دل نہیں مانتا کہ ’’کورونا‘‘ کوئی بیماری ہے۔ یہ کہانی ایک روز کھل جائے گی کہ کورونا بیماری نہیں بلکہ سیاسی وائرس تھا، جس کا مقصد امریکی منصوبے کے مطابق دنیا ۱کو خوف زدہ کرکے معیشت کو کنٹرول کرنا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے جب امریکہ افغانستان میں جارح بن کر آرہا تھا تو اُس وقت بھی ’انتھراکس‘ کے نام سے ایک مہم چلائی گئی تھی، جس کے نتیجے میں ہر شخص ڈاک لفافہ وصول کرنے سے کترانے لگا تھا۔ جدید شکل میں کورونا بھی اسی طرح کی کوئی مہم معلوم ہوتی ہے کہ خوف پھیلا کر اقوام عالم کی توجہ افغانستان سے امریکیوں کے انخلاء سے بالکل دور کردی جائے اور چین جیسی بڑی معاشی قوت کے بھی پَر کاٹ دیے جائیں۔ دنیا بھر میں بیماریاں پھیلتی ہیں اور وبا بھی پھیلتی ہے۔ کبھی حکومتیں خوف پھیلانے میں مددگار نہیں بنیں، لیکن اِس بار تو دنیا کے ایک کیمپ کی حکومتیں اس مہم میں شامل ہوکر باقاعدہ خوف پھیلانے میں مددگار بنتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس نے دنیا بھر میں جو خوف و ہراس پیدا کیا، وہ اُس نقصان سے کہیں زیادہ ہے جو اموات کی صورت میں ہوا۔ چین میں مقامی حکومتوں کی مدد سے کورونا وائرس کے خلاف جنگی بنیادوں پر کام کیا گیا ہے۔ چین میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ بلدیہ بھی کام کرتی ہے جہاں نگرانی اور احتساب کا نظام انتہائی مؤثر ہے۔ مقامی حکومتوں کے درمیان اچھے کام کرنے کا باقاعدہ مقابلہ ہوتا ہے۔ کورونا وائرس ’کووڈ 19‘ کی وبا پھوٹنے کے بعد مقامی حکومتوں نے جہاں ایک طرف وبا کی روک تھام میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہاں نظم ونسق کو برقرار رکھنے اور بنیادی ضرورت کی اشیا لوگوں تک پہنچانے میں بھی پیش پیش رہی ہیں۔ مقامی حکومتوں نے یہ ذمہ داری بطریقِ احسن نبھائی ہے۔ لوگوں کے آنے جانے پر نظر رکھی گئی، اگر کسی نے متاثرہ شہر سے سفر کیا ہے تو اُس کو قرنطین کیا گیاہے تاکہ کمیونٹی کے دوسرے افراد محفوظ رہیں۔ مقامی حکومتوں کے تحت دن میں کئی مرتبہ جراثیم کُش اسپرے کا اہتمام کیا گیا۔ جبکہ ہمارے ہاں حکومت کی سطح پر کام کرنے کے بجائے خوف پھیلایا گیا، حتیٰ کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی لوگوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کیا۔ پاکستان میں اس وقت تک لگ بھگ سوا سو کیس سامنے ہیں، یہاں 14لیبارٹریاں قائم کی جا چکی ہیں جہاں حکومت کے اعلان کے مطابق کٹس مفت دستیاب ہیں، وزیراعظم خود تمام صورتِ حال مانیٹر کررہے ہیں۔ یونیسیف کی ایک حالیہ رپورٹ سے کچھ حوصلہ ملتا ہے، اور کم از کم ایسے ممالک جہاں موسم گرما شروع ہونے والا ہے، اپنے درجہ حرارت کی وجہ سے اس وبا سے محفوظ ہوجائیں گے، کہ رپورٹ کے مطابق 26سے 27سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں یہ ’’وائرس‘‘ مر جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کا سائز 400۔500 مائیکرو قطر ہے، اس وجہ سے یہ کسی ماسک سے نہیں گزر سکتا، یہ ہوا میں نہیں پھیلتا، کسی شے پر رہتا ہے، اس کی کُل زندگی بارہ گھنٹے ہے، صابن اور پانی سے دھل بھی جاتا ہے، اور کپڑے پر ہو تو نو گھنٹے زندہ رہتا ہے۔ کپڑے دھونے یا دو گھنٹے تک کپڑے دھوپ میں پڑے رہنے سے بھی مر جاتا ہے۔ ہاتھوں پر یہ 10منٹ تک زندہ رہتا ہے، اگر جیب میں الکحل اسٹرلائیزڈ ہو تو اس سے ہاتھ صاف کرنا بچنے کی مؤثر صورت ہے۔ یونیسیف کی طرف سے مزید ہدایت کی گئی ہے کہ گرم پانی استعمال کریں، سورج کی حرارت لیں اور گرم پانی پئیں۔ ان ہدایات پر عمل کرکے اس وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔ یونیسیف عالمی ادارہ ہے اور اس کی طرف سے یہ وضاحت بروقت ہے، اس کا مقصد بھی خوف و ہراس سے بچنا اور ہدایات پر عمل کرکے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے واشنگٹن میں چینی سفیر کو طلب کرکے چینی دفتر خارجہ کے ترجمان کے بیان پر سخت احتجاج کیا اور اسے مضحکہ خیز قرار دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ہوسکتا ہے کورونا وائرس امریکی فوج ووہان میں لائی ہو‘‘۔ امریکہ کے ایشیا امور کے اعلیٰ سفارت کار ڈیوڈ سٹل ول نے کہا کہ چین عالمی وبا شروع کرنے اور دُنیا سے چھپانے میں اپنے کردار پر تنقید روکنے کی کوشش کررہا ہے، سازشی نظریہ پھیلانا خطرناک اور مضحکہ خیز ہے، امریکہ چینی حکومت کے نوٹس میں لانا چاہتا ہے کہ ایسے بیانات چینی عوام اور دُنیا کی بھلائی کی خاطر برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ امریکہ نے چینی سفیر کو طلب کرکے سفارتی سطح پر احتجاج تو کردیا جو اُس کا حق تھا، لیکن اب پوری دُنیا کو مل کر اِس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ اس وائرس نے کیسے جنم لیا اور پھر آناً فاناً چین سے نکل کر پوری دُنیا میں کیسے پھیل گیا، اور اب اس کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ عالمی طاقتیں اِس مقصد کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں تاکہ نہ صرف اِس وبا پر قابو پایا جا سکے، بلکہ اس کے مستقل سدِباب کے لیے عالمی حکمت ِ عملی بھی وضع کی جائے۔ چینی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کورونا وائرس ووہان شہر میں لانے کی بات کا محض امکان ظاہر کیا تھا اور قطعیت کے ساتھ امریکہ پر کوئی الزام نہیں لگایا تھا، سفارتی دُنیا میں ایسے احتجاج تو ہوتے رہتے ہیں، لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے اور جب دُنیا وائرس کے خوف و ہراس سے نکلے گی تو اِس سوال کا جواب تو تلاش کرنا پڑے گا کہ ووہان میں یہ وائرس کس طرح پہنچا؟ چمگادڑوں کے ذریعے پھیلنے کا نظریہ چین رد کرچکا ہے۔ بائیولوجیکل وارفیئر تو آج کے دور کی ایجاد ہے، اِس لیے ایسی الزام تراشی قطعی طور پر بے بنیاد بھی نہیں ہوسکتی۔ لیکن چین نے جس طرح ہمت و حوصلے کے ساتھ اس وائرس کے عذاب کا مقابلہ کیا، دُنیا کا شاید ہی کوئی ملک اس کی مثال پیش کرسکے۔ دس دس دن میں ہزاروں بستروں کے ایمرجنسی ہسپتال بنا لیے گئے، جہاں ہزاروں لوگوں کا علاج کیا گیا، جو مریض زیر علاج رہے وہ تقریباً سو فیصد صحت یاب ہوگئے، اور اِس وقت چین میں نئے مریض سامنے نہیں آرہے۔ ایمرجنسی میں بننے والے ہسپتال بھی خالی ہونے لگے ہیں۔ اِس وقت کورونا وائرس کے حملے کا مرکز یورپ ہے اور بہت سے پورپی ممالک کے گلی کوچوں میں تو ہُو کا عالم ہے، ایسے وقت میں اس وائرس کے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے ویکسین بنانے کی ضرورت تھی۔ کہا جارہا ہے کہ یہ اگلے سال ڈیڑھ سال میں تیار ہوسکتی ہے، لیکن چین نے اپنے ہزاروں متاثرہ شہریوں کا تسلی بخش علاج کیا ہے، متاثرہ ممالک کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ کیونکہ یہ الزام تراشی کا نہیں، باہمی تعاون کا وقت ہے۔
سارک ممالک کی صحت کے موضوع پر کانفرنس ہوئی جس میں پاکستان نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شرکت کی اور تجویز دی کہ چین کا کردار قائدانہ حیثیت رکھتا ہے، یورپی ممالک کو چین کے ساتھ رابطہ کرکے آئندہ کا لائحہ عمل بنانا چاہیے،سارک ممالک بھی چین کی مدد حاصل کرسکتے ہیں۔سارک ممالک کی ویڈیو کانفرنس کے نتیجے میں یہ ملک کوئی مشترکہ حکمت ِ عملی بنا اور چلا پاتے ہیں یا نہیں، یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے،کیونکہ یہ تنظیم اب تک خطے کو پُرامن بنانے میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکی۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ نریندر مودی اپنی اَنا کے بُت کو پہلے پاش پاش کریں،دہلی کے مسلمانوں کے قتلِ عام پر شرمندہ ہوں اور متاثرین سے معافی مانگیں، اور کوئی بھی سارک ملک بڑا ہو یا چھوٹا، یکساں قابل ِ احترام سمجھا جائے، تبھی مشترکہ اقدامات کی کوئی حیثیت ہوگی، ورنہ جونہی کورونا وائرس کا خوف ختم ہوگا اور اس وبائی خطرے کا دباؤ کم ہوگا، نریندر مودی پہلے کی طرح پاکستان مخالف رویہ اپنا لیں گے۔ سارک تنظیم آج تک بھارت کے منحوس سائے سے آزاد نہیں ہوسکی۔ کورونا کے خلاف ہی سہی، اب مودی کو سارک ممالک کی ویڈیو کانفرنس منعقد کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ضروری اشیاء کی وافر دستیابی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے اور حکم دیا ہے کہ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح کا حکم وہ پہلے بھی چینی اورآٹے کے معاملے میں دے چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اُن کے حکم پر کتنا عمل ہوا؟ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا، اس اجلاس میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے اقدامات کا جائزہ لیا گیا، کورونا وائرس کے حوالے سے اقدامات اورچیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ کے لائحہ عمل پر بھی گفتگو کی گئی اور مشیر خزانہ کی سربراہی میں بین الوزارتی کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ حکومت کو کورونا وائرس کے مسئلے کی سنجیدگی کا مکمل ادراک ہے، اس ضمن میں حکومتی سطح پر ہر ممکن اقدام کیا جائے گا، عوام کو مسئلے کی سنجیدگی کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے، حفاظتی تدابیر اختیار کرکے وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بہت جلد قوم سے خطاب کروں گا، پاکستانی قوم نے ہر مشکل کا مقابلہ خندہ پیشانی اور ثابت قدمی سے کیا ہے، کورونا سے ڈرنا نہیں، بحیثیت قوم اس مسئلے کا مقابلہ کرنا ہے۔ وزیراعظم نے ضروری اشیاء کی وافر دستیابی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ معاشی سرگرمیوں کی بلا تعطل روانی اور روزگار کے تحفظ کو یقینی بنانا ترجیح ہے،کسی بھی ممکنہ صورت حال کے پیش نظر عوام کے لیے جامع حکمت عملی تیار کی جائے۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ کورونا وائرس اب 147ملکوں میں پھیل گیا ہے جن میں ایک لاکھ 72ہزار افراد متاثر ہوگئے ہیں، لیکن متاثرہ افراد میں زیادہ تر صحت یاب ہورہے ہیں۔ چین نے کورونا وائرس پر کافی حد تک قابو پالیا ہے اور اب یہ وائرس پاکستان سمیت دنیا کے تقریباً ہرملک میںپھیل چکا ہے، لیکن اس مشکل وقت میں بھی چین نے اپنے پاکستانی دوستوں کا خیال رکھا اور ہسپتال بنانے کے لیے نقد رقم کے علاوہ ٹیسٹ کٹس سمیت دیگر چیزیں فراہم کی ہیں۔ چین نے کورونا وائرس سے محفوظ رہنے اور کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان کو ایمرجنسی مدد دی ہے جس میں 12000ٹیسٹ کٹس، تین لاکھ ماسک، دس ہزار حفاظتی سوٹ اور چالیس لاکھ امریکی ڈالر شامل ہیں تاکہ ہسپتال بنا سکیں۔
کورونا وائرس آپ کے جسم کے ساتھ کرتا کیا ہے؟
کورونا وائرس گزشتہ برس دسمبر میں سامنے آیا، لیکن اب کوویڈ-19 عالمی وبا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
اس بیماری میں مبتلا ہونے والے زیادہ تر افراد میں اس بیماری کا اتنا اثر نہیں ہوتا اور وہ صحت یاب بھی ہورہے ہیں، تاہم کچھ افراد اس کی وجہ سے ہلاک بھی ہوچکے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ وائرس جسم پر کیسے اثرانداز ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں کچھ افراد ہلاک کیوں ہورہے ہیں، اور اس بیماری کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
انکیوبیشن یا نگہداشت کا دورانیہ
اس دورانیے میں وائرس اپنی جگہ پکڑ رہا ہوتا ہے۔ وائرس عام طور پر آپ کے جسم کے خلیوں کے اندر تک رسائی حاصل کرکے ان کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔
کورونا وائرس جسے سارس-کووی-2 کہا جا رہا ہے، آپ کے جسم پر اُس وقت حملہ آور ہوتا ہے جب آپ سانس کے ذریعے اسے اندر لے جاتے ہیں (جب کوئی قریب کھانسے) یا آپ کسی ایسی چیز کو چھونے کے بعد اپنے چہرے کو چھو لیں جس پر وائرس موجود ہو۔
سب سے پہلے یہ وائرس اُن خلیوں کو متاثر کرتا ہے جو آپ کے گلے، سانس کی نالی اور پھیپھڑوں میں ہوتے ہیں، اور انھیں ’کورونا وائرس کی فیکٹریوں‘ میں تبدیل کردیتا ہے، جو ایسے مزید وائرس پیدا کرتی ہیں جن سے مزید خلیے متاثر ہوتے ہیں۔
ابتدائی مرحلے میں آپ بیمار نہیں ہوں گے، اور اکثر افراد میں اس بیماری کی علامات بھی ظاہر نہیں ہوں گی۔
نگہداشت کے دورانیے میں انفیکشن ہونے اور اس کی علامات ظاہر ہونے کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے لیکن یہ اوسطاً پانچ دن بتایا جاتا ہے۔