نعمت اللہ خان مرحوم (1930ء ۔ 2020ء)۔

کاوش وجدوجہد کی مثال

زندگی میں جن لوگوں سے تعارف ہوتا ہے ان میں سے بعض دل میں گھر کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی ذات میں اتنی خوبیاں رکھتے ہیں کہ ان کو فراموش کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ زندگی کے ہر موڑ پر ان کی کوئی نہ کوئی بات یاد آتی ہے اور روشنی کی کرن دکھا کر حوصلہ بڑھاتی ہے۔ ایسی ہی شخصیت اور ذاتی خوبیاں بابائے کراچی جناب نعمت اللہ خان مرحوم ومغفور کو حاصل تھیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص سیلف میڈ ہے، یعنی اس نے اپنی ذاتی محنت، توجہ اور ذہانت کی وجہ سے اتنے نامساعد حالات کے باوجود زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل کرلیا۔ یہ اصطلاح اگر درست ہے تو پھر نعمت اللہ خان صاحب پر اس کا مکمل اطلاق ہوتا ہے۔ آپ نے اپنی ابتدائی زندگی میں جن مشکلات کا مقابلہ کیا اور جس طرح کامیابی کا سفر طے کرتے ہوئے بلند مقام تک پہنچے، وہ اس دور میں انھی کا حصہ تھا۔

ماضی کی دھندلی یادیں

نعمت اللہ خان صاحب سے پہلی ملاقات کب ہوئی، یہ صحیح طرح یاد نہیں ہے، تاہم اتنا ذہن میں محفوظ ہے کہ دورِ طالب علمی میں کراچی میں ان کو انگریزی لباس میں دیکھا تھا اور دوستوں نے بتایا تھا کہ موصوف ایک معتبر شخصیت کے مالک اور ماہرِقانون ہیں۔ انکم ٹیکس کے معاملات میں انھیں بے انتہا مہارت حاصل ہے اور نہایت کامیابی کے ساتھ وکالت چلا رہے ہیں۔ پہلی ہی نظر میں ان کی شخصیت میں سنجیدگی، وقار اور رعب کے ساتھ انکسار بھی نظر آیا۔ اُس دور میں مرحوم کلین شیو تھے۔ گفتگو کے دوران مسکراتے تو بہت خوب صورت لگتے۔ بعد میں ان سے قریبی تعلق قائم ہوا تو ان کی خوبیاں مزید کھلتی چلی گئیں۔

منور صاحب کی مہمان نوازی

برادرِ گرامی قدر، قائدِ محترم سیدمنورحسن تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد کراچی جماعت کی تنظیم میں بھی اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے، اور کراچی میں سید مودودیؒ کے قائم کردہ علمی و تحقیقی ادارے اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی فرائض ادا کرتے رہے۔ سید صاحب کا اپنا آبائی گھر کراچی میں تھا، مگر وہ ارکانِ خاندان نے باہمی مشورے سے فروخت کردیا تھا۔ سید صاحب کا موجودہ ذاتی گھر بعد میں تعمیر ہوا۔ اُن دنوں نعمت اللہ خان صاحب کے وسیع وعریض گھر کے ایک چھوٹے سے بالائی پورشن میں وہ رہائش پذیر تھے۔ میں جب کراچی جاتا تو سید منور حسن صاحب ضرور اپنی رہائش گاہ پر ناشتے یا کھانے پر دعوت دیتے۔ اُن دنوں قائدِ محترم کی شادی نئی نئی ہوئی تھی اور ابھی بچوں کی رونق سے گھر مزین نہیں ہوا تھا۔

کراچی میں لاہور اور گوجرانوالہ کا منظر

نعمت اللہ خان صاحب کا یہ بہت بڑا گھر نارتھ ناظم آباد میں مین روڈ کے اوپر تھا۔ اس کا ایک بہت بڑا اور خوب صورت لان بھی تھا جس میں دیگر پودوں کے علاوہ پام کے خوب صورت درخت اس کی شان کو دوبالا کرتے تھے۔ ایک دن میں منور صاحب کے ہاں گیا ہوا تھا کہ نعمت اللہ خان صاحب نے اپنے گھر پر ناشتے کا اہتمام کیا۔ اس نشست میں باہمی تعارف تفصیل کے ساتھ ہوا۔ اس موقع پر معلوم ہوا کہ خان صاحب کی حسِ مزاح بھی خوب ہے۔ ناشتے میں کافی ماکولات ومشروبات کا اہتمام تھا، مگر میں اپنی طلب کے مطابق ہی لے رہا تھا، جبکہ منور صاحب تو بہت ہی کم کھانے کے عادی ہیں۔ اس موقع پر مرحوم نے فرمایا: ’’منور صاحب کی طرح آپ بھی ڈائیٹ کرتے ہیں؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں، میں تو خوب کھاتا ہوں‘‘۔ فرمانے لگے کہ ’’اگر کھاؤ تو وزن بھی تو بڑھ جائے‘‘۔ ان کا اشارہ میرے دھان پان جسم کی طرف تھا۔ خان صاحب ماشاء اللہ خود خاصے فربہ ڈیل ڈول اور بلند قامت کے ساتھ لاہور اور گوجرانوالہ کے پہلوانوں کی طرح نظر آرہے تھے۔

جنم بھومی اور آبائی خاندان

نعمت اللہ خان صاحب خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی معروف تاریخی بستی اجمیرشریف میں یکم اکتوبر 1930ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد عبدالشکورخان کا تعلق شاہجاں پور سے تھا۔ وہ اس شہر کی ایک معزز اور متمول شخصیت تھے۔ عبدالشکور خان صاحب ریلوے میل سروس میں کلرک کی حیثیت سے ملازمت کررہے تھے۔ جوانی ہی میں عبدالشکور صاحب کا انتقال ہوگیا۔ نعمت اللہ خان اُس وقت ساتویں یا آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے۔ خان صاحب کی والدہ محترمہ بسم اللہ بیگم ایک نہایت دانش مند اور صابرہ خاتون تھیں۔ اپنے میاں کی وفات کے بعد تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کی یتیمی اور اپنے سر سے میاں کا سایہ اٹھ جانے کے غم سے نڈھال تھیں، مگر انھوں نے اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کے لیے طالبات کے ایک اسکول میں تدریس کی ذمہ داری ادا کی۔ خود نعمت اللہ صاحب بھی جو اپنے بہن بھائیوں میں بڑے تھے، اپنی والدہ کے ساتھ گھریلو ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے ہر طرح کی محنت و مشقت پر تیار رہتے تھے۔

امتحان اور حکمتِ ربّانی

اللہ تعالیٰ کی قدرت وحکمت پر غور ایک بندۂ مومن کے ایمان میں بالیدگی پیدا کرتا ہے۔ اللہ کا وہ بندہ جسے زندگی میں یتیموں اور بیواؤں کی سرپرستی کرنا تھی اُسے خود یتیمی کی منزل سے گزرنا پڑا، اور اپنی عظیم والدہ کو بیوگی کے صدمات سے دوچار ہوتے دیکھا۔ نعمت اللہ صاحب کے دو چھوٹے بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ بھائیوں میں سے ایک بھائی عبدالعلیم خان جو خان صاحب سے دوسرے نمبر پر تھے، وہ خان صاحب کی زندگی ہی میں کراچی میں وفات پا گئے۔ ماشاء اللہ اُن کے بچے کراچی میں مقیم ہیں اور اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ تیسرے نمبر پر خان صاحب کے بھائی عبدالرؤف خان ہیں۔ الحمدللہ اب بھی بقید حیات ہیں اور اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ میں مقیم ہیں۔

جہدِ مسلسل

خان صاحب نے ابتدائی تعلیم شاہجہاں پور اور اجمیر میں حاصل کی۔ دورِ طالب علمی میں تحریکِ پاکستان سے وابستہ ہوئے۔ ابتدائی عمر سے ہی تحریکِ پاکستان کے ساتھ ایسی لگن تھی کہ اُس دور میں نوجوانوں کی تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے روحِ رواں تھے۔ صرف پندرہ سال کی عمر میں جب کہ ابھی اسکول کے طالب علم تھے آل انڈیا مسلم لیجسلیٹرز کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے شاہجہاں پور کے مسلم رکن قانون ساز اسمبلی نے ان کو اپنے ساتھ دہلی چلنے پر آمادہ اور تیار کیا۔ اس کانفرنس کی صدارت بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے فرمائی اور پاکستان کی جدوجہد کے لیے شرکائے کانفرنس اور تمام مسلم اہلِ ہند کو ایک لائحۂ عمل دیا۔ اسی سال یعنی 1946ء میں آپ مسلم لیگ نیشنل گارڈ ضلع اجمیر کے صدر منتخب ہوئے اور اس ذمہ داری پر قیام پاکستان تک فائز رہے۔

ہجرت اور مشکلات

۔1947ء میں پاکستان وجود میں آیا تو بڑی تعداد میں مسلمانوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ خان صاحب نے بھی ہجرت کا فیصلہ کرلیا اور مناسب وقت کے انتظار میں اپنے خاندان کو بھی ہجرت کے لیے تیار کرتے رہے۔ آخر قیام پاکستان سے چند ہفتے قبل شاہجہاں پور سے ہجرت کرکے کراچی میں آگئے۔ انھوں نے یہ ہجرت اکیلے کی اور اپنے خاندان کے لوگوں کو انتظار کرنے کا مشورہ دیا۔ یہاں کچھ عرصے تک وہ فٹ پاتھ پر سوتے رہے۔ کراچی اُس دور میں امن کا ایسا گہوارہ تھا کہ کوئی شخص کسی بھی لمحے اپنے آپ کو خطرے میں محسوس نہیں کرتا تھا۔ خان صاحب نے اپنے والد مرحوم کے ایک پرانے اور قریبی دوست نبی داد خان کے ساتھ مل کر جھونپڑا تعمیر کیا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد یہاں سے اپنے چھوٹے بھائی علیم خان کے ساتھ لیاری کے ایک سنگل روم کرائے کے گھر میں منتقل ہوگئے۔ کچھ عرصے کے بعد جیکب لائنز کے ایک چھوٹے گھر میں رہائش اختیار کی، جہاں سات سال مقیم رہے۔

