یہ نہایت عمدہ کتاب جناب عرفان احمد قریشی خطاط شاگرد صوفی خورشید عالم خورشید رقم، ڈیزائنر، پینٹر اور استاد نے بڑی محنت اور تحقیق سے مرتب کی ہے۔ استاد الخطاطین صوفی خورشید عالم خورشید رقمؒ کے آثار اور اعمالِ فن میں سے منتخب لوحات اس کتاب میں جمع کردی گئی ہے۔ عرفان احمد قریشی نے تخلیقی اجتہاد سے کام لیتے ہوئے کراسوں کے سلسلے کو نئے دور میں داخل کردیا ہے۔ جناب عرفان احمد کے صاحبزادے جناب منیب احمد قریشی نے ان قلمی شہ پاروں کو اپنے فن سے مصورانہ شکل دی ہے۔ اللہ پاک اس کوشش کو قبول فرمائے، آمین۔ اس قسم کے کاموں میں حکومتی سرپرستی بہت ضروری ہوتی ہے۔ انگریز، فرانسیسی اور اطالوی تو ان کاموں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ کالے انگریز بھی اللہ کرے اس طرف متوجہ ہوں اور اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس کریں تو انقلاب آجائے۔
عرفان قریشی صاحب نے یہ مسرت افزا خبر سنائی کہ صوفی خورشید عالم خورشید رقم کی خطاطی کے نمونوں پر مشتمل کتاب ’’کلکِ خورشید‘‘ چھپ کر پریس سے آگئی ہے۔ یہ ایک قابلِ صد تعریف و تحسین عملِ صالح ہے جو قریشی صاحب کے دستِ مبارک سے انجام پایا ہے۔ صوفی صاحب کے اوریجنل نمونوں کو اسکین کرکے قریشی صاحب نے بڑی محنت اور مہارت سے کتاب ترتیب دی ہے جو ہماری خطاطی کے کتب خانے میں ایک وقیع و ثمین اضافہ ہے، اور اِن شا اللہ صدیوں تک صوفی خورشید عالمؒ کے ساتھ ساتھ عرفان قریشی صاحب کا نام بھی زندہ اور لوحِ ایام پر پائندہ رہے گا۔ صوفی خورشید عالم خورشید رقم کی کتاب ایک مینارۂ نور ثابت ہوگی اور ایک جہاں اس سے اکتسابِ فن کرے گا۔
تمام مسلمان ممالک میں عربی خطاطی کا تعلق قرآن مجید کے واسطے سے معروف ہے۔ قرآن مجید مسلمانوں کی عبادات، ثقافت اور علم و تدریس کا بنیادی حصہ ہے۔ عربی خط، خطِ کوفی سے ارتقا کرتا مختلف شکلیں اختیار کرتا چھے خطوط میں ڈھل گیا جن میں تین خط جلی اور تین خط خفی تھے، یعنی جلی خط، خطِ ثلث، محقق، اجازہ اور ان کے تابع خفی خطِ نسخ، ریحانی اور رقاع۔ اس کے بعد نستعلیق شکستہ، تعلیق دیوانی اور دیوانی جلی اور رقعہ وغیرہ دوسرے خطوط مستعمل ہوئے۔
خط نستعلیق ایران میں ایجاد ہوا، فارسی اور اس کے تابع علاقوں جیسے افغانستان، ہندوستان میں نستعلیق کا رواج ہوا۔ ایران میں طباعت ٹائپ میں ہونے لگی۔ اس طرح وہاں خط نسخ میں ٹائپ ڈھلنے لگا اور نستعلیق وہاں طباعت کے میدان سے خارج ہوگیا، لیکن ہندو پاک میں تمام طباعت نستعلیق میں ہوتی رہی۔ پہلے لیتھو میں، بعد میں ونڈائک اور فلم کے ذریعے۔ کمپیوٹر کی ایجاد کی وجہ سے آج تک خط نستعلیق کا ہی پاکستان، بھارت میں اجارہ ہے۔ برصغیر بہت بڑا علاقہ ہے، اس لیے خط نستعلیق کی مختلف روشیں ہوگئیں۔ خطِ نستعلیق میں لاہوری، نستعلیق دہلوی، نستعلیق لکھنوی، نستعلیق حیدرآبادی کی تقسیم پیدا ہوگئی اور ہر روش میں بے نظیر اساتذہ اور خطاط ہوگزرے ہیں۔ چونکہ لاہور اردو زبان کی طباعت و اشاعتِ کتب کا بہت بڑا مرکز تھا اس لیے یہاں کے اساتذہ نے خط نستعلیق کی مخصوص شکل رواج دی جسے لاہوری نستعلیق کہتے ہیں۔ اس میں خط کے بڑے مجدد صوفی عبدالمجید پروین رقم تھے جنہوں نے ضوابط مرتب کیے، اس کے بعد بھی بڑے اساتذہ نے اس خط کی پیروی کی اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا رنگ اور ڈھنگ پیدا کیا۔ ان اساتذہ میں ایک بڑا نام صوفی خورشید عالم خورشید رقم کا بھی ہے۔ کتاب کا نام صوفی خورشید صاحب کے مندرجہ ذیل شعر سے ماخوذ ہے:۔
خوش نویسی کا کام تھا جتنا
کلکِ خورشید سے تمام ہوا
صوفی عبدالمجید پروین رقم کے بعد آنے والے بڑے اساتذہ میں تاج الدی زریں رقم کے بعد حافظ محمد یوسف سدیدی، صوفی خورشید عالم مخمور سدیدی، اور سید انور حسین نفیس رقم نے خطِ نستعلیق کو نئی جہتوں سے روشناس کیا۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ سید انور حسین نفیس رقم کے بعد اب صوفی خورشید عالم کے خطاطی کے نمونوں پر مشتمل یہ کتاب بھی منصۂ شہود پر آگئی ہے۔ اس طرح حافظ یوسف سدیدی پر ایک مبسوط کتاب ڈاکٹر انجم رحمانی صاحب نے تحریر کی ہے۔ اسی طرح بہت سے دوسرے خطاط حضرات ہیں جن کی کتابیں اگر مرتب ہوکر شائع ہوجائیں تو خطاطی کا عظیم خزانہ ہر خاص و عام کی دسترس میں ہوگا۔
’’کلکِ خورشید‘‘ میں عرفان قریشی صاحب نے خط سیکھنے کے لیے جو معلومات طالب علم کے لیے جاننا ضروری ہیں اُن کو اپنے اجتہاد سے صوفی صاحب کے خط کو بنیاد بناکر آسان سے آسان تر بنانے کی کامیاب کاوش کی ہے۔ ان میں حروف کے میزان، قلم کی حرکت اور بناوٹ کے مراحل کو دکھانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح طالب علم کے لیے ضروری معلومات آسانی سے حاصل ہوجاتی ہیں۔ صوفی خورشید رقم کے خطی شہ پاروں کو چار حصوں میں پیش کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں نستعلیق خط کے مفردات اور اس کی تشریحات، دوسرے میں مرکبات، تیسرے میں کلمات اور چوتھے حصے میں ترکیبات کا انتخاب ہے۔
زمانہ تیزی سے تبدیل ہورہا ہے، نئی نئی ایجادات طلبہ تک معلومات آسانی سے ترسیل کررہی ہیں۔ اصل اصول تو یہی ہے کہ طالب علم سیکھنے کے لیے استاد کے سامنے زانوے تلمذ تہ کرے، یہ تمام دنیا میں رائج الوقت طریق ہے۔ لیکن اگر استاد دستیاب نہ ہو تو عَلِّمْ بِنَفْسِکَ یعنی Teach Yourself کا طریقہ ترتیب دیا ہے کہ آسانی سے ان کا لکھنا ممکن ہوسکے۔
