پوری دنیا اس وقت کورونا وائرس نامی آسمانی آفت کی لپیٹ میں ہے، شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جسے اس سے محفوظ قرار دیا جاسکے۔ ترقی یافتہ دنیا ہو یا پسماندہ ممالک… کوئی بھی اس وقت اس سے مستثنیٰ نہیں۔ پاکستان میں بھی اس کے متاثرین کی تعداد ہر روز بڑھ رہی ہے، تقریباً پورا ملک لاک ڈاؤن کی کیفیت میں ہے۔ خود ان کے مفاد میں گھروں تک محدود رہنے کی ہدایت کی جارہی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی جو پہلے ہی خاصی مشکل تھی، مشکل تر ہوگئی ہے۔ پہلے سے بےروزگاری کے طوفان میں گھری آبادی کی اکثریت میں روزانہ کی بنیاد پر کمانے والوں کی بڑی تعداد کا مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ صورتِ حال اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ پاکستان کی حکومت تو ایک طرف، ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں بھی تنہا اس سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ہر جگہ پوری قوم کے لیے متحد ہوکر اس کا مقابلہ کرنا لازم ہوچکا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اپنے سیاسی، علاقائی اور مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشکل وقت میں پاکستانی قوم بڑی حد تک یک جان اور یک زبان نظر آرہی ہے۔ اگرچہ حکومت کی کارکردگی پر تحفظات موجود ہیں، مگر اس کے باوجود کم و بیش تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی طبقات کے رہنماؤں نے حکومت کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے، خاص طور پر جماعت اسلامی، کہ قوم کے ہر مشکل وقت میں ہمیشہ خدمت میں پیش پیش نظر آتی ہے۔ اس کی پارلیمنٹ اور دیگر منتخب اداروں میں نمائندگی اور مادی وسائل کتنے بھی محدود ہوں مگر خدمت کے میدان میں اس کی سرگرمیاں لامحدود ہیں۔ اس نے کورونا وائرس کے موجودہ بحران میں بھی اپنی دیگر تمام سرگرمیوں کو ملتوی کرکے اپنی ساری توجہ اس بحرانی کیفیت سے نمٹنے پر مرکوز کردی ہے۔ اس ضمن میں جماعت کی سرگرمیاں کسی ایک پہلو تک محدود نہیں بلکہ ہمہ گیر ہیں۔ جماعت کے ذمہ داران کی یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ تمام آفات و بلیات سے نجات کا واحد راستہ خالق اور مالکِ کائنات سے رجوع کرنے میں ہے، چنانچہ جوں ہی کورونا وائرس پاکستان پر حملہ آور ہونے کی اطلاعات ملنا شروع ہوئیں، جماعت نے ” رجوعِ الی اللہ“ مہم کا آغاز کردیا۔ اس ضمن میں جمعہ 27 مارچ کو ملک بھر میں” یوم استغفار “ منایا جا رہا ہے۔
ان نازک حالات میں جب صدرِ پاکستان چین کے دورے سے واپس آئے تو انہوں نے جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق سے رابطہ کرکے قوم کے اس مشکل وقت میں تعاون کی درخواست کی۔ امیر جماعت نے انہیں اطمینان دلایاکہ ہم پہلے ہی اپنا فرض سمجھ کر منصوبہ بندی کرچکے ہیں بلکہ عملی کام بھی شروع کردیا گیا ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جماعت کے طبی شعبے کے ناظم اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن سے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کرکے تعاون کی اپیل کی، جس پر ڈاکٹر صاحب نے بھی انہیں جماعت اسلامی کی امدادی سرگرمیوں کی تفصیل سے آگاہ کیا ۔
جماعت اسلامی نے دوسرے مرحلے میں عوام کو کورونا وائرس کے بارے میں معلومات اور بچاؤ کی تدابیر سے متعلق تفصیلی ”آگاہی مہم“ کا اہتمام بھی کیا ہے۔
تیسرے مرحلے میں جبکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام خصوصاً غریب لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو جماعت اسلامی نے الخدمت فاؤنڈیشن کے ذریعے منظم انداز میں لوگوں کو راشن اور دیگر ضروری اشیاء کی فراہمی کا کام شروع کردیا ہے۔ مختلف شہروں میں محلہ کی سطح پر خدمت کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جن میں جماعت کے کارکنان اور اہلِ خیر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ کمیٹیاں مقامی طور پر لاک ڈاؤن سے متاثرہ خاندانوں کی فہرستیں تیار کرکے سامان اور کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی کا اہتمام کررہی ہیں۔ ملک بھر میں پھیلے ہوئے سینکڑوں ہسپتال، بلڈ بینک اور ایمبولینس گاڑیاں بھی جماعت اسلامی نے حکومت کو پیش کردی ہیں تاکہ کورونا متاثرین کو بہترین علاج معالجے کی سہولت مہیا ہوسکے۔ مختلف مقامات پر حسبِ ضرورت قرنطینہ مراکز اور وائرس کے ٹیسٹ کے لیے الخدمت لیب میں مناسب بندوبست کیا گیا ہے۔ کورونا وائرس کے باعث جاں بحق ہونے والوں کی تدفین اور تکفین میں بھی لوگوں کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے ان متاثرین کو چھونے میں اپنی جان کے لیے خطرات محسوس کرتے ہیں، اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے جماعت اسلامی نے جدید سہولتوں سے آراستہ میت گاڑی کا بندوبست کیا ہے۔
ذرائع ابلاغ کا رویہ جماعت اسلامی کے بارے میں عام حالات میں جیسا بھی معاندانہ ہو، مگر مقامِ شکر ہے کہ قدرتی آفات کے موقع پر جماعت کی خدمات کا ہمیشہ اعتراف کیا جاتا ہے، چنانچہ کورونا وائرس کی موجودہ بحرانی کیفیت میں بھی برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ کے میزبانوں، کالم نویسوں اور نمائندوں نے جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ مثال کے طور پر دنیا نیوز چینل کے پروگرام ”حسبِ حال“ کے میزبان جنید سلیم اور عزیزی کی رائے میں ”الخدمت فاؤنڈیشن کی مہم اس بحرانی صورت حال میں ایک کارنامہ ہے“۔ روزنامہ جنگ اور دی نیوز کے انصار عباسی نے لوگوں کو متوجہ کیا ہے کہ کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورت حال میں معاشی تنگی کا سامنا کرنے والے رشتے داروں، ہمسایوں اور ضرورت مندوں کا خیال رکھیں، اجتماعی امداد کے لیے الخدمت فاؤنڈیشن پر مکمل بھروسا کیا جاسکتا ہے“۔روزنامہ اسلام کے کالم نگار مولانا عمارخان ناصر کی رائے ہے کہ” سراج الحق صاحب نے میڈیا پر قوم کو بہت عمدہ پیغام دیا ہے، میدان میں کھڑے آدمی کی بات کی تاثیر ہی کچھ اور ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے، آمین “۔روزنامہ ایکسپریس کے کالم نویس مزمل سہروردی کا کہنا ہے کہ ”بڑی سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایسی راشن پیک اسکیم چلانے کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے، جماعت اسلامی کی خصوصی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے، باقی سیاسی جماعتوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں، ان کو عوام فلاحی کاموں کی وجہ سے ووٹ نہیں دیتے، اگر ایسا ہوتا تو جماعت اسلامی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی ہوتی “۔ جب کہ جنگ اور جیو کے میزبان حامد میر کے الفاظ ہیں کہ” صدقہ آنے والی بلا کو ٹالتا ہے، الخدمت کے ذریعے اپنا صدقہ اُن تک پہنچائیں جو مصیبت کی اس گھڑی میں امداد کے مستحق ہیں “ –