خدائی فیصلے اور حکمتیں

کون جانتا تھا کہ اس شہر کے فٹ پاتھ پر سونے والا ایک دن ان تمام بے سہارا لوگوں کا مرجع بن جائے گا جو زندگی کی آسائشوں سے محروم ہیں۔ کچھ عرصے بعد مزارِ قائد کے قریب کھلے میدان میں ایک جھونپڑا بنا لیا۔ جھونپڑوں میں مقیم لاکھوں بے بس لوگوں کا جسے مستقبل میں سہارا بننا تھا، رب العزت نے اسے جھونپڑے کے تجربات سے گزارا۔ جھونپڑا بنالینے کے بعد مرحوم نے اپنے خاندان کے لوگوں کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ آپ کی والدہ اور بہن بھائی کراچی آگئے۔ انڈیا میں ایک بڑا گھر اور سہولیات چھوڑ کر یہاں جب اس جھونپڑے کو دیکھا تو فطرتِ انسانی کے تحت نعمت اللہ صاحب کی والدہ کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آگئے۔ خان صاحب ابتدائی عمر ہی سے دانش وحکمت اور جرأت وعزیمت کا نمونہ تھے۔ انھوں نے اپنی والدہ کو تسلی دی اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ حالات کو بدل دے گا، ہم کو اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں جدوجہد کے ذریعے اپنا مستقبل بنانا ہے، اور اللہ کی رحمت سے امید ہے وہ مایوس نہیں کرے گا۔ خان صاحب کی اس بات میں حکیم الامت کے شعر کی تفسیر نظر آتی ہے:۔

یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

قلب ِمطمئن

ہجرت کے بعد اس پُرمشقت دور میں بھی خان صاحب کا دل مطمئن تھا کہ مشکلات آسانیوں میں بدل جائیں گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ خان صاحب نامساعد حالات کے باوجود اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے تھے اور اس کے ساتھ ہر طرح کی محنت مزدوری بھی کرتے تھے۔ آپ اندازہ کریں کہ عالمی شہرت حاصل کرنے والی شخصیت ان منازل سے بھی گزری جب ٹرکوں پر عام مزدوروں کی طرح سامان لادنا اور اتارنا معمول رہا۔ تعلیم یافتہ اور ذہین ہونے کی وجہ سے مرحوم نے جلد ہی ٹیوشن کا سلسلہ شروع کردیا اور اس سے جو معمولی رقم ملتی تھی اس سے گھر کے اخراجات کفایت شعاری سے چلائے جاتے تھے۔

اعلیٰ تعلیم کے مدارج

خان صاحب نے محنت اور ذہانت کے ساتھ اللہ پر توکل اور بھروسے کی بدولت تعلیم میں کامیابیاں حاصل کیں۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ خان صاحب نے فارسی لٹریچر میں کراچی یونی ورسٹی سے ماسٹر ڈگری حاصل کی تھی۔ اس سے قبل وہ پنجاب یونی ورسٹی سے پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے گریجویش کرچکے تھے۔ کراچی میں قیام کے دوران تلاش معاش کے ساتھ تعلیم کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ آپ نے کراچی یونی ورسٹی سے صحافت میں بھی ڈپلومہ حاصل کیا اور پھر اسی یونی ورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی جو ان کے روشن معاشی مستقبل کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔

عملی زندگی اور ملازمت

مشکلات کے اس دورمیں خان صاحب نے حبیب بنک میں بطور سٹینوگرافر ملازمت اختیار کرلی۔ کچھ ہی عرصے کے بعد انھیں موقع ملا تو پاکستان ائیرفورس میں بطور سولین ملازم سروس کا آغاز کیا۔ یہاں بھی وہ سٹینوگرافر کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔ اس دوران جب لا کی تعلیم مکمل کی تو ملازمت سے لمبی چھٹی لے کر اپنے سینئربیرسٹر ساتھی کے مشورے سے خود انکم ٹیکس میں پریکٹس شروع کی۔ ان کے پرانے دوست ہارون رشید صاحب نے انھیں اپنا دفتر قائم کرنے اور دیگر ضروریات کے لیے کچھ رقم ادھار دی۔ بعد میں انھوں نے ملازمت سے استعفا دے دیا اور انکم ٹیکس کے شعبے میں وکالت کے ذریعے بہت بڑا نام پیدا کیا۔ یہ سب اللہ کی دَین تھی۔ خان صاحب اپنے قریبی دوستوں کو زندگی کے ان نشیب وفراز کے بارے میں کبھی کبھار داستان سنایا کرتے تھے جس سے ان کے عزم بلند، خاکساری اور خود اعتمادی کے ساتھ تعلق باللہ کا بھی اندازہ ہوتا تھا۔