قریشی صاحب نے 1990ء میں ’’ایوانِ علم و فن‘‘ کے نام سے تنظیم بنائی اور اسلامی فنون خصوصاً فنِ خطاطی کے فروغ و احیا کی کوششوں کا آغاز کیا۔ سہ ماہی ’’علم و فن‘‘ شائع کرتے رہے ہیں۔ 2004ء سے کیلی گرافرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے تحت اس فنِ خط و تذہیب و زخرفہ کی ترویج کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ اگر سب مل کر ان کے ساتھ تعاون کریں تو یہ شعبۂ فن دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے گا، اِن شا اللہ۔ کتاب یوں سمجھیں بالکل مفت ہے۔ ہمیں امید ہے کتابوں کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔
کتاب عمدہ طبع کی گئی ہے۔ ناشر کے علاوہ لاہور میں کتاب سرائے اردو بازار، اسلامک پبلی کیشنز منصورہ لاہور، کتب خانہ معارف اسلامی منصورہ لاہور، فضلی بک سپر مارکیٹ کراچی سے بھی مل سکتی ہے۔
مثنوی حجابِ زناں
کتاب : مثنوی حجابِ زناں
مصنفہ : میر محمد اسماعیل حسین منیر شکوہ آبادی
تعارف، تنقید تبصرہ مع فرہنگ ڈاکٹر توصیف تبسم
صفحات : 136 قیمت 150 روپے
ناشر : ڈاکٹر تحسین فراقی، ناظم مجلسِ ترقی ادب 2 کلب روڈ۔ لاہور
۔’’مثنوی حجابِ زناں‘‘ کی، مجلس ترقی ادب کے تحت پہلی اشاعت ہے جو جولائی 2019ء، ذیقعدہ 1440ھ میں منصۂ شہود پر آئی ہے، جس کے مصنف انیسویں صدی کے باکمال شاعر منیر شکوہ آبادی (1818ء۔ 1880ء) ہیں۔ منیر کی پیدائش شکوہ آباد میں 10 اکتوبر 1818ء کو ہوئی جو بھارت کے ضلع مین پوری کا بڑا قصبہ تھا۔ والد کا نام سید احمد حسین نقوی (متوفی 1834ء) تھا۔ 10 مئی 1857ء کو جب جنگِ آزادی کا آغاز ہوا تو منیر شکوہ آبادی باندہ میں تھے۔ نواب علی بہادر نے اس معرکۂ حق و باطل میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ نواب علی بہادر نے جو جنگی کونسل کی تشکیل کی، منیر کا نام بھی بحیثیت رکن اس میں شامل تھا۔ نواب کو انگریزوں کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور منیر گرفتار ہوئے، مقدمہ چلا اور ایک قضیے میں سات سال قید ہوئی۔ انڈمان بھیج دیے گئے، دو سال قید معاف ہوئی۔ واپس ہندوستان آئے۔ زندگی کے آخری دس برس رام پور میں بسر ہوئے۔ 13 اگست 1880ء کو رام پور میں انتقال ہوا۔
منیر شکوہ آبادی ایک قادرالکلام اور پرگو شاعر تھے۔ ان کے مطبوعہ شعری مجموعے درج ذیل ہیں:۔
1۔ منتخب العالم (دیوان اوّل)، 2۔ تنویر الاشعار (دیوانِ دوم)، 3۔ نظمِ منیر (دیوان سوم)، 4۔ مثنوی حجاب زناں، 5۔ مثنوی معراج المضامین۔
منیر شکوہ آبادی کی مختصر اور طویل مثنویوں کی تعداد تیرہ ہے، دو طویل اور گیارہ مختصر۔ منیر کی اس مثنوی حجابِ زناں کی اولین اشاعت 1296ھ مطابق 1879ء میں ہوئی۔
ڈاکٹر توصیف تبسم تحریر فرماتے ہیں:۔
