۔70 سالہ مرزا شاہنواز آغا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، دردمند پاکستانی ہیں۔ پاکستان کی صفِ اوّل کی درس گاہوں سے تعلیم حاصل کی۔ جدہ سعودی عرب کے معروف دینی اسکالر ڈاکٹر محمد سعید العوادی کے ہونہار شاگرد کی حیثیت سے ’’اسلامی فقہ اور ادیانِ عالم کی تقابلی تاریخ‘‘ کا کورس کیا۔ دنیا بھر کی سیاحت کی، کئی ممالک میں مقیم رہے اور وہاں کے حالات کا مشاہدہ کیا۔ ایک اچھے مصنف ہونے کے ساتھ اچھے مقرر بھی ہیں۔ روشن آنکھیں، کشادہ پیشانی آپ کی ذہانت اور بلند حوصلے کی عکاس ہیں۔
سماجی زندگی میں آپ لوگوں کے ساتھ ہمدردی، خلوص اور خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں۔ آپ کارپوریٹ سیکٹر اور صنعتی شعبے کی سرگرم شخصیت ہونے کے ساتھ دلنواز شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ آپ کا تعلق ایک معروف تجارتی، کاروباری اور صنعت کار خاندان سے ہے۔ اس شعبے میں خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے بڑے بڑے صنعتی، تجارتی اداروں میں اہم مناصب پر فائز رہے اور وہاں انقلابی تبدیلیاں کیں۔ ٹریڈ فیلڈ انٹرنیشنل کراچی میں بحیثیت ایگزیکٹو اورکنسلٹنٹ، نوعیت کار حکومتِ پاکستان کی وزارتِ سیاحت، ثقافت اور کھیل کی تنظیم نو کی۔ اس کام میں بہت کامیابی ہوئی کہ حکومت ِ پاکستان نے سیاحت کو صنعت قرار دے دیا۔
بحیثیت کالم نگار روزنامہ ’دی نیوز انٹرنیشنل‘ کے شعبہ پولیٹکل اکانومی میں بھرپور شرکت کی۔ مختلف انگریزی اخبارات میں آپ کے کالم شائع ہورہے ہیں۔ اسلامی تصور ’’دنیاوی انصاف‘‘ پر مبنی ایک کتاب زیر اشاعت ہے۔ تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر مرزا صاحب کا اسپیشلائزیشن کا مخصوص میدان تنظیمی منصوبہ بندی، مارکیٹنگ اور کارپوریٹ اسٹرکچرنگ ہیں۔،
’’کرنٹ کرونیکلس‘‘ حوصلہ شکن معاشی حالات سے متاثر ایک حساس دانشور کی تحریر ہے جس میں مسائل سے نجات کے لیے قیمتی تجاویز عام سادہ اسلوب میں بیان کی گئی ہیں۔ اس کتاب میں بااثر افراد کے ہاتھوں عام انسانوں کے استحصال کا تفصیلی تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے قراردادِ مقاصد میں بیان کیے گئے فلاحی ریاست کے اصولوں کو اساس بنانے کے لیے قانون سازی پر زور دیا ہے، جو معاشی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کرے گی۔ ملک میں سماجی علوم کے ذریعے ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے میں یہ تصنیف گراں قدر سرمایہ ہے۔
گزشتہ دنوں آرٹس کونسل کراچی میں لائف روسٹرم نیوز ایجنسی کے تحت ’’کرنٹ کرونیکلس‘‘ کی باوقار تقریبِ اجراء منعقد ہوئی جس میں مقررین نے آغا صاحب کی شخصیت، اُن کی پاکستان سے محبت اور معاشی مسائل پر اُن کے گہرے مشاہدے، غیر جانب دارانہ، حقیقت پسندانہ تجزیوں اور ان کے حل کے لیے قیمتی تجاویز پر سیرحاصل گفتگو کی۔ معروف معاشی دانشور قیصر بنگالی نے کہا کہ جب تک ہم دو طرح کے پاکستان کے بجائے ایک پاکستان جو سب کے لیے ہو، نہیں بنائیں گے معاشی ترقی ممکن نہیں۔ ہم نے 70 سال میں دو پاکستان بنائے، ایک اشرافیہ کا اور ایک عوام کا۔ اشرافیہ کا پاکستان خوشحال ہے۔ اس ملک کو کالونی کی طرح چلایا گیا۔ یہاں کے وسائل صرف اشرافیہ کے لیے ہیں، عوام کے لیے نہیں۔ اشرافیہ کے بچے جن اسکولوں میں پڑھتے ہیں ان کی ماہانہ فیس چوکیدار کے تین بچوں کے برابر ہے۔ ایک آدمی غیر ملکی پانی پیتا ہے اور ایک کو صاف پانی بھی میسر نہیں۔ اشرافیہ کو کوئی مسئلہ نہیں۔ ہمارے گھروں میں ایک کمرے میں آٹھ سے نو افراد رہتے ہیں۔ اشرافیہ کے بچے اردو میں فیل ہوتے ہیں اور حکمرانی کرتے ہیں۔ ہمیں سنجیدگی سے ان مسائل کو حل کرنا ہوگا اور انقلابی اقدامات کرنے ہوں گے، ورنہ ہماری باتیں صرف سیمیناروں تک رہ جائیں گی۔