غربت سے فارغ البالی

خان صاحب کی زندگی کا یہ دور مسلسل کامیابیوں کی طرف بڑھتا جارہا تھا۔ بتایا کرتے تھے کہ وکالت کی تعلیم مکمل ہونے پر انکم ٹیکس کے شعبے میں قانونی پریکٹس شروع کی۔ کراچی کے صنعت وتجارت کا مرکز ہونے کی وجہ سے انکم ٹیکس کے معاملات میں قانونی معاونت اور وکالت کا خاصا وسیع میدان موجود تھا۔ اپنی دیانت وامانت اور محنت ومہارت کے ساتھ خان صاحب نے اس شعبے میں اتنا بڑا نام حاصل کیا کہ انکم ٹیکس معاملات میں عدالتیں بھی ان کو سند مانتی تھیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے معاشی خوش حالی کے دروازے کھول دیے۔ ایک جھونپڑے میں مقیم خاندان اب شہر کے خوش حال علاقوں میں رہائش پذیر تھا۔ شروع میں ناظم آباد کے کرائے کے ایک مناسب مکان میں رہائش اختیار کی۔ کچھ ہی عرصہ بعد نارتھ ناظم آباد میں چار کنال زمین خریدی۔ جہاں اپنے اور اپنے عزیزواقارب کے گھر تعمیر کرائے۔

تین عظیم شخصیات سے قلبی تعلق

خان صاحب تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم کی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ اس کے علاوہ انھیں علامہ اقبالؒ سے ان کے پراثر اور اسلامی افکار سے مالامال انقلابی کلام کی وجہ سے بڑی عقیدت تھی۔ سیدمودودیؒ کا نام انھوں نے تحریک پاکستان کے دوران اس وقت سنا تھا جب سیدمرحوم کے دو قومی نظریے پر مضامین کو آل انڈیا مسلم لیگ کا شعبہ نشرواشاعت ملک بھر میں کتابچوں کی صورت میں چھاپ چھاپ کر تقسیم کررہا تھا۔ چودھری خلیق الزمان مسلم لیگ کے شعبہ نشرواشاعت کے انچارج تھے اور وہ ان کتابچوں کو گھر گھر پہنچانے کا عزم کیے ہوئے تھے۔ نعمت اللہ صاحب بھی ان مضامین سے بہت متاثر ہوئے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے جب دیکھا کہ مسلم لیگ کی قیادت قائداعظم کے بعد اپنے اصل ہدف سے ہٹ کر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور ذاتی مفادات کا شکار ہوگئی ہے تو انھیں سخت مایوسی ہوئی۔ ظاہر ہے جن لوگوں نے اپنی جوانیاں اور زندگی کا قیمتی حصہ کسی تحریک کے لیے وقف کیا ہو وہ اس سے جادۂ حق پر قائم رہنے کی توقع رکھتے ہیں اور جب یہ توقعات پوری نہیں ہوتیں تو دل برداشتہ ہونا فطری امر ہے۔

تحریکی سفر

نعمت اللہ خان صاحب کو یہ بات بڑی عجیب لگی کہ مسلم لیگ کی قیادت جو مولانا مودودیؒ کی تحریروں کے پمفلٹ چھاپ چھاپ کر تقسیم کرتی تھی، اب انھیں پاکستان دشمن قرار دے رہی تھی۔ اسی چیز نے خان صاحب کو دوبارہ مولانا کی تحریروں کی طرف مائل کیا۔ خان صاحب کو مطالعہ کا شوق تو شروع ہی سے تھا، اب انھوں نے مولانا کا لٹریچر تفصیلاً پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران وہ جماعت اسلامی کے باقاعدہ کارکن بنے اور بہت جلد اپنے آپ کو جماعت اسلامی سے وابستہ کرلیا۔ آپ کا سب سے پہلے جماعت اسلامی کے جن احباب سے تعارف ہوا ان میں علاقے کے ناظم ماسٹر صدیق صاحب اور نارتھ ناظم آباد سے منتخب ہونے والے ایم پی اے افتخااحمد صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

