الخدمت فائونڈیشن خیبرپختونخوا کے زیر اہتمام پشاور پریس کلب میں ریفرنس کا انعقاد
الخدمت فاؤنڈیشن خیبر پختونخوا کے زیراہتمام پریس کلب پشاور میں سٹی ڈسٹرکٹ کراچی کے سابق ناظم اعلی اور الخدمت پاکستان کے سابق مرکزی صدر نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی یادمیں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا اس موقع پر سابق وزیر اعلی خیبر پختونخوا اورصوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر محمد اکرم خان درانی،عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل میاں افتخارحسین،الخدمت فاؤنڈیشن کے سابق مرکزی صدر پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن،جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور سابق ممبر قومی اسمبلی شبیر احمد خان،سابق سینئر صوبائی وزیر وپارلیمانی لیڈر جماعت اسلامی عنایت اللہ خان،جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری عبدلواسع،الخدمت کے سابق مرکزی نائب صدر ڈاکٹر محمد اقبال خلیل،کلیم نعمت اللہ (فرزندنعمت اللہ خان)سمیت معززین شہر اور صحافیوں نے تعزیتی ریفرنس میں شرکت کی اور مرحوم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی سیاسی،فلاحی اور سماجی خدمات سمیت ان کی زندگی کے مختلف پہلوں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
مقررین نے کہا کہ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے شہر کراچی کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے جب حلف اٹھایا تو بلدیہ کراچی کا سالانہ بجٹ 6ارب روپے تھا اور ان کی انتھک محنت اور ٹیم ورک کے نتیجے میں روشنیوں کے شہر کراچی کی رونقیں پھر سے بحال ہوئی اور جب پانچ سال بعد نظامت سے سبکدوش ہوئے تو بلدیہ کراچی کا سالانہ بجٹ 42ارب روپے سے تجاوز کر گیا تھا۔انہوں نے امانت اور دیانت کے کلچر کوپروان چڑھایا ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت ان کا شمار دنیا کے چند بہترین میئرز میں ہونے لگاتھا۔نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے2005ء کے تباہ کن زلزلہ کے بعد خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں زلزلہ متاثرین کی امداد،بحالی اور تعمیر نو کے کام میں جو کردار اداکیا ایک دنیا اس کی معترف ہے۔مقررین نے کہا کہ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی پوری زندگی خدمت انسانیت سے عبارت تھی اور آج ان کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کے ذریعے ان سے عقیدت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہمیں نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی شبانہ روز محنت اور ان کے اخلاص اور دیانت وامانت پرمبنی سیاست اور خدمت کو نہ صرف اپنی ذاتی ذندگیوں میں اپنانا چاہیے بلکہ ان کی ذندگی کو اپنے لیے مشعل راہ بناتے ہوئے اس کی تقلید بھی کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ نعمت اللہ خان نے ایمانداری اور بے لوث و بے غرض خدمت کی ایک ایسی نظیر قائم کی ہے جو الخدمت سمیت معاشرے میں انسانیت کی خدمت کے لیے برسرپیکار دیگر فلاحی اداروں کے ذمہ داران اور رضاکاروں کے لیئے بھی ایک قابل تقلید مثال ہے۔مقررین نے کہا کہ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے نقش قدم پر چل کر دکھی انسانیت کی حقیقی خدمت کے مشن کو بغیرکسی دنیاوی لالچ اور حرص کے جاری رکھا جائے۔
