظ رہے۔ دنیا میں اس کے پھیلنے کی رفتار بہت سست تھی۔ یہ ریلوے اور بحری جہازوں سے پھیلا، نہ کہ ہوائی جہازوں سے۔ کئی مقامات تک یہ مہینوں اور کئی مقامات تک یہ برسوں کے بعد پہنچا۔
کچھ علاقے اس فلو کو روکنے میں کامیاب رہے، اور اس کے لیے انھوں نے کچھ بنیادی طریقے اپنائے جو آج 100 سال بعد بھی استعمال ہوتے ہیں۔ امریکہ کی ریاست الاسکا میں برسٹل بے میں ایک آبادی اس فلو سے صاف بچ نکلی۔ انھوں نے اسکول بند کردیے، عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی اور گاؤں میں مرکزی شاہراہ سے داخلے پر پابندی عائد کردی۔ یہ طریقہ آج بھی چین کے ہوبائی صوبے اور شمالی اٹلی میں استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔
ہر وائرس کا نشانہ مختلف آبادیاں
ڈاکٹروں نے ہسپانوی فلو کو ’تاریخ کا سب سے بڑا ہولوکاسٹ‘ قرار دیا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ اس نے بڑی تعداد میں لوگوں کی جان لی، بلکہ اس کے کئی شکار نوجوان اور صحت مند لوگ تھے۔
عام طور پر ایک صحت مند مدافعتی نظام فلو کے ساتھ مناسب انداز میں مقابلہ کرلیتا ہے، لیکن فلو کی اس قسم نے مدافعتی نظام پر غالب آکر جسم کے اندر ’سائٹوکن اسٹارم‘ نامی ردِعمل کو جنم دیا۔ اس سے پھیپھڑوں میں پانی بھر جاتا ہے جو دیگر انفیکشنز کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑی عمر کے افراد اس سے اتنے متاثر نہیں تھے، شاید اس لیے کہ وہ اسی طرح کے ایک فلو سے بچ چکے تھے جو 1830ء کی دہائی میں انسانی آبادیوں میں پھیلا تھا۔
نئے کورونا وائرس سے معمر افراد اور ایسے افراد جو پہلے سے بیماریوں میں مبتلا ہیں، زیادہ خطرے میں ہیں۔ اگرچہ اس سے ہلاکتیں اب بھی کم ہیں لیکن زیادہ تر مرنے والے 80 سال سے زائد عمر کے لوگ ہیں۔
اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے آج دنیا بھر میں صحتِ عامہ کے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ وہی ہیں جو ہسپانوی فلو کو روکنے کے لیے سب سے زیادہ پُراثر رہے۔
عوامی صحت بہترین دفاع
ہسپانوی فلو ایسی دنیا میں پھیلا تھا جو عالمی جنگ سے سنبھل رہی تھی اور جہاں تمام ضروری عوامی وسائل فوجی صلاحیتوں پر صرف کیے جارہے تھے۔
کئی علاقوں میں صحتِ عامہ کے نظام ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں تھے اور صرف امیر یا متوسط طبقے کے افراد ہی ڈاکٹر کے پاس جانے کا خرچ برداشت کرسکتے تھے۔
اس فلو نے جھونپڑیوں میں اور شہروں کے غریب آبادی والے علاقوں میں بہت سے لوگوں کی جان لی، جہاں آبادی میں غذائیت کی کمی تھی، صفائی کی صورت حال ناقص، جبکہ لوگوں کی صحت بھی معیاری نہیں تھی۔
اس فلو نے دنیا بھر میں نظامِ صحت کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا، کیونکہ سائنس دانوں اور حکومتوں کو اس بات کا ادراک ہوا کہ عالمی وبائیں ماضی کی نسبت اب زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہیں۔
اس صورت حال میں ہر مریض کا فرداً فرداً علاج کافی نہیں ہوگا۔ عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے شہروں میں حکومت کو جنگی بنیادوں پر اپنے وسائل کو حرکت میں لانا ہوگا، جن لوگوں میں بیماری کی علامات ہوں انھیں قرنطینہ میں رکھا جائے، ایسے افراد جن میں ہلکی علامات ہوں انھیں زیادہ بیماد افراد سے الگ رکھا جائے، لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کیا جائے تاکہ یہ بیماری خودبخود ختم ہوجائے۔