مقبوضہ کشمیر لاک ڈاؤن آٹھویں ماہ میں داخل

بھارتی فوج نے کشمیریوں پر مظالم کی انتہا کردی ہے۔ مقبوضہ وادی کے لاک ڈاؤن کو223روز ہوگئے، آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا 230 واں روز ہے، وادی میں اسکول، کالج اور تجارتی مراکز بند ہیں، مقبوضہ وادی میں نظام زندگی پوری طرح مفلوج ہوچکا ہے، کشمیری گھروں میں محصور ہیں، کرفیو اور پابندیوں کے باعث اب تک مقامی معیشت کو ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جبکہ ہزاروں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ کشمیر میں صورت حال بہت خوفناک ہے، مسئلہ کشمیر کا حل بات چیت ہے یا جنگ۔ کوئی تیسرا حل نہیں ہے۔ ثالثی کی پیش کش کے باوجود یہ مسئلہ حل کرانے میں امریکی انتظامیہ کی کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ٹرمپ کی تنظیم کے کاروباری ساتھی کا آر ڈی بی گروپ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے کام کرتا ہے۔ جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو گزشتہ برس 5 اگست کو مودی حکومت کی طرف سے ختم کردیے جانے اور متعدد سیکورٹی پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد فاروق عبداللہ رہائی پاچکے ہیں، مگر وہ اسمبلی میں اظہارِ خیال کرنا چاہتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اگلے انتخابات تک وہ خاموش رہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک تمام رہنماؤں کو رہا نہیں کیا جاتا اُس وقت تک وہ کوئی بیان نہیں دیں گے۔ فاروق عبداللہ کے بیٹے اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ، اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے علاوہ متعدد کشمیری رہنما اب بھی حراست یا قید میں ہیں۔ جموں و کشمیر حکومت نے نیشنل کانفرنس کے صدر، رکن پارلیمان اور سابق وزیراعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے خلاف عائد پبلک سیفٹی ایکٹ کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ جموں وکشمیر کی پرنسپل سیکرٹری شالین کابرا کے دستخط سے جاری حکم نامے میں کہا گیا کہ پی ایس اے کے تحت 15 ستمبر 2019ء کے نظربندی کے حکم نامے کو منسوخ قرار دیا جاتا ہے۔ 83 سالہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو جموں وکشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے دن یعنی پانچ اگست 2019ء کو ہی حراست میں لے لیا گیا تھا۔ فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ کو ہی جیل میں تبدیل کرکے نظربند کردیا گیا تھا۔ بعد میں 16 ستمبر کو ان کے خلاف پی ایس اے عائد کردیا گیا۔ اس قانون کے تحت مقدمہ چلائے بغیر کسی بھی شخص کو تین برس تک جیل میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ قانون خود اُن کے والد مرحوم شیخ عبداللہ نے اپنے دورِ حکومت میں بنایا تھا۔ حقوقِ انسانی کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پبلک سیفٹی ایکٹ کو ’غیر قانونی قانون‘ قرار دیا ہے۔ بھارت کی آٹھ اپوزیشن جماعتوں نے کشمیر میں زیر حراست تمام رہنماؤں کو جلد از جلد رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان جماعتوں نے اپنی ایک مشترکہ قرارداد میں کہا تھا ’’وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں جمہوری اختلافات کو جارحانہ انتظامی کارروائیوں کے ذریعہ دبایا جارہا ہے۔ ان اقدامات نے آئین میں دیے گئے انصاف، آزادی، مساوات، خیر سگالی کے بنیادی اصولوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور جمہوری قدروں، شہریوں کے بنیادی حقوق اور ان کی آزادی پر حملے بڑھ گئے ہیں۔‘‘ فاروق عبداللہ کی رہائی کے بعد محبوبہ مفتی اور سابق وزیراعلی عمر عبداللہ کو بھی رہا کیا جائے گا۔ اس کے بعد بھارتی حکومت سے کشمیری رہنمائوں کے مذاکرات ہونے والے ہیں۔
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں بیشتر سیاسی رہنماؤں کی قید و بند اور سیاسی سرگرمیوں کی عدم موجودگی میں ایک نئی سیاسی جماعت کا اعلان کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ نئی سیاسی جماعت بھارتی حکومت کی مدد سے وجود میں آئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں شجرِ ممنوعہ ہیں اور ریاست کے تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت تمام سرکردہ رہنما جیل میں ہیں، سری نگر میں متعدد سیاسی جماعتوں سے وابستہ سیاسی رہنماؤں نے ایک نئی جماعت ’’جموں و کشمیر اپنی پارٹی‘‘ (جے کے اے پی) کا اعلان کیا ہے۔ نوتشکیل شدہ ’’جے کے اپنی پارٹی‘‘ کے سربراہ الطاف بخاری کو سیاسی وعدہ معاف گواہ بناکر ڈیمو گرافی میں تبدیلی اورسیاسی قیدیوں کی رہائی کے معاملے میں استعمال کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ امیت شاہ دراصل الطاف بخاری کو ہیرو بنانے کے لیے زیر حراست سیاست دانوں کو رہا کرنا چاہتے ہیں۔ اس سیاسی ہلچل کے روحِ رواں کشمیر کے امیر ترین تاجر اور محبوبہ مفتی کی سیاسی جماعت ’’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ سے برطرف رہنما الطاف بخاری ہیں۔ پارٹی کے اعلان سے قبل الطاف بخاری نے سخت گیر نظریات کے حامل بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال سے دہلی میں ملاقات کی تھی۔ الطاف بخاری نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہیں فی الوقت کشمیر میں کسی سیاسی سرگرمی یا انتخابات کی توقع نہیں ہے۔ تو پھر سیاسی جماعت کیوں قائم کی گئی؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر نئی جماعت کی تشکیل کیوں؟ یہ نئی جماعت دہلی سرکار سے مذاکرات کرنے جارہی ہے۔ یہ ایک دکھاوا ہے تاکہ یہ تاثر جائے کہ کشمیر میں سیاسی سرگرمی جاری ہے۔ جبکہ زمینی صورتِ حال اس کے برعکس ہے، اور اس کوشش کے کچھ بھی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال میں کوئی بھی سیاسی جماعت مرکزی حکومت کی سہولت اور اُس کی مرضی کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی۔ جے کے اے پی کا قیام مرکزی حکومت کی ایما پر کیا گیا ہے۔ اس میں مرکز کی اعانت شامل رہی ہے۔ جب تمام سیاسی رہنما قید میں ہیں اس سے یہ نئی جماعت یا پھر مرکزی حکومت حاصل کیا کرنا چاہتی ہے؟ یہ اقدامات بے معنی ہیں، اس سیاسی پیش رفت سے کشمیری عوام بھی پوری طرح سے لاتعلق ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ یہ مین اسٹریم سیاست دانوں اور علیحدگی پسندوں کو کشمیر سے لاتعلق کرنے کا عمل ہے تاکہ دہلی کی حکومت یہاں اپنی خواہشات کے مطابق سب کچھ کرسکے۔ یوں سمجھیے کہ نئی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی بی ٹیم ہے۔
ساٹھ سالہ الطاف بخاری کا تعلق ضلع سوپور کے لاڈورہ گاؤں سے ہے۔ سید علی گیلانی بھی سوپور سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن کیا نئی جماعت سید علی گیلانی کا سیاسی اثررسوخ ختم کرسکے گی؟ الطاف بخاری کو بی جے پی سے قربت اور پارٹی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے ہی پی ڈی پی نے برطرف کیا تھا۔ جے کے اے پی میں دوسرے بڑے رہنما سابق وزیر غلام حسن میر ہیں جو پہلے نیشنل کانفرنس میں تھے۔ ان کے بھارتی فوج کے ساتھ گہرے روابط رہے ہیں۔ اس نئی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے والے بیشتر سیاسی رہنما پی ڈ ی پی سے وابستہ رہے تھے اور ان کی اس نئی پارٹی میں شمولیت سے پی ڈی پی کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔الطاف بخاری کی سیاسی پارٹی میں 23 سابق ارکانِ اسمبلی شامل ہوئے ہیں جن میں سے 14 پی ڈی پی کے سینئر رہنما ہیں۔ کشمیر میں عوامی و سیاسی حلقوں کا ماننا ہے کہ اس نئی پارٹی نے پی ڈی پی کی ساخت انتہائی کمزور کی ہے، نتیجتاً پی ڈی پی کا مستقبل اب تاریک اور مخدوش نظر آرہا ہے۔لیکن پی ڈی پی کے ارکان اس رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔ اس پارٹی میں جو رہنما اب موجود ہیں ان میں سے بیشتر کو کشمیر کی سیاسی بساط پر عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔

یٰسین ملک کو سزا

جموں ٹاڈا کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں کالعدم تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کو بھارتی ایئر فورس کے چار عہدیداروں کے قتل معاملے میں قصوروار قرار دیا اور کہا کہ یاسین ملک اس کیس میں دیگر تین افراد کی طرح مجرم ہیں۔ ٹاڈا عدالت نے رنبیر پینل کوڈ کے سیکشن 302، 307 اور آرمز ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت ان کے خلاف مقدمہ چلانے کا حکم دیا ہے۔ کورٹ نے اس کیس سے متعلق یاسین ملک کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہونے کا بھی ذکر کیا تھا۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف)کے رہنما کے خلاف جموں کی ٹاڈا عدالت میں 90 ۔ 1989ء میں اُس وقت کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی ربیعہ سعید کو اغوا کرنے اور انڈین ایئرفورس کے چار اہلکاروں کو قتل کرنے کا کیس ہے جو زیر سماعت ہے۔

کشمیر کمیٹی کی کارکردگی

سید فخر امام پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چھٹے سربراہ ہیں۔ ان سے قبل نواب زادہ نصراللہ خان، چودھری محمد سرور، حامد ناصر چٹھہ، اور دو بار مولانا فضل الرحمٰن اس کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں۔ نواب زادہ نصراللہ خان کے بعد سید فخر امام ایسے سربراہ ہیں جو کشمیر سے متعلق شائع اور نشر ہونے والی خبروں سے آگاہی کے لیے ہر وقت ملکی اور غیر ملکی میڈیا مانیٹر کرتے رہتے ہیں، انہیں ایک متحرک ڈی جی کشمیر کمیٹی نسیم خالد کی رفاقت میسر ہے۔ ہر ملاقات میں انہیں کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی جستجو میں پایا ہے۔ بھارت میں حالیہ فسادات، امریکی صدر کے دورۂ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے حالات پر بہت نپی تلی گفتگو کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں بھارت میں ہونے والے مسلم کُش فسادات انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہیں۔