ہنری برگساں

ابوسعدی
ہنری برگساں (Henri Bergson) (1859ء۔ 1941ء) پیرس میں پیدا ہوا۔ یہ فرانسیسی فلسفی اپنے نظریہ ارتقا کے باعث عالمگیر شہرت کا حامل بنا۔ وہ 1900ء سے 1921ء تک کالج دَ فرانس (College de France) میں تدریس و تحقیق میں مصروف رہا۔ اسے بہت سے اعزازات ملے۔ اس نے فرنچ اکیڈمی کے انتخاب میں حصہ لیا۔ 1927ء میں ادب کا نوبیل پرائز دیا گیا۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد اس نے دنیا میں امن کی کوششوں پر بہت توجہ دی، لیکن دوسری جنگِ عظیم میں اس کی موت کے وقت نازیوں نے اس کے ملک فرانس پر قبضہ کرلیا۔ ڈارون اور اسپنسر کے نظریات نے برگساں کو بہت متاثر کیا۔ اس نے حرکی جوشِ حیات اور مزاحم مادّے کے درمیان ثنویت پر زور دینے سے رائج الوقت ایجابیتی فکر کی مخالفت کی۔ انسان خرد کے ذریعے مادّے کو جانتا ہے، لیکن وجدان کے ذریعے معلوم کرتا ہے کہ حیاتی قوت کیسے عمل کرتی ہے، نیز وہ زمان کی اصل حقیقت کو دریافت کرتا ہے، جو حیاتی تجربے کے اعتبار سے مدت ہے، نہ کہ ریاضیاتی ساعتی پیمائش۔ زمان و مکان کے بارے میں اس کے نظریات کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم و نثر ہر دو میں برگساں کے مختلف فلسفیانہ تصورات کا جائزہ لیا ہے۔ (پروفیسر عبدالجبار شاکر)

شریک

دو افراد نے ایک ساتھ سفر کیا۔ ایک جگہ سرائے میں اترتے۔ ایک جگہ کھانا پکواتے۔ ایک دن چلتے چلتے ایک نے اشرفیوں کی تھیلی پڑی پائی۔ تھیلی کو اٹھا کر اپنے ساتھی سے کہنے لگا: ’’دیکھو بھائی میں نے تھیلی پائی‘‘۔
دوسرے نے کہا: ’’یہ تم نے کیا کہاکہ میں نے پائی! یوں کہو کہ ہم نے پائی۔ اس واسطے کہ ہم تم دونوں ساتھ ہیں، یہ ہم دونوں کا حق ہے‘‘۔
غرض تھیلی پر جھگڑتے چلے جاتے تھے۔ اتنے میں پیچھے سے کچھ لوگوں کی آہٹ سی معلوم ہوئی۔ کان لگا کر سنا تو وہ لوگ یہ کہتے ہوئے لپکے چلے آرہے تھے کہ: ”تھیلی کے چور وہ دونوں آگے جاتے ہیں“۔ یہ سن کر تھیلی پانے والا اپنے ساتھی سے کہنے لگا: ”کیوں بھائی کیا علاج۔ اب تو ہم مارے پڑے“۔ دوسرے نے کہا: ’’یہ تم نے کیا کہا کہ ہم مارے پڑے! یوں کہوکہ میں مارا پڑا۔ جب تم نے تھیلی کے پانے میں مجھ کو شریک نہیں کیا تو اب آفت میں بھی میں تمہارا ساتھی نہیں ہوں‘‘۔
حاصل: جو لوگ فائدے میں کسی کو شریک نہیں کرتے، مصیبت میں بھی کوئی ان کا شریک نہیں ہوتا۔
(” منتخب الحکایات“۔نذیراحمد دہلوی)

نامہربان مہربان

ایک صاحب بتاتے ہیں کہ مجھے مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ کسی نے میرا اس طرح ساتھ دیا کہ میرا اعتماد بھی مجروح نہ ہونے دیا اور احترام بھی ملحوظِ خاطر رکھا۔ اس کے مقابلے میں ایک بھائی نے اوٹ پٹانگ سوالات کے ذریعے میری دیانت داری کو مشکوک قرار دیا۔ اس سے مجھے جو تکلیف ہوئی، اسے میں بیان نہیں کرسکتا۔ ایک شخص نے میری مدد تو کی، لیکن اس انداز میں کہ میں خود کو اپنی نظروں میں گھٹیا محسوس کرنے لگا۔ اس کی زبان اور رویّے سے یہ پیغام ملتا تھا کہ وہ مجھے حقیر سمجھ رہا ہے۔ اگر مجھے رقم کی اشد ضرورت نہ ہوتی تو میں اُس سے کبھی نہ کہتا۔
جب میں کسی سے کوئی بات پوچھتا ہوں تو کسی کے جواب کا انداز اور لب و لہجہ صاف صاف یہ کہہ رہا ہوتا ہے: ’’میں تمہیں غبی اور بے وقوف سمجھتا ہوں‘‘۔ اُسے غالباً اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ میرا کس قدر دل دُکھا رہا ہے۔ اس کے برعکس مجھے ایسے پائے کے اسکالر ملتے ہیں، جو میرے سادہ سے سوال کے باوجود اتنی توجہ سے جواب دیتے ہیں کہ میں اپنی نظروں میں خود کو بہت اہم اور قیمتی انسان سمجھنے لگتا ہوں۔ مجھے حال ہی میں ایک پرانے مہربان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے فرمایا: ’’مجھے یاد ہے، تم کس قدر احساسِ کمتری میں مبتلا تھے۔ یہ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ تمہاری مجھ سے ملاقات ہوگئی۔ تم آج جو ہو، وہ میں نے تمہیں بنایا ہے‘‘۔
انہیں اس بات سے دلچسپی لگتی تھی کہ وہ مجھے ذلیل کرکے خود کو اپنی نظروں میں برتر محسوس کریں۔
آپ جس کی مدد کریں، اُس کے لیے دل میں احترام کے گہرے جذبات رکھیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو آپ کو اپنی زندگی کے مشن کی تکمیل میں مدد دیتے ہیں۔ اس لیے آپ کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ منہ سے کوئی ایسا لفظ نہ نکالیں، نہ اس طرح کا رویہ اختیار کریں جس سے ان کی اَنا مجروح ہو، یا اس میں آپ کی برتری یا بالاتری جھلکتی ہو، نہ دوسروں کو یہ احساس ہونے دیں کہ آپ اُن پر احسان چڑھا رہے ہیں۔ یہ اپنی نیکی پر پانی پھیرنے والا طرزِ عمل ہے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔
(ماہنامہ چشم بیدار۔دسمبر2019ء)

تنظیم گلستاں ہونے تک انجام گلستاں کیا ہوگا

جس دل میں خدا کا خوف رہے، باطل سے ہراساںکیا ہوگا
جو موت کو خود لبیک کہے، وہ حق سے گریزاں کیا ہوگا
آئینِ چمن بندی بھی نہیں، دستورِ نوا سنجی بھی نہیں
اب اس سے زیادہ گلشن کا شیرازہ پریشاں کیا ہوگا
اربابِ محبت سے یہ کہو: شکوے نہ کریں، کچھ کام کریں
جو ظلم و ستم پر اترائے، شکووں سے پشیماں کیا ہوگا
جو لوگ ہوا کے ساتھی ہیں، وہ اپنے خدا کے باغی ہیں
اس جرمِ بغاوت سے بڑھ کر ایماں کا نقصاں کیا ہوگا
جس کشتی کی پتواروں کو خود ملاحوں نے توڑا ہو
اس کشتی کے ہمدردوں کو پھر شکوۂ طوفاں کیا ہوگا
مدت سے کشاکش جاری ہے صیاد میں اور گل چینوں میں
تنظیمِ گلستاں ہونے تک انجامِ گلستاں کیا ہوگا
جس چوٹ سے دل میں ہلچل ہے، آہوں میں وہ ظاہر کیا ہوگی
سینہ میں جو محشر برپا ہے، اشکوں سے نمایاںکیا ہوگا
اس شامِ خزاں نے اب تک تو ہر طرح سے پردہ داری کی
جب صبح بہار آجائے گی، اے تنگیِ داماں! کیا ہوگا
خلوت ہوکہ جلوت ہو ماہرؔ کا دل کھویا کھویا رہتا ہے
اس غم کی تلافی کب ہوگی، اس درد کا درماں کیا ہوگا
(ماہر القادری مرحوم)