منصورہ اسپتال میں 160 بستروں پر مشتمل آئسولیشن وارڈ کا افتتاح کیا ہے
کورونا وائرس کا پہلا کیس نومبر میں چین کے شہر ووہان کی گوشت مارکیٹ میں سامنے آیا اور پھر پھیلتا ہی چلا گیا یہ وائرس اس قدر تیزی سے اتنے وسیع پیمانے پر پھیلا کہ عالمی سطح پر ایسی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی اور پھیلائو ابھی تک جاری ہے اور اس پر قابو پانے کی بھی کوئی سبیل دکھائی نہیں دے رہی‘ یہی بات اس وائرس سے متعلق شکوک پیدا کرتی ہے کہ یہ ایک مصنوعی واردات ہے‘ دنیا بھر میں ایک اصول تسلیم کیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو ایک ملک سے کسی دوسرے ملک میں جائے تو وہ قرنطینہ ہوگا مگر حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیوافغانستان آئے ہیں مگر وہ تو ایک لمحے کے لیے قرنطینہ نہیں ہوئے‘ ان کا دورہ کابل ایک طویل بحث کا تقاضا کرتا ہے تاہم یہ موضوع فی الحال کسی اور وقت کے لیے مؤخر کرلیتے ہیں‘ بہر حال وہ یہاں اعلان کرچکے ہیں کہ امریکہ اب اس جنگ کے لیے فنڈز میں ایک ارب ڈالر کی کٹوتی کرنے جارہا ہے‘ اس کا مطلب ہوا کہ کولیشن سپورٹ فنڈ میں بھی کٹوتی ہوگی، اصل موضوع کی جانب بڑھتے ہیں، دنیا بھر میں اقوام عالم قبل از کورونا کے بعد اب بعد از کورونا کے حالات کی جانب بڑھ رہی ہے اور ہماری حکومت ابھی تک اسے سمجھ ہی نہیں سکی حتی کہ تین چار ماہ کی مدت کے بعد بھی قابل اعتماد اقدامات نہیں کر سکی بلکہ یہاں مرکز اور صوبوں میں ایک نئی کشمکش شروع ہوگئی ہے اور اسی ماحول میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اسے بیماری کا یقین کرکے اس کے تدارک کی کوشش کر رہا ہے اور دوسرا طبقہ منافع کمانے کا موقع جان کر ماسک‘ وینٹی لیٹرز اور انفرائیڈ تھرما میٹر (تھرما میٹر گن) کی مارکیٹنگ کررہا ہے،وینٹی لیٹرز اور انفرائیڈ تھرما میٹریہ دونوں اشیاء فی الحال پاکستان میں وافر دستیاب نہیں ہیں اور انہیں بیرون ملک سے ہی منگوایا جانا ہے لہذا تیزی سے ان کے آرڈرز بک کیے جارہے ہیں‘صحت کے شعبے میں کام کرنے والی این جی اوز‘ نجی ہسپتال اور نجی میڈیکل کالجز سب اس میں اپنے لیے ’’منافع ‘‘تلاش کر رہے ہیں وائرس سے بچائو اور تشخیص کے لیے حکومت اور نجی شعبہ کے پاس کوئی قابل بھروسہ آلات بھی نہیں ہیں‘ کورونا وائرس سے پورے ملک میں اس کا خوف پایا جا رہاہے۔ پاکستان میں اب متاثرہ افراد کی تعداد 1 ہزار ہو گئی ہے جبکہ 7 افراد ابھی تک کورونا وائرس کا شکار ہو کر ہلاک ہو چکے ہیںکورونا کی وجہ سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے اب پاکستان میں ڈالر بھی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے انٹر بینک میں ڈالر 160 روپے کا ہو گیا ہے وزیر اعظم کہتے ہیں کہ یہ کوئی ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ نہیں ہے، یہ ایک دو مہینے کا مسئلہ نہیں ہے۔