افغانستان کے نومنتخب صدر اشرف غنی کی جانب سے کابل کے صدارتی محل میں حلف برداری کی تقریب پر راکٹ فائر کیے جانے کے واقعے نے 1990ء کی دہائی میں افغان خانہ جنگی کے عرصے میں صدارتی محل میں عیدالفطر کے اجتماع سے اُس وقت کے افغان صدر برہان الدین ربانی کے خطاب کے دوران حزبِ اسلامی کی جانب سے فائر کیے جانے والے راکٹوں کی یاد تازہ کردی ہے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب افغانستان سے جنیوا معاہدے کے تحت سوویت افواج کا انخلا مکمل ہوچکا تھا، اور افغان مجاہدین کے ہاتھوں ڈاکٹر نجیب اللہ کی کٹھ پتلی حکومت کو زمین بوس کیا جاچکا تھا جو آخری برسوں میں محض کابل تک محدود ہوگئی تھی، اور کابل میں اقتدار کا خلا پُر کرنے کے لیے دو بڑی جہادی تنظیموں جمعیتِ اسلامی اور حزبِ اسلامی کے درمیان گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا۔ اس مسلح محاذ آرائی کا مرکز کابل شہر تھا جو سوویت یونین کی دس سالہ جارحیت کے دوران جنگ و جدل کے براہِ راست شعلوں سے محفوظ رہا تھا، اور اب یہاں آگ و خون کا وہ کھیل کھیلا جارہا تھا جس نے کابل کو جسے کبھی ایشیا کا پیرس کہا جاتا تھا، کھنڈرات میں تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ کابل کی یہ خانہ جنگی جو بظاہر تو حزبِ اسلامی اور جمعیتِ اسلامی کے درمیان برپا تھی لیکن اس کے اصل محرک جمعیت اسلامی کے فوجی دھڑے شورائے نظارکے سربراہ احمد شاہ مسعود تھے، جو افغان مجاہدین کی عبوری حکومت کے وزیر دفاع ہونے کے باوجود اپنی ہی حکومت کے وزیراعظم گلبدین حکمت یار کے خلاف نہ صرف لڑ رہے تھے، بلکہ انہیں کسی بھی حالت میں کابل میں داخلے کی اجازت دینے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ یہ ایک ایسی نرالی حکومت تھی جس میں صدرِ مملکت پروفیسر برہان الدین ربانی بھی اپنی ہی جماعت کے ایک طاقت ور وزیر دفاع کے سامنے بے بس اور مجبور تھے، جن کی احمد شاہ مسعود کے سامنے کوئی بات نہیں چلتی تھی۔ اس عجیب و غریب صورتِ حال اور افغان وار لارڈز کی خودسری کے متعلق قاضی حسین احمد مرحوم کہا کرتے تھے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں افغان مجاہدین کے راہنمائوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور انہیں افغان جہاد کے ثمرات بالخصوص لاکھوں شہداء، بیوائوں، یتیموں اور مہاجرین کی قربانیوں کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے بے پناہ جتن کیے لیکن کچھ افغان راہنمائوں کی اَنا، ضد، اور زیادہ تر بیرونی سازشوں کی وجہ سے نہ تو افغان ملّت اور نہ ہی امتِ مسلمہ افغان جہاد کے وہ ثمرات دیکھ سکی جن کے لیے یہ بے پناہ قربانیاں دی گئی تھیں۔ قاضی حسین احمد مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ جب حزب اور جمعیت کی جانب سے کابل کو فتح کرنے کے لیے چھیڑی گئی لڑائی حد سے بڑھنے لگی تو انھوں نے تمام تر خطرات اور پاکستانی اداروں کے منع کرنے کے باوجود عین لڑائی کے دوران ان دونوں متحارب گروپوں کے قائدین سے اپنے پرانے تعلق اور روابط کی بنیاد پر رابطے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتے تھے کہ انھوں نے سب سے پہلے حزب کے سربراہ گلبدین حکمت یار سے کابل کے نواح میں واقع اُن کے ہیڈکوارٹر سروبی میں ملاقات کی اور انہیں جنگ بندی پر آمادہ کرکے وہ اس یقین دہانی کے ساتھ کابل کے صدارتی محل میں مقیم پروفیسر برہان الدین ربانی کی جانب روانہ ہوئے کہ جب تک وہ یعنی قاضی صاحب کابل میں موجود رہیں گے تب تک حزب کی جانب سے جنگ بندی برقرار رکھی جائے گی۔ قاضی صاحب کا کہنا تھا کہ اس شرط کا مقصد قیامِ امن کے لیے فضا سازگار بنانا تھا کیونکہ اُن دنوں کابل شہر کو جس پر احمد شاہ مسعود کی افواج کا قبضہ ہوچکا تھا، حزبِ اسلامی نے دو اطراف سے نہ صرف گھیر رکھا تھا بلکہ ان اطراف سے کابل پر مسلسل بمباری بھی کی جارہی تھی جس سے عام بے گناہ افراد بڑی تعداد میں متاثر ہورہے تھے، لہٰذا قاضی صاحب کا خیال تھا کہ اس عارضی فائربندی سے جہاں جمعیتِ اسلامی کو ایک مثبت پیغام جائے گا، وہاں کم از کم ان دو تین دنوں کے دوران فائر بندی سے اہلِ کابل کو عیدالفطر پُرامن طور پر منانے کا موقع بھی مل جائے گا۔ قاضی صاحب کہتے ہیں کہ اس مشن اور عزم کے ساتھ جب وہ صدارتی محل پہنچے تو انہیں جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ اصل اختیارات ربانی صاحب کے بجائے احمد شاہ مسعود کے پاس تھے، اور وہ کسی بھی صورت گلبدین حکمت یار کو اپنے مسلح ساتھیوں کے ہمراہ کابل میں آنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ گلبدین حکمت یار کابل میں بطور وزیراعظم غیر مسلح ہوکر ہی داخل ہوسکتے ہیں، جس پر گلبدین حکمت یار اور اُن کے ساتھی کسی بھی صورت میں آمادہ نہیں تھے۔ قاضی صاحب اُس دن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ برہان الدین ربانی کے ہمراہ صدارتی محل کی جامع مسجد میں نمازِ عیدالفطر کے لیے موجود تھے کہ اس دوران انہیں پہلے بینڈ باجے بجنے کی آوازیں سنائی دیں اور بعد میں توپ کے گولے چلنے کی آوازیں آئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں سمجھا شاید حزب والوں کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اسی اثنا میری بے چینی دیکھ کر ساتھ بیٹھے ہوئے صدر ربانی نے بتایا کہ یہ ڈھول، باجے اور توپوں کی سلامی احمد شاہ مسعود کی صدارتی محل آمد پر دی جارہی ہے۔ یہ دیکھ کر مجھے نہ صرف عجیب حیرت ہوئی بلکہ قیام امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور اس ضمن میں صدر ربانی کی بے بسی بھی سمجھ میں آگئی، بعد میں کابل اور پورے افغانستان کا جو حشر ہو ا اُس کی قیمت جہاں پوری افغان ملّت نے چکائی وہاں احمد شاہ مسعود اور پروفیسر برہان الدین ربانی بھی ان حالات کا شکار ہوئے، جبکہ تیسری جانب گلبدین حکمت یار کو بھی طویل عرصے تک گمنامی اور جلاوطنی کے زخم سہنا پڑے۔ طالبان کا ظہور اور زوال اس پر مستزاد ہوا۔ پچھلے بیس سال سے افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کی موجودگی اور مغربی طاقتوں کے پروردہ ایک نئے سوشل کنٹریکٹ جس کی بنیاد افغانستان کے ایک نئے آئین اور ریاستی نظام پر رکھی گئی ہے، کہ بارے میں عمومی تاثر یہ تھا کہ دو دہائیوں کے بعد شاید یہ نظام اب اتنا مستحکم اور پختہ ہوچکا ہے کہ امریکی چھتری ہٹنے کے باوجود کوئی اس نظام کو تہ وبالا کرنے کی ہمت نہیں کرسکے گا، لیکن گزشتہ دنوں جب ایک جانب ڈاکٹر اشرف غنی حلفِ صدارت اٹھا رہے تھے، تو دوسری جانب چند فرلانگ کے فاصلے پرکابل شہر ہی میں چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی جانب سے ایک الگ تقریب میں حلفِ صدارت اٹھاکر جہاں افغان آئین کی دھجیاں بکھیری جارہی تھیں، وہاں انھوں نے یہ انتہائی قدم اٹھاکر افغانستان کے مخدوش حالات کو آتش فشاں بنانے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ کر افغانستان سمیت اس پورے خطے کو ایک نئی جنگ میں جھونک سکتا ہے۔ ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی ان تنہا اڑانوں کا ڈراپ سین ابھی ہونا باقی تھا کہ اس دوران طالبان کی جانب سے افغانستان میں متوازی حکومت سازی اور مولانا ہبت اللہ کو اس نئی حکومت کا سربراہ بنانے کے اعلان نے رہی سہی کسر پوری کرتے ہوئے جہاں طالبان امریکہ معاہدے اور اس کے نتیجے میں بین الافغان ڈائیلاگ کے مستقبل پر کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں، وہاں اس صورت حال سے افغان عوام کے ساتھ ساتھ خطے کے ممالک میں بھی تشویش کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے، جس میں عالمی برادری اور بالخصوص خطے کے ممالک، اور سب سے بڑھ کر خود افغان قیادت کو آگے بڑھ کر ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا، بصورتِ دیگر آنے والے حالات اس پورے خطے کے لیے ایک نئی آزمائش کا سبب بن سکتے ہیں۔