اخلاقی فساد اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لیے فارغ ہوجا، میں تیرے سینے کو دولت سے بھر دوں گا اور تیرے فقر کو دور کردوں گا۔ اور اگر ایسا نہ کرے گا تیرے سینے کو پریشانیوں سے بھردوں گا اور تیرے فقر کو دور نہ کروں گا۔ (ابن ماجہ، ترمذی)۔

سید طاہر رسول قادری
وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا ﴿١٦﴾ وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ ۗ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا(بنی اسرائیل:16، 17)۔
ترجمہ: ”جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں۔ تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہوجاتا ہے۔ اور ہم اسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔ دیکھ لو، کتنی ہی نسلیں ہیں جو نوحؑ کے بعد ہمارے حکم سے ہلاک ہوئیں۔ تیرا رب اپنے بندوں کے گناہوں سے پوری طرح باخبر ہے، اور سب کچھ دیکھ رہا ہے۔“
قرآن کریم میں لفظ مترف، مختلف صیغوں کے ساتھ سات مقامات پر آیا ہے۔ اترفناہم، اترفتم، اترفو، مترفو، امترفین، مترفیھا، مترفیھم۔ ترف، ترفاوتترف مادہ و مصدر ہے۔
اصل میں مترفین اُن لوگوں کو کہتے ہیں جو دنیوی مال و دولت کو پاکر مزے کررہے ہوں، اور خدا و خلق کے حقوق سے غافل ہوں۔ اس لفظ کا صحیح مفہوم ’’عیاش‘‘ سے ادا ہوجاتا ہے، بشرطیکہ اسے صرف شہوت رانی کے معنی میں نہ لیا جائے، بلکہ عیش کوشی کے وسیع تر معنوں میں لیا جائے۔
قومیں قدیم ہوں یا جدید، آبادیاں بڑی ہوں یا چھوٹی، شہروبلاد متمدن ہوں یا غیر متمدن… سب کا عروج و زوال، سب کی عقوبت و سزا اور سب کی ترقی و ہلاکت میں ایک ہی قانونِ الٰہی کارفرما ملتا ہے۔ فساد میں تباہی ہے اور امن میں نجات، اور بالآخر دنیا میں وہی آبادیاں مفسد و فسادی بن کر اٹھتی ہیں، جنہوں نے حق سے منہ موڑ کر زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کیا ہوتا ہے۔
انسانی تاریخ کے حوالے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دنیا کی جتنی قومیں بھی تباہ ہوئی ہیں ان سب کو جس چیز نے گرایا وہ یہ تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتوں سے سرفراز کیا تو وہ خوش حالی کے نشے میں مست ہوکر زمین میں فساد برپا کرنے لگیں، اور ان کا اجتماعی ضمیر اس درجہ بگڑ گیا کہ یا تو ان کے اندر ایسے نیک لوگ باقی رہے ہی نہیں جو ان کو برائیوں سے روکتے، یا اگر کچھ لوگ ایسے نکلے بھی تو وہ اتنے کم تھے اور ان کی آواز اتنی کمزور تھی کہ ان کے روکنے سے فساد نہ رک سکا، اور بالآخر وہ بگاڑ کے اس نقطہ عروج پر پہنچ گئیں جہاں اللہ کی دی ہوئی مہلت ختم ہوجاتی ہے۔
جو آیتیں تلاوت کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں برائیاں عام ہونے سے پہلے مخصوص طبقے، گروہ اور خواص میں وہ پرورش پاتی ہیں۔ پھر ان سے نکل کر عام لوگوں میں پہنچ کر فساد کی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں۔ کسی بھی معاشرے کا کھاتا پیتا، خوش حال طبقہ جو عیش کوش، عیش پسند اور موثر ہوتا ہے، اوّل وہی برائیوں کی پرورش گاہ ہوتا ہے اور برائیاں اسی کے اندر پروان چڑھتی ہوئی عام لوگوں تک پہنچتی ہیں۔ اور پھر یہ چیزیں پھیل کر پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ یہاں تک کہ مدہوش اور بدمست معاشرے کے لوگوں میں برائیوں اور اچھائیوں کے درمیان فرق کرنے اور نیکی اور بدی کو پہچاننے کی قوت وتمیز باقی نہیں رہتی۔
