تاریخِ گم گشتہ”تہذیبوں کے گیت“۔

حمد… نظم… غزل… اور الف لیلہ داستان

تحریر:مائیکل ہیملٹن مورگن/ترجمہ و تلخیص:ناصر فاروق
مکہ، عرب، 600ء… اسلام کی ابتدائی زندگی میں، خدائے ذوالجلال کی وہ حمد پڑھی گئی، جو پھر پورے عالم میں گونجی۔ موسیقی اور نغمگی کی نئی جہتیں پیدا ہوئیں، سُروں کی نئی صورتیں بنتی چلی گئیں، یہاں تک کہ اصل ماخذ پربحث چھڑگئی۔
یہ موسیقی قدیم تہذیبوں سے کئی سُروں کے اتار چڑھاؤ میں ہوتی ہوئی وہاں پہنچی، جہاں مسلمانوں نے اسے خوبی سے جذب کیا۔ بازنطینی، رومی، یونانی، عربی، یہودی، فارسی، ہندی، بربر، بلقانی، اور منگولی موسیقی کے اجزا سے مسلم موسیقی تشکیل پائی۔ اس حمد یا نظم کے لیے بہترین اصطلاح ’’تہذیبوں کا گیت‘‘ ہوسکتی ہے۔ یہیں سے اظہارات کی بے شمار نئی راہیں نکلیں۔ یہ راہیں مذہبی اور الحادی دونوں نوعیتوں کی تھیں۔ ’’تہذیبوں کے گیت‘‘ کی گونج حمدِ باری تعالیٰ کی صورت میں ہر سو سنائی دی۔ بہت سے مسلم حکماء نے موسیقی پرنئی تحقیق کی اور سُروں کی نئی صورتیں تخلیق کیں، موسیقی کو فلسفے کی شاخ بیان کیا، اور ریاضی سے براہِ راست نتھی کیا۔ بڑے نامور مسلمان حکماء، ریاضی دان، ماہرینِ فلسفہ، اور ماہر الادویہ تک نے موسیقی کے پیچیدہ تر سانچے وضع کیے۔ الکُندی، ابن سینا، اور ابن رشد نے موسیقی کے کلیوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا، حروفِ تہجی کی بنیاد پر موسیقی کے سُرتال ضبطِ تحریر میں لائے گئے۔
زریاب، نویں صدی کے بغداد کے معروف موسیقار نے موسیقی کی، دنیا کی پہلی درس گاہ قائم کی۔ وہ نہ صرف اعلیٰ موسیقار تھا بلکہ انواع و اقسام کے کھانوں اورکپڑوں کی نت نئی تراش خراش کا ماہر بھی تھا۔ موسیقی کا ایک اور فارسی النسل ماہر ابونصر الفارابی تھا، نویں صدی میں شام کے دربارسے تعلق رکھتا تھا۔ فارابی نے موسیقی پر پانچ مقالے تحریر کیے، موسیقی پراُس کے مشاہداتی کلیات ان میں شامل تھے: انسان اور جانور، اپنی جبلتوں کے تحت وہ آوازیں نکالتے ہیں جو جذبات ظاہرکرتی ہیں، احساسات واضح کرتی ہیں، یہ خوف اور خوشی میں تمیز کرتی ہیں۔ انسانی آواز میں اظہارات کی ایک دنیا بستی ہے۔ اداسی، محبت، غصہ، اور دیگر جذبات اور احساسات کے لیے اس آواز میں بڑا تنوع پایا جاتا ہے۔ آواز کی یہ تمام صورتیں سننے والے پر اثرانداز ہوتی ہیں، اُس کے احساسات میں اتار چڑھاؤ کا سبب بنتی ہیں، اُسے تسکین پہنچاتی ہیں۔ الفارابی نے آواز کی پچ اور آٹھ سُروں کے سنگم کی درستی اورآہنگ پر تفصیل سے لکھا۔
