ماہرِ لسانیات محترم پروفیسر غازی علم الدین نے ’’ہمارے حوالے سے‘‘ گرفت کی ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی توجہ دلا چکے ہیں، لیکن جس طرح ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں غلطیاں پختہ ہوگئی ہیں، اسی طرح شاید ہم بھی پختہ ہوچکے ہیں۔ تاہم پروفیسر صاحب کا شکریہ واجب ہے اور آئندہ خیال رکھیں گے۔ وہ میرپور آزاد کشمیر سے لکھتے ہیں کہ ’’آج فرائیڈے اسپیشل کے کچھ پرانے شمارے دیکھ رہا تھا۔ ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ میری دل چسپی کا کالم ہے۔ آپ کی قابلِِ قدر تحریروں میں کہیں کہیں ’’کے حوالے سے‘‘ کا استعمال میرے نزدیک محلِ نظر ہوتا ہے۔ یہ استعمال اگرچہ ہر جگہ غلط نہیں ہوتا، لیکن محلِ استعمال اور سیاق و سباق سے ہٹ کر غلط اور غیر مناسب بھی لکھا اور بولا جاتا ہے۔ ’’کے حوالے سے‘‘ کا یہ استعمال اردو زبان میں ایک جدّت تو کہی جاسکتی ہے لیکن قواعد اور مفہوم کے مطابق حرفِ ربط کے طور پر اس کا ایسا استعمال درست نہیں۔ مختلف ٹیلی وژن چینلز پر، ہر دوسرے جملے میں ’’کے حوالے سے‘‘ کا استعمال نہایت فراخ دلی سے ہورہا ہے۔
ہمارے ہاں ریت بن چکی ہے کہ ’’کے تعلق سے‘‘، ’’کے بارے میں‘‘، ’’کے ذیل میں‘‘، ’’کے سلسلے میں‘‘، ’’کے ضمن میں‘‘، ’’کی بابت‘‘، ’’کی مناسبت سے‘‘، ’’کی نسبت سے‘‘، ’’کے لحاظ سے‘‘، ’’کے اعتبار سے‘‘، ’’کی رعایت سے‘‘، ’’پر مشتمل‘‘، ’’کے لیے‘‘، ’’کی بنا پر‘‘، ’’کی وجہ سے‘‘، ’’کے ذریعے‘‘، ’’کے مطابق‘‘، ’’کے طور پر‘‘ اور ’’کے معاملے میں‘‘ وغیرہ کی جگہوں پر بار بار اور تواتر کے ساتھ ’’کے حوالے سے‘‘ لکھا جاتا ہے جس کی معنوی مناسبت نہیں بنتی، نہ ہی سماعت کو کسی طور بھلا لگتا ہے۔ برقی میڈیا پر، ہر دوسرے جملے میں ’’کے حوالے سے‘‘ سنائی دیتا ہے جو ایک وبا کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اخباری کالم نگار، مدیر اور ٹیلی وژن کے پڑھے لکھے میزبان اور اینکر پرسن بھی ’’کے حوالے سے‘‘ کے اس غلط استعمال کے بغیر دو جملے لکھنے اور بولنے سے قاصر محسوس ہوتے ہیں۔ اخبار اور رسالوں میں شائع ہونے والی تحریروں میں سے کچھ جملے مثال کے طور پر مِن و عَن نقل کیے جاتے ہیں:
-1 اس سطح پر گفتگو کرنے کے حوالے سے شہزادی کا غالباً پہلا ایکسپوژر (exposure) تھا۔
-2 آپریشن کے حوالے سے پولیس کے اختیارات کی بحالی کی مدت ختم ہوگئی۔
-3 سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے دونوں کے ایک ہی صفحہ پر ہونے…۔
-4 فلاں ائیرلائن کے ملازمین نے نجکاری کے حوالے سے صدارتی آرڈی نینس واپس…۔
-5 دنیا میں تخلیق کے حوالے سے دو قوانین موجود ہیں۔
اِن جملوں میں ’’کے حوالے سے‘‘ کا مفہوم کیا ہے؟ اس بے معنی استعمال سے مذکورہ جملے، سیاق و سباق کے ہوتے ہوئے بھی مبہم ہوگئے ہیں، حالاں کہ لکھنے والوں کا مقصد اور مدعا یہ تھا:
-1 اس سطح پر گفتگو کرنے کے لیے شہزادی کا غالباً…۔
-2 آپریشن کے معاملے میں پولیس کے اختیارات…۔
-3 سول ملٹری تعلقات کے بارے میں دونوں ایک ہی…۔
-4 فلاں ائیر لائن کے ملازمین نے نجکاری کے بارے میں صدارتی…۔
-5 دنیا میں تخلیق سے متعلق دو قوانین…۔
اردو زبان میں لفظ ’’حوالہ‘‘ کے صرف دو معنی ہیں۔ ایک معنی تو کسی کو کچھ دے دینے کا ہوتا ہے جیسے ’’گھر کی چابیاں نوکر کے حوالے کردیں‘‘۔ انگریزی میں اس مفہوم کا ترجمہ To hand over کے الفاظ سے کیا جائے گا۔ ہُنڈی کے ذریعے رقم بھجوانے کے لیے بھی لفظ ’’حوالہ‘‘ کا استعمال کیا جاتا ہے، یعنی اتنی رقم فلاں جگہ آپ کے حوالے کردی جائے گی، یعنی دے دی جائے گی۔ ’’حوالے‘‘ کا دوسرا مطلب اردو زبان میں بعینہٖ وہی ہے جو انگریزی میں لفظ ’’Reference‘‘ کا ہے مثلاً:
-1 اسامہ بن لادن کی موت کی خبر سی این این کے حوالے (reference) سے تمام مقامی چینلز دے رہے ہیں۔
-2 میں اپنی بات کی تائید میں کسی کتاب یا مضمون کا حوالہ (reference) نہیں دے سکتا۔
آج کل برقی میڈیا کے پروگراموں کے میزبانوں کی زبانی کچھ اس قسم کے جملے بار بار سنائی دیتے ہیں:
اپنے محسوسات کے حوالے سے بتائیے۔
(یہاں کے بارے میں ہونا چاہیے)
تعلیم کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
(یہاں کے سلسلے میں ہونا چاہیے)
نظریات کے حوالے سے دونوں میں بُعدالمشرقین ہے۔
(یہاں کی مناسبت سے ہونا چاہیے)
اپنی تقریری صلاحیتوں کے حوالے سے اعتماد کا فقدان ہے۔
(یہاں کے ضمن میں ہونا چاہیے)
مذکورہ چاروں مثالوں کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے کوئی نوجوان لڑکا کہے:
مجھے فلاں لڑکی کے حوالے سے پیار ہوگیا ہے۔‘‘
گزشتہ دنوں جسارت کے اداریے میں بھی کے حوالے سے شائع ہوا ہے جس کی ذمے داری بطور چیف ایڈیٹر ہم پر عاید ہوتی ہے۔
’’حوالہ‘‘ بڑا دلچسپ لفظ ہے۔ عربی میں یہ ’’حوالت‘‘ ہے جس کا مطلب ہے کفالت۔ فارسیوں نے اسے حوالہ بمعنیٰ سپردگی استعمال کیا۔ حوالات اردو میں عام ہے اور مونث ہے۔ مطلب ہے حراست، نظربندی، قید، نگرانی، وہ مکان جس میں ملزم تا تحقیقاتِ مقدمہ نظر بند رکھے جائیں۔ اب تو حوالات کی جگہ ’’لاک اپ‘‘ عام ہوگیا ہے۔ تحویل بھی حوالہ سے ہے۔ اس پر ایک شعر برداشت کریں:۔
شوقِ صحرا مجھے دلاتی ہے
دے کے وحشت حوالہ مجنون کا
داغؔ دہلوی کا شعر ہے:۔
ہم سے یوسف کا بیاں ہی نہ کیا واعظ نے
ورنہ ہر بات میں تیرا ہی حوالہ ہوتا
ہم نے اپنے آپ کو بڑی مشکل سے یہ لکھنے سے روکا ہے کہ ’’اس حوالے سے داغؔ کا شعر‘‘۔
حوالے کرنا کا مطلب ہے سپرد کرنا، دینا۔ جیسے یہ رقم تمہارے حوالے کی۔ رخصت کرتے ہوئے دعائیہ کلمہ ’’اللہ کے حوالے کیا‘‘۔