کسی قوم کی شامتِ اعمال کا وقت وہی ہوتا ہے جب اس قوم اور معاشرے کے مترفین بالکل فاسق و فاجر اور بدکار ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر قبولیتِ حق کی صلاحیت ہی ختم ہوجاتی ہے۔
’’أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا‘‘ ”تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں“ سے مراد یہی حکم طبعی اور قانونِ فطری ہے کہ بدکار کو زبردستی نیکو کار نہیں بنایا جاتا ہے۔ بدکاری اور عیاشی کو جس نے اپنا وتیرہ بنالیا ہے تو بس وہ اسی میں پڑا رہے گا اور اسی کے انجامِ بد سے دوچار ہوگا۔ وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً ۔ ’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ یونہی بے قصور کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسانی بستی اور آبادی برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے اور اللہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ اسے تباہ کرنا ہے تو اس فیصلے کا ظہور اس طریقے سے ہوتا ہے جس کا اس آیت میں ذکر ہے۔
اسی حقیقت کے پیش نظر ایک زندہ اور بیدار معاشرے کو جو اپنا دشمن آپ نہیں ہوا ہے اور زندگی باقی رکھنے کا خواہش مند ہے،اپنی قوم اور اس کے افراد میں ہونے والی برائیوں پر ہمیشہ نگاہ رکھنی چاہیے، اور جہاں اور جب کبھی فتنہ عام پیدا ہونے والی کوئی برائی سر اٹھائے اور جس کے بارے میں یہ خطرہ بھی ہو کہ اگر اس کا آج ہی مداوا نہ کیا گیا تو آگے چل کر بظاہر یہ چھوٹی سی برائی قومی فتنہ بن جائے گی، تو اس برائی کے سر اٹھانے سے پہلے ہی معاشرے کے سمجھ دار لوگوں کو اس برائی کا سر کچل ڈالنا چاہیے۔
سورہ الانفال آیت 25 میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً۔ ”اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی، جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔“
اس سے مراد وہ اجتماعی فتنے ہیں جو وبائے عام کی طرح ایسی شامت لاتے ہیں جس میں صرف گناہ کرنے والے ہی گرفتار نہیں ہوتے، بلکہ وہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں جو گناہ گار سوسائٹی میں رہنا گوارہ کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ جب تک کسی شہر میں گندگیاں کہیں کہیں انفرادی طور پر چند مقامات پر رہتی ہیں، ان کا اثر محدود رہتا ہے، اور ان سے وہ مخصوص افراد ہی متاثر ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے جسم اور اپنے گھر کو گندگی سے آلودہ کررکھا ہو۔ لیکن جب وہاں گندگی عام ہوجاتی ہے اور کوئی گروہ بھی سارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا، جو اس خرابی کو روکنے اور صفائی کا انتظام کرنے کی سعی کرے تو پھر ہوا، پانی اور زمین ہر چیز میں سمیت یعنی زہریلے اثرات پھیل جاتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں جو وبا آتی ہے اس کی لپیٹ میں گندگی پھیلانے والے اور گندہ رہنے والے اور گندے ماحول میں زندگی گزارنے والے ہی نہیں دوسرے سب ہی آجاتے ہیں۔ اسی طرح اخلاقی نجاستوں کا حال بھی ہے کہ اگر وہ انفرادی طور پر بعض افراد میں موجود ہیں اور صالح سوسائٹی کے رعب سے دبی ہوئی ہیں تو ان کے نقصانات محدود رہتے ہیں، لیکن جب سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر کمزور ہوجاتا ہے، جب اخلاقی برائیوں کو دبا کر رکھنے کی طاقت اس میں نہیں رہتی، جب اس کے درمیان برے اور بے حیا اور بداخلاق لوگ اپنے نفس کی گندگیوں کو عَلانیہ اچھالنے اور پھیلانے لگتے ہیں، اور جب اچھے لوگ بے عملی اختیار کرکے اپنی انفرادی اچھائی پر قانع اور اجتماعی برائیوں پر ساکت و صامت ہوجاتے ہیں، تو یہی کسی بھی سوسائٹی، کسی بھی قوم اور کسی بھی آبادی کی ہلاکت و بربادی کا وہ آخری سامان ہوتا ہے جس کے بعد سنبھلنے کا بہت ہی کم موقع رہ جاتا ہے۔
اس خدائی انتباہ کو جو اس وقت ہمارے لیے بھی ہے، نظرانداز کردینا، غفلت برتنا کسی وقت بھی ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے (خدا نہ کرے)۔ ریڈیو، ٹی وی آپ کے گھروں میں ہے، اور آپ اسے دیکھتے اور لطف اٹھاتے ہیں۔ آپ ہمارے کہنے سے اسے دیکھنا تو نہ چھوڑیں گے لیکن خدا کے لیے کم از کم اتنا تو ضرور کرلیا کریں کہ ٹی وی پروگراموں میں جب کبھی کوئی بے حیا، فحش اور اسلامی مزاج کے صریحاً خلاف بات نظر آئے اور وہ آپ کو یا آپ کے گھر والوں کو بحیثیت مسلمان بری بھی معلوم ہو تو خط لکھ کر یا ٹیلیفون کرکے ذمہ دار لوگوں کی توجہ اس طرح مبذول کرائیں۔ اپنی ناراضی اور اس کی وجہ بتائیں اور ان کے مسلمان ہونے اور پاکستان کی اسلامی حیثیت کے واسطے سے ان کو حقیقی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں۔ معاشرے کے حساس لوگ اگر ایسا کریں گے تو اوّل ان کو احساس ہوجائے گا اور وہ خرابیوں کی اصلاح کرلیں گے، اور اگر وہ اپنے فرض کو نہ پہچانیں تب بھی آپ کو تو اپنے عمل کا ثواب مل ہی جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَلَوْلاَ كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُوْلُواْ بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الأَرْضِ إِلاَّ قَلِيلاً مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مَا أُتْرِفُواْ فِيهِ وَكَانُواْ مُجْرِمِينَ(ہود:116)۔
’’پھر کیوں نہ ان قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں، ایسے اہلِ خیر موجود رہے، جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچالیا۔ ورنہ ظالم لوگ تو انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے، جن کے سامان انہیں فراوانی کے ساتھ دیے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے‘‘۔
اس آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اجتماعی نظام میں ایسے نیک لوگوں کا موجود رہنا ضروری ہے جو خیر کی دعوت دینے والے، شر سے روکنے والے ہوں۔ اس لیے کہ خیر ہی وہ چیز ہے جو اصل میں اللہ کو مطلوب ہے، اور اگر لوگوں کے شرور کو اللہ برداشت کرتا بھی ہے تو اس خیر کی خاطر کرتا ہے جو ان کے اندر موجود ہے، اور اسی وقت تک کرتا ہے جب تک ان کے اندر خیر کا کچھ امکان باقی ہے۔ مگر جب کوئی انسانی گروہ اہلِ خیر سے خالی ہوجائے اور اس میں صرف شریر لوگ باقی رہ جائیں، یا اہلِ خیر موجود ہوں بھی تو کوئی ان کی سن کر نہ دے اور پوری قوم کی قوم اخلاقی فساد کی راہ پر بڑھتی چلی جائے تو پھر خدا کا عذاب اس کے سر پر اس طرح منڈلانے لگتا ہے جیسے پورے دنوں کی حاملہ، کہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کب اس کا وضع حمل ہوجائے۔
قرآن کریم کی ان باتوں کو سمجھنے کے بعد بھی اگر ہم اصلاحِ معاشرہ کی فکر نہ کریں، برے اور بداعمال لوگوں کی قیادت اور سیادت کو خدائی فیصلہ سمجھیں، اور اسی لیے اپنے اندر کوئی انقلابی حرکت پیدا نہ کریں، سنیں اور خاموش رہیں، دیکھیں اور چپ رہیں تو یہ بری علامت ہوگی۔ اپنے اندر اس بری علامت کو پاکر بھی اپنا علاج نہ کریں تو اللہ کا فیصلہ نافذ ہوکر رہے گا۔
۔(52 دروس قرآن، انقلابی کتاب۔ حصہ دوئم)۔