ماہرعلم الادویہ ڈاکٹر عبید علی سے گفتگو
ڈاکٹرعبید علی فارمیسی میں گریجویشن کے علاوہ خرد حیاتیات کے بھی گریجویٹ ہیں۔ آپ حیاتی کیمیا میں ماسٹر آف فلاسفی اور ادویاتی کیمیا میں ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری رکھتے ہیں۔24 سالہ پیشہ ورانہ تجربے میں آپ نے سیکریٹری آف ایکسپرٹ ’’کمیٹی آن بائیولوجیکل ڈرگز حکومت ِپاکستان‘‘ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی ہیں۔حیاتیاتی ادویہ کے پیچیدہ مراحل اور علامات کے تنقیدی نظرثانی کے اطلاقی مضامین پر آپ بیرونی ممالک سے مختلف ٹریننگ حاصل کرچکے ہیں۔ ادویہ سازی اور اس کے شعبے میں آپ ایک ماہر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ وسیع تر تجربہ اور قابلیت آپ کو اپنے شعبے میں ممتاز بناتی ہے، جبکہ ایمان داری آپ کو بے پناہ احترام سے نوازتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ وبائی بیماری کیا ہے، اور کرونا وائرس کیا ہے؟
ڈاکٹر عبید علی: توقع سے بڑھ کر اگر اچانک کوئی مخصوص بیماری کسی علاقے میں پھیل جائے تو اُسے وبا کہتے ہیں۔ اور اگر یