مسئلہ کشمیر پر نئی حکمتِ عملی کی ضرورت

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل نو کی تجویز

۔5 اگست2019ء کے بعد کی صورتِ حال میں کشمیر کا مقدمہ ایک نئے انداز سے لڑنے کے لیے روایتی اور فرسودہ پالیسی میں تبدیلی اور مکمل انقلابی انداز اپنانے کے حق میں بلند ہونے والی آوازیں زیادہ اونچی اور تیز ہورہی ہیں۔ اس کے لیے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے کرم خوردہ اور بے کار انتظامی ڈھانچوں کی اس انداز سے تشکیلِ نو کی بات بھی ہونے لگی ہے کہ یہ نیا انداز جہاں پاکستان کو آئے روز کشمیر کے حوالے سے پڑنے والے عالمی دبائو سے آزاد کرے، وہیںکشمیر کی بات زیادہ قوت اور شدت کے ساتھ عالمی ایوانوں میں کرنا ممکن ہوسکے۔ ان آوازوں میں ایک آواز آزادکشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر کی بھی ہے، جو آزادکشمیر حکومت کے انقلابی کردار کی بحالی کی بات کرتے رہے ہیں۔ چند دن قبل انہوں نے ایک بار پھر کہا ہے کہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کے تناظر میں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل انقلابی حکومت کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔
اتفاق سے اس کے بعد آزادکشمیر حکومت کے انقلابی کردار کے تصور کے خالق سابق صدر آزاد کشمیر اور قائداعظم کے سیکریٹری کے ایچ خورشید کی بتیسویں برسی کے موقع پر اُن کی جماعت لبریشن لیگ کے صدر جسٹس عبدالمجید ملک نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ حکومتِ پاکستان نے تاشقند میں ہونے والے مذاکرات میں بھارتی شرائط کو مانتے ہوئے آزادکشمیر کی اپنی فوج آزادکشمیر ریگولر فورسزکو ختم کردیا تھا، اور اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہی ایک ایسی کشمیر پالیسی کی تشکیل کی ضرورت کا احساس پیدا ہوا تھا کہ جس میں حکومتِ پاکستان دوبارہ کسی بین الاقوامی دبائو کی زد میں نہ آئے۔ اس کے لیے تین سال تک کام کرنے کے بعد آزادکشمیر حکومت کو تسلیم کرنے کی پالیسی اپنائی گئی تھی، اور ایوب خان کے وزیر خارجہ منظور قادر بھی اس سوچ کے قائل ہوچکے تھے۔
اس حوالے سے تیسرا اہم بیان گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان کا بھی سامنے آیا ہے، جنہوں نے ایک ٹی وی چینل کو دئیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا تو نہیں، مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک اس سارے عمل کے ساتھ وابستہ رہنے کی بات کی۔
عین ممکن ہے کہ پانچ اگست کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال نے آزادکشمیر کے سیاست دانوں کی طرح اسلام آباد میں بھی یہ سوچ پیدا کردی ہو جہاں انہیں مسئلہ کشمیر کے سفارتی محاذ پر زیادہ تیزی کے ساتھ کام کرنے کے لیے موجودہ حکومت اور سسٹم کو بدل کر انقلابی حکومت کا انداز اپنانا ناگزیر معلوم ہورہا ہو۔ انقلابی حکومت کوئی نیا نظریہ نہیں، بلکہ جب کشمیر دوحصوں میں تقسیم ہوا تو جو حصہ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے تحت منظم اور قائم ہوا اس کی حکومت انقلابی رنگ ڈھنگ کی ہی حامل تھی۔ گلگت بلتستان پر عارضی کنٹرول تو فورسز اور حکومتِ پاکستان کا تھا مگر اسے ریاست کے ایک اہم یونٹ کی حیثیت حاصل تھی۔ بعد میں معاہدۂ کراچی میں اس علاقے کا انتظام حکومتِ پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ اُس وقت قائم ہونے والی آزاد حکومت کا ایک وزیر دفاع بھی تھا جو آزادکشمیر ریگولر فورسز کا نگران بھی تھا، جنہیں بعد میں افواجِ پاکستان میں ضم کیا گیا۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ جسٹس مجید ملک نے اس کی وجہ بھی بیان کردی ہے۔ اس طرح آزادکشمیر حکومت کا سفر ایک انقلابی حکومت کے طور پر ہی شروع ہوا تھا۔ کچھ ہی عرصے بعد مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایوانوں میں غیر اعلانیہ طور پر منجمد ہوگیا تو پاکستان اور بھارت دونوں نے اپنے اپنے کنٹرول والے علاقوں کی انتظامی اور قانونی تشکیلِ نو شروع کی۔ اس کے تحت رفتہ رفتہ جہاں مقبوضہ کشمیر میں صدر اور وزیراعظم کے عہدے ختم ہوگئے، وہیں آزادکشمیر حکومت بھی ایک لوکل اتھارٹی کی حیثیت اختیار کرگئی۔ بعد میںآزادکشمیر کے صدر کے ایچ خورشید نے آزادکشمیر کو مہاراجا ہری سنگھ کی جانشین انقلابی اور باغی حکومت کے طور پر تسلیم کرانے کا نظریہ پیش کیا۔ اس تصور کو حکومتِ پاکستان کے کچھ طاقتور افراد کی حمایت حاصل تھی، جن میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے وزیر خارجہ منظور قادر کا نام سرفہرست تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پانچ اگست کے بعد مسئلہ کشمیر کی 72 سالہ سیاسی حرکیات میں یکسر ایک نئی تبدیلی آگئی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا سارا انتظامی منظر ہی بدل ڈالا ہے، اور اس کے پیچھے طاقت کی کارفرمائی کا اصول ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت کی کوششوں کو کسی طور قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اس نئی صورتِ حال میں آزادکشمیر کے کردار پر بھی نظرثانی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی آزادکشمیر حکومت کے تعاون سے اس تجویز کے لیے اتفاقِ رائے حاصل کرنے کی کوششوں کا آغاز کرسکتے ہیں۔ اس تجویز کو میڈیا اور عوام میں بحث کے لیے کھول دینا چاہیے تاکہ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے عوام اور رائے ساز اداروں کے درمیان اس پر کھل کر بحث ہو۔ اس کے ساتھ ہی وزیراعظم آزادکشمیر کو آزادکشمیر کی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے بعد گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت اور اسلام آباد کے پالیسی سازوں کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرنا چاہیے۔ آزاد کشمیر اور پاکستان کی حکومتیں اگر تجربات و مشاہدات کے نتیجے میں اس بات کی قائل ہوچکی ہیں کہ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کی انقلابی حکومت قائم کیے بغیر سفارتی اور سیاسی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی، تو پھر اس سمت میں پہلا قدم اُٹھانے میں دیر نہیں کی جانی چاہیے۔ اس راہ کا پہلا قدم یہ ہے کہ اس تجویز کو فوڈ فار تھاٹ کے طور پر عوام اور میڈیا میں بحث مباحثے اور مکالمے کے لیے مشتہر کیا جائے، اور اس کے بعد اس جانب عملی پیش رفت کی جائے۔ حکومتِ پاکستان کو بھی اب اس معاملے پر ’’سانڈ کے لیے سرخ رومال‘‘والی سوچ ترک کرکے نئے راستوں اور امکانات کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ انقلابی حکومت تو یوں بھی کوئی متنازع معاملہ نہیں، اس میں صرف اسلام آباد کے ساتھ گلگت بلتستان اور مظفرآباد کے اختیارات کی تقسیم کا معاملہ وجۂ نزاع ہوسکتا ہے جسے حکمت کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اب اسلام آباد میں اس تجویز کی زیادہ مزاحمت کا امکان نہیں، اور ماضی کی طرح اس تجویز کو غداری پر محمول کرنے کا ذہنی سانچہ بھی بدلتا ہوا نظر آرہا ہے، کیونکہ کشمیر کے حالات اور عوام کی قریانیوں نے سوچ کے زاویے کلی طور پر بدل دئیے ہیں۔ اب ہر شخص کی ترجیح یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھارتی ظلم سے نجات دلائی جائے۔ ماضی میں جب کے ایچ خورشید نے یہ تجویز پیش کی تھی تو انہیں پہلے مرحلے پر ہی اپنی اپوزیشن اور اس کے بعد ایوب خان کی اپوزیشن کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کے ساتھ ہی ایوب حکومت نے بھی اس تجویز کو گرم آلو کی طرح منہ جلنے کے خوف سے اُگل دیا تھا، جس سے یہ تجویز طاقِ نسیاں کی زینت بن کر رہ گئی تھی۔
اب ایک نئی اور جدید تصورات پر مبنی کشمیر پالیسی کے قیام کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے، مگر کہن زدہ نظام میں جہاں مکھی پر مکھی مارنے کا رواج ہو، یہ مشکل تو ہمیشہ موجود رہتی ہے کہ ’’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا‘‘۔ چار و ناچار حکومتِ پاکستان کو ہی اس جانب پیش قدمی کا آغاز کرنا ہوگا۔