بارہویں صدی کے مسلم عبقری الغزالی نے صوفیانہ ایمان اور عارفانہ موسیقی میں براہِ راست تعلق کی وضاحت کی: انسانی دل تک رسائی سمع نوازی کے بغیر ممکن نہیں… یہ دل کے حُسن وقبح نمایاں کردیتی ہے۔ موسیقی پر ان کُلیات کے ترجمے کیے گئے، اندلس اور سسلی سے انھوں نے شمالی یورپ کی راہ لی، صلیبی سپاہی اور دیگر ذرائع علم کی ترسیل کرتے رہے، گو اس میں صدیوں کے فاصلے بھی طے ہوئے۔ مؤرخ ایچ جی فارمر کے مطابق مسلمانوں سے یورپ منتقل ہونے والا ایک اہم علم ’موسیقی کے سُرتال‘ ہیں۔ اطالوی نویں اور دسویں صدی میں مسلم موسیقی کے سُرتال استعمال کررہے تھے۔ اپنی کتاب Historical Facts for the Arabian Musical Influence میں وہ عربی اور اطالوی سُروں کا موازنہ کرتا ہے، فرق واضح کرتا ہے۔
قرونِ وسطیٰ کے اندلس اور سسلی میں مسلم شاعری اور موسیقی کئی مختلف شکلیں اختیار کرگئیں۔ موسیقی کی ایک اندلسی شکل کا نام ’الموشحات‘ تھا، یہ عرب میں بہت مقبول ہوئی، اور اسی سے موسیقی کی ایک نئی شاخ ’زجل‘ نکلی، جوقدیم روایتی نوعیت کی تھی۔
تیرہویں صدی میں، کاسٹل اور لیون کے عیسائی بادشاہ الفانسو نے شعراء سے چار سو مقدس مسیحی گیت لکھوائے، جن میں سے تین سو گیت مسلم موسیقی کی نقل اور مواد پر تیار کیے گئے تھے۔ کئی صدیوں بعد بھی شمالی اسپین کے عیسائی مسلم گیتوں سے مشابہ گیت گاتے رہے، جو ابتدا میں حضرت مریم علیہ السلام کے لیے تھے، پھر بعد میں کسی بھی پاک باز خاتون کے لیے گائے جانے لگے۔ یہ مسیحی گیت گانے والے فرانس میں troubadours اوراٹلی میں trovatoriکہلاتے تھے، ان کے نام ممکنہ طور پر عربی کے ’طرب‘ سے مشتق ہیں، جس کے معنی ’وجد‘ یا ’سرمستی‘ کے ہیں۔
محبوب کے لیے غزل کہنے کا عربی اسلوب یورپی ثقافت میں عام رواج پاگیا۔ غزل کی یہ شاعرانہ قسم یورپی ادب میں سرایت کرگئی۔ عورت سے آگہی اور شناسائی کے کئی نئے پہلو سامنے آئے۔ عورت کی تکریم کا تصور یورپی معاشرے میں متعارف ہوا۔ عموماً موسیقی کی یہ ترسیل پائرینیز آنے جانے والے مسافروں کے ذریعے ہوئی، ان مسافروں میں Charlemagneبھی شامل تھا، اُس نے مسلم اندلس میں سات سال گزارے۔
موسیقی پر اکیسویں صدی کے مؤرخ ڈاکٹر رباح سعود کہتے ہیں کہ نہ صرف مسلم موسیقی کے کلیے اور سُرتال شمالی یورپ گئے بلکہ آٹھویں اور نویں صدی میں مسلمان فنکاروں نے اٹلی، فرانس، اور شمالی مسیحی اسپین میں موسیقی کے نت نئے آلات بھی متعارف کروائے۔ مسلم آلۂ موسیقی ’اُد‘ نے بتدریج یورپی گٹار کی صورت اپنائی۔ عربی ’غایطہ‘ اسکاٹش بیگ پائپ اور ہسپانوی پرتگالی gaita کہلایا۔ مسلم آلۂ موسیقی ’قانون‘ نے انگریزی کے harp اور جرمن کے zitherکو پیدا کیا۔ فارسی کا ’کمانچہ‘ اور عربی کا ’رباہ‘ آگے چل کر وائلن بن گیا۔ مسلم ’زورنا‘، لکڑی کا آلۂ موسیقی، Oboe کی شکل اختیار کرگیا۔ فارسی کے’سنتور‘کی شکل آگے چل کر یورپی’کی بورڈ‘ آلاتِ موسیقی میں ڈھل گئی۔ پورے یورپ میں مسلم موسیقی کے سُروں نے طویل سفر کیا، اسپین میں بھی ان کی گونج سنائی دیتی رہی۔ محبت اور تہذیبوں کے ان گیتوں کے قالب بدل گئے لیکن کیتھولک فاتحین نے انھیں مٹنے نہیں دیا۔
ہسپانوی مسلمان یا تو دیس نکالا دیے گئے، یا جبراً عیسائی بنادیے گئے، یا ماردیے گئے۔ یہ سب آبائی وطن میں دربدر ہوگئے۔ ان میں سے کچھ جپسی خانہ بدوشوں کا روپ دھار گئے، جو آزاد اور محفوظ طبقہ تھا۔ ان جپسی مسلمانوں نے موسیقی کی ایک قسم ایجاد کی، جسے flamenco نام دیا گیا، جس کے بارے میں بیسویں صدی کے کیوبن ناول نگار Gabriel Cabrera Infante کا کہنا ہے کہ عربی کی اصطلاح ’’فلاحین‘‘ سے درآمد شدہ ہے، جس کا مطلب خانہ بدوش کسان ہیں۔ اور مغرب میں مسلم موسیقی کی شکل جو زریاب سے منسوب ہے، اسپین، پرتگال، اور پورے یورپ تک محدود نہیں رہی۔ یہ ہسپانوی نوآبادکاروں کے ہمراہ مغرب، لاطینی وشمالی امریکہ کی جانب گئی۔ برازیل میں یہ ’’سامبا‘‘ بن گئی، میکسیکو میں jarabeکہلائی، چلی میں la cuecaکے عنوان سے پہچانی گئی، ارجنٹینا اور یوروگوائے میں elgato اور کیوبا میں la guajira پکاری گئی۔
ماہرینِ موسیقی نے یہ دعویٰ تک کیا ہے کہ افریقہ سے شمالی امریکہ لائے گئے مسلمان غلام جو حمد پڑھا کرتے تھے، اُس میں اندلسی سُروں کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔
کونیا، اناطولیہ، 1228ء… بے مثل فارسی شاعر جلال الدین رومی جو موسیقی سنا کرتے تھے، انوکھی نوعیت کی تھی۔ وہ سن1207ء میں افغانستان میں پیدا ہوئے تھے۔ کم سنی میں ہی اُن کا خاندان تاتاریوں کے حملے سے بچنے کے لیے مغرب کی طرف ہجرت کرگیا تھا، اناطولیہ میں جہاں سلجوق خاندان کی حکمرانی تھی، وہاں یہ آباد ہوئے۔ محلات اور میناروں کے قدیم شہر کونیا میں جا ٹھیرے تھے۔ مولانا رومی صوفیانہ شاعری میں درجۂ کمال پر پہنچے، مکتبہ تصوف سے متعلق تھے۔ تصوف کی روایت میں شاعری اور موسیقی کے ذریعے انسانی روح پر معرفتِ الٰہی کے دروازے وا کیے جاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ سارے مذاہب کی بنیاد ایک ہی ہے، خواہ ان کے ماننے والوں کا رنگ اور نسل کچھ بھی ہو:۔