عربی کا ایک لفظ ہے ’’حوصلہ‘‘۔ اردو میں ہمت و جرأت کے معنوں میں آتا ہے، تاہم عربی میں پرندے کے معدے کو کہتے ہیں جو گردن میں ہوتا ہے۔ اردو میں یہ ’’پوٹا‘‘ کہلاتا ہے۔ حوصلہ کی جمع حواصل ہے۔ ایک سفید آبی پرندے کا نام۔ اس کا پوٹا بہت بڑا اور آگے کو نکلا ہوا ہوتا ہے، لہٰذا یہ نام پڑا۔
’’نوشتہ دیوار‘‘ اب تک صحیح نہیں پڑھا جارہا۔ عام طور پر لوگ ’’نوشتہ‘‘ کا تلفظ غلط کرتے ہیں۔ پہلے بھی توجہ دلائی گئی تھی کہ یہ بروزن فرشتہ ہے۔ نوشت کا مطلب ہے لکھا ہوا، مثلاً خود نوشت۔ ٹی وی چینلز پر تو عموماً غلط تلفظ کیا ہی جاتا ہے اور نوشت کو بروزن گوشت کہا جاتا ہے، تاہم ایک رسالے میں یہ جملہ پڑھا ’’یہ نوشتہ دیوار پر لکھا ہوا ہے‘‘۔ نوشتۂ دیوار محاورہ ہے جس کا مطلب ہی یہ ہے ’’دیوار پر لکھا ہوا‘‘۔ ’’نوشتہ دیوار پر لکھا ہوا ہے‘‘ بے معنی ترکیب ہے۔ اس جملے میں صرف نوشتۂ دیوار کافی تھا۔
ایک ٹی وی چینل پر ’’نکیل‘‘ بروزن شکیل، جمیل سنا۔ جب کہ ’ن‘ پر پیش ہے۔ یہ ہندی کا لفظ ہے۔ نکیلا یعنی نوک دار بھی اسی سے ہے۔ نکیل اونٹ کو قابو میں رکھنے کے لیے اُس کے نتھنوں میں ڈالی جاتی ہے۔ اسی سے ’’ناک میں نکیل ڈالنا‘‘ کا محاورہ بنا ہے، یعنی کسی کو قابو میں کرنا۔ مثلاً بہو نے ساس کی ناک میں نکیل ڈال دی، یا اس کے برعکس۔ اونٹ کی ناک میں نکیل ہو تو اسے مرضی سے چلایا یا روکا جاسکتا ہے۔ گھوڑے کے لیے لگام درکار ہے۔ لگام فارسی کا لفظ ہے جو عربی میں لجام ہوگیا۔ حالانکہ اب تو عربی میں ’گ‘ داخل ہوگیا ہے اور مصر میں تو ’ج‘ بھی ’گ‘ سے بدل گیا ہے۔ سواری کے جانوروں میں ہاتھی بے لگام ہے، یعنی اس کو لگام نہیں ڈالی جاتی۔ سنا ہے کہ دہلی پر حملہ آور نادر خان درانی کو جب ہاتھی پر سوار کیا گیا تو اس نے پوچھا ’’اس کی لگام کہاں جب بتایا گیا کہ اس کے لگام نہیں ہوتی، تو وہ یہ کہہ کر اُتر گیا کہ جس سواری کی لگام اس کے ہاتھ میں نہ ہو اُس پر سواری نہیں کی جاسکتی۔ اب تو ہاتھی چڑیا گھروں میں نظر آتے ہیں جن پر بچوں کو سواری کرائی جاتی ہے۔ لغت میں نکیل کا ’ک‘ بالکسر ہے یعنی اس کے نیچے زیر ہے، لیکن عوام کی زبان پر ’ک‘ بالفتح ہے۔ اور اب نیا تلفظ سننے میں آیا ہے جس میں ’ن‘ بھی بالفتح ہوگیا۔ اب کون تلفظ کے شتر بے مہار کو لگام دے۔
اخبارات میں ایک اصطلاح بڑی کثرت سے سامنے آتی ہے ’’اقدامات اٹھانا‘‘۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ قدم اٹھائے جاتے ہیں جن کی جمع اَقدام ہے (الف پر زبر)۔ اقدامات کیے جاتے ہیں، اٹھائے نہیں جاتے۔ ایک بار پھر یہ بتانے میں ہرج نہیں کہ اِقدام (بالکسر) کا مطلب ہے پیش قدمی کرنا، اور اگر اَقدام کے الف پر زبر ہو تو یہ قدم کی جمع ہے۔ ’’اِقدام قتل‘‘ کسی کے مار ڈالنے کا تصور کرنا۔ ایک شعر:۔
میں آپ مر رہا تھا تمہارے فراق میں
اِقدام قتل تم نے کیا بھی تو کیا ہوا
(تسنیم)