پروفیسر اطہر صدیقی
ایک طالب علم نے اپنے استاد سے پوچھا:
’’محبت کیا ہے؟‘‘
استاد نے کہا:
’’اپنے سوال کا جواب پانے کے لیے تم گیہوں کے کھیت میں جائو اور گیہوں کی سب سے بڑی بالی چن کر واپس لائو۔
لیکن قانون یہ ہے: تم کھیت میں صرف ایک مرتبہ جاسکتے ہو اور چننے کے لیے واپس نہیں جاسکتے‘‘۔
وہ طالب علم کھیت میں گیا اور پہلی ہی قطار میں اسے گیہوں کی ایک بڑی بالی نظر آئی، لیکن وہ سوچنے لگا… ممکن ہے آگے اس سے بھی بڑی بالی مل جائے۔ تب اس نے ایک اور بڑی بالی دیکھی… پھر سوچا: ممکن ہے میرے لیے اس سے بھی بڑی بالی میری منتظر ہو۔ بعد میں جب وہ آدھے سے زیادہ کھیت دیکھ چکا تو اسے یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ گیہوں کی جو بالی اس نے اب دیکھی وہ اتنی بڑی نہیں ہے جتنی اس سے پہلے والی تھی۔ اس نے سوچا کہ اس نے گیہوں کی سب سے بڑی اور اچھی بالی کو کھو دیا۔ اور اپنے کیے پر پچھتانے لگا۔ اس طرح اُس کی تلاش ختم ہوئی اور وہ استاد کے پاس خالی ہاتھ واپس گیا۔ استاد نے اس کو بتایا:
’’یہی محبت ہے… آپ خوب سے خوب تر کی تلاش کرتے رہتے ہیں اور بعد میں یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ نے اس شخص کو کھو دیا جو واقعی آپ کی محبت تھا‘‘۔
شاگرد نے پوچھا:
’’تب شادی کیا ہے؟‘‘
استاد نے کہا:
’’اپنے سوال کا جواب پانے کے لیے تم مکئی کے ایک کھیت میں جائو اور سب سے بڑا بھُٹّا تلاش کرکے واپس آئو، لیکن قانون یہ ہے: تم کھیت میں ایک دفعہ جاسکتے ہو اور چننے کے لیے واپس نہیں لوٹ سکتے‘‘۔
طالب علم مکئی کے کھیت میں گیا۔ اِس مرتبہ وہ بہت محتاط تھا کہ پہلے کی گئی غلطی نہ دہرائے۔ جب وہ کھیت کے بیچ میں پہنچا تو اس نے ایک درمیانی قامت (سائز) کا بھُٹّا چن لیا، اور جس سے وہ خود بھی مطمئن تھا، اور استاد کے پاس واپس لوٹ آیا۔ استاد نے اسے بتایا:
’’اِس مرتبہ تم ایک ایسا بھُٹّا لے کر واپس آئے ہو جسے تم نے مناسب سمجھا اور اچھا جانا، اپنی پسند پر یقین کیا اور یہ بھروسا کیا کہ تمہارے لیے یہی سب سے اچھا ہے، بس یہی شادی ہے‘‘۔