ڈاکٹر نوشین وصی نے کہا کہ کتاب میں ایک دردمند پاکستانی موجود ہے، ملکی معاشی صورتِ حال پر ان کی گہری نگاہ ہے، انہوں نے چار بنیادی اسباب کو موضوعِ تحریر بنایا ہے جو پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی کے حوالے سے پیش نظر رکھنے چاہئیں: 1۔ معیشت کی بہتری کے لیے موزوں اور مثبت پالیسی کا نہ ہونا، 2۔ اہلِ سیاست کی جانب سے معاشی پروگرام میں غیر سنجیدگی، 3۔ سوسائٹی میں مختلف اقسام کی کشمکش اور انتشار، 4۔ تعلیمی بدحالی۔ انہوں نے ان مسائل کے حل کے لیے تین پہلوئوں پر توجہ دلائی ہے: 1۔ وسیع، جامع اور مربوط اصلاحات، 2۔ نئی قانون ساز اسمبلی کی تشکیل جو ملک میں معاشی، زرعی، تعلیمی اصلاحات کے لیے قانون سازی کرے، 3۔ ریاستی اداروں کے بنیادی ڈھانچوں میں مثبت تبدیلی۔ ڈاکٹر نوشین وصی نے کہا کہ اب ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ان تجاویز پر عمل کس طرح ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں اسلامی فلاحی ریاست بنانی ہے تو وہ مکمل فلاحی ریاست ہو۔ جمہوریت پر چلنا ہے تو کنٹرولڈ جمہوریت نہ ہو۔ دنیا علمی مباحثوں سے آگے نکل گئی ہے، اب ہمیں بہتر اور اچھی گورننس قائم کرنا ہوگی۔
جارج واشنگٹن سے وابستہ معروف تجزیہ کار طلعت شبیر نے کہا کہ مصنف نے اپنے مشاہدات کی روشنی میں ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے جو تجاویز دی ہیں وہ ان کی ملک کے مستقبل کے حوالے سے شدید محبت کا اظہار ہیں۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ہم عوام کو کس طرح بااختیار بنا سکتے ہیں؟ جب کہ ایسا لگ رہا ہے کہ لوگ گروی رکھے ہوئے ہیں۔ ہمیں ملکی صورتِ حال کا تجزیہ علاقائی، بین الاقوامی تبدیلیوں کے حوالے سے کرنا چاہیے، اور مصنف نے اسے کامیابی سے نبھایا ہے۔
شہزاد امجد نے پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ہم ایک منتشر سوسائٹی میں رہ رہے ہیں۔ آمرانہ طرزِ حکمرانی کے انتہا پسندانہ تصورات نے سوسائٹی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہمیں اشرافیہ کے پاکستان میں پاکستانی دکھائی نہیں دیتے۔
مرزا شاہنواز آغا نے کہا کہ ہم 70 برس میں ریاست کے قوانین کو بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں، ہم ابھی تک حکمرانی کے لیے کالونی فلسفے کے تحت قانون سازی کررہے ہیں۔ اداروں کو حکمرانوں کے بجائے عوام کا خدمت گار ہونا چاہیے۔ ہمیں نئی تبدیلیوں کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ انہوں نے ملکی صورتِ حال کا معروضی تجزیہ کیا اور نئی قانون سازی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اسلام کو ایک اہم انقلابی سنگِ میل قرار دیا۔ انہوں نے تہذیبِ انسانی کی تاریخ کے حوالے سے اسلام میں پیش کیے گئے طریقہ کار پر بھی روشنی ڈالی اور جابجا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اقوال، اقبال اور غالب کے اشعار کے حوالے بھی دیے۔ تقریب کی خوبصورت نظامت کرتے ہوئے میڈم فضہ نے کہا کہ مصنف نے ایک کامیاب زندگی گزاری ہے اور اب اپنے لوگوں کو بھی کامیاب کرانا چاہتے ہیں، یہ کتاب رہنما ہے اُن لوگوں کے لیے جو تبدیلی لانا چاہتے ہیں، اگر ہمارے حکمران اسے پڑھ لیتے تو تبدیلی آجاتی۔
کاظم سعید نے کہا کہ گورننس اچھی ہوگی تو عوام خوشحال ہوں گے، اور شاید دو پاکستان ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ جو قومیں خوشحال نہیں ہوتیں وہ بین الاقوامی طور پر اچھی نظر سے نہیں دیکھی جاتیں۔ اس کتاب سے ایک اچھی بحث شروع ہوگی۔
تقریب کی ابتدا ہونہار طالب علم محمد اسد نے تلاوتِ کلام پاک سے فرمائی، جب کہ بڑی تعداد میں اربابِ علم و دانش نے شرکت کی۔ شاہد حسین اور ان کے ساتھیوں نے مہمانوں کا پُرتپاک خیرمقدم کیا۔ پُرتکلف عصرانے سے مہمانوں کی تواضع کی گئی۔