منفرد اعزاز

خان صاحب کی رکنیت کراچی میں 1970ء کی دہائی کے آغاز میں 1974ء میں منظور ہوئی۔ اس وقت غالباً حکیم صادق حسین مرحوم کراچی جماعت کے امیر تھے۔ یہ خوب حسن اتفاق ہے کہ پروفیسرغفور احمد اور نعمت اللہ خان بعض دیگر ساتھیوں کے ساتھ اکٹھے عمرہ کرنے سعودی عرب گئے ہوئے تھے۔ حرم مکی میں کچھ دوسرے دوستوں کی ہمراہی میں ایک نشست ہوئی جس میں پروفیسر صاحب نے خان صاحب سے حلف رکنیت لیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب مکہ سے مدینہ گئے تو روضۂ اطہر کے قریب مسجد نبوی میں خان صاحب کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس مقدس مقام پر بھی انھیں اپنے حلف کی تجدید کرنی چاہیے۔ چنانچہ ان کی خواہش کے احترام میں پروفیسر صاحب نے وہاں بھی ان سے حلف رکنیت لیا۔ جماعت اسلامی کے ہزاروں ارکان میں سے یہ اعزاز غالباً صرف خان صاحب ہی کو حاصل ہوا۔

عائلی زندگی

کراچی میں خان صاحب کا خاندان جن حالات میں رہائش پذیر ہوا اس کی جھلک اوپر آپ نے ملاحظہ فرمائی ہے۔ خان صاحب کے اللہ سے تعلق اور اس کی رحمت پر یقین کامل کے ثمرات مسلسل اور بتدریج ظہور پذیر ہورہے تھے۔ مشکلات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے کامیابیوں کے راستے کھول دیے۔ معاشی تنگی کا دور بیت گیا اور اللہ نے مثالی خوش حالی کی زندگی عطا فرمائی۔ خان صاحب کی شادی 1960ء میں ہوئی۔ ان کی اہلیہ طاہرہ خاتون بہت ہی سمجھ دار اور سلیقہ شعار گھریلو خاتون تھیں۔ خان صاحب کے ساتھ 34سال کی رفاقت نے ان کے جوہر اور بھی چمکا دیے۔ طاہرہ خاتون خان صاحب کی زندگی میں 1994 ء میں اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس خوش قسمت جوڑے کو سعادت مند اولاد سے خوب نوازا۔ سات بیٹے اور دو بیٹیاں زندگی میں خان صاحب کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک تھے اور اب وفات کے بعد ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔ اللہ ان سب کو سلامت رکھے۔

باغیچۂ نعمت

سب سے بڑے بیٹے برادرم وسیم اقبال ہیں۔وسیم اقبال پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں۔ کچھ سال پہلے اس شعبے کو چھوڑ کر سٹاک مارکیٹ میں شیئرز کا کاروبار شروع کیا جو اللہ کے فضل سے ٹھیک چل رہا ہے۔ وسیم بھائی کے دو بچے ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ دوسرے نمبر پر ندیم اقبال ہیں، انھوں نے قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے والد صاحب کے نقش قدم پر شعبہ انکم ٹیکس میں پریکٹس شروع کی اور مرحوم خان صاحب کی طرح موصوف بھی اپنے شعبے میںنہایت کامیاب ہیں۔ تحریک کے کئی اداروں میں بھی اہم ذمہ داریوں پر فائز ہیں۔ ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ پھر ترتیب میں ان کے چھوٹے بھائی فہیم اقبال ہیں۔ ان پر کچھ عرصہ پہلے فالج کا حملہ ہوا تھا، مگر اللہ نے انھیں محفوظ رکھا۔ یہ کراچی میں پراپرٹی کا کام کرتے ہیں۔ اللہ نے دو بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائی ہے۔ چوتھے بیٹے کلیم اقبال خان 1999ء کے آخر میں کراچی سے لاہور منتقل ہوئے۔ ان کی رہائش DHA فیز6 ،لاہور میں ہے۔ کلیم اقبال Lubricant اور آئل کے شعبے میں اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کے دو بیٹے ہیں: زید کلیم خان اور موسیٰ کلیم خان۔ نعمت اللہ خان صاحب کئی مرتبہ لاہور آتے اور اپنی بیٹے کے پاس کئی دن مقیم رہتے۔ اس دوران ان کی منصورہ آمد بھی ہوتی رہتی، جس سے ہم لوگوں کو یک گونہ مسرت ہوتی۔

پھول اور کلیاں

خان صاحب کے بیٹے نعیم اقبال کینیڈا میں مقیم ہیں اور ان کو اللہ نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی عطا فرمائے ہیں۔ سب سے چھوٹے دونوں بیٹے عاصم اقبال اور ناظم اقبال کراچی میں مقیم ہیں۔ عاصم کے آنگن میں ایک پھول اور ایک کلی ہے، جبکہ ناظم اقبال کے ہاں دو پھول اور دو کلیاں ہیں۔ خان صاحب کی دو صاحبزادیاں ہیں۔ افشاں عزیز اور لبنیٰ راشد۔ دونوں کراچی میں مقیم ہیں۔ افشاں عزیز کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، جبکہ لبنیٰ کی شادی طارق مرزا سے ہوئی تھی، جن سے ایک بیٹی ہے۔ طارق مرزا کی وفات کے بعد لبنیٰ کی دوسری شادی راشد صاحب سے ہوئی۔ ان سے کوئی اولاد نہیں لیکن دونوں میاں بیوی خوش ہیں۔ اللہ ان کو ا پنی رحمتوں سے نوازے۔