ہو سکتا ہے 6 مہینے چلے یہ، یہ صورتحال ابھی سامنے آ رہی ہے، ہمیں نہیں پتہ کہ جو قدم آج اٹھا رہے ہیں وہ صحیح ہے یا نہیں، یہ وقت بتائے گا،چیف جسٹس گلزار احمد سے حکومت اور بعد میں سپریم کورٹ بار کے صدر قلب حسن نے عدالت برخاست کرنے کی استدعا کی مگر چیف جسٹس نے یہ استدعا مسترد کردی کہ یورپ میں کورونا وائرس کا معاملہ بہت سنگین ہے وہاں کی عدالتیں بھی چل رہی ہیں، ہم اس اہم ادارے کو بند نہیں کرسکتے وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تقریباً 1200 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے اور پٹرول،ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں 15 روپے کمی کا فیصلہ کیا گیاہے اس کے لیے 75 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں مگر اس کا فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ انتظامیہ ہر ممکن اس کوشش میں ہے کہ کسی بھی جگہ لوگوں کا رش نہ ہوسکے حکومت نے ایس ایم ایز اورزرعی شعبہ کے لیے 100 ارب روپے رکھے ہیں ایک کروڑ20لاکھ غریب خاندانوں کوچار ماہ تک تین ہزار روپے دیے جائیںگے‘ اس کے لیے ڈیڑھ سو ارب روپے رکھ رہے ہیں پناہ گاہوں کی تعداد میں توسیع پر6 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے‘ گندم کی خریداری کے لیے 280ارب‘ یو ٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 50 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بجلی اور گیس کے بلوں کی قسطیں کی جا رہی ہیں۔ یہ قسطیں تین ماہ کے لیے ہوں گی۔ بجلی کے تین سو یونٹ والے صارفین اور گیس کے وہ صارفین مستفید ہوں گے جن کا بل دوہزار روپے ہوگا این ڈی ایم اے کو 25ارب روپے دیے گئے ہیں تاکہ کٹس وغیرہ خریدی جاسکیں۔صحت اور خوراک کی فراہمی کے لیے 15 ارب روپے خرچ ہوں گے وزیر اعظم نے گندم کی خریداری چھوڑ کر،جو ایک معمول کا کام ہے‘ کل چھے ارب کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے‘ جس کا بنیادی مقصد تو یہ ہے کہ لوگوں کو خوراک‘ نقدی اور طبی سہولتیں مہیا کی جائیں‘ لیکن اس کام کے لیے وہ حکومتی مشینری کی بجائے تحریک انصاف کے کارکنوں پر بھروسہ کرنے جارہے ہیںحال ہی میں چین نے تیس ہزار کٹس بھجوائی ہیں۔ یہ تو بتائے کہ چین سے ملنے والی کٹس‘ آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان‘ وفاق کے زیر انتظام علاقوں اسلام آباد سمیت صوبائی حکومتوں میں سے کس کو کتنی تعداد میں دی گئی ہیں تین ہفتے گزر چکے ہیں گمان یہ ہے کہ حکومت ابھی تک وائرس سے متاثرہ افراد کی درست تعداد بھی نہیں بتا سکی اور نہ اس کے پاس درست معلومات ہیں‘ کورونا وائرس کے مقابلے کے لیے حکومت کو تین شعبوں میں کام کرنا چاہیے پہلا یہ کہ متاثرہ افراد تعداد کی درست تعداد کیا ہے؟ علاج کے لیے دستیاب وسائل کیاہیں؟ اور مالی وسائل کے علاوہ آلات اور افرادی قوت کی صورت میں اصل میں کتنے وسائل چاہئیں؟ وزیر اعظم عمران خان دو بار قوم سے خطاب اور ایک میڈیا کانفرنس کر چکے ہیں مگر ان تینوں میں شعبوں سے متعلق حکومت ابھی تک آگاہی نہیں دے سکی ہے جب کہ اطلاع یہ ہے کہ حکومت لاک ڈائون کے بعد کرفیو کی جانب بھی جاسکتی ہے جب کہ یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے ،لیکن اب مشورہ یہ ہے کہ حکومت سب سے پہلے درست تشخیص کے ذریعے وائرس سے متاثرہ مریض تلاش کیے جائیں اور ان کا سستا اور مناسب علاج کیا جائے اور اس کے لیے وسائل کا تخمینہ لگایا جائے اور یہ وسائل حکومت خود فراہم کرے اسے این جی اوز مافیا پر نہ چھوڑا جائے کیونکہ این جی اوز مافیا علاج کی سہولتیں فراہم کرنے کے نام پر تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرکے فنڈز بٹورنے کے چکر میں دکھائی دے رہا ہے وزیر اعظم کو چاہیے کہ وزارت داخلہ کو متحرک کریں تاکہ اس وائرس سے متاثرہ افراد کی درست تعداد سامنے آسکے پاکستان میں