پاکستان پر مغرب کی یلغار

مغرب اور اس کے اہلکاروں کا شیطانی کھیل
عورت مارچ کراچی میں ہو یا لاہور میں… اسلام آباد میں ہو یا بشکیک اور استنبول میں، اس کا ایجنڈا اسلام دشمنی ہے

مغربی تہذیب ایک ہزار سال سے اسلامی تہذیب کے تعاقب میں ہے۔ 1095ء میں اُس وقت کے پوپ اربن دوئم نے کہا کہ (معاذ اللہ) اسلام ایک شیطانی مذہب ہے اور اس کے ماننے والے ایک شیطانی مذہب کے ماننے والے ہیں۔ پوپ اربن نے مزید فرمایا کہ میرے دل پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ ہمیں اس شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو فنا کردینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی پوپ اربن نے یورپ کی تمام عیسائی اقوام کو ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہونے کی دعوت دی، اور 1099ء میں پورا یورپ عملاً ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوا اور اُن صلیبی جنگوں کی ابتدا ہوئی جو کم و بیش دو سو سال تک جاری رہیں۔ یہ صلیبی جنگیں اُس وقت ختم ہوئیں جب اسلامی تہذیب نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی صورت میں مغربی تہذیب کی یلغار کا جواب دے کر اُس سے بیت المقدس کو آزادا کرایا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی صلیبیوں اور اُن کی تہذیب کو کھدیڑتے ہوئے یورپ تک واپس لے گئے۔ مگر 19 ویں صدی میں یورپی طاقتیں ایک بار پھر اپنے اپنے جغرافیے سے نکلیں اور انہوں نے پورے عالمِ اسلام پر قبضہ کرلیا۔ مسلم تہذیب نے کئی مقامات پر مغربی تہذیب کی بے مثال مزاحمت کی۔ افریقہ میں عمر مختار نے اطالویوں کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ الجزائر کی پوری قوم بالآخر فرانسیسیوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔ برصغیر میں سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں کی شاندار مزاحمت کی۔ ٹیپو نے کئی محاذوں پر انگریزوں کو پسپا کیا۔ 1857ء کی جنگِ آزدی نے انگریزوں کو بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا۔ برصغیر کے مسلمانوں میں بہت کم لوگ اس بات کا شعور رکھتے ہیں کہ اکبر الٰہ آبادی اور اقبال کی لاجواب شاعری اور مولانا مودودی کا بے مثال علمِ کلام اپنی نہاد میں مغربی تہذیب کے خلاف اسلامی تہذیب کے ردعمل یا Response کے سوا کچھ نہیں۔ اخوان کا پورا فکری اور تنظیمی ڈھانچہ بھی مغرب کے خلاف ردعمل ہی کی ایک صورت ہے۔ بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد مغرب نے ایک بار پھر اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور امتِ مسلمہ کے اہم حصوں کو نشانہ بنایا۔ امریکہ کے اُس وقت کے صدر جارج بش نے مسلمانوں کے خلاف ’’کروسیڈ‘‘ یا صلیبی جنگ کا اعلان کیا۔ اٹلی کے وزیراعظم سلویو برلسکونی نے کہا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح وہ اسلامی تہذیب کو شکست دے گی۔ امریکہ کے اُس وقت کے اٹارنی جنرل نے کہا کہ عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے برتر ہے۔ یورپ میں ناٹو کی افواج کے کمانڈر جنرل کلارک نے ایک ٹی وی انٹرویو میں فرمایا کہ مغرب اسلام کو Define کرنے نکلا ہے۔ مغربی تہذیب نے اگرچہ اب چین اور روس کو اپنا حریف باور کرانا شروع کیا ہوا ہے، مگر اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ، اسلامی معاشرے، اسلامی اقدار کے خلاف مغرب کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مغرب کی ایک ہزار سالہ اسلام دشمنی کے باوجود مسلمانوں کی عظیم اکثریت اسلامی اور مغربی تہذیب کے تصادم کی نوعیت، معنویت اور اس کی علامتوں کا شعور نہیں رکھتی۔ یہاں تک کہ بعض اسلام پسندوں کو ہم نے یہ بے وقوفانہ بات کرتے ہوئے دیکھا، سنا اور پڑھا ہے کہ اب مسئلہ لیفٹ اور رائٹ کا نہیں بلکہ رائٹ اور رانگ کا ہے۔ حالاں کہ لیفٹ اور رائٹ کا مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے، اور رائٹ اور رانگ کی کشمکش تو ہے ہی حق و باطل کی کشمکش… اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کی کشمکش۔ مغربی تہذیب ہمارے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جدید مغربی تہذیب کو بدترین ناموں سے پکارا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حق کے خلاف بغاوت کی وجہ سے عزازیل کا نام مسخ کرکے ’’ابلیس‘‘ اور شیطان رکھ دیا، جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حق کے خلاف بغاوت کی وجہ سے عمر بن ہشام کا نام مسخ کرکے ’’ابوجہل‘‘ رکھ دیا، اسی طرح مولانا مودودیؒ نے خالقِ کائنات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے جدید مغربی تہذیب کے نام کو مسخ کرکے اسے چار بدترین ناموں سے پکارا ہے۔ مولانا نے ایک جگہ جدید مغربی تہذیب کو ’’باطل‘‘ قرار دیا ہے (تہذیبی کشمکش میں علم و تحقیق کا کردار، از مولانا مودودی، صفحہ 18)۔ مولانا نے دوسرے مقام پر جدید مغربی تہذیب کو ’’جاہلیتِ خالصہ‘‘ قرار دیا ہے۔ (تجدید و احیائے دین۔ صفحہ 114۔116، 19 واں ایڈیشن)۔ اپنی ایک اور تحریر میں مولانا نے جدید مغربی تہذیب کو ’’تخم خبیث‘‘ اور ’’شجر خبیث‘‘ قرار دیا ہے (تنقیحات۔ صفحہ 45۔ 19واں ایڈیشن)۔ مولانا مودودی جیسا مہذب اور صاحبِ علم مغربی تہذیب کے خلاف اس سے زیادہ سخت الفاظ استعمال نہیں کرسکتا تھا۔ مولانا جب تک زندہ رہے فکری و عملی سطح پر باطل، جاہلیتِ خالصہ، تخم خبیث اور شجر خبیث کے خلاف فکری و عملی دائروں میں مزاحمت کا عمل جاری رہا، مگر مولانا کے بعد معاشرے کو کیا، خود جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کو بھی باطل، جاہلیتِ خالصہ، تخم خبیث اور شجر خبیث کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے نہ دیکھا جاسکا۔ مغربی تہذیب کے خلاف ہم نے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو، مگر مغربی تہذیب اور اُس کے مقامی آلۂ کار اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور اسلامی اقدار کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور اسلامی اقدار کے خلاف مغرب کی جنگ کی شہادتیں زندگی کے ہر دائرے سے دستیاب ہیں۔ اسلامی معاشرے میں ’’فضیلت‘‘ صرف دو چیزوں کو حاصل ہے: تقویٰ اور علم۔ چنانچہ ہماری سیاست کو تقویٰ اور علم کی اقدار کے گرد طواف کرنے والا ہونا چاہیے تھا، لیکن مغرب اور اُس کی آلۂ کار اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کی سیاست کو پنجابیت، مہاجریت، سندھیت، بلوچیت اور پشتونیت کا ’’اشتہار‘‘ بنادیا ہے۔ دوسری سطح پر ہماری سیاست مغرب کی سیاست کی طرح سرمائے کی سیاست ہے۔ تیسری سطح پر ہماری سیاست جاگیرداروں، وڈیروں اور Electables کی سیاست ہے۔ چوتھی سطح پر ہماری سیاست فرقوں اور مسالک کی سیاست ہے۔ پانچویں سطح پر ہماری سیاست امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے نظام میں مغرب اور اُس کے آلۂ کار تو ہر جگہ موجود ہیں، مگر اسلام کی فضیلتوں کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔
یہ امر راز نہیں کہ پاکستان کے جرنیلوں اور سیاست دانوں نے ہماری معیشت اور ہمارے دفاع کو گزشتہ 60 سال سے مغرب مرکز بنایا ہوا ہے۔ ہماری معیشت کے گلے میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے پھندے پڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے اوپر مغرب نے اتنا بیرونی قرض چڑھا دیا ہے کہ ہمارے گزشتہ بجٹ کا نصف قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہوگیا۔ صورتِ حال یہی رہی تو آنے والے برسوں میں ہمارے بجٹ کا 55 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر صرف ہوگا۔ یعنی اگر پوری قوم ایک سال میں 100 روپے کمائے گی تو 100 روپے میں سے 55 روپے قرضوں کی ادائیگی پر صرف ہوجائیں گے۔ دفاع کے لیے 25 روپے نکال لیے جائیں تو ہمارے ہاتھ میں صرف 20 روپے رہ جائیں گے۔ انہی 20 روپوں سے ہم ملک ’’چلائیں‘‘ اور ’’ترقی‘‘ کریں گے۔ ہمارے حکمرانوں نے ہمارے دفاع کو اتنا ’’امریکہ مرکز‘‘ بنایا کہ ہم آج بھی چین سے زیادہ امریکہ ہی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان باتوں کا مفہوم عیاں ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ہماری سیاست، ہماری معیشت اور ہمارے دفاع ہی کو نہیں،پاکستان کی آزادی کوبھی ایک ’’مفروضہ‘‘ بلکہ ایک ’’واہمہ‘‘ بنادیا ہے۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور ہمارا 1973ء کا آئین بھی بڑی حد تک اسلامی ہے، مگر مغرب کی آرزو اور پاکستان کے مغرب زدہ حکمرانوں کی غلامانہ ذہنیت نے پاکستان کے آئین کو اسلام کا ’’قیدخانہ‘‘ بنادیا ہے۔ چنانچہ ہم نے 1973ء سے آج تک اسلام کو آئین سے نکل کر پوری قوم اور ریاستی زندگی پر غالب آتے نہیں دیکھا۔ یہ بات ایک تماشے سے کم نہیں کہ پاکستان دو قومی نظریے کا حاصل ہے، اور دو قومی نظریہ اسلام کے سوا کچھ نہیں ہے، مگر پاکستان میں مغرب زدہ دانش ور اور ذرائع ابلاغ اس بات کا پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ قائداعظم سیکولر تھے اور وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے روس میں کوئی کہتا کہ مارکس تو سرمایہ دار تھا اور وہ روس کو سرمایہ دار معاشرے میں تبدیل کرنا چاہتا تھا، یا جیسے امریکہ میں کھڑا ہوکر کوئی کہے کہ بانیانِ امریکہ دراصل امریکہ کو ایک ’’اسلامی ریاست‘‘ بنانا چاہتے تھے۔ پاکستان میں جرنیلوں کے خلاف چار لفظ شائع یا نشر نہیں ہوسکتے، مگر پاکستان کے ذرائع ابلاغ اسلام، اسلامی اقدار اور اسلامی تہذیب کے خلاف مواد سے بھرے ہوئے ہیں، لیکن اس بات پر نہ کسی جرنیل کو کوئی اعتراض ہے، نہ کسی خفیہ ادارے کو اس میں قومی وقار اور ملک کی بنیادوں کے خلاف کوئی سازش نظر آتی ہے۔
پاکستان میں ٹیلی ڈراما ’’تفریح‘‘ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کے بارہ کروڑ افراد پابندی کے ساتھ ڈرامے دیکھتے ہیں، اور ڈراموں کا یہ حال ہے کہ حسینہ معین جیسی لبرل خاتون نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان میں تیار ہونے والے ڈراموں کو اب خاندان کے افراد کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ امجد اسلام امجد ملک کے معروف شاعر اور ممتاز ڈراما نگار ہیں، انہوں نے ایک انٹرویو میں فرمایا کہ اب پاکستان میں بعض ڈرامے میاں بیوی بھی ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ روزنامہ ڈان جیسے لبرل اخبار نے چار معروف ڈراما نگاروں کے انٹرویوز شائع کیے۔ ان میں سے ایک ڈراما نگار نے کہا کہ پاکستان میں ڈراما این جی اوز نے اُچک لیا ہے، اب این جی اوز طے کرتی ہیں کہ ڈرامے کی کہانی کیا ہوگی، کردار کیسے ہوں گے۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ این جی اوز کی اکثریت کا تعلق مغرب سے ہے۔ وہ مقامی بھی ہوں تو سرمایہ انہیں مغرب فراہم کرتا ہے۔ ایک ڈراما نگار نے بتایا کہ ڈراموں میں یا تو جان بوجھ کر عورت کو ’’مظلوم‘‘ دکھایا جاتا ہے یا ’’لبرل‘‘۔ عورت کا اور کوئی کردار ڈراموں میں مرکزیت کا حامل نہیں رہا۔ ایک ڈراما نگار نے کہا کہ میرے ایک ڈرامے میں ایک کردار ’’مثبت‘‘ تھا، میرے ڈائریکٹر نے کہا کہ اسے بھی ’’منفی‘‘ بنادو۔ اس کے ذریعے لوگوں کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ معاشرے میں ’’خیر‘‘ کہیں موجود نہیں۔ پورے معاشرے میں صرف ’’شر‘‘ موجود ہے۔ ایک ڈراما نگار نے بتایا کہ انہوں نے مسلم تاریخ کے موضوع پر ڈراما لکھا تو اسے کہیں سے سرمایہ ہی فراہم نہ ہوسکا۔ اس طرح ڈراموں کے ذریعے دس سے بارہ کروڑ افراد کی ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی ساخت کو ’’مغربی‘‘ بنایا جارہا ہے اور اسلام کے تہذیبی مزاج کے خلاف باغیانہ جذبات پیدا کیے جارہے ہیں۔
جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت، دیوبندیوں اور بریلویوں کی اکثریت موسیقی نہیں سنتی ہوگی، مگر ملک میں دس سے بارہ کروڑ لوگ موسیقی بھی سنتے ہیں۔ جدید موسیقی کے تباہ کن ہونے کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ بھارت کی مشہور و ممتاز گلوکارہ لتا منگیشکر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ جدید موسیقی نہیں سنتیں کیونکہ اس میں سننے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ جس موسیقی کو لتا بھی سننا پسند نہیں کرتیں، ہماری پوری جدید نسل اس کی دیوانی ہے۔ پوری جدید موسیقی مغرب سے آئی ہے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بھارت کی فلم انڈسٹری ہالی ووڈ کی نقل کرتی ہے، اور بدقسمتی سے پاکستان کی فلم انڈسٹری بھارتی فلم انڈسٹری کی ’’مقلّد‘‘ ہے۔ چنانچہ ہماری فلموں میں نہ کوئی ’’پیغام‘‘ ہے، نہ ان کی کوئی ’’جمالیات‘‘ ہے، نہ ان کی کوئی ’’فنکارانہ قدر و قیمت‘‘ ہے۔ جس طرح بھارتی فلمیں صرف ’’لچر تفریح‘‘ فراہم کرتی ہیں، اسی طرح ہماری فلمیں بھی ’’لچر تفریح‘‘ کا ذریعہ ہیں۔ بھارتی فلموں میں ’’آئٹم سانگ‘‘ ہوتا ہے تو ہماری فلموں میں بھی ’’آئٹم سانگ‘‘ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ آئی ایس پی آر نے ایک فلم ’’کاف کنگنا‘‘ کے عنوان سے بنائی ہے تو اس میں معروف اداکارہ نیلم منیر سے ’’آئٹم سانگ‘‘ کرایا ہے۔ یہ اطلاع خود نیلم منیر نے ایک انٹرویو میں دی۔ نیلم منیر کے بقول یہ آئٹم سانگ ایک بھارتی کردار پر فلمایا گیا ہے۔ لیکن ’’آئٹم سانگ‘‘ کیا ہے اس کا اندازہ اِس بات سے کیجیے کہ بھارت کی ممتاز اداکارہ شبانہ اعظمی نے ایک انٹرویو میں آئٹم سانگ کو خواتین کی توہین قرار دیا۔ بھارت کی ایک اداکارہ کنگنا رناوت نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں ہرگز نہیں چاہوں گی کہ کل میری کوئی بیٹی ہو اور کوئی آئٹم سانگ دیکھے۔ یہ بات ایک ایسی عورت نے کہی جس نے خود بتایا ہے کہ اگر اسے بھارت کی عام فلموں میں کام نہ ملتا تو وہ فحش فلموں میں اداکاری کرتی۔ مگر ان حقائق کے باوجود ہماری فلمیں ’’آئٹم سانگ‘‘ سے ’’سجی‘‘ ہوتی ہیں، اور اس پر کسی حکومت، ریاست، سنسر بورڈ، ملاّ، مولوی، عالمِ دین، دانش ور، صحافی یا مذہبی طبقے کو کوئی اعتراض نہیں۔ اقبال نے ایک صدی قبل کہا تھا:۔

اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ

خدا معلوم آج اقبال موجود ہوتے تو وہ کیا کہتے!۔
فلمیں، ڈرامے اور موسیقی تو پھر بھی کچھ نہ کچھ ’’بدنام‘‘ ہیں اور ان کی مغرب زدگی کا کچھ نہ کچھ شہرہ ہے، مگر ٹیلی وژن پر چلنے والے اشتہارات کو لوگ ’’معصوم بچہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ ’’معصوم بچہ‘‘ بھی فلموں، ڈراموں اور موسیقی کی طرح ’’مغربی بچہ‘‘ بنا ہوا ہے۔ یہاں ہم ایک درجن سے زیادہ اشتہارات کا تجزیہ کرسکتے ہیں، مگر طوالت کے خوف سے صرف چند مثالیں پیش ہیں۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ کھانے کے اشتہار میں بھی کوئی اسلام دشمنی ہوسکتی ہے؟ مثال حاضر ہے، فوڈ پانڈا کے اشتہار کی کاپی ہے:۔
’’اب کھانے پکانے کی فکر سے ہو جائو آزاد، کچن کو تالا لگائو، فوڈ پانڈا کرو‘‘۔
یہ اشتہار گھر کے روایتی یا اسلامی تصور کی نفی ہے۔ اس لیے کہ گھر اور باورچی خانے کے تصورات لازم و ملزوم ہیں، مگر یہ اشتہار کہہ رہا ہے کہ خواتین کو باورچی خانے میں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے! فوڈ پانڈا موجود ہے ناں۔ چنانچہ کچن کو تالا لگائو اور تین وقت فوڈ پانڈا سے کھانا منگوائو۔ اس طرح ’’گھر اور ہوٹل‘‘ کا امتیاز مٹ گیا اور ہماری زندگی ’’گھر مرکز‘‘ ہونے کے بجائے ’’ہوٹل مرکز‘‘ ہوگئی۔ اکبر الٰہ آبادی کا شعر یاد آگیا:۔

ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جاکر

اکبر کا یہ شعر ڈیڑھ سو سال پرانا ہے۔ اُس وقت برصغیر میں ’’ہوٹل‘‘ کا ’’آغاز‘‘ ہوا تھا۔ اکبر کو اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ ڈیڑھ سو سال بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر ٹیلی وژن چینل پر ایک اشتہار چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوگا: کچن کو تالا لگائو، فوڈ پانڈا سے کھانا کھائو۔ اکبر کی بصیرت کو اس بات پر بھی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے ہوٹل اور اسپتال کے باہمی تعلق کو بھی ڈیڑھ سو سال پہلے دریافت کرلیا تھا۔ اب تو ڈاکٹر بھی کہتے ہیں کہ ’’جو اکثر ہوٹل کا کھانا کھائے گا وہ اسپتال ضرور جائے گا‘‘۔
لکس صابن کے ایک اشتہار کی کاپی ہے:۔
’’اب خوب صورتی سے کیا شرمانا‘‘۔
بلاشبہ اس فقرے میں لفظ ’’خوب صورتی’’ موجود ہے، مگر اشتہار میں صبا قمر ماڈل گرل کی حیثیت سے جس ’’حال‘‘ میں ہے، اس اعتبار سے اشتہار کی ’’تصویری کاپی‘‘ یہ ہے:۔
’’عریانی و بے حیائی سے کیا شرمانا؟‘‘
یہ معاشرے کی ’’اخلاقیات‘‘ کو ’’خاموشی‘‘ کے ساتھ بدلنے کا عمل ہے۔ مغرب اور اُس کے مقامی آلۂ کار خاموشی مگر تندہی سے فلموں، ڈراموں، موسیقی اور اشتہارات کے ذریعے اس ’’تصورِ زندگی‘‘ اور اس ’’تصورِ عورت‘‘ کو عام کرچکے ہیں اور مزید کررہے ہیں جو کبھی ہماری تہذیب میں بالکل اجنبی تھا۔ فلموں، ڈراموں، موسیقی اور اشتہارات کی طاقت یہ ہے کہ عام لوگ ان چیزوں میں موجود کرداروں کی طرح بننے کی خواہش اور کوشش کرتے ہیں۔ آج ایک ماڈل ٹیلی وژن پر کہہ رہی ہے عریانی و بے حیائی سے کیا شرمانا! کل معاشرے کی لاکھوں لڑکیاں اپنے والدین، عزیز و اقارب اور پورے معاشرے سے کہیں گی: عریانی و فحاشی سے کیا شرمانا!۔
ٹیلی وژن پر Veet کا اشتہار چل رہا ہے۔ ماڈل ہیں ماہرہ خان۔ اس اشتہار کی کاپی ہے:۔
’’Veet دے مجھے پورے ہفتے کے لیے Silky Smooth اسکن So that i can live inspire, lead, Play”
اس اشتہار میں Live کے مقام پر ماہرہ ماڈلنگ کررہی ہیں۔ Inspire کے مقام پر لوگوں کے ایک گروپ کے ساتھ بات کررہی ہیں۔ Lead کے مقام پر لڑکیوں کے گروپ سے محوِ کلام ہیں۔ Play کے مقام پر ایک عورت ماہرہ کو اس طرح چھوتی ہے کہ اشتہار کا یہ حصہ “Lesbianism” کی ترغیب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ چونکہ ابھی پاکستانی معاشرہ ایک حد تک ’’مغربی‘‘ یا ’’جدید‘‘ ہے اس لیے اشتہار کا ’’اظہار‘‘ پوری طرح ’’عیاں‘‘ نہیں، مگر مغرب کو جاننے والے جانتے ہیں کہ مغرب میں کیا ہوا ہے اور اب مغرب اور اُس کے آلۂ کار ہمارے معاشرے میں کیا شیطانی کھیل کھیل رہے ہیں۔ ماشا اللہ یہاں بھی پاکستان کے علما، دانشور اور مذہبی طبقات شترمرغ کی طرح ریت میں منہ ڈالے بیٹھے ہیں۔ (تالیاں)۔
مغرب ہمارے یہاں جمہوریت کو ایک کھیل بنائے ہوئے ہے۔ ہماری معیشت کو ایک کھیل بنائے ہوئے ہے۔ ہمارے دفاع کو ایک کھیل بنائے ہوئے ہے۔ اب وہ ’’عورت مارچ‘‘ کے ذریعے اسلامی، مذہبی، تہذیبی، اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو سبوتاژ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ بدقسمتی سے معاشرے کا کوئی مذہبی رہنما، دانشور اس مارچ کو تہذیبوں کے تصادم کے تناظر میں دیکھنے پر آمادہ نہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عورت مارچ کا خواتین کے حقوق سے کوئی تعلق ہے، وہ احمق ہیں۔ خواتین مارچ کرنے اور کرانے والے زنا کرنے کا ’’حق‘‘ مانگ رہے ہیں۔ مردوں مردوں کے درمیان جنسی تعلق کا ’’حق‘‘ مانگ رہے ہیں۔ خواتین خواتین کے درمیان جنسی تعلقات کا ’’حق‘‘ مانگ رہے ہیں۔ خاندان اور شادی کے ادارے سے آزادی کا ’’حق‘‘ مانگ رہے ہیں۔ اسلام کے خلاف بغاوت کا ’’حق‘‘ مانگ رہے ہیں۔ ہمارے سامنے بدنامِ زمانہ ماروی سرمد کا 2012ء کا ایک ٹوئٹ پڑا ہوا ہے، اس ٹوئٹ میں ماروی سرمد نے قرآن سے نمودار ہونے والے ’’تصورِ حجاب‘‘ کو “Shit” قرار دیا ہوا ہے۔ عورت مارچ کی ایک رہنما شیما کرمانی ہیں۔ موصوفہ پندرہ بیس سال سے نکاح کے بغیر ایک اداکار خالد کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ انہوں نے ایک بار اپنی ایک خاتون دوست سے کہا کہ خالد میں دو برائیاں تھیں، ایک یہ کہ وہ عید کی نماز ضرور پڑھتا تھا اور دوسری یہ کہ وہ اپنی والدہ کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جاتا تھا، میں نے اسے ان دونوں برائیوں سے پاک کردیا ہے۔ اس سال عورت مارچ کا ایک نعرہ تھا:
’’جب پیار کیا تو Gender کیا؟‘‘
یعنی جنسی تعلقات مرد سے بھی ہوسکتے ہیں اور عورت سے بھی۔ یہ ہم جنس پرستی کا کھلا مطالبہ ہے۔ عورت مارچ کے شرکا میں سے ایک نوجوان نے ایک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے نکاح کے ادارے کو فضول قرار دیا اور صاف کہاکہ اس کی بہن سیاسی اور معاشی زندگی ہی میں نہیں جنسی پسند میں بھی پوری طرح آزاد ہے۔ شہزاد رائے نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’’سوال یہ ہے‘‘ میں فرمایا کہ آخر ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے میں کیا عیب ہے! سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ تہذیبوں کے تصادم کا حصہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں مغربی تہذیب باطل بھی ہے، جاہلیتِ خالصہ بھی، تخم خبیث بھی ہے اور شجرِ خبیث بھی۔ یہی معاملہ اس تہذیب کے علَم برداروں اور علامتوں کا بھی ہے۔ یہ علَم بردار، یہ علامتیں باطل اور جاہلیتِ خالصہ کا عکس ہیں۔ تخمِ خبیث اور شجرِ خبیث کا حاصل ہیں۔
ہمارے یہاں مغرب زدہ خواتین اپنی اسلام دشمنی کو تحریکِ نسواں یا Feminist movement کے پردے میں آگے بڑھاتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں نسائیت یا Feminism کی الف ب بھی کوئی نہیں جانتا۔ مغرب میں نسائیت کی تحریک ایک طویل عرصے تک عیسائیت کے دائرے میں کام کرتی رہی ہے۔ عیسائیت کا تصورِ عورت بہت پست تھا۔ عیسائیت کا عقیدہ یہ ہے کہ جنت میں شیطان نے اماں حوا کو بہکایا، اور اماں حوا نے حضرت آدمؑ کو خدا کے حکم سے انحراف پر اکسایا، چنانچہ عورت ہی ہبوطِ آدم کا سبب ہے۔ مگر قرآن اس تصور کی نفی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ غلطی حضرت آدم اور حوا دونوں سے ہوئی۔
عیسائیت کی تاریخ کی اہم ترین شخصیت سینٹ پال ہے۔ اور سینٹ پال خواتین کو گرجا گھر میں سوال کا حق نہیں دیتا تھا۔ وہ عورتوں سے کہتا تھا کہ اپنے گھر جاکر اپنے شوہر سے سوال کیا کرو۔
(Feminism-By Margaret Walters)
ان حقائق کو دیکھا جائے تو یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ مغرب میں خواتین کے اندر باغیانہ خیالات کیوں پیدا ہوئے ہوں گے۔ اسلام کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے دائرے میں ایک عام مسلمان عورت کو براہِ راست رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک رسائی حاصل تھی، اور خواتین پوچھنے والی ہر بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ سکتی تھیں۔ حضرت عمرؓ کی سیرت کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ اُن کے زمانے میں مہر کی رقم زیادہ رکھی جانے لگی تھی، چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس رجحان کو روکنے کی کوشش کی۔ اس صورتِ حال میں ایک عام مسلمان عورت کھڑی ہوگئی اور اس نے کہاکہ جس چیز سے قرآن نہیں روکتا اُس چیز سے آپ کسی کو کیسے روک سکتے ہیں! حضرت عمرؓ یہ بات سن کر خوش ہوئے۔ اسلامی تاریخ میں حضرت عائشہؓ کا مقام یہ ہے کہ ان سے عام لوگ ہی نہیں، اکابر صحابہ تک علم سیکھا کرتے تھے اور ان کی رائے پر بھروسا کیا جاتا تھا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلام تقویٰ اور علم کے دائرے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا، اور اسلامی معاشرہ انہی دو فضیلتوں پر کھڑا ہوتا ہے یا ہونا چاہیے۔
مارگریٹ والٹر نے اپنی کتاب Feminism میں لکھا ہے کہ 16 ویں صدی تک آتے آتے خواتین اپنے حقوق پر اصرار کرنے لگی تھیں۔ اگرچہ ان کے مطالبے میں شدت اور اصرار پیدا ہوگیا تھا، مگر ان کے مطالبات مذہب کے دائرے کے اندر تھے (صفحہ9)، اس صورتِ حال کا اثر مذہبی تعبیرات تک پر پڑا، چنانچہ جین اینگر نے ایک بار کہا کہ اماں حوا حضرت آدم سے برتر تھیں کیونکہ آدم کو سڑی ہوئی مٹی سے بنایا گیا تھا جبکہ اماں حوا کو حضرت آدم کے گوشت سے پیدا کیا گیا تھا (صفحہ 9)۔ تاہم 17 ویں صدی میں بھی مغرب کی خواتین خود کو پنجرے میں قید چڑیوں کی طرح محسوس کرتی تھیں (صفحہ 21)۔ مغرب کی ایک مبصر میری ایسٹل نے لکھا کہ ہم مردوں کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دیتے ہیں اور خود کو اچھے کاموں کے لائق نہیں سمجھتے (صفحہ28)۔ 19 ویں صدی کی ایک تجزیہ نگار مرین ریڈ نے لکھا کہ بلاشبہ ہم مردوں کے لیے بنائے گئے ہیں، لیکن ہم اپنے لیے بھی تخلیق ہوئے ہیں (صفحہ 48)۔
البتہ 20 ویں صدی میں مغرب کی ممتاز ادیب ورجینیا وولف نے لکھا کہ اپنی معاش خود کمانے کا عمل نسائیت کی تحریک کا بنیادی خیال ہے۔ تاہم ورجینیا وولف کے مطابق اس اہلیت سے خواتین کے تمام مسائل حل نہیں ہوتے (صفحہ2)۔ مغرب میں نسائیت کی تحریک کی ممتاز ترین شخصیت سمن ڈی بوا تھی۔ اس کا ایک اہم فقرہ یہ تھا کہ عورت پیدائشی طور پر عورت نہیں ہوتی بلکہ اس کا ماحول اسے عورت بناتا ہے۔
اس وقت مغرب میں یہ صورتِ حال ہے کہ Feminism کے ایک درجن ’’فرقے‘‘ ہیں۔ مثلاً سفید فام نسائیت، سیاہ فام نسائیت، لبرل نسائیت، انقلابی انسائیت، مارکسی اور سوشلسٹ نسائیت، ثقافتی نسائیت، ماحولیاتی نسائیت وغیرہ۔ مغرب میں نسائیت ادوار میں بھی منقسم ہے۔ مثلاً نسائیت کا پہلا دور، نسائیت کا دوسرا دور، نسائیت کا تیسرا دور۔ ان حقائق کا مفہوم یہ ہے کہ نسائیت کوئی منضبط فلسفہ نہیں بلکہ حالات کے تحت اس میں تغیرات آتے رہتے ہیں۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ مغرب میں خواتین پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے نتائج کی وجہ سے گھروں سے نکلیں۔ دو عالمی جنگوں میں دس کروڑ سے زیادہ انسان مارے گئے۔ مارے جانے والوں کی اکثریت مردوں پر مشتمل تھی۔ چنانچہ کارخانوں اور بازاروں میں کام کرنے والوں کی کمی ہوگئی، چنانچہ خواتین کو کسی ’’فلسفے‘‘ کے تحت نہیں، بلکہ ’’مجبوری‘‘ کے تحت گھروں سے نکلنا پڑا۔ وہ ایک بار گھر سے نکلیں تو آج تک واپس نہ آسکیں۔ بدقسمتی سے مغرب کے تصورِ ’’آزادی‘‘ اور ’’فرد پرستی‘‘ نے مغرب میں یہ صورتِ حال پیدا کی ہے کہ امریکہ کے 70 فیصد نوجوان محبت کے تجربے کے باوجود شادی نہیں کرنا چاہتے۔ اسی لیے اقبال نے کہا تھا:۔

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

یہ حقیقت راز نہیں کہ پاکستان میں مغرب کی یلغار کی پشت پر امریکہ بھی موجود ہے اور اسٹیبلشمنٹ بھی۔ عورت مارچ کے ایک ’’کردار‘‘ شہزاد رائے نے اے آر وائی کے پروگرام ’’سوال یہ ہے‘‘ میں کیا کہا، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمایئے:
’’یہ جو ہمارے ملک کا ایک مسئلہ ہے ناں کہ لوگ Shy ہوتے ہیں کہ پتا نہیں باہر سے پیسہ آرہا ہے، آپ کو شرمانا نہیں چاہیے اس سے۔ اگر باہر سے کوئی ہماری Help کررہا ہے تو ضرور کرے، برسوں سے ہمارا ملک باہر سے پیسے پکڑ کے چل رہا ہے‘‘۔ (8مارچ 2020ء)۔
یہ تو امریکہ کی ’’کہانی‘‘ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی کہانی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ حسن نثار نے پہلے اپنے ایک کالم میں عورت مارچ کی زبردست حمایت کی، اور عورت مارچ کے منتظمین کو مشورہ دیا کہ وہ ذرا آہستہ خرامی اختیار کریں، تیز نہ چلیں، اس سے معاشرے میں ردعمل پیدا ہوتا ہے، وہ مغرب کی مثال کو سامنے رکھیں۔ مغرب میں بھی ابتدا میں جو خیالات قابلِ قبول نہ تھے وہ بالآخر قابلِ قبول ہوگئے۔ پھر شاید حسن نثار کو کہیں سے ’’ہدایت‘‘ آگئی، چنانچہ انہوں نے اگلے ہی دن اپنے کالم میں اپنا ہی ایک پرانا کالم شائع کردیا۔ اس کالم میں انہوں نے فرمایا کہ ہمارا جسم ہماری مرضی کیسے ہوسکتا ہے! کیونکہ ہماری تو ہر چیز اللہ کی ہے۔
آپ یہ نہ سمجھیں کہ امریکہ عورت مارچ کے ذریعے صرف پاکستان میں ہم جنس پرستی پیدا کرنا چاہ رہا ہے۔ ذرا روزنامہ ڈان کراچی میں کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک کے حوالے سے شائع ہونے والی اس خبر کا ایک حصہ ملاحظہ کرلیجیے جو بشکیک میں ہونے والے ’’عورت مارچ‘‘ سے متعلق ہے:۔
“Last year a March 8 demonstration angered conservative groups, who have grown in strength in recent years and complain the demonstrations promote gay rights.
(Dawn Karachi 9 March 2020)
ترجمہ: ’’گزشتہ سال 8 مارچ کو ہونے والے مارچ نے ملک کے قدامت پرستوں کو مشتعل کردیا تھا۔ کرغیزستان کے قدامت پسند حالیہ برسوں میں قوی ہوئے ہیں۔ انہوں نے شکایت کی کہ مظاہرین ملک میں ہم جنس پرست مردوں کے حقوق کو فروغ دے رہے ہیں‘‘۔
اس خبر سے ثابت ہے کہ عورت مارچ کراچی میں ہو یا لاہور میں… اسلام آباد میں ہو یا بشکیک اور استنبول میں، اس کا ایجنڈا اسلام دشمنی ہے۔
تہذیبوں کے تصادم کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ امریکہ اور روس ویسے تو ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر 9 مارچ 2020ء کے ڈان کراچی کی شہ سرخی یہ ہے:
US, Russia not to accept “Islamic emirate” in Afghanistan”
ترجمہ: ’’امریکہ اور روس کے لیے افغانستان میں امارتِ اسلامیہ قابلِ قبول نہ ہوگی‘‘۔
ڈان کی خبر کے مطابق اس سلسلے میں امریکہ اور روس کے درمیان اتفاقِ رائے ہوگیا ہے۔ یہ خبر بتا رہی ہے کہ امریکہ اور روس ویسے تو ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر طالبان کل افغانستان میں دوبارہ حاکم ہوں گے تو جس طرح امریکہ اور روس نے ماضی میں اُن کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا اسی طرح دونوں ملک مستقبل میں بھی اُن کی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ امریکہ جن طالبان کے ساتھ مذاکرات کرچکا ہے، معاہدہ فرما چکا ہے، انہی طالبان کی حکومت اُس کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگی۔ امریکہ اور روس کا یہ ’’اتحاد‘‘ بتا رہا ہے کہ اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی حکومت اور اسلامی مزاحمت کسی کے لیے قابلِ قبول نہیں… نہ امریکہ کے لیے، نہ روس کے لیے، نہ چین کے لیے، نہ بھارت کے لیے، نہ اسرائیل کے لیے۔ اس کو کہتے ہیں تہذیبوں کا تصادم۔