سندھ اسمبلی میں

۔1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں نعمت اللہ خان سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان انتخابات کے بعد امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد مرحوم کے حکم پر راقم کینیا سے واپس آیا۔ کراچی میں جہاز سے اترا۔ ایک رات قیام کے بعد لاہور کے لیے پی آئی اے کی پرواز سے روانگی تھی۔ جماعت اسلامی کراچی کے دفتر میں آیا تو معلوم ہوا کہ انتخابی نتائج کے مطابق خان صاحب اور دیگر جماعتی رفقا کے ایم پی اے منتخب ہونے کا نوٹیفیکیشن جاری ہوگیا ہے اور وہ دفتر جماعت میں ذمہ داران اور دیگر چار منتخب ارکان اسمبلی کے ساتھ موجود ہیں۔ 1970 میں بھی کراچی سے ایک ایم پی اے جناب افتخار احمد منتخب ہوئے تھے۔ اس موقع پر وہ بھی موجود تھے۔ خان صاحب کو اللہ نے عزت سے نوازا۔ اپوزیشن ارکان نے اسمبلی میں بطور ’’اپوزیشن لیڈر‘‘ آپ پر اعتماد کا بھرپور اظہار کیا۔

شہدا

۔1988ء میں اسمبلی کی تحلیل تک تقریباً ساڑھے تین سال اپوزیشن لیڈر کے منصب پر خان صاحب فائز رہے۔ اس دوران آپ نے کراچی اور سندھ کے عوام کی ترجمانی کا حق ادا کیا اور بھرپور انداز میں عوامی مسائل اسمبلی میں اٹھائے۔ جماعت اسلامی کے چار دیگر ایم پی اے بھی کراچی سے تھے، جناب ڈاکٹر محمد اطہر قریشی، جناب اخلاق احمد، جناب محمداسلم مجاہد اور جناب غلام حسین بلوچ۔ سبھی نہایت قیمتی ساتھی تھے۔ واضح رہے کہ بعد میں ہمارے دو ساتھی اطہر قریشی اور محمداسلم مجاہد قوم پرست گروپ ایم کیو ایم کے ہاتھوں شہادت پاگئے تھے۔

جماعتی ذمہ داریاں

امیر جماعت اسلامی کراچی سید منور حسن صاحب کا دسمبر1991ء میں مرکز جماعت میں نائب قیم کی ذمہ داری پر تقرر ہوا۔ اس موقع پر نعمت اللہ خان صاحب کو عارضی امیر کراچی مقرر کیا گیا۔ بعد میں استصواب کے نتیجے میں انھیں مستقل امارت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ مرحوم اس وقت تک اس ذمہ داری پر فائز رہے جب ستمبر2001ء میں جماعت نے انھیں میئرکراچی کے لیے امیدوار نامزد کیا۔ اس نامزدگی کے بعد انھوں نے امارت سے استعفا دے دیا۔ ان کی جگہ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی پہلے عارضی امیر اور پھر مستقل امیر مقرر ہوئے۔ نعمت اللہ خان صاحب مرکزی مجلس شوریٰ میں پہلی بار اپریل 1985ء میں منتخب ہوئے۔ اس کے بعد مسلسل منتخب ہوتے رہے۔ وہ شوریٰ کے اجلاسوں میں بھرپور تیاری کے ساتھ شریک ہوا کرتے تھے۔ ان کی گفتگو بھرپور استدلال پر مبنی ہوتی تھی۔

کراچی کا پہلا ناظم

۔2001ء میں متعارف کرائے جانے والے ضلعی حکومتوں کے نظام میں جماعت اسلامی نے خان صاحب کو بلدیاتی انتخابات میں اتارا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں نعمت اللہ خان کراچی کے پہلے ناظم منتخب ہوئے۔ ایک نئے نظام میں منی پاکستان کہلانے والے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی نظامت ایک بہت بڑا چیلنج تھی جس میں مرحوم سرخرو ہوئے۔ آپ نے عزم و ہمت، انتھک محنت اور امانت و دیانت کے ذریعے ایم کیو ایم کے ہاتھوں تباہ شدہ شہر قائد کو اندھیروں سے نکال کر پھر روشنیوں سے منور کرنے کے لیے کمر ہمت باندھ لی۔ کراچی کے 18میں سے کئی بلدیاتی ٹاؤن کے ناظم بھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے۔ لوگوں کو مرد درویش عبدالستار افغانی مرحوم کا حسین دور یاد تھا۔ خان صاحب نے افغانی صاحب کی روایات کو مزید آگے بڑھایا اور شہر کراچی اور اس کے باسیوں کی بے مثال خدمت کرکے اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت کیا۔ 4 سال کے مختصر عرصے میں آپ نے کراچی کی شکل یکسر بدل کر رکھ دی۔ باوجود اس کے کہ آپ کو ایم کیو ایم جیسی فاشسٹ لسانی تنظیم کے گورنراور صوبائی وزرا کے معاندانہ رویے کی وجہ سے شدید مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا تھا لیکن آپ نے جوانمردی اور استقامت سے ان کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا اور کراچی کی خدمت اور اس کے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کسی قسم کی مداہنت سے ہمیشہ انکار کیا۔

