جن کے بغیر میں کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا
پروفیسر اطہر صدیقی
ایک دن جب میں ہائی اسکول میں تازہ وارد تھا تو دیکھا کہ میری کلاس کا ایک لڑکا اسکول سے گھر جارہا تھا۔ اُس کا نام کائل تھا۔ ایسا نظر آرہا تھا کہ وہ اپنی تمام کتابیں اپنے ساتھ لے جارہا ہے۔ میں نے دل میں سوچا کہ ’’کوئی بھی جمعہ کے دن اپنی تمام کتابیں گھر کیوں لے جائے گا؟ وہ یقیناً ذہنی طور پر کھسکا ہوا ایک گائودی سا لڑکا ہے‘‘۔
میں نے ہفتے کی چھٹی کے دن فٹ بال کا کھیل اور پارٹی کا پروگرام رکھا ہوا تھا، سو میں نے کندھے جھٹکے اور اپنے گھر کی طرف جانا جاری رکھا، اُسی وقت میں نے دیکھا کچھ لڑکے اُس کی طرف دوڑے اور اسے دھکا دے کر اس کی سب کتابیں اس کے ہاتھوں سے زمین پر گرادیں اور اس کو بھی دھول مٹی میں گرادیا، اس کا چشمہ بھی دس فٹ دور گھاس میں جاگرا۔ اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا اور میں نے اس کی آنکھوں میں بے حد اداسی دیکھی۔ میرا دل اس کے لیے پگھل سا گیا۔ میں اس کی طرف گیا جہاں وہ اپنا چشمہ گھاس میں تلاش کررہا تھا۔ اس وقت اس کی آنکھوں میں ایک آنسو دیکھا۔ اس کا چشمہ اسے پکڑاتے ہوئے میں نے اس سے کہا: ’’وہ لڑکے بہت بدمعاش ہیں، ان کو تو سزا ہونی چاہیے‘‘۔ اس نے میری طرف دیکھا اور کہا ’’آپ کا شکریہ‘‘ اور اس کے چہرے پر ایک بڑی سی مسکراہٹ آگئی۔ وہ مسکراہٹ ایسی تھی جس سے ممنونیت کا اظہار ہورہا تھا۔ میں نے اس کی کتابیں اٹھانے میں اس کی مدد کی اور اس سے دریافت کیا کہ وہ کہاں رہتا ہے؟ پتا یہ چلاکہ وہ ہمارے گھر کے قریب ہی رہتا تھا، اس لیے میں نے اس سے پوچھا کہ اس سے پیشتر میں نے اسے کبھی کیوں نہیں دیکھا تھا؟ اس نے بتایا کہ اس سے پیشتر وہ ایک نجی اسکول جاتا تھا۔ میں کبھی کسی نجی اسکول کے بچے کے ساتھ نہیں گھلا ملا تھا۔ ہم لوگ ساتھ ساتھ گھر کی طرف لوٹے اور اس کی کچھ کتابیں بھی میں نے سنبھالیں۔ وہ ایک سمجھ دار اور خاصے ٹھنڈے مزاج کا لڑکا نظر آرہا تھا۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا وہ میرے دوستوں کے ساتھ فٹ بال کھیلنا پسند کرے گا؟ اس نے جواب دیا: ہاں۔ ہم نے ہفتے کا پورا آخری دن ساتھ گزارا اور میں جتنا زیادہ کائل کو جان سکا اتنا ہی زیادہ اسے پسند کرنے لگا۔
پیر کی صبح آئی اور کائل بھی پھر سے اپنی ساری کتابوں کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ میں نے اسے روکا اور کہا:
’’دوست، تم روزانہ اتنی بہت سی وزنی کتابیں اٹھا اٹھا کر اپنے پٹھے ضرور مضبوط بنالوگے!‘‘
وہ صرف مسکرا دیا اور اپنی آدھی کتابیں مجھے پکڑا دیں۔ اگلے چار برسوں میں کائل اور میں بہترین دوست بن گئے۔ جب ہم اسکول کے آخری سال میں پہنچے تو ہم نے کالج کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ کائل نے جارج ٹائون جانا طے کیا اور میں نے ڈیوک یونیورسٹی۔ میں جانتا تھا کہ ہم لوگ ہمیشہ دوست رہیں گے اور ہمارے درمیان میلوں کا فاصلہ کبھی بھی کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔ وہ ایک ڈاکٹر بننے جارہا تھا اور میں فٹ بال کے وظیفے پر انتظامِ تجارت کے لیے۔ کائل ہماری کلاس کا الوداعی مقرر چنا گیا تھا اور میں اس کو اس پر مستقل ستاتا یا چھیڑتا رہتا تھا۔ اسے گریجویشن کے لیے ایک تقریر تیار کرنا تھی۔ میں بہت خوش تھا کہ میں اُن میں سے نہیں تھا جنہیں وہاں ڈائس پر کھڑے ہوکر کوئی تقریر کرنی پڑتی۔ گریجویشن کے دن میں نے کائل کو دیکھا۔ وہ بہت خوش نظر آرہا تھا۔ وہ اُن لڑکوں میں سے تھا جنہوں نے ہائی اسکول کے زمانے میں اپنے کو پالیا تھا، یا سمجھ لیا تھا۔ وہ یقیناً چشمہ لگائے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اس کو لڑکیاں بھی بہت پسند کرتی تھیں اور اس کے ساتھ ڈیٹس پر جانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی تھیں۔ کبھی کبھی تو میں اس سے حسد محسوس کرنے لگتا تھا! آج کا دن ان میں سے ایک تھا جب میں نے اسے اپنی تقریر کے سلسلے میں تھوڑا پریشان دیکھا۔ اس لیے میں نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور کہا:
’’سنو دوست، تمہیں پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے، تم یقیناً بہت کامیاب ثابت ہوگے!‘‘ اس نے میری جانب ایسی نظروں سے دیکھا جیسے بہت مشکور ہو، مسکرایا اور کہا ’’شکریہ‘‘۔
اس نے جیسے ہی اپنی تقریر شروع کی، اپنا گلا صاف کیا اور بولنا شروع کیا:
’’گریجویشن وہ وقت ہے جب آپ اُن لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے مشکل وقتوں میں آپ کا ساتھ دیا تھا۔ آپ کے والدین، آپ کے اساتذہ، بھائی بہن، ممکن ہے کھیل سکھانے والا، لیکن خاص طور سے آپ کے دوست۔ میں یہاں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کسی کا دوست ہونے سے بہتر اچھا یا عمدہ تحفہ کوئی اور نہیں ہے۔میں آپ کو ایک کہانی بتانے جارہا ہوں۔“
میں نے اپنے دوست کی طرف غیر یقینی کے ساتھ دیکھا جب اُس نے اس دن کی ملاقات کے بارے میں ذکر کیا جب ہم پہلی بار ملے تھے۔ اس نے ہفتے کے دن خودکشی کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس نے کس طرح اسکول میں الماری کی صفائی کردی تھی تاکہ اس کی والدہ کو وہ سب کچھ کرنے کی زحمت نہ اٹھانا پڑے اور اپنی کتابیں وغیرہ گھر لے جارہا تھا۔
اس نے میری طرف غور سے دیکھا اور تھوڑا سا مسکرایا۔ ’’شکر ہے کہ مجھے بچالیا گیا تھا۔ میرے دوست نے مجھے ناممکن کرنے سے روک لیا تھا‘‘۔ میں نے مجمع کو گہرا سانس لیتے سنا جب اس خوب صورت اور ہر دل عزیز نوجوان نے ہم سب کو اس کمزور یا نازک لمحے کی بابت بتایا۔ میں نے اس کی والدہ اور والد کی طرف دیکھا جو مسکراتے ہوئے اتنی ہی مشکور نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ اس لمحے تک میں اپنی اُس دن کے عمل کی گہرائی اور بامعنی ہونے کا اندازہ نہیں لگا سکا تھا۔ مجھے اس امر کا شدت سے احساس ہوا کہ اپنے کسی بھی فعل کی طاقت اور اس کے بااثر ہونے کو بے وقعت نہیں سمجھنا چاہیے۔
ایک بہت ہی عام سی یا معمولی مدد یا واقعے سے آپ کسی شخص کی زندگی بدل سکتے ہیں۔ بہتر یا بدتر حالات میں ہم ایک دوسرے کی زندگی پر بہرحال اثرانداز ہوتے ہیں۔
(انٹرنیٹ پر موصول ای میل کا انگریزی سے اردو ترجمہ)