نیک بندوں کی ساری محبتیں تمام دعائیں جیسے جسد ِواحد ہوں
سارے انبیاء کی تعریفیں جیسے باہم گوندھی ہوئی ہوں
سارے دھارے جیسے ایک دریا میں آملے ہوں
یہ سب اس لیے کہ خالقِ کائنات واحد ہے
سارے مذاہب دینِ واحد سے پھوٹتے ہیں
ساری تعریفیں خدائے نور کے لیے ہیں
ساری صورتیں ساری شکلیں اُسی نور سے مستعار ہیں…

مولانا روم کونیا کے ایک مدرسے پہنچے، اور مقبولیت پائی، تصوف کی بنا ڈالی۔ اس مدرسے کے داخلی دروازے پر یہ کندہ ہے:

یہاں آنے والوں کو خوش آمدید
خواہ کہیں سے آئے ہوں
آوارہ ہوں، بُت پرست ہوں، یا آتش پرست
چاہے ہزاروعدے توڑچکے ہوں
آؤ با ر بار یہاں آؤ
کہ ہمارا قافلہ مایوسی کا کارواں نہیں

مولانا روم کے شاگرد محض صوفی نہ تھے بلکہ محنت کش اور عملی زندگی سے متعلق بھی تھے۔ کوئی چمڑے کا کام کرتا تھا، کوئی درزی تھا، اور کوئی موچی تھا۔ یہ سب متحداور ہمدرد تھے۔ مولانا روم کے حال کی کیفیت، جو گھر کے ایک ستون کے گرد گردش کے دوران اُن پر طاری ہوتی تھی، ’’مولویہ‘‘ کہلائی۔ یہ درویشانہ گردش آٹھ صدیوں بعد بھی جاری ہے، اور اُن سے ہی منسوب ہے۔ ان صوفیوں کا یقین ہے کہ حال کی یہ کیفیت خدا سے جوڑدیتی ہے، کوئی واسطہ راہ میں حائل نہیں رہتا۔ فارسی شاعر عمر خیام کی طرح، مولانا روم نے بھی عشقِ حقیقی پرشاعری کی۔مرشد شمس تبریز سے ملاقات کے بعد مولانا روم کی زندگی میں تبدیلی رونما ہوئی، وہ تدریس چھوڑ کرشمس تبریز سے اسرار ورموز کی کھوج میں لگ گئے۔ بہت سے لوگ الجھن میں پڑگئے کہ مولانا کو آخرکیا ہوگیا؟ بات بتنگڑ بننے لگی، شمس تبریز اسی دوران اچانک غائب ہوگئے۔ برسوں مولانا روم نے شمس تبریز کی جُدائی کا غم کیا، اور یہ باورکیا کہ درحقیقت شمس اُن کا ہی انعکاس تھے۔

میں اُسے کیوں تلاش کروں؟جب کہ میں وہی ہوں
اُس کی روح مجھ میں کلام کرتی ہے
میں اپنی ہی کھوج میں رہا ہوں

ایک قصہ یہ سنتے ہیں کہ وفات سے پہلے، شمس تبریز دمشق میں سامنے آئے تھے، اُن کی Francis of Assisiسے ملاقات ہوئی تھی، یہ ایک نوجوان اطالوی صلیبی تھا۔ وہاں اُس نے تصوف سے آشنائی حاصل کی، اور پھر دنیا تک منتقل کیا۔ مولانا روم کی مثنوی نے بعد کے فارسی اور ترک ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ سات صدیوں بعد مولانا روم نے غیر مسلم دنیا میں شہرت کی نئی بلندیوں کو چھوا ہے، یورپ اور امریکہ میں انھیں بہت زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں کہیں جاکر مغرب نے انھیں دریافت کیا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اکیسویں صدی کی آمد تک رومی کی شاعری امریکہ میں سب سے زیادہ خریدا جانے والا ادب تھا، ایک ایسے معاشرے میں کہ جہاں عموماً شاعروں کوپڑھا نہیں جاتا۔

ہم بے بس ہیں اس عشق کے آگے
تم کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہو ہم سے؟
کہ معتدل رہ پائیں گے
تم کیوں کر یہ امید لگاسکتے ہو؟
کہ اچھے بچوں کی مانند گھرپرٹک جائیں گے
مرے محبوب، تم ہر شب ہمیں پاؤگے اپنی گلی میں
یوں کہ تمہاری کھڑکی پرہماری نظر لگی ہوگی
رخ روشن پرتمہاری اک جھلک کی منتظر ہوگی

مسلم دنیا میں اور بہت سے یادگار قصے اور ناقابلِ فراموش داستانیں ہیں، جن سے ادب آراستہ ہے۔ یہ ادب دیگر دنیا میں بھی مقبول ہوا ہے۔ یہ شاعری اور نثر دونوں صورتوں میں آگے بڑھا ہے۔ شاعری کی ایک عربی شکل قصیدہ بھی ہے، جس کا ہندوستان کے مغل درباروں میں خاصا رواج ہوا۔ تاہم عربی شاعری میں کثرت سے علامتوں اور استعاروں کے استعمال نے منتقلی دشوار بنائی۔ یہ کہانیاں اور نظمیں عوام میں طویل سفر جاری نہ رکھ سکیں۔البتہ الف لیلہ نے بڑی شہرت پائی۔ یہ ایک بڑے فریم میں لگی بہت ساری کہانیوں پر مبنی تصویرہے۔ فارسی بادشاہ شہریار ہے جس کی بیوی شہرزاد ہر رات اُسے نئی کہانی سناتی ہے، اگر وہ کہانی نہ سُنائے تو قتل کردی جائے گی۔ یوں وہ بادشاہ کا دل بہلائے رکھنے کے لیے ہررات نئی کہانی سناتی ہے۔ ان کہانیوں میں الٰہ دین، علی بابا، ہارون رشید کا دربار، سندبادکے سفر، اور دیگر شہرۂ آفاق کہانیاں شامل ہیں۔
گیارہویں اور بارہویں صدی میں جب صلیبی بیت المقدس پر دوبارہ قبضے کے لیے پہنچے، اُس دور میں الف لیلہ کی کہانیوں سے اُن کا سابقہ پڑا۔ وہ یہ کہانیاں یورپ ساتھ لے گئے، یوں کہانیاں سنی جاتی رہیں، سنائی جاتی رہیں۔ اطالوی مصنف Giovanni Boccaccio پر ان کہانیوں کا گہرا اثر ہوا، اور یہ اثر اُس کی اپنی کہانیوں پر بھی پڑا۔ اُس کی سوقصوں پر مشتمل Decameron میں الف لیلوی رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ برطانوی مصنف Geoffrey Chaucer نے الف لیلہ کی طرز پر ایک اپنا ہی ورژن تخلیق کیا اور اسے Canterbury Tales کا عنوان دیا۔ تیرہویں صدی کے اطالوی شاعر دانتے کو مسلمانوں کے قصے، شاعری، اور نظمیں سننے کے لیے صلیبی تجربہ درکار نہ تھا۔ وہ کافی وقت سسلی میں گزار چکا تھا، جہاں مسلمان عیسائی تہذیبیں یکجا تھیں، جہاں وہ نہ صرف مسلم ادب سے براہِ راست حظ اٹھا رہا تھا بلکہ قرآن سے بھی آگاہی حاصل کررہا تھا، اُس نے دارالحکمت کے حکماء کی تحقیقی تحریروں کا بھی مطالعہ کیا تھا۔
سولہویں صدی کے ہسپانوی مصنف Miguel de Cervantes نے شمالی افریقہ میں کئی سال بسر کیے تھے۔ اُسے عربی زبان پر بھرپور عبور تھا۔ اُس کی Don Quixote de la Mancha کئی زاویوں سے اندلسی ورثہ ہی معلوم ہوتی تھی۔ انگریز ڈراما نگارChristopher Marloweنے اپنے مشہور ڈرامے کا عنوان Tamburlaine وسطی ایشیائی مسلم فاتح تیمور لنگ کے نام پر رکھا۔ سولہویں صدی کے مقبول ترین ڈراما نگار ولیم شیکسپیر نے اپنے مشہور ہیرو Othello the Moor کا انتخاب مسلم پس منظر سے درآمد کیا۔
اٹھارہویں صدی میں جاکر فرانسیسی مترجم Antoine Galland نے الف لیلہ کا ترجمہ فرانسیسی میں کیا، بعد کے یورپی فن پاروں میں بھی یہ الف لیلوی رنگ نظر آئے، Jean-Auguste-Dominique-Eugene Delacroix، اور Henri Matisseکے کامو ں میں یہ نمایاں ہوئے۔ گوئٹے، لارڈ بائرن، اور والٹیئرجیسے بڑے فلسفی اور شاعر اسلامی ادب اور فنی صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔
باوجود موت کی دھمکیوں کے، شہرزاد کی کہانی کا انجام خوش کن ہوتا ہے۔ اس الف لیلہ کے نامعلوم مصنف نے ایک ہزار ایک ویں رات کویہ سلسلہ ختم کیا، اب تک شہرزاد سے بادشاہ کے تین بیٹے پیدا ہوچکے تھے۔ جب شہرزاد آخری کہانی سناچکی توکہا: ’’اے بے مثل بادشاہ، میں تیری کنیز ہوں، میں نے تجھے ایک ہزار ایک رات تک مسلسل لطف پہنچایا ہے، آج میں تجھ سے کچھ مانگنا چاہتی ہوں‘‘۔’’مانگ کیا مانگتی ہے‘‘ بادشاہ نے سوال کیا۔
شہرزاد نے تینوں بچے بلوائے اور اُن کا واسطہ دے کر التجا کی کہ جان بخش دی جائے۔ بادشاہ نے روکر کہا کہ وہ تو اُسے کب کا بخش چکا ہے۔ فرطِ جذبات سے شہرزاد نے بادشاہ کے ہاتھوں کو بوسہ دیا، اور کہا ’’خدا تجھے عمرِ دراز دے۔‘‘