شہری سہولیات اور روشنی کا اہتمام

نعمت اللہ خان جب ناظم کراچی منتخب ہوئے تو شہر کی آبادی5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی تھی لیکن اس کے مقابلے میں شہر کے اندر شہری سہولیات کا شدید فقدان تھا اور ترقیاتی کاموں کا کہیں وجود نہیں تھا۔ شہری انفراسٹرکچر تباہ حال تھا اور پورا شہر کسی اجاڑ جنگل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ تقریباً تمام بڑی شاہراہیں اور اندرونی راستے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے، بڑی چورنگیوں پر گھنٹوں ٹریفک جام رہتا، سیوریج کا نظام ابتر تھا، اورکبھی روشنی کا شہر کہلانے والے کراچی کی سڑکیں تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ اس صورتحال سے گھبرانے کے بجائے بہترین منصوبہ بندی اور کامیاب حکمت عملی سے آپ نے اس تیز رفتاری سے ترقیاتی کام کرائے اور ایسی شہری سہولیات فراہم کیں کہ پاکستان اور اس خطے میں اس کی کوئی اور مثال نہیں پیش کی جا سکتی۔

عوامی مسائل کے لیے دن مختص

ناظم کراچی کی حیثیت سے یہ واحد اور منفرد مثال ہے کہ آپ نے ہفتے میں ایک دن عوامی رابطے کے لیے مختص کیا۔ اس دوران ساٹھ ہزار سے زائد عوامی مشکلات و مسائل کو حل کیا۔ ابتدائی تین سالوں میں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور عامۃ الناس سے2 لاکھ خطوط، فائلیں، فیکس اور ای میلز موصول ہوئیں جس پرآپ نے مختلف محکموں کو احکامات جاری کیے۔ شہری مسائل کے حل کے لیے صدر پاکستان، گورنر، وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری سندھ سے ملاقاتیں کیں۔ ورلڈ بنک اور ایشین بنک کے علاوہ کراچی میں مختلف ممالک کے قونصل جنرلز اور مختلف ممالک کے سرمایہ کاروں اور تعلیمی وفود سے ملاقاتوں کے کا اہتمام کیا۔ اپنے دورِ نظامت میں آپ نے 2500 کے قریب عوامی جلسوں اور افتتاحی تقریبات میں شرکت کی۔ نعمت اللہ خان بلاشبہ کراچی کے سب سے بہترین اور کامیاب ترین مئیر تھے۔

رول ماڈل

مرحوم نے بروقت عوامی مسائل کے حل، سہولیات کی تیز رفتار فراہمی، بے مثال ترقیاتی کاموں اور امانت کا جو معیار قائم کیا ہے، وہ کراچی کے عوام میں ایک ’’رول ماڈل‘‘ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، اور اب وہ ہمیشہ نئے آنے والے ناظمین کی صلاحیتوں کا نعمت اللہ خان کی کامیابیوں کے ساتھ موازنہ کریں گے، کراچی پر مسلط لوگ مرحوم کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکیں گے۔ نعمت اللہ خان کی بہترین شہری خدمات کے نتیجے میں2005 میں دنیا کے بہترین مئیرز کی فہرست میں شامل ہوئے، مگر حتمی نتیجہ آنے سے قبل ہی آپ کی مدت نطامت ختم ہو گئی۔ آپ کی لازوال خدمات کے نتیجے میں بلامبالغہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر آپ کی نظامت کا عرصہ باقی ہوتا تو آپ کا نام ’’ٹاپ مئیرز آف دی ورلڈ‘‘ کی لسٹ میں آجاتا۔

مسیحا کے روپ میں

کسی بھی ناگہانی آفت و مصیبت کے وقت نعمت اللہ خان ہمیشہ متآثرین کی مدد کے لیے سب سے پہلے پہنچتے تھے۔ الخدمت ویلفئیر سوسائٹی کراچی کے بانی اور سربراہ ہونے کی حیثیت سے آپ نے کراچی کی غریب اور کم آمدنی والی آبادی کے لیے کئی رفاہی سکیمیں بنائیں اور پورے شہر میں ہسپتالوں، ڈسپنسریوں، اسکولوں اور مدارس کا جال سا بچھا دیا تھا۔ اس کے علاوہ1996ء میں دادو، سندھ میں سیلاب،1997ء میں ہرنائی، بلوچستان میں زلزلے،1998ء میں تربت وگوادر، بلوچستان میں سیلاب، 1999ء میں کیٹی بندر، جاتی، بدین اور سندھ کے دیگر ساحلی علاقوں میں سمندری طوفان کے موقع پر ریلیف آپریشنز کی قیادت اور خود ہر کام کی نگرانی کی اور دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھا۔آپ کو جنوری2008ء میں الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کا صدر مقرر کیا گیا۔ اس منصب پر آپ نے اکتوبر2011ء تک مثالی خدمات کا ریکارڈ قائم کیا۔ کئی غیرملکی دورے کیے اور فنڈ ریزنگ کے مقامی اور انٹرنیشنل پروگراموں کا اہتمام کیا۔

