ہندوستان کے پہلے صحابی رسول ؐ ، سابقہ ہندو راجا پرمل

ممتاز اسلامی مفکر اور دانشور ڈاکٹر حمید اللہ جن کو فرانسیسی زبان میں قرآن کی پہلی تفسیر لکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہے، اپنی سیرت کی کتاب ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ میں اسلامی مورخین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی تک عرب تاجروں کے تجارتی قافلے چین سے یونان اور افریقہ سے ہندوستان، مشرق بعید تک بھی مال لانے اور لے جانے لگے تھے۔ افریقہ، ہندوستان اور مشرق بعید کے ساحلی شہر ان کے مرکز بن گئے۔ انہی عرب تاجروں کی وساطت سے کئی جگہ یہ خبر پھیل گئی کہ صحرائے عرب میں ایک ماہتاب طلوع ہوا ہے … یعنی پیارے نبی، رحمت للعالمین، مولائے کائنات، حضور اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی مبعوث ہوئے ہیں۔ ساتویں صدی عیسوی کے دوسرے عشرے میں ہندوستان کی ریاست کیرالہ میں چرمان پرمل نامی راجا حکومت کرتا تھا۔ جب واقعہ شق القمر رونما ہوا تو وہ اپنے محل کی چھت پر ٹہل رہا تھا۔ یہ واقعہ اس نے بھی دیکھا اور حیرت کے مارے گنگ رہ گیا۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی ایک روایت موجود ہے جس کی رو سے ایک رات منیٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارِ مکہ کو دعوتِ رشد و ہدایت کے دوران معجزہ دکھاتے ہوئے انگشتِ مبارک کی ایک جنبش سے چاند کے دو ٹکڑے کردیے۔ چاند کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کا واقعہ تاریخِ اسلام میں ’’شق القمر‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
مگر مکہ کے کفار یہ حیرت انگیز معجزہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی دینِ اسلام کی حقانیت کے قائل نہیں ہوئے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر ٹھیرایا اور کہنے لگے کہ یہ تو بڑا طاقتور جادو تھا۔ مغربی مورخین کا کہنا یہ ہے کہ شق القمر محض دیومالائی داستان ہے اور ایسا کوئی معجزہ وجود میں نہیں آیا۔ مگر اس معجزے کو عقلی دلائل سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اہلِ یہود و نصاریٰ اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں اور قرآن کریم میں ایک سے زیادہ مرتبہ اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ اہلِ یہود و نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔
٭ پہلی دلیل یہ کہ کفارِ مکہ کی شدید ہٹ دھرمی اور ضدی پن کو مورخین نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جب قرآن پاک میں شق القمر سے متعلق آیات (سورہ قمر، آیت 1 تا3) نازل ہوئیں تو کفار مکہ میں سے ایک نے بھی ان کو جھوٹ قرار نہیں دیا۔ وجہ یہی تھی کہ کفار کی اکثریت نے اپنی آنکھوں سے اس معجزے کا مشاہدہ کیا تھا۔ اگر وہ بہ چشمِ خود معجزہ نہ دیکھتے تو یقیناً شور مچادیتے کہ (نعوذباللہ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دروغ گو ہیں اور جھوٹے معجزوں کی کہانیاں سناتے ہیں۔
٭ دوسری دلیل یہ ہے کہ یمن اور شام سے مکہ آنے والے قافلوں میں شامل بہت سے عربوں نے بھی واقعہ شق القمر رونما ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انہوں نے مکہ پہنچ کر لوگوں کو واقعے سے آگاہ بھی کیا، تاہم کفارِ مکہ یہی کہتے رہے کہ یہ (نعوذ باللہ) نبی کریمؐ کا جادو تھا جو آسمانوں کو بھی ہلا ڈالتا ہے۔
٭ تیسری دلیل یہ کہ تمام جلیل القدر محدثین کرام شق القمر سے متعلق تمام احادیث کی صحت کو مستند قرار دیتے ہیں۔
٭ مغربی مورخین کا یہ کہنا کہ اگر چاند دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا تو اسے پوری دنیا میں دیکھا جاتا، یوں غلط ہے کیونکہ عرب سے باہر بھی اس واقعے کو دیکھنے کی روایات ملتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ واقعہ شق القمر صرف نصف کرّے میں دیکھا گیا۔ تب یورپ اور امریکہ میں سورج ڈوب رہا تھا۔ دوسری بات یہ کہ چاند چند لمحوں کے لیے ہی دو ٹکڑے ہوا اور پھر اصل حالت میں آگیا۔
٭ عرب سے باہر بھی واقعہ شق القمر دیکھنے کی روایت موجود ہے۔ مورخینِ اسلام کی رو سے یہ واقعہ 620ء کے آس پاس رونما ہوا۔ ابھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ ہی میں مقیم تھے۔
٭ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی کتاب کے علاوہ مشہور برطانوی مورخ، ولیم لوگان کی کتاب Malabar Manual اور کیرالہ کے ممتاز ادیب زین الدین صغیر (متوفی 1583ء) کی کتاب ’’تحفۃ المجاہدین فی بعض اخبار البرتغلین‘‘ میں راجا پرمل کے واقعے کا ذکر آیا ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ سیرت کی اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ شق القمر کے واقعے کے رونما ہونے کے کچھ عرصے بعد عرب تاجروں کا ایک گروہ کوڈنگلور کی بندرگاہ پہنچا۔ ریاستی دارالحکومت ہونے کے ناتے راجا پرمل وہیں رہائش رکھتا تھا۔ عرب تاجروں کی زبانی راجا کو دینِ اسلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔ تجسس سے بے تاب ہوکر اس نے تاجروں کے ساتھ جزیرہ نماعرب جانے کا فیصلہ کرلیا۔ عرب تاجر سری لنکا جارہے تھے۔ جب وہ واپس آئے تو راجا پرمل اُن کا شریکِ سفر بن گیا۔ روایت ہے کہ اس نے اپنی ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور انہیں اپنے بیٹوں اور رشتے داروں کے سپرد کردیا۔

کیرالہ کے راجا راجا پرمل کا مسلمان ہونا

راجا پرمل جب مکہ مکرمہ پہنچ گئے تو ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ ہندوستانی راجا پھر آپؐ کے دستِ مبارک پر ایمان لے آئے۔ یوں راجا پرمل کو نہ صرف صحابیِ رسولؐ بننے کا شرف حاصل ہوا بلکہ وہ برصغیر ہندوپاک میں پہلے مسلمان ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔
ملاقات کے وقت مشہور صحابی حضرت ابوسعید خدریؓ بھی موجود تھے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے: ’’ہندوستان سے آنے والے راجا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اچار پیش کیا۔ اس میں ادرک بھی موجود تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اچار وہاں موجود صحابہؓ میں تقسیم کردیا۔ ایک ٹکڑا میرے حصے میں بھی آیا‘‘۔

حج کے بعد وطن واپسی

حضرت راجا پرمل نے پھر حج کیا اور اسلامی تعلیمات سے روشناس ہوئے۔ آخر ایک دن انہوں نے وطن جانے کا فیصلہ کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر صحابہ کرام کی ایک مختصر جماعت بھی ہندوستانی راجا کی رفیق بن گئی۔ حضرت مالکؓ بن دینار اس جماعت کے امیر تھے۔ ان صحابہؓ نے کیرالہ اور دیگر ہندوستانی علاقوں میں تبلیغِ اسلام کا مقدس فریضہ انجام دینا تھا۔ دورانِ سفر حضرت راجا پرمل بیمار پڑگئے۔ جب قافلے نے عمان کے مقام، ظفر (اب صلالہ) پر پڑائو ڈال رکھا تھا تو وہ قضائے الٰہی سے وفات پاگئے۔ تاہم آخری سانس لینے سے قبل انہوں نے حضرت مالکؓ بن دینار اور دیگر صحابہ کرامؓ کو تلقین کی کہ وہ کیرالہ پہنچ کر اشاعتِ اسلام کا فرض بہ رضا و رغبت ادا کریں۔ مزید برآں نو مسلم راجا نے اپنے بیٹوں کے نام لکھا ایک خط بھی صحابہ کرامؓ کے حوالے کیا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ تبلیغِ دین میں صحابہؓ کی ہرممکن مدد کرسکیں۔
بحر ہند میں سفر کرکے صحابہ کرامؓ کی جماعت 5 ہجری بمطابق 626ء میں کونگلور پہنچ گئی۔ ان کے خط کی وجہ سے راجا کے بیٹوں نے صحابہ کرامؓ کا پُرتپاک خیرمقدم کیا۔ صحابہ کی تبلیغ کے باعث وہ جلد ہی مسلمان ہوگئے۔صحابہ کرامؓ نے پھر اسی سال جزیرہ نما عرب سے باہر پہلی مسجد کی بنیاد رکھی۔ یہ مسجد کوڈنگلور میں بنائی گئی۔ اس مسجد کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ جزیرہ نما عرب سے باہر پہلی نمازِ جمعہ اسی میں پڑھی گئی۔ اب یہ ’’چیرمان جامع مسجد‘‘ کہلاتی ہے۔ اس مسجد میں حضرت مالکؓ بن دینار کا مزار موجود ہے۔
کیرالہ میں صحابہ کرامؓ نے زور شور سے تبلیغِ اسلام کا فریضہ انجام دیا۔ ان کی سعی کے باعث ہزاروں ہندو مسلمان ہوگئے۔ انہی کی زبردست کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج کیرالہ میں تقریباً نوّے لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ مزید برآں آج بھی ریاست میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ 2060ء تک کیرالہ میں پچاس فیصد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ مقامی مسلمان ’’موپلا‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔
یہ واقعہ شق القمر ہی تھا جس نے ہندوستانی راجا کواسلام کی آغوش میں پہنچادیا۔ یہ ایک تاریخی اور مصدقہ حقیقت ہے۔
(بہ حوالہ، ڈاکٹر حمید اللہ)