کورونا بحران اور متاثرہ کیسز کے علاج کے لیے تینوں مسلح افواج میدان میں آ گئی ہیں‘ ایک اچھا قدم یہ اٹھایا گیا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ہے جو حکومتی اقدامات کی نگرانی کرے گی۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے حکومت کو بڑی مدد پیش کر دی ہے جماعت اسلامی نے منصورہ اسپتال میں 160 بستروں پر مشتمل آئسولیشن وارڈ کا افتتاح کیا ہے جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے جماعت اسلامی اور الخدمت فاونڈیشن کے تمام اسپتالوں، 300 سے زائد ایمولینسز حکومت کو قوم کی خدمت کے لیے پیش کر دئیے ہیں کہ یہ اسپتال ایمبولینس پوری قوم کے ہیں۔حکومت تنہا اتنی بڑی آفت سے نہیں لڑ سکتی جماعت اسلامی اور الخدمت فائونڈیشن نے اپنے تمام ہسپتال اور تین سو سے زائد ایمبولینسز عملے سمیت حکومت کو قوم کی خدمت کے لیے پیش کردیے ہیں جماعت اسلامی نے ڈپٹی سیکریٹری جنرل اظہر اقبال حسن کو نیشنل فوکل پرسن کورونا آگاہی و صفائی مہم مقرر کیا ہے اب تک کی اطلاع کے مطابق اسلام آباد‘ گلگت اور آزاد کشمیر سمیت ملک کے چاروں صوبوں میں متاثرین کی تعداد 850 سے تجاوز کر گئی ہے‘ حکومت نے وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے آمدورفت محدود کرتے ہوئے بین الصوبائی ریل سروس معطل کردی ہے‘ انٹر سٹی بس سروس بھی معطل کردی گئی ہے‘ پشاور اور مردان کو جزوی طور پر بند کر دیا گیا ہے یہ فیصلہ تاخیر سے کرنے کی وجہ سے وائرس پھیلا ہے۔ تفتان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اگر وہاں صورت حال کنٹرول کرلی جاتی تو وائرس نہ پھیلتا‘ وزیر اعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر صورت حال کے جائزہ کے لیے تفتان گئے تھے چند روز وہاں رہے‘ براہ راست صورت حال کا جائزہ لیا‘ اور فیصلہ کرلیا کہ ویرانے میں قرنطینہ مرکز نہیں بن سکتا۔جنوری میں ابتدائی اطلاعات مل جانے کے باوجود نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کہیں نظر نہیں آئی‘ تین ہفتوں کے بعد یہ ادارہ متحرک ہوا فی الحال اس نے صوبائی چیف سیکرٹری کو بڑے ہوٹلوں کو قرنطینہ سنٹرز میں تبدیل کرنے کے لیے خط ارسال کیاہے اس پر ابھی عملدرآمد ہونا باقی ہے۔ وائرس کے پھیلائو کے خلاف حکومتی سطح کی کمزور مزاحمتی کوشش کے سبب پاکستان میں امریکی سفارت خانہ کا ایک چوتھائی سے زائد عملہ اسلام آباد چھوڑ کر اپنے ملک روانہ ہوچکا ہے اگر حالات بے قابو ہی رہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کورونا وائرس کے خلاف کی جانے والی جنگ ناکام رہی اور اس کی لائی ہوئی تباہیاں مزید جاری رہیں گی تاہم یہ ایک نہیں تمام معاشروں کا مستقبل ہو گا۔ اسلام آباد کے ایک بڑے نجی ہسپتال معروف انٹرنیشنل کے ساتھ منسلک ماہر نفسیات محترمہ صدف کہتی ہیں کہ’’ کورونا عالمی وبا ہے سب ہی اس کو لے کر پریشان ہیں اس کے بعد سے نفسیاتی امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔لوگوں میں ڈپریشن بے چینی اور ذہنی دبائو بڑھے گا۔عام معمول کی زندگی متاثر ہورہی ہے لوگوں میں خوف پھیل رہا ہے موسم بدل رہا اور بہار آرہی اس وقت ویسے ہی سب کو فلو ہوتا ہے لوگوں کو الرجی ہوتی ہیں اب کوئی چھینک بھی رہا ہے یا کھانس بھی رہا ہے تو سب پریشان ہوجاتے ہیں۔بہت سے لوگ کورونا کے ٹیسٹ کرارہے ہیںلوگوں میں ذہنی دبائو زیادہ ہورہا اس کے لیے ہمیں آگاہی مہم چلانا ہوگی۔ لوگوں کی کونسلنگ کی جائے اپنی صحت کا خیال رکھیں نہائیں با وضو رہیں۔اپنے بہن بھائیوں دوستوں سے رابطے میں رہیں۔ ہاتھ بار بار دھوئیں خود کو مصروف رکھیں کتابیں پڑھیں خواتین کوکنگ کریں۔بچوں کو اعتماد دیں تاکہ وہ پریشان نہیں ہو‘‘۔ صحت کے عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے امریکا اور پاکستان کے مابین دیرینہ شراکت داری ہے امریکا کے سینٹر فور ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن سے تربیت حاصل کرنے والے 100سے زائد پاکستانی گریجویٹ پنجاب اور گلگت بلتستان میں سامنے آنے والے کیسز کی تشخیص میں مصروف ہیں۔پاکستان میں کورونا کے مشتبہ مریض اور اس وائرس سے متاثر ممالک سے لوٹنے والے مسافر قرنطینہ سینٹرز میں جانے سے گھبرا رہے ہیں کوئی قرنطینہ سینٹرز سے خود کو نکلوانے کے لیے سفارشیں کروا رہا ہے تو کوئی وہاں سے فرار ہو رہا ہے پاکستان میں اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ قرنطینہ یا آئسولیشن سینٹرز میں انتظامات ناقص ہیں، لوگ وہاں سے اپنے رشتہ داروں کی فوتگی کا بتا کر وہاں سے نکل گئے ڈیرہ غازی خان کے قرنطینہ سینٹر میں داخلے سے قبل فرار ہو کر میاں چنوں اپنے گاؤں میں آنے والے نذر نامی ایک زائر کو تحویل میں لینے کے لیے چھاپا مارا گیا تووہ پولیس کے آنے کی اطلاع پا کر لاہور چلا آیا لاہور میں پی کے ایل آئی میں قائم قرنطینہ سے بھی متاثرہ افراد کے باہر جانے کے واقعات ہوئے ہیںوزیراعلی پنجاب کے مشیر برائے صحت حنیف خان پتافی نے فرائیڈے اسپیشل کے رابطہ کرنے پر یہ بات تسلیم کی ہے کہ قرنطینہ سینٹرز میں آنے سے لوگ گر یز کر رہے ہیں کہ قرنطینہ میں ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا ہے یہ بات بھی درست ہے کہ قرنطینہ قائم کرنے کا ہمارا تجربہ پہلا تھا، اس میں سہولیات کی فراہمی میں کچھ دیر بھی ہوئی اب صورتحال بہتر ہے قوت مدافعت بڑھانے کے لیے وٹامن سی، وٹامن ڈی اور سوپ وغیرہ دینا شروع کر دیے جس سے اس کی طبیعت سنبھلنا شروع ہو گئی نجی لیبارٹری جہاں سے متاثرہ افراد یا احتیاط کے لیے ٹسٹ کرایا جاتا ہے اس لیبارٹری نے کسٹمرز کا رابطہ نمبر حکومت کو دے دیا انتظامیہ کے لوگ میڈیا اور پولیس سمیت ان افراد کو تحویل میں لینے کے لیے پہنچ جاتے ہیں اور یہ ایک دھندہ شروع ہوگیا ہے اسلام آباد میں پمز ہسپتال سمیت کہیں بھی مناسب انتظامات نہیں ہیں قرنطینہ میں جانے سے لوگوں کے ڈرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میڈیا نے ان کو کچھ زیادہ ہی ڈرا دیا ہے، انہیں اس کی افادیت سے آگاہی فراہم ہی نہیں کی جاسکی لوگوں کے قرنطینہ سے گریز کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زائرین تیس چالیس دن ایران میں گزار کر آئے ہیں، پھر انہیں تفتان میں قیام کرنا پڑا ہے ، اس لیے ان اکتاہٹ قابل فہم ہے ڈی جی خان سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر زرعی یونیورسٹی میں بنائے جانے والے قرنطینہ سینٹر میں مشتبہ مریضوں کو تین وقت کا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے یہاں ٹیسٹوں کی سہولتیں بھی موجود ہیں، حکومت نے کورونا کے مریضوں کے لیے مزید قرنطینہ سینٹرز بنانے کے ساتھ ساتھ کورونا کے مشتبہ مریضوں کو ان کے گھروں میں آئسولیشن فراہم کرنے کے لیے بھی ایس او پیز بنانا شروع کردی ہیں۔