کوروناوائرس کی وبا اور عالمی وملکی معیشت کو خطرات

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی سے تبادلہ خیال

فرائیڈے اسپیشل: کورونا وائرس ایک وبا کی طرح پوری دنیا میں پھیل گیا ہے، اس پس منظر میں عالمی معیشت کو آپ کس طرح سے دیکھ رہے ہیں؟ کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: دنیا بھر میں کورونا وائرس پھیلتا چلا جارہا ہے جس کی وجہ سے متعدد ممالک کی معیشتوں کو زبردست دھچکا لگا ہے، اور مزید لگنے کی امید ہے۔ تیل کی طلب کم ہونے سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی کا رجحان ہے۔ بہت سے اسٹاک ایکسچینج کلیش ہوگئے ہیں، مگر وہاں اتار چڑھائو آتا رہے گا، اس کے ساتھ ساتھ متعدد ممالک میں شرح سود میں تیزی سے کمی ہورہی ہے۔ امریکہ نے تو شرح سود کو صفر کردیا ہے، جس سے کچھ لوگ خوشیاں منا رہے ہیں کہ دیکھیے وہاں سود کا خاتمہ ہوگیا۔ بہرحال یہ رجحان ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ خدانخواستہ پاکستان میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد اب تیزی سے بڑھے گی۔ دنیا کے بیشتر ممالک بشمول چین، امریکہ، یورپی یونین اور عرب ممالک کی معیشتوں پر کورونا وائرس سے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور شرح نمو سست ہوئی ہے، اور شاید رہے گی۔ خدشہ یہ ہے کہ کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے عالمی معیشت کو دو ہزار ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: تو کیا اس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر بھی منفی اثرات پڑیں گے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: جی، خصوصاً اس لیے بھی کہ ہماری معیشت کا بہت زیادہ انحصار بیرونی وسائل پر ہے، جبکہ چین کا بھی اس وقت پاکستانی معیشت میں اہم کردار ہے، اور چین کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:اس صورتِ حال میں حکومت کے سوچنے اور کرنے کے لیے کیا کام ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی:اس صورتِ حال میں جو چیلنج اور خطرات عالمی اور پاکستانی معیشت کو درپیش ہیں، اس میں ہمارے لیے خطرات بھی ہیں اور مواقع بھی۔ حکومت کی جو پالیسیاں ہیں اب اُن کا محور یہ ہونا چاہیے کہ ان خطرات سے ممکنہ حد تک نمٹا جائے، اور جو مواقع اس کی وجہ سے مل رہے ہیں خصوصاً تیل کی قیمتوں میں عالمی منڈی میں جو کمی واقع ہورہی ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے، یہ ہماری حکمت عملی ہونی چاہیے۔ لیکن کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے خود پاکستانی معیشت کو پانچ ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوسکتا ہے، جبکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے تیل کی درآمدات میں بھی تقریباً پانچ ارب ڈالر کی کمی متوقع ہے۔ دوسری طرف ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی معیشت کو بدستور سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں معیشت کی شرحِ نمو تیزی سے گری ہے، اس حکومت کو 5.5 فیصد کی شرح نمو ورثے میں ملی تھی جو اس مالی سال میں صرف 2 فیصد رہ سکتی ہے۔ ٹیکسوں کی وصولی پچھلے مالی سال میں بھی ہدف سے کم رہی، اور رواں سال میں بھی کم رہی جس کی وجہ سے بجٹ خسارہ بڑھا، ملکی اور بیرونی قرضوں کے حجم میں اضافہ ہوا جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے تیز رفتار اضافہ ہے۔ یعنی اس حکومت کے دور میں دسمبر 2019ء تک مجموعی قرضوں اور ذمہ داریوں میں 11100 ارب روپے کا زبردست اضافہ ہوا ہے، روپے کی قدر تیزی سے گری ہے، اور دوسری بات یہ کہ حکومتی شعبوں کے اداروںکو مجموعی طور پر 2100 ارب روپے کے نقصانات کا سامنا ہے، جبکہ توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے کا مجموعی حجم لگ بھگ 1900 ارب روپے ہے۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ایک اور چیز جسے سوچنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہمارے جاری حسابات کے خسارے میں زبردست کمی ہوئی ہے اور حکومت کامیابی کے دعوے بھی کررہی ہے کہ بھئی یہ ہماری کامیابیوں کا ثمر ہے، سوال یہ ہے کہ یہ جو زبردست کمی ہوئی ہے 20 ارب ڈالر سے لے کر 2018ء میں چار پانچ ارب ڈالر نظر آتی ہے، اس کا عکس کہیں نظر نہیں آرہا۔
فرائیڈے اسپیشل: اس صورتِ حال میں حکومت تو کہہ رہی ہے سب ٹھیک ہورہا ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: میں چاہتا ہوں کہ قوم موجودہ صورتِ حال پر انتہائی سنجیدگی سے غور کرے، جو یہ ظاہر کررہی ہے کہ معاشی پالیسیاں تباہ کن ہیں اور جاری حسابات کے خسارے کا کوئی عکس نظر نہیں آرہا۔ جس دن (10اگست 2018ء) عمران خان نے حلف اٹھایا اُس وقت اسٹیٹ بینک کے مجموعی ذخائر 10.2 ارب ڈالر تھے۔ اب پندرہ ماہ کے بعد جبکہ آئی ایم ایف سے قرضہ بھی مل گیا، بیرونی قرضوں میں پندرہ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، اور حکومت اس قسم کے دعوے کررہی ہے کہ ہماری پالیسیوں کی وجہ سے بہتری آئی ہے۔ جبکہ نومبر 2019ء میں اسٹیٹ بینک کے جو مجموعی ذخائر تھے ان کا حجم 9.1 ارب ڈالر تھا، یعنی ان پندرہ ماہ میں زرِمبادلہ کے ذخائر میں جو کمی ہوئی تھی وہ 1.1 ارب ڈالر تھی۔ اب سوچنا یہ ہے کہ جب 10.2 ارب ڈالر کے ریزرو تھے تب تو آپ کہہ رہے تھے کہ معیشت دیوالیہ ہے، اور جب 13 ارب ڈالر کے قرضے بڑھ گئے اور اسٹیٹ بینک کے ریزرو اب سے چند ماہ پہلے نومبر 2019ء میں 1.1 ارب ڈالر مزید کم ہوئے تو آپ کہہ رہے ہیں کہ معیشت بحال ہوگئی۔ اگر حقیقت پسندی سے دیکھیں تو نہ کبھی پاکستان دیوالیہ ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا۔ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے یہ کہنا کہ پاکستان دیوالیہ تھا، اور ماضی کی حکومتیں بھی یہی کرتی رہی ہیں، اس سے ہمیں بڑا نقصان پہنچا ہے۔ لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ اس حکومت کے دور میں پچھلے چند مہینوں میں زرمبادلہ میں چند ارب ڈالر کا یقیناً اضافہ ہوا ہے، لیکن وہ اضافہ یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے تین ارب ڈالر سے زیادہ ہاٹ منی لے کر آئے اور بیرونی سرمایہ کاروں کو یہ کہا کہ باہر جو اس وقت قرضے مل رہے ہیں اوسطاً 1.4 فیصد سالانہ پر، اس کو پاکستان میںروپے میں تبدیل کرا کے لائیںاور تیرہ اعشاریہ تین فیصد ان کو ہم نے شرح سود دی۔ تو یہ جو 11.9 فیصد کا ان کو منافع دے دیا آپ نے سالانہ کا، اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ ہمیں بھی پتا تھا کہ چند ہفتوں بعد یہ نکل جائیں گے جب روپے کی قدر پر دبائو آئے گا۔ اور اب یہی ہوا کہ وہ نکلنے شروع ہوگئے اور اگلے چند ہفتوں میں یہ مکمل طور پر نکل جائیں گے۔ تو یہ پالیسی اپناکر کیوں قوم کو غیر ضروری تسلی دی، کامیابیوں کے دعوے کیے؟ اور دوسرا یہ تھا کہ ریزرو کے خسارے کو آپ نے چھپا لیا۔
فرائیڈے اسپیشل: معیشت کو ٹھیک سمت میں لانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: اب اس معاشی صورتِ حال میں ہمیں کچھ حقائق کا ادراک کرنا ہے، اور سب سے اہم حقیقت جو اس وقت میرے ذہن میں ہے وہ یہ کہ اگر اس وقت پاکستان کی معیشت کو سنگین چیلنج درپیش ہیں جن میں سے میں نے چند کی نشاندہی کی، تو کیا حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ہم شرح سود میں کچھ کمی کریں گے۔ یقیناً آئندہ بھی کریں گے، تیل کی قیمتیں جو عالمی منڈی میں کم ہورہی ہیں اس کا صرف ایک حصہ عوام کو منتقل کرنے کا پروگرام ہے، اور تیل کی درآمدات میں چند ارب ڈالر کی کمی متوقع ہے۔ تو ایسے چھوٹے موٹے چند اقدامات آپ اٹھا لیتے ہیں تو کیا زبردست چیلنجز، خطرات، بجٹ خسارہ، قرضوں کا حجم اور پبلک سیکٹر کے نقصانات اور معیشت کی شرح نمو ان تمام چیلنجز، ان چند اقدامات سے بہتر ہوجائے گی۔ اس کا جواب ہے کہ نہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: اگر ایسا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو فوری طور پر کیا کرنا چاہیے؟ اور اگلا بجٹ جس کی تیاری شروع ہوچکی ہے، اس میں کیا ہونا چاہیے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: دیکھیے! سب سے اہم کام اس وقت یہ ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ ایک فارمولے کے تحت فوری طور پر عوام کو منتقل کردیا جائے۔ اب وہ فارمولا کیا ہے؟ اب سے پندرہ برس قبل اسٹیٹ بینک کے گورنر نے جو آج بھی موجودہ حکومت کا حصہ ہیں، یہ کہا تھا کہ اگر ٹیکس چوری روک دی جائے تو پیٹرولیم لیوی صفر ہوجائے گی اور جنرل سیلز ٹیکس تمام اشیاء پر پانچ فیصد پر آجائے گا، اور ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب بڑھے گا۔ اب موجودہ حکومت نے یہ کیا ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں ہائی اسپیڈ ڈیزل پر پیٹرولیم لیوی جس کو میں بھتہ کہتا ہوں، آٹھ روپے فی لیٹر تھی، اس کو بڑھا کر پچیس روپے پانچ پیسے فی لیٹر کردیا ہے، اور اب سے چند ماہ پہلے پیٹرولیم لیوی جو دس روپے لیٹر تھی، اس کو بڑھا کر 19 روپے 75پیسے کردیا۔ یعنی ٹیکس چوری کے نقصانات آپ پورے کرتے ہیں عوام اور معیشت پر بوجھ ڈال کر۔ پیٹرولیم لیوی بھتہ ہے۔ بھتہ اس لیے کہ پہلے تھا یہ کاربن ٹیکس، سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ غیر قانونی ہے۔ اس کے بعد اس کا نام بدل کر پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کردیا گیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ بھی ناجائز ہے کیوں کہ آپ تو بجٹ خسارہ اور چوری کے نقصانات کو پورا کررہے ہیں۔ تو اب جو ہم بھرتے ہیں اس کو پیٹرولیم لیوی کردیا۔ یہ سپریم کورٹ کے دائرے سے نکل آیا اور اس طرح سے بھتہ لے کر ٹیکس چوری کے نقصانات پورے کرنے شروع کردیئے، معیشت کو تباہ کردیا، عوام کو تباہ کردیا۔
