مجاہد خاصخیلی
دنیا کے بیشتر ممالک میں شعبہ تعلیم اور صحت پر سب سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی اور مستقبل میں عروج اور خوشحالی انہی دو اہم شعبوں سے وابستہ ہے۔ زندہ اقوام کیوں کہ اس راز کو جان گئی ہیں اس لیے ان کی زیادہ تر توجہ مذکورہ شعبوں کی ترقی پر ہی مرتکز رہتی ہے، لیکن ہمارے ہاں کیوں کہ ہمیشہ ہی سے الٹی گنگا بہتی چلی آرہی ہے، اس لیے سب سے کم خرچ انہی دو اہم شعبوں پر کیا جاتا ہے، اور بجٹ میں اس حوالے سے جو رقم مختص کی جاتی ہے اُس کا بھی معتدبہ حصہ ان شعبوں پر خرچ ہی نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیز میں شعبہ تعلیم اور صحت تباہی کے کنارے پر پہنچ گئے ہیں۔ خصوصاً صوبہ سندھ میں تو ان دونوں شعبوں کی حالت حد درجہ ابتر اور خراب ہوچکی ہے، جس کا ثبوت نہ صرف مختلف غیر سرکاری اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹوں سے ملتا رہتا ہے، بلکہ اب تو خود سرکاری ادارے بھی اس تباہی کی گواہی دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ریفارم سپورٹ یونٹ (RSU) سمیت مختلف ادارے سندھ کے سرکاری شعبے کی تعلیم کی بدترین صورتِ حال کے بارے میں قبل ازیں بارہا اطلاعات اور آگہی فراہم کرتے رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک اور رپورٹ حال ہی میں ایک معروف نجی ادارے کی جانب سے جاری کی گئی ہے جس میں ویسے تو سارے ملک کے حوالے سے تعلیم کی حالتِ زار اور ابتری کا ذکر باقاعدہ اعداد و شمار کے ذریعے کیا گیا ہے، لیکن صوبہ سندھ کے بارے میں اس ادارے کی جاری کردہ رپورٹ سے یہ ہولناک انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ یہ صوبہ سارے ملک میں تعلیمی میدان میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں پیچھے نہیں بلکہ بہت پسماندہ اور زوال پذیر ہو چکا ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق سندھ میں 76 فیصد طلبہ ایسے ہیں جو انگریزی، اردو اور سندھی نہیں پڑھ سکتے۔ سندھ کے 90 فیصد اسکولوں میں کمپیوٹر لیب موجود نہیں ہیں، نیز یہ کہ دیگر تمام صوبوں سے ماسٹر ڈگری ہولڈر سندھ میں سب سے کم ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ صوبہ سندھ میں اِس وقت بھی باوجود تمام تر سرکاری زبانی جمع خرچ اور بلندبانگ دعووں کے ہزاروں اسکول بند پڑے ہوئے ہیں یا پھر مقامی وڈیروں کی اوطاقوں، اناج کے گوداموں یا مال مویشی کے باڑوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ہزاروں اساتذہ بغیر کام کیے گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرتے ہیں، اور زیادہ تر اسکول بنیادی سہولیات از قسم بجلی، پانی اور واش روم تک سے محروم ہیں۔ فرنیچر اگر موجود ہے تو وہ بھی ٹوٹا پھوٹا۔ بے شمار اسکول چاردیواری کے بغیر ہیں، بلکہ ان کی بلڈنگ پرانی، خستہ اور بے حد خراب حالت میں ہے۔ ہزاروں اسکولوں کی تعمیر و مرمت کے لیے مختص کردہ بجٹ متعلقہ ذمہ داران ملی بھگت کے ذریعے ہڑپ کرلیتے ہیں، اور بلاشبہ یہ بجٹ لاکھوں اور کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے مالیت کا ہوتا ہے۔ سارے صوبہ سندھ میں یہی کچھ ہورہا ہے، لیکن صوبائی حکومت کے بڑبولے وزیراعلیٰ، وزراء اور افسران کو لایعنی دعووں اور جھوٹے بیانات سے ہی فرصت نہیں ملتی کہ وہ اصلاحِ احوال کے لیے کچھ سعی کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ساکھ عوام کی نظروں میں بالکل ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ ہمارے ہاں ضلع جیکب آباد میں بھی شعبہ تعلیم زوال اور پستی کی انتہا پر پہنچ چکا ہے۔ اس شعبے کے بدعنوان اور خوفِ خدا سے عاری افسران فرعون بنے بیٹھے ہیں، جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، کیوں کہ انہیں سرکاری اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔ خصوصاً ایجوکیشن (بلڈنگز) ورکس اینڈ سروسز میں ہر سال اربوں روپے کی خردبرد اور کرپشن کی جاتی ہے، اور کرپشن کرنے والے کیوں کہ حصے کی رقم اوپر تک پہنچاتے ہیں، لہٰذا انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہر سال سیکڑوں اسکولوں کی تعمیر و مرمت کے لیے اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے ہڑپ کرلیے جاتے ہیں۔ سال 2010ء کی ایک رپورٹ کے مطابق 180 اسکولوں کے لیے آنے والی بھاری رقم ہڑپ کرلی گئی۔ عام اسکول تو ٹھیرے ایک طرف، معروف سیاسی شخصیات کے گوٹھوں اور حلقوں میں قائم کردہ سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کے لیے آنے والی رقم بھی بدعنوان افسران بے خوف و خطر اور دیدہ دلیری کے ساتھ ہڑپ کرجاتے ہیں، جس کا ایک دلچسپ اور واضح ثبوت یہ ہے کہ میر اصغر خان پنھور سابق ضلعی وائس چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل جیکب آباد جو ایک معروف سیاسی رہنما ہیں، کے گوٹھ کے اسکول (جو موصوف ہی کے نام پر ہے) کے لیے ٹینڈر کی رقم جاری ہوتے ہی ساری رقم افسران نے ہڑپ کرلی اور اسکول کی عمارت پر ایک دمڑی تک خرچ نہیں کی گئی۔ جب معروف شخصیات کے حلقوں اور علاقے میں موجود اسکولوں کے ساتھ یہ وتیرہ ہے تو بے چارے عام افراد کے حلقوں کے اسکولوں کی حالتِ زار کا بہ خوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ محکمہ تعلیم کے افسران جان بوجھ کر اچھے اسکولوں کی عمارات کو نظرانداز کرکے محض کرپشن کرنے کے لیے نئے نئے اسکولوں کی کاغذی منظوری لے کر کروڑوں اور اربوں روپے صرف کاغذات میں ان فرضی اسکولوں پر اخراجات ظاہر کرکے ہر سال ہڑپ کرلیتے ہیں۔ ان بدعنوان افسران کو کوئی بھی ادارہ لگام دینے والا نہیں ہے، اور وجہ بھی اوپر بیان کی جا چکی ہے کہ ہر متعلقہ ادارے کے ذمہ داران کو بڑی ایمان داری کے ساتھ اُن کا حصہ بدعنوان افسران پہنچا دیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پیپلزپارٹی کے دورِ اقتدار میں محکمہ ایجوکیشن ورکس ضلع جیکب آباد میں تاحال 14 ارب روپے کی کرپشن ہوچکی ہے اور مختلف اسکیموں میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوئی ہے۔ اسی طرح سندھ ایجوکیشن ریفارم پروگرام (سرپ 2) کے تحت بھی کروڑوں روپے ہڑپ کیے جا چکے ہیں۔ پیپلز ورکس پروگرام کے تحت مالی سال 2011-12ء میں سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ اسکولوں کی عمارات کی دوبارہ تعمیر و مرمت کے لیے آنے والی (وفاقی حکومت کی جانب سے) 13 کروڑ 76 لاکھ روپے کی رقم ڈپٹی کمشنر اور محکمہ ایجوکیشن کے افسران نے دیدہ دلیری کے ساتھ ہڑپ کرلی تھی۔ 2013ء میں وفاقی حکومت نے 3 کروڑ 34 لاکھ روپے اس مد میں جاری کیے، مگر افسوس کہ یہ ساری رقم بھی جعلی بلوں کے ذریعے ہڑپ کرلی گئی۔ حکومتِ سندھ نے اسی برس 20 کروڑ روپے جاری کیے جو خردبرد کر لیے گئے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے جیکب آباد میں پبلک پارک کے قیام اور بحریہ کالج میں ہاسٹل کی تعمیر کے لیے دیے جانے والے 7 کروڑ 4 لاکھ 90 ہزار بھی ہڑپ کرلیے گئے، نیز ایک ٹھیکیدار کو ایڈوانس پیمنٹ 3 کروڑ روپے ادا کرکے ہڑپ کرلیے گئے۔ علاوہ ازیں صوبائی اور ضلعی حکومتوںکی جانب سے اسکولوں کی مرمت کی مد میں 25 کروڑ روپے سے زائد رقم بھی ہڑپ کرلی گئی۔ اسی طرح سے سنگل سیکشن ہائی اسکولوں کی تعمیر کے لیے صوبائی حکومت کے جاری کردہ 21 کروڑ 20 لاکھ روپے میں سے بھی 5 کروڑ روپے جعلی بلوں کے ذریعے خردبرد کرلیے گئے۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ محکمہ تعلیم کی مختلف اسکیموں کے لیے کروڑوں روپے (جو مجموعی طور پر اربوں روپے بنتے ہیں) ہڑپ کرلیے گئے۔ اس ساری کرپشن پر نیب اور محکمہ انسداد بدعنوانی (اینٹی کرپشن) کے اداروں نے سیاسی مداخلت اور نوٹوں کی چمک دمک کے سبب چپ سادھے رکھی اور اس کے نتیجے میں تعلیم اور تعلیمی عمارتیں تباہی سے دوچار ہوتی رہیں، اور یہ المناک سلسلہ تاحال شدومد سے جاری و ساری ہے۔ 24 مارچ 2015ء کو چیف جسٹس آف پاکستان کو دی گئی ایک درخواست میں (جس کی عکسی نقول صدرِ مملکت، وزیراعظم پاکستان، وزیراعلیٰ سندھ سمیت دیگر ذمہ داران کو بھی ارسال کی گئیں) بڑی صراحت، حوالوں اور ثبوت کے ساتھ ایجوکیشن ورکس اینڈ سروسز اور ڈی اے او، ٹریژری افسران ضلع جیکب آباد کی جانب سے باہمی ملی بھگت کی اربوں روپے مالیت کی محکمہ ورکس ایجوکیشن میں جعلی خرچ اور خردبرد کی نشاندہی کی گئی، مگر ذمہ داران کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے وہ مزید بدعنوانی پر اتر آئے۔ گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول میر امداد علی پنھور، پرائمری اسکول علی شیرآفریدی، پرائمری اسکول میر اصغر علی پنہور، گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول عزیز اللہ کھوسو، پرائمری اسکول نصراللہ بنگلانی، پرائمری اسکول یار محمد ماچھی، گورنمنٹ پرائمری اسکول حاجی میر بحر بجارانی، گورنمنٹ اسکول ریلوے اسٹیشن، پرائمری اسکول نواب بروہی، گورنمنٹ پرائمری اسکول عمرانی، پرائمری اسکول نور مصطفیٰ، گورنمنٹ پرائمری اسکول باہو محلہ سمیت 80 اسکولوں کے لیے جاری کردہ کروڑوں روپے کی تعمیر و مرمت کی رقم بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ہڑپ کرلی گئی اور ان پر خرچ نہیں کی گئی۔ واضح رہے کہ اوپر درج اسکولوں کے لیے فی کس 9,46000 رقم مختص کی گئی تھی، اور زیادہ تر اسکولوں کی مختص کردہ اتنی ہی مالیت کی رقم بھی جو مجموعی طور پر کروڑوں روپے بنتی ہے، ایسے چند اسکولوں (جن پر بجائے رقم خرچ کرنے کے، ہڑپ کرلی گئی) کی عمارات کی تصاویر بھی بطور ثبوت ارسال خدمت ہیں۔ نیب اور متعلقہ اداروں کو کرپشن میں ملوث محکمہ تعلیم اور محکمہ تعلیم ورکس اینڈ سروسز، ٹریژری افسران کے خلاف کارروائی کرکے انہیں کیفرکردار تک پہنچانا چاہیے، تاکہ صوبہ سندھ کے مستقبل سے کھیلنے والے کرپٹ عناصر اپنے انجام کو پہنچ سکیں۔