آفاتِ ارضی وسماوی میں خدمتِ خلق

۔1997ء میں تھرپارکر میں آنے والے قحط کے دوران اور اس کے بعد نعمت اللہ خان نے تھرپارکر کے وسیع و عریض صحرا کے چپے چپے پر عوامی خدمت کا جو کام جماعت اسلامی کے نظم، کے تحت محدود وسائل سے کیا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس کام سے کروڑوں ڈالر کی بیرونی امداد پانے والی این جی اوز کے کام کا موازنہ کریں تو یہ کام ان سب سے کہیں زیادہ ہے۔آپ نے تھرپارکر میں میٹھے پانی کی فراہمی کے لیے ’’زمزم پراجیکٹ‘‘ کے نام سے 363 کنویں کھدوائے جن سے ہزاروں بے وسیلہ مسلم اور ہندو صحرانشینوں کو یکساں اور بلا امتیاز پانی فراہم ہو رہا ہے۔ اسی طرح1000 سے زائد دیہاتوں میں ’’العلم پراجیکٹ‘‘ کے نام سے ان مظلوم و محروم لوگوں کی نئی نسل کوزیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے اسکول قائم کیے جو اکیسویں صدی میں بھی زمانہ قبل از تاریخ کے حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس منصوبے سے بھی ہندوآبادی کو بے پناہ تعلیمی فائدہ ہوا۔

غریب کی عزتِ نفس

آپ1997ء سے زندگی کے آخری سالوں تک اس بے آب و گیاہ صحرا کے دور دراز گوشوں کا طویل، تکلیف دہ اور تھکا دینے والا سفر کر کے ان مفلوک الحال لوگوں کی خبر گیری کرتے رہے ہیں۔ اسلام کے یہ بے لوث کارکن اور انسانیت کے سچے خادم محروم طبقات کو ان کی بنیادی ضرورت کی چیزیں ان کے گھروں کے دروازے تک پہنچاتے رہے ہیں۔ مرحوم کو یہ بات گوارا نہیں تھی کہ لوگوں کو قطاروں میں کھڑا کر کے ان کی عزت نفس مجروح کی جانے کے بعد امداد کی جائے۔ یہی مدینہ کی اسلامی ریاست کی شان دار تاریخی روایت تھی۔

زلزلہ اکتوبر2005ء

اکتوبر2005ء میں آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کی امداد و بحالی کے لیے آپ کو الخدمت پاکستان کا کوارڈینیٹر مقرر کیا گیا۔ آپ نے زلزلہ متاثرین تک نہ صرف کروڑوں روپے کی مالی امداد پہنچائی بلکہ انھیں غذائی سامان، کپڑے، کمبل اور خیمے بھی مہیا کیے۔ آپ زندگی کے آخری لمحے تک بے گھر متاثرین زلزلہ کے لیے آبادیاں بسانے کی پلاننگ کرتے رہے۔حق تعالیٰ اس مرد درویش کی جملہ خدمات کو شرف قبولیت بخشے۔

عالم اسلام سے ہمدردی

نعمت اللہ خان کی فلاحی سرگرمیاں صرف پاکستان تک محدود نہیں تھیں بلکہ اسلامی اخوت کے جذبے کے تحت دیگر اسلامی ممالک کے مصیبت زدہ عوام کی مدد کے لیے بھی آپ ہمیشہ اور ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ چند سال قبل اسرائیل نے لبنان پر جنگ مسلط کی تو نعمت اللہ خان نے مظلوم لبنانیوں کی داد رسی کے لیے وہاں کا دورہ کیا اور کروڑوں روپے کی امداد بہم پہنچائی۔ اسی طرح غزہ کے مظلوم ومحصور فلسطینی مسلمانوں اور کشمیر کے ستم رسیدہ مسلم بھائی بہنوں کی امداد کے لیے ہر ممکن راستے سے کام لے کر دست تعاون بڑھاتے رہے۔

وفات

نعمت اللہ خان 25فروری بروز منگل 89سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ مرحوم کے جنازے میں حکومتی اور اپوزیشن شخصیات، عوامی ہجوم اور جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکنان شریک تھے۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹرسراج الحق خصوصی طور پر اسلام آباد سے کراچی پہنچے اور مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان (جو ان کے خاندان تک ہی محدود نہیں بلکہ عوام کی کثیر تعداد بھی اس کا حصہ ہے) کو صبر واجر سے نوازے۔

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں ، سمندر میں اتر جاؤں گا!