اب میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ اس فارمولے کے تحت اگر کمی کرتے ہیں تو آج کی تاریخ میں پینتیس روپے فی لیٹر تک کی کمی کی گنجائش ہے، اس فیصلے سے کروڑوں افراد کو فائدہ ہوگا، پاکستان میں مہنگائی میں تیزی سے کمی ہوگی، پیداواری لاگت میں کمی ہوگی، برآمدات میں اضافہ ہوگا، روزگار کے مواقع میسر آئیں گے اور کورونا وائرس کی وجہ سے عوام کو جو تکالیف ہیں ان میں یقیناً کمی آئے گی۔ لیکن اگر تیل کی قیمتوں میں کمی کا صرف ایک حصہ منتقل کیا گیا اور باقی حصے کو ٹیکس چوری، بجلی کی چوری اور باقی نقصانات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تو یہ قومی المیہ ہوگا، اور یہ تجربہ ماضی میں بھی ناکام رہا تھا جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی تھی۔ یہی غلطی اب ہم دہرانے جارہے ہیں اور بدقسمتی سے ملک میں ایسے طاقتور عناصر سرگرم عمل ہوگئے ہیں جو حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا صرف ایک حصہ عوام کو منتقل کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حکومت کی بہت بڑی غلطی ہوگی جس کے نقصانات آئندہ بھی ہم خدانخواستہ پورے نہیں کرسکیں گے۔
اب چونکہ بجٹ کی تیاری شروع ہوگئی ہے اور مئی میں 2020-21ء کا بجٹ آنے والا ہے تو جو باتیں میں کررہا ہوں یہ باتیں وفاق اور صوبے دونوں کے لیے ہیں۔ اس حکومت نے جو ٹیکس ایمنسٹی دی تھی اس میں جو مراعات دی تھیں ٹیکس ادا کرنے والوں کو، وہ نہ دنیا میں کبھی دی گئیں اور نہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی دی گئیں، جس میں ایک شرط یہ تھی کہ چوری سے کمائے گئے پیسے سے جو جائداد پاکستان کے اندر ہیں ان پر ڈیڑھ فیصد ٹیکس لیا گیا جبکہ ملکی قوانین کے تحت آپ ستّر فیصد لے سکتے تھے، مگر ساتھ میں یہ کہ اب بھی اگر کسی نے فائدہ نہیں اٹھایا تو ان کے خلاف سخت ایکشن لیں گے۔ جون 2019ء میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو جس کے چیئرمین شبر زیدی تھے، انہوں نے ایک اشتہار شائع کرادیا ایف بی آر کی طرف سے، اور اس میں یہ تھا کہ جو لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے ان کو قانون کے تحت سات سال قید کی سزا دی جائے گی اور اثاثے ضبط کرلیے جائیں گے، ان کی تفصیلات حکومت کے پاس ہیں۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ نہ آپ کسی کو جیل بھیجیں، نہ کسی کے اثاثے ضبط کریں۔ اگر پراپرٹی اور دوسرے اثاثے ہیں، قومی بچت اسکیموں میں پیسہ ہے تو ان سے ملکی قوانین کے تحت ٹیکس لیں۔ وہ بنتا ہے نو سو ارب روپے اندازاً۔ اگر یہ نو سو ارب روپیہ آجائے تو اس سے کروڑوں عوام کو تعلیم اور صحت کی بہتر سہولیات مہیا کی جاسکتی ہیں، ہم ان کو ووکیشنل ٹریننگ فراہم کرسکتے ہیں، جس سے ان کے ہاتھ میں ہنر آئے گا، غربت اور بے روزگاری میں کمی ہوگی۔ اور ہمیں پتا ہے کہ 23 ملین بچے اسکول نہیں جارہے، اور یہ حکومت اپنے منشور کے مطابق تعلیم اور صحت کی مد میں سترہ سو ارب روپے سالانہ کب مختص کررہی ہے؟ تو میرا یہ سوال ہے کہ کیا ان چند چوروں کو ایک مرتبہ پھر فائدہ پہنچانا مقصود ہے، یا کروڑوں عوام کے لیے کچھ کرنا ہے؟
دوسرا جو پاکستان کی تینوں بڑی پارٹیوں پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی کے منشوروں میں ہے کہ ہم ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور پر ٹیکس لگائیں گے، وفاق اور صوبے معیشت کے ذخائر دستاویزی بنائیں گے۔ ابھی میں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر نے یہ کہا تھا کہ آپ ٹیکس کی چوری روک لیں تو پیٹرولیم لیوی صفر ہوجائے گا اور جی ایس ٹی کم ہوجائے گا۔ تو اب سے ایک سال پہلے پیٹرول پر جی ایس ٹی زیرو پوائنٹ فائیو پرسنٹ کم سے کم تھا، اب آپ نے سب پر سترہ فیصد کردیا ہے، تو اب آپ یہ کریں کہ اس فارمولے کے مطابق پیٹرولیم لیوی بھی ختم کررہے ہیں، اور جی ایس ٹی پانچ پرسنٹ کردیں اور ٹیکس اگر آپ کم کرتے ہیں تو آپ کو فیصلہ یہ کرنا ہے کہ موجودہ استحصالی نظام جو کہ بھتے پر مبنی ہے، اس کو باقاعدہ آئینِ پاکستا ن کے آرٹیکل 3 کے خلاف ہے وہ آپ کرتے ہیں یا یہ اصلاحات کرتے ہیں ٹیکس اور توانائی کے شعبوں میں اور یوٹیلیٹیز کو کم کرتے ہیں اور اس سے معیشت کو بہتر بناتے ہیں، شرح نمو کو تیز کرتے ہیں برآمدات میں اضافہ کرتے ہیں، غربت میں کمی کرتے ہیں، مہنگائی میں کمی کرتے ہیں تو فیصلہ یہ کرنا ہے کہ استحصالی نظام برقرار رکھنا ہے یا عوام اور معیشت کو فائدہ پہنچانے کے اقدام کرنے ہیں۔
دوسری توجیہ یہ ہے کہ اگر تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ میرے فارمولے کے مطابق عوام کو منتقل نہیں کیا گیا اور وہی پرانی غلطی دہرائی گئی اور یہ اصلاحات نہیں کی گئیں تو معیشت کو درپیش مشکلات برقرار رہیں گی، عوام کی تکالیف برقرار رہیں گی، قرضوں کا حجم بڑھتا چلا جائے گا، پاکستان کی سیکورٹی کے لیے خطرات بڑھتے چلے جائیں گے، کیونکہ امریکہ، بھارت اور آئی ایم ایف مل کر پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کررہے ہیں، اور خدانخواستہ ایک بار پھر اگر ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے تو یہ فیصلہ قوم اور حکومت کو کرنا ہے، اور اس کی روشنی میں اگر نیا بجٹ بناتے ہیں تو یہ قدرت کی طرف سے پاکستان کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ہوگی، اور اگر ایسا نہیں کیا تو خطرات ہی خطرات ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: کورونا وائرس کی وبا کے بعد اب ملک میں افراتفری کا عالم ہے، ذخیرہ اندوزی بڑھ رہی ہے، عام آدمی بھی یہ کام کررہا ہے اور مافیا بھی سرگرم ہے۔ اس کے مستقبل میں کیا اثرات پڑیں گے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: اس وقت پاکستان میں الحمدللہ گندم و دیگر اجناس کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں اور کورونا وائرس کا زور پاکستان میں ٹوٹ جائے گا، لیکن لوگ خوف کی وجہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ باہر سے درآمد کرلو، جہاز آنے بند ہوگئے تو کیا ہوگا؟ یہ تو بہت بڑا مسئلہ ہوجائے گا۔ صرف ہمیں نہیں دیکھنا ہوگا، بلکہ اس طرح کی اگر صورت حال آتی ہے تو ہندوستان ہمارے پیچھے بھاگے گا کہ جناب ہم آپس میں زمینی راستے سے تجارت کرتے ہیں، دونوں ملکوں کو فائدہ ہوگا۔ یہ ایک طرح سے زبردست موقع بھی ہے، لیکن حکومت کو یہ چیز دیکھنی ہوگی کہ ذخیرہ اندوزی نہ ہو، منافع خوری نہ ہو۔ صوبائی حکومتیں بھی دیکھیں، لوکل گورنمنٹ بھی دیکھے۔ عوام یہ سمجھیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا پر ایک وبا آگئی ہے تو بحیثیت مسلمان ہماری بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ذخیرہ اندوزی نہ کریں، منافع خوری نہ کریں، اور غیر ضروری چیزیں نہ خریدیں، اور جو اسلام کا طریقہ ہے۔ حکومت اور قوم نے مل کر مقابلہ کیا تو ہم اس مصیبت سے عہدہ برآ ہوں گے اور کوئی سنگین صورت حال پیدا نہیں ہوگی۔ دوائوں کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ غیر ضروری دوائیں جو ہم خرید رہے ہیں جن کی ہمیں ضرورت نہیں ہے، تو ایسا کچھ ہوگا نہیں۔ دو ڈھائی مہینے کی بات ہے، اللہ چاہے گا تو فضل کرے گا۔