جماعت اسلامی کراچی کے سابق امیر وسابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے بحیثیت سٹی ناظم کراچی کی تعمیر و ترقی میں مثالی کردار اداکیا،وہ کراچی اور قومی سطح پر ایک متحرک، فعال اور معروف دینی و سیاسی اور سماجی شخصیت اور ضلعی نظامت کے دوران لازوال خدمت کرنے کے بعد بابائے کراچی کے نام سے جانے جاتے تھے۔1985 کے عام انتخابات میں ناظم آباد کے حلقہ سے نہ صرف صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے بلکہ اتفاق رائے سے اپوزیشن لیڈر بھی مقرر کیئے گئے۔اگست 2001 سے اگست 2005 تک کراچی کے پہلے سٹی ناظم رہے اور شہر کے لئے بے مثال ترقیاتی کام کئے۔ ایک نئے نظام میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی نظامت ایک بہت بڑا چیلنج تھی لیکن آپ نے عزم و ہمت، انتھک محنت اور امانت و دیانت کے ذریعے شہر کراچی اور اس کے باسیوں کی بے مثال خدمت کرکے اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت کیا، اور4 سال کے مختصر عرصے میں کراچی کی شکل یکسر بدل کے رکھ دی۔ نعمت اللہ خان جب ناظم کراچی منتخب ہوئے تو شہر کی آبادی5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی تھی لیکن اس کے مقابلے میں شہر کے اندر شہری سہولیات کا فقدان اور ترقیاتی کاموں کا کہیں وجود نہیں تھا۔ شہری انفراسٹرکچر تباہ حال تھا اور پورا شہر کسی اجاڑ جنگل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ تقریباً تمام بڑی شاہراہیں اور اندرونی راستے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے، بڑی چورنگیوں پر گھنٹوں ٹریفک جام رہتا، سیوریج کا نظام ابتر تھا، اورکبھی روشنی کا شہر کہلانے والے کراچی کی سڑکیں تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ اس صورتحال سے گھبرانے کے بجائے بہتر حکمت عملی اور تیز رفتاری سے ترقیاتی کام کرائے اور شہری سہولیات فراہم کیں جس کی مثال کوئی اور پیش کرنے سے قاصر ہے۔
نعمت اللہ خان نے اربوں روپے کی لاگت سے بڑی شاہراہوں کو تعمیر کرایا، کروڑوں روپے کی لاگت سے چورنگیوں کی تزئین و آرائش کے بعد ان کو سگنلائزڈ کیا، اور شہر میں سڑکوں، فلائی اوورز، انڈر پاسز اور پلوں کا جال بچھادیا،ان شاہراہوں، چوراہوں اور گلیوں میں روشنی کا بہترین انتظام کر کے آپ نے ایک مرتبہ پھر کراچی کو ”روشنیوں کا شہر” بنا دیا۔ ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے کے لیے ”اربن ٹرانسپورٹ سکیم” سکیم شروع کی اور باہر سے بسیں درآمد کرنے کے علاوہ کئی پرائیویٹ کمپنیوں کو بسیں چلانے کے لائسنس دیے۔ پہلی دفعہ500 بڑی، کشادہ اور ائیر کنڈیشن بسیں کراچی کی سڑکوں پر رواں دواں نظر آئیں۔ ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے درجنوں ”پیڈیسٹرین برجز” کی تنصیب کے علاوہ ڈرائیوروں کی تربیت کے لیے ڈرائیور اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ470 مقامات پر خوبصورت بس شیلٹرز تعمیر کیے گئے۔شہر کے انفراسٹرکچر میں تبدیلی خاص کر ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا اثر اب تک شہر میں نظر آرہا ہے۔
نعمت اللہ خان نے کراچی میں تعلیم کی بہتری کے لیے خاص توجہ دی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنے پہلے ہی بجٹ میں تعلیم کی مد میں ریکارڈ 31 فیصد رقم مختص کی۔ آپ کے ناظم بننے سے قبل بہت سے اسکولوں میں طلبہ کو کرسی اور ڈیسک اور گرلز اسکولوں میں ٹوائلٹ کی سہولت موجود نہ تھی، بہت سے اسکولوں میں پینے کا پانی تک مہیا نہیں تھا۔ آپ نے نئے اسکولوں کی تعمیر، پرانے اسکولوں کی تزئین و آرائش اور پانی کی فراہمی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے۔ آپ کی نظامت سے قبل سرکاری اسکولوں کے محض150 سے200 طلبہ اے یا اے ون گریڈ حاصل کر پاتے تھے، اسکولوں میں سہولیات کی فراہمی، اساتذہ کے مختلف جدید ٹریننگ کورسز اور ’’پروفیشنل ٹریننگ پروگرام‘‘ میں ہزاروں اساتذہ کی تربیت کے بعد یہ تعداد2000 تک پہنچ گئی تھی۔ آپ کے ناظم بننے سے قبل شہر میں88 کالجز تھے، آپ نے 4 سال کی مختصر مدت میں ریکارڈ32 نئے کالجوں کا اضافہ کیا، اور تمام کالجوں میں آئی ٹی لیب کی تعمیر کو یقینی بنایا۔ ایک اور قابل ذکر کام تعلیمی اداروں میں سیلف فنانس اسکیم ختم کر کے مرکزی داخلہ پالیسی کا نظام اپنانے کے بعد تمام کالجوں میں میرٹ پر داخلے کو یقینی بنانا ہے۔
نعمت اللہ خان کی ایک پہچان’’ماحول دوست‘‘ ناظم کی ہے۔ آپ نے ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی ہیوی انڈسٹری کی شہر سے باہر منتقلی کی بھرپور مہم چلائی اور کراچی بلکہ ملک بھر میں پہلی دفعہ سی این جی پر چلنے والی بسوں کو متعارف کرایا۔ آپ نے محکمہ باغبانی کو متحرک کیا اور شہر میں اتنے پارکس اور پلے گراونڈز تعمیر کرائے۔ آپ نے4 برسوں میں300 پارکس کو ازسر نو تعمیر کرایا،300 پلے گراونڈز کی حالت بہتر کرائی، بیشتر میں فلڈ لائٹس کی تنصیب ہوئی، جبکہ کراچی کے 18ٹاونز میں سے ہر ٹاؤن کو کم از کم ایک ماڈل پارک بنا کر دیا۔ اسی طرح دامن کوہ، باغ ابن قاسم اور گٹر باغیچہ پارکس جیسے میگا پروجیکٹس کا آغاز بھی آپ کے دور میں ہوا۔ سفاری پارک میں پاکستان کا سب سے بڑا سفاری ایریا ہے جو مناسب اقدامات نہ ہونے کے سبب35 سال سے بند تھا، آپ نے اس پر کام شروع کیا، جانوروں کی تعداد میں اضافہ کیا، سفاری کوچز چلائیں، اور اب روزانہ ہزاروں افراد اپنی فیملیز کے ہمراہ یہاں آتے ہیں۔
پانی کی کمی پوری کرنے کے لیے آپ نے ”کے تھری واٹر سپلائی پروجیکٹ” شروع کیا جس سے روزانہ دس لاکھ گیلن پانی شہریوں کو فراہم ہو سکے گا۔ اسی طرح آپ نے واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ کی تنصیب اور سیوریج کے پانی کو ری سائیکل کر کے کارخانوں کے لیے قابل استعمال بنانے کے معاہدے کیے۔ سیوریج کے نظام کی بہتری کے لیے اربوں روپے خرچ کیے۔ 50 سالہ پرانی پائپ لائنوں کی بڑے پیمانے پر تبدیلی اور نئے پمپس کی تنصیب کرائی۔ کوڑا کرکٹ اور کچرا اٹھانے کے لیے500 سولڈ ویسٹ ٹرانسفر اسٹیشن تعمیر کیے۔
نعمت اللہ خان کراچی کی کچی آبادیوں کو شہر کے ماتھے کا جھومر کہتے ہیں۔ شہر کی52 فیصد آبادی رکھنے والی ان آبادیوں پر بھی آپ نے خصوصی توجہ دی۔ اس آبادی کا ایک خاص مسئلہ لیز پر زمین کی فراہمی ہے۔ آپ نے1999ء میں بڑھائے جانے والے لیز کے نرخ منسوخ کر کے1989ء کے نرخ بحال کیے جس سے لاکھوں غریب لوگوں کو براہ راست فائدہ پہنچا۔ اسی طرح اپنے صوابدیدی فنڈ سے ضرورت مند اور بیروزگار افراد میں سوا کروڑ روپے کی سلائی مشینیں، سائیکلیں، جہیز بکس اور دیگر سامان تقسیم کیا۔نعمت اللہ خان نے شہری سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے فروغ، دینی معلومات میں اضافے اور اسلامی فن و ثقافت کی ترویج اور کھیلوں کی ترقی کے لیے بھی مختلف عملی اقدامات کیے۔ شہریوں میں ابلاغ دین، قرآن وسنت کے پیغام کو عام کرنے اور معاشرے میں اسلامی تہذیب و ثقافت کے احیا کے لیے ”قرآن و سنہ اکیڈمی” قائم کی۔ اسی طرح ”المرکز الاسلامی” کا منصوبہ مکمل کرایا جس میں ایک بڑی لائبریری، آڈیٹوریم، مسجد اور آرٹ گیلری برائے فنونِ لطیفہ شامل ہیں۔ سیٹیزن کمیونٹی بورڈ، تھانوں میں لائبریریز کا قیام، پبلک مقامات پر ائیرکنڈیشن لائبریریوں کی تعمیر، ویمن اسپورٹس کمپلیکس اور ویمن لائبریری کمپلیکس کی تکمیل اور مختلف اسلامی، اصلاحی اور سماجی پروگرامات کا انعقاد آپ کی بہترین کاوشوں کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
کراچی میں پہلی بار سٹی گیمز کا انعقاد بھی آپ کا ایک کارنامہ ہے۔ نعمت اللہ خان کے مخالفین بھی ان کے اخلاص اور امانت داری کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ نے دیانت کی مثال قائم کی اور کرپشن کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک منصوبہ کہ پی سی ون میں جس کا تخمینہ25 کروڑ روپے تھے، آپ کے دوبارہ ٹینڈر کرانے سے اس پر لاگت کا تخمینہ صرف6کروڑ روپے آیا۔ اسی طرح شاہراہ فیصل فلائی اوور پر26 کروڑ31 لاکھ کا تخمینہ لگایا گیا مگر آپ نے اسے18 کروڑ میں مکمل کرایا۔ صرف پیٹرول اور ڈیزل کی مد میں ساڑھے آٹھ کروڑ کی کرپشن کا خاتمہ کیا۔ آپ نے تمام ٹینڈر اور معاہدوں کی جانچ پڑتال اور نیلامی کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا، اور کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے تعاون سے Procurement Mannual بنایا اور پھر اس کے نفاذ کو یقینی بنایا۔
ناظم کراچی کی حیثیت سے آپ نے ہفتے میں ایک دن عوامی رابطے کے لیے مختص کیا۔ اس دوران ساٹھ ہزار سے زائد عوامی مشکلات و مسائل کو حل کیا۔ ابتدائی تین سالوں میں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور عامۃ الناس سے2 لاکھ خطوط، فائلیں، فیکس اور ای میلز موصول ہوئیں جس پرآپ نے مختلف محکموں کو احکامات جاری کیے۔ شہری مسائل کے حل کے لیے صدر پاکستان، گورنر، وزیر اعلیٰ ور چیف سیکرٹری سندھ سے ملاقاتیں کیں، ورلڈ بنک اور ایشین بنک کے علاوہ کراچی میں مختلف ممالک کے قونصل جنرلز اور مختلف ممالک کے سرمایہ کاروں اور تعلیمی وفود سے ملاقاتوں کے علاوہ ڈھائی ہزار کے قریب عوامی جلسوں اور افتتاحی تقریبات میں شرکت کی۔ نعمت اللہ خان بلاشبہ کراچی کے سب سے بہترین اور کامیاب ترین مئیر تھے۔ آپ نے بر وقت عوامی مسائل کے حل، سہولیات کی تیز رفتار فراہمی، بے مثال ترقیاتی کاموں اور امانت کا جو معیار قائم کیا ہے، وہ کراچی کے عوام میں ایک ”رول ماڈل” کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، اور اب وہ ہمیشہ نئے آنے والے ناظمین کی صلاحیتوں کا نعمت اللہ خان کی کامیابیوں کے ساتھ موازنہ کریں گے۔
1997ء میں تھرپارکر میں آنے والے قحط کے دوران اور اس کے بعد نعمت اللہ خان نے تھرپارکر کے وسیع و عریض صحرا کے چپے چپے پر عوامی خدمت کا جو کام جماعت اسلامی کے نظم کے تحت محدود وسائل سے کیا، وہ کروڑوں ڈالر کی بیرونی امداد پانے والی این جی اوز کے کام سے کہیں زیادہ ہے۔آپ نے تھرپارکر میں میٹھے پانی کی فراہمی کے لیے ”زمزم پراجیکٹ” کے نام سے 363 کنویں کھدوائے جن سے ہزاروں بے وسیلہ صحرانشینوں کو پانی فراہم ہو رہا ہے۔ اسی طرح1000 سے زائد دیہاتوں میں ”العلم پراجیکٹ” کے نام سے ان مظلوم و محروم لوگوں کی نئی نسل کوزیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے اسکول قائم کیے جو اکیسویں صدی میں بھی زمانہ قبل از تاریخ کے حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ1997ء سے اب تک اس بے آب و گیاہ صحرا کے دور دراز گوشوں کا طویل، تکلیف دہ اور تھکا دینے والا سفر کر کے ان مفلوک الحال لوگوں کی خبر گیری کرتے رہے ہیں، اور ان کی ضرورت کی چیزیں ان کے گھروں کے دروازے تک پہنچاتے رہے ہیں۔ اکتوبر2005ء میں آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کی امداد و بحالی کے لیے آپ کو الخدمت پاکستان کا کوارڈینیٹر مقرر کیا گیا۔ آپ نے زلزلہ متاثرین تک نہ صرف کروڑوں روپے کی مالی امداد پہنچائی بلکہ انھیں غذائی سامان، کپڑے، کمبل اور خیمے بھی مہیا کیے۔ آپ کی شخصیت اور ملی خدمات نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ خدمت خلق کاجزبہ رکھنے والے تمام افراد اور اداروں کے لیئے حقیقی معنوں میں روشنی کا مینار اور ایک رول ماڈل ہے۔