ششماہی عمارت کار

۔’’عمارت کار‘‘ اردو میں حقیقی تعمیری ادب کا ایک اہم جریدہ ہے۔ اس کے مدیر چونکہ ایک پختہ ادیب و شاعر ہیں، لہٰذا ادبی آمیزش نے اس کے صفحات کو نہایت دل چسپ بنادیا ہے۔
’’بنیادی بات‘‘ کے عنوان سے اس کے مدیر رقم طراز ہیں کہ ’’عمارت کاری اور شہری منصوبہ بندی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جن ممالک میں اچھی عمارتیں پائی جاتی ہیں اُن کے شہر خوبصورت علاقوں میں شامل ہوتے ہیں اور اُن کا ہر جگہ تذکرہ کیا جاتا ہے، سفرناموں میں انہی کو بار بار یاد کیا جاتا ہے۔ عمارت کار کا بنیادی مقصد یہی رہا ہے کہ ہمارے اردگرد کا ماحول خوش گوار اور عمدہ ہو، لوگوں میں اس خوش گواری اور عمدگی کا نہ صرف احساس ہو بلکہ وہ اس خوش گواری اور عمدگی کی تخلیق میں ذاتی اور قومی سطح پر بھی حصہ دار ہوں۔
الحمدللہ پچھلے دس سال میں ’’عمارت کار‘‘ کی اس ضمن میں خصوصی کاوشوں سے اب دیگر رسالوں اور اخبارات میں عمارات کے تذکرے اور شہروں کے سفرناموں میں بین طور پر اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے ممالک اپنی عمارات، شہروں کی خوب صورتی اور قدرتی مقامات کی دلکشی سے سیاحت کے ذریعے بڑا معقول زرمبادلہ کما رہے ہیں، پاکستان بھی سیاحت کو فروغ دے کر یہ فوائد حاصل کرسکتا ہے۔
زیرنظر شمارے میں ’’سیاحت اور پاکستان‘‘ کے عنوان سے تین قابل ذکر تحریریں شامل ہیں۔ مرزا اشتیاق بیگ ’’سیاحت کا فروغ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’پاکستان اپنے جغرافیائی محلِ و قوع کے لحاظ سے دنیا کے خوش قسمت ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جہاں ایک جانب بلند و بالا پہاڑ ہیں تو دوسری جانب وسیع و عریض زرخیز میدان اور صحرا۔ اسی طرح پاکستان میں موہنجوداڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا جیسے تاریخی مقامات ہیں اور بہاولپور جیسے شہر میں بے شمار قلعے بھی ہیں۔ پاکستان کا صحرا چولستان دنیا بھر میں مشہور ہے جہاں ہر سال خلیجی ممالک کے باشندے شکار کی غرض سے آتے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی مقامات کی بھی کوئی کمی نہیں۔ ہندومت، بدھ مت اور سکھ مت کے ماننے والوں کے بہت سے مقدس مقامات پاکستان میں ہیں۔ ہم سیاست سے باآسانی 5 ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘
سیاحت ملک کی قسمت بدل سکتی ہے۔‘‘ رائو منظر حیات کا تجزیہ اربابِ حل وعقد کے لیے قابلِ توجہ ہے:
’’گوادر سے صرف چار سو میل دور دبئی جیسا مصنوعی شہر آباد کیا گیا ہے جہاں دنیا کی ہر سہولت اور تفریح موجود ہے۔ جس کی کوئی صنعت نہیں۔ صرف سیاحت اور سہولتوں کے بل بوتے پر وہ تمام دنیا کی نظروں میں آچکا ہے، مگر ہم قدرتی سہولت ہوتے ہوئے بھی بھکاریوں کی طرح ملکوں سے امداد اور خیرات مانگ کر سرخرو ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘
معروف اینکر پرسن جاوید چودھری ’’سیاحت کا ترک ماڈل‘‘ میں اصلاح احوال کے لیے لکھتے ہیں:
’’ترکی دنیا کے اُن چند ملکوں میں شمار ہوتا ہے جن میں تاریخ بھی ہے، جغرافیہ بھی… قدرتی مناظر بھی ہیں اور ماحول بھی۔ حکومت نے ان تمام انعامات کو فیکٹری بنادیا، اور یہ فیکٹری دھڑادھڑ نوٹ چھاپ رہی ہے۔ ترکی سیاحت سے 50 بلین ڈالر کماتا ہے۔ عمران خان پاکستان کو بھی سیاحتی منزل بنانا چاہتے ہیں، یہ بہت اچھا منصوبہ ہے۔ میری ان سے درخواست ہے کہ سیاحت میں صرف اور صرف ترکی کو کاپی کرلیں، ہم صدیوں کا فاصلہ مہینوں میں طے کرلیں گے، ہمارا ملک بھی سیاحت کے لیے کھل جائے گا۔‘‘
’’آرام دہ مکان‘‘ کے مکیں سید اقبال احمد کی بات دل کو لگی۔ بات چونکہ کام کی ہے لہٰذا آپ بھی پلے باندھ لیں: ’’یہ بہت غلط خیال ہے جو ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتا ہے، کیونکہ جتنی فیس آپ آر کی ٹیکٹ کی بچاتے ہیں اُس سے کہیں زیادہ روپیہ ناتجربہ کاری اور صحیح تخمینہ نہ ہونے کے باعث مکان میں لگ جاتا ہے، اور مالک مکان کو پتا بھی نہیں چلتا۔ اس کا تجربہ کرنا چاہیں تو یوں کرسکتے ہیں کہ ایک ہی جیسے محلِ وقوع کے مکان جو بک رہے ہیں ان کا معائنہ کیا جائے، ایک مکان تو کم قیمت کے باوجود نہیں بک رہا، دوسرا مکان اتنے ہی پلاٹ اور ویسے ہی محلِ وقوع کے باوجود زیادہ قیمت میں بک جاتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ صرف اور صرف اچھا Elevation اور بہتر پلاننگ ہوتی ہے۔‘‘
’’اسلامی فنِ تعمیر‘‘ ولیم بلیک رچمنڈ کی 1927ء میں لکھی گئی تاریخی کتاب، جس کا بابائے اردو مولوی عبدالحق نے 1935ء میں سید مبارزالدین رفعت ایم اے (عثمانیہ) سے اردو میں ترجمہ کراکے شائع کیا، قسط وار شائع ہورہی ہے۔ شمارے میں مدیر حیات رضوی امروہوی کا تحقیقی تبصرہ ’’پاکستان میں مسلم عمارت کاری کی بحث‘‘ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مدیر کی اپنے شعبے سے دلچسپی عیاں ہے۔ ورق گردانی میں کئی تاریخی عمارتوں کے بارے میں آگہی حاصل ہوئی۔ واپڈا ہائوس لاہور کی 9 منزلہ تجارتی عمارت جو 1967ء میں تعمیر ہوئی اور اپنے وقت کی ایک بہترین بڑی عمارت ہے، کے بارے میں پتا چلا کہ اسے ایڈورڈ ڈیورل نے ڈیزائن کیا، جو عالمی شہرت یافتہ ماہر تعمیر تھا۔
اسی شمارے میں افسانہ بھی پڑھنے کو ملا اور خطوط بھی۔ تاریخ لاہور میں مسجد نیلا گنبد سے انارکلی کے مقبرے تک کے حالات بھی پڑھے۔ کوڑے کرکٹ سے بجلی بنانی ہو یا آرام دہ مکان… غرض سب کچھ اس میں موجود ہے۔ برادرم محترم ایس ایم معین قریشی نے درست کہاکہ ’’اس پرچے سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ اردو پر کم مائیگی اور بے بضاعتی کے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں، یہ وہ زبان ہے جس میں خالص فنی موضوعات پر بھی پوری مہارت سے لکھ کر موضوع کا حق ادا کیا جاسکتا ہے۔‘‘
دیدہ زیب گیٹ اپ، خوش نما طباعت، آرٹ پیپر پر چہار رنگی تصاویر سے مزین 84 صفحات پر مشتمل یہ رسالہ صرف 300 روپے میں دستیاب ہے۔ حروف چینی عمدہ ہے، مگر مضامین عمارت کاری کے اشتہار میں اہرام مصر کو ’’احرام مصر‘‘ لکھا گیا ہے۔ ایسی غلطی اس علمی، ادبی، تحقیقی جریدے میں نہیں ہونی چاہیے۔ جریدے میں جن کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ سب اہمیت کی حامل ہے، ہمیں صرف پڑھنے کو ہی مل جائیں تو بندہ پروری ہوگی۔ باذوق قارئین کے لیے ایک عمدہ تحفہ ہے۔