ثعالبی

ابوسعدی
ثعالب کے معنی لومڑیوں کی کھالوں کو سینے اور انہیں تیار کرنے والے کے ہیں۔ ابنِ خلکان نے بھی یہی لکھا ہے کہ علامہ ثعالبی لومڑی کی کھال کی پوستینیں سیا اور بنایا کرتا تھا، لیکن یہ اُس دور کی بات ہے، جب کہ وہ مشہور نہیں ہوا تھا۔ فقہ اللغۃ کی ایک جدید طباعت کا ناشر لکھتا ہے کہ وہ بچوں کو ادب پڑھایا کرتا تھا۔ اس نے کاتب، ادیب اور شاعر کی حیثیت سے کمال حاصل کیا۔ ابوالمظفر نصر بن ناصر الدین کے نام پر ثعالبی نے کتاب المتشابہ لکھی۔ 403ھ میں ثعالبی جرجان گیا۔ امیر ابوالفضل عبیداللہ بن احمد المیکالی کے نام پر ثعالبی نے فقہ اللغۃ لکھی، لیکن الثعالبی کی سب سے اہم تصنیف یتیمہ الدھر فی محاسن اہل العصر قرار دی جاتی ہے۔ یہ دراصل شعرا کا تذکرہ ہے۔ ثعالبی نے فقہ اللغہ (فلولوجی) کے موضوع پر ایک کتاب عربی مترادفات پر لکھی ہے، اس کا نام اسرار اللغۃ العربیۃ و خصائصہا ہے۔ یہ کتاب بہت زیادہ مقبول ہوئی۔ اس کتاب کے بعض حصے کئی زبانوں سے کئی مطابع سے شائع ہوئے ہیں۔ علمِ لغت سے متعلقہ بعض مباحث بھی اس کے رسائل ملتے ہیں۔ (پروفیسر عبدالجبار شاکر)۔

وبا کے مقامات سے دور رہنا

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکلے، اور جب وہ سرغ کے مقام پر تھے تو یہ خبر ملی کہ شام میں ایک وبا پھیل گئی ہے۔ اس موقع پر سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”اگر تم کسی زمین پر اس (وبا کے) بارے میں سنو تو وہاں نہ جائو، اور اگر وہ (وبا) کسی ایسی جگہ آجائے جہاں تم بھی ہو تو اس سے بھاگنے کے لیے وہاں سے نہ نکلنا۔“ (بخاری و مسلم)۔
اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی بیمار کو صحت مند کے پاس نہ لایا جائے۔“ (بخاری و مسلم)۔

آج کا کام کل پر مت ٹالو

ایک شخص آوارہ اور بدوضع تھا۔ بدمعاشوں میں رہتا اور سب طرح کے عیب کرتا۔ اتفاق سے کوئی مولوی صاحب اس کے محلے میں آکر رہے۔ مولوی صاحب محلے میں وعظ کہا کرتے۔ دو چار مرتبہ اس شخص نے بھی وعظ سنا اور اس کے دل میں ایک طرح کا اثر ہوا۔
مولوی صاحب نے اس کو بارہا سمجھایا کہ: ’’زندگی کا اعتماد نہیں اور تم بہت عمر ضائع کرچکے ہو، اب توبہ کرلو‘‘۔
یہ شخص ہر روز مولوی صاحب سے وعدہ کرتا کہ ’’کل ضرور توبہ کرلوں گا۔‘‘
کل کرتے کرتے کئی برس گزر گئے۔ آخر مولوی صاحب نے کہا: ’’بھائی تمہاری کل قیامت کی کل ہے۔ تمہاری کل نہ آئی ہے نہ کبھی آئے گی، اور نہ تم اس کو آنے دو گے۔ اگر تم کو توبہ کرنی ہے تو آج کرو، کل کا نام مت لو‘‘۔
حاصل: جو کام ہم آج کرسکتے ہیں اُس کو کل پر ٹالنا ہمارے ارادے کے ضعف کی دلیل ہے۔

عدلِ جہانگیری

علامہ شبلی نعمانی

قصرِ شاہی میں کہ ممکن نہیں غیروں کا گزر ایک دن، نور جہاں، بام پہ تھی جلوہ فگن
کوئی شامت زدہ رہگیر ادھر آ نکلا گرچہ تھی قصر میں ہر چار طرف قدغن
غیرتِ حسن سے بیگم نے طمنچہ مارا خاک پر ڈھیر تھا اک کشتۂ بے گور و کفن
ساتھ ہی شاہ جہانگیر کو پہنچی جو خبر غیظ سے آگئے ابروئے عدالت پہ شکن
حکم بھیجا کہ کنیزانِ شبستانِ شہی! جا کے پوچھ آئیں کہ سچ یا کہ غلط ہے یہ سخن
نخوتِ حسن سے، بیگم نے بصد ناز کہا ’’میری جانب سے کرو عرض بہ آئین حسن‘‘
ہاں! مجھے واقعۂ قتل سے انکار نہیں مجھ سے ناموسِ حیا نے یہ کہا تھا کہ: بزن
اس کی گستاخ نگاہی نے کیا اس کو ہلاک کشورِ حسن میں جاری ہے یہی شرعِ کہن
مفتیِ دیں سے جہانگیر نے فتویٰ پوچھا کہ شریعت میں کسی کو نہیں کچھ جائے سخن
مفتیِ دیں نے یہ بے خوف و خطر صاف کہا شرع کہتی ہے کہ قاتل کی اڑا دو گردن
لوگ دربار میں اس حکم سے تھرا اٹھے پر جہانگیر کی ابرو پہ نہ بل تھے، نہ شکن
ترکنوں کو یہ دیا حکم کہ اندر جا کر پہلے بیگم کو کریں بستۂ زنجیر و رسن
پھر اسی طرح سے کھینچ کے باہر لائیں اور جلاد کو دیں حکم کہ ہاں تیغ بزن
یہ وہی نور جہاں ہے کہ حقیقت میں یہی تھی جہانگیر کے پردے میں شہنشاہِ زمن
اس کی پیشانیِ نازک پہ جو پڑتی تھی گرہ جا کے بن جاتی تھی اوراقِ حکومت پہ شکن
اب نہ وہ نور جہاں ہے نہ وہ اندازِ غرور نہ وہ غمزے ہیں نہ وہ عربدۂ صبر شکن
اب وہی پائوں ہر اک گام پر تھراتے ہیں جن کی رفتار سے پامال تھے مرغانِ چمن
ایک مجرم ہے کہ جس کاکوئی حامی، نہ شفیع
ایک بے کس ہے کہ جس کا نہ کوئی گھر، نہ وطن