’’اس مثنوی کا موضوع طبقہ نسواں کی تعلیم اور پردہ ہے، جیسا کہ اس کے نام سے بھی ظاہر ہے۔ کہانی کے پیرایے میں ایک بوڑھی عورت اپنی نواسی کو بتاتی ہے کہ دنیا میں ایسی عورتیں بھی موجود ہیں جو اپنی غلط کاریوں کی بدولت تعلیم سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتیں بلکہ الٹا نقصان اٹھاتی ہیں۔ اس مثنوی کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ لڑکیوں کو علم کی طرف مائل کیا جائے۔ عورتوں کی تعلیم پر اعتراض کرنے والوں کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اکثر عورتیں پڑھ لکھ کر گمراہ ہوجاتی ہیں اور ان کے اخلاق و عادات تباہ ہوجاتے ہیں، ایسی عورتیں نہ تو خدا اور رسول ہی کے احکامات کی قدر کرتی ہیں اور نہ ماں باپ اور شوہر کی اطاعت کو اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ منیر نے اس قسم کے اعتراضات کا جواب بہت خوبی اور اختصار سے دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ افراد جو بداصل ہوتے ہیں وہی افعالِ خبیثہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس میں مرد یا عورت، تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ ہونے کی کوئی تخصیص نہیں ہے‘‘۔
مثنوی کی زبان بڑی سہل ہے۔ صفحہ 94 پر ایک عنوان ہے ’’بادشاہ کو سمجھانا‘‘۔ اس سے چند اشعار نمونے کے طور پر درج ذیل ہیں:۔
ہو ترقی شکوہِ حضرت کی
عدل و انصاف عمر و دولت کی
یہی واجب ہوا ہے حضرت پر
رہے انصاف کی ہمیشہ نظر
دیتے ہیں باشاہ سب کی داد
کہ رعیت ہے صورتِ اولاد
یہی دستور ہے قصور معاف
ہم اطاعت کریں، حضور انصاف
جب رعیت کو بادشاہ ستائے
ستیاناس جائے، چین نہ پائے
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔
ششماہی اردو کراچی
مجلہ : ششماہی اردو کراچی
جاری کردہ بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق
(جلد5 9۔ جنوری،جون 2019ء)
مدیر : ڈاکٹر رئوف پاریکھ
نائب مدیر : رخسانہ صبا
صفحات : 232 قیمت:400 روپے
ناشر : انجمن ترقی اردو پاکستان
اردو باغ ایس ٹی۔ 10، بلاک 1
گلستانِ جوہر، کراچی 75290
فون : (0092-21)34161143
برقی ڈاک : urdu.atup@gmail.com
ویب گاہ : www.atup.org.pk
ششماہی اردو کراچی کا تازہ شمارہ آگیا ہے، اس کے محتویات درج ذیل ہیں۔ ادارے میں ڈاکٹر رئوف پاریکھ تحریر فرماتے ہیں:
’’اردو کے جیّد محقق قاضی عبدالودود نے اپنی کتاب ’’اردو میں ادبی تحقیق‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ:
’’کسی شخص کا قول ہے کہ ہر قوم کو اسی طور پر حکومت ملتی ہے جس کی [وہ] مستحق ہے۔ یہی بات تحقیق کے متعلق بھی کہی جاتی ہے۔ کسی ملک کے باشندوں کا معیارِ اخلاق پست ہو اور وہ کام سے جی چراتے ہوں تو وہاں بالعموم تحقیق کا درجہ پست ہوگا۔‘‘ (ص 36)۔
اس قول کی روشنی میں قاضی صاحب نے اردو کی ادبی تاریخوں کے متعلق لکھا کہ ’’سخت بے احتیاطی سے لکھی گئی ہیں‘‘۔ اور پھر انہوں نے پی ایچ ڈی کے دو تحقیقی مقالوں ’’لکھنؤ کا دبستانِ شاعری‘‘ اور ’’دلی کا دبستانِ شاعری‘‘ پر سخت تنقید کی (یہ مقالے اولاً ’’ساغر‘‘ (پٹنہ) کے 1964ء اور 1965ء، نیز ’’ہماری زبان‘‘ (دہلی) کے 1959ء کے مختلف شماروں میں شائع ہوئے تھے اور بعدازاں کتاب میں شامل کیے گئے)۔ اگرچہ اس کے بعد اردو کی بہتر ادبی تاریخیں بھی لکھی گئیں (مثلاً جمیل جالبی صاحب کی مصنفہ ’’تاریخ ادب اردو‘‘) اور متعدد دیگر عمدہ تحقیقی کام بھی ہوئے، لیکن اب کچھ عرصے سے ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ اردو تحقیق کا معیار گرتا جارہا ہے۔ یوں تو عمدہ تحقیقی کام بھی سامنے آتے رہتے ہیں، لیکن یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ تحقیق کا عمومی معیار مزید پست ہورہا ہے۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ بقول اقبال:
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
اور ان معتبر اہلِ تحقیق اور بزرگ اہلِ علم کی جگہ کم ہی پُر ہوپاتی ہے۔ البتہ ہماری جامعات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے نام پر شعبہ ہائے اردو میں تحقیق کی جو گرم بازاری دیکھنے میں آئی اس سے امید ہوچلی تھی کہ شاید کچھ بہتر تحقیقی کام سامنے آسکیں گے۔ لیکن:
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
جب محققین کا مقصد سند کا حصول اور اس کے توسط سے دنیاوی مناصب و ترقی تک پہنچنا ہو تو شاید ان سے معیارِ تحقیق کی امید بھی بے جا ہے۔تاہم قاضی عبدالودود نے جو وجوہات (پست اخلاق اور کام سے جی چرانے کی عادت) بیان کی ہیں ہمیں ان پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم میں وہ اعلیٰ صفات کیوں نہ پیدا ہوسکیں جو اقوام کو عالم میں سرفراز کرتی ہیں۔ ان صفات کی کمی بھی ہمارے پست تحقیقی معیار کی وجوہ میں یقیناً شامل ہے۔
لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ ادارہ برائے اعلیٰ تعلیم (ایچ ای سی) جہاں دیگر علوم کی تحقیق کے معیار میں بہتری کے لیے کوشاں ہے اور معیار کی بلندی کے لیے متعدد اقدامات کررہا ہے، وہاں اردو تحقیق کو بھی ان اقدامات سے فیض حاصل ہوگا۔‘‘
درج ذیل مقالات شاملِ اشاعت ہیں:
’’مکاتیبِ مشاہیر بنام رفیق خاور ’’محمد حمزہ فاروقی، ’’جامعات میں اردو تحقیق‘‘ مرتبہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: ’’تحقیق و تجزیہ ابرار عبدالسلام‘‘، ’’امام بخش صہبائی: حیات، آثار، ممات‘‘ رخسانہ صبا، ’’شبلی اور سید احمد خان کے اختلافات‘‘ خالد امین، ’’عنواناتِ کتب میں املائی اور قواعدی فروگزاشتیں‘‘ انصار احمد شیخ، ’’انیسویں صدی میں علمائے دین کی اردو سیرت نگاری‘‘ شذرہ حسین، ’’اردو لغت (تاریخی اصول پر) کے اندراجات کی معنوی وضاحت‘‘ امینہ بی بی، ’’اردو غزل پر کلیم الدین احمد کی تنقید‘‘ علی احمد بیگ، ’’دکنیات کا ایک معتبر حوالہ: ڈاکٹر جمیل جالبی‘‘ یوسف نون، ’’اشاریہ ’’اردو‘‘ (جلد94، شمارہ 2، جون تا دسمبر 2018ء)‘‘ تہمینہ عباس، “Baba Nanak and Sufism”۔Fateh Muhammad Malik
مجلّد سفید کاغذ پر خوب صورت طبع کیا گیا ہے۔ خوب صورت سرورق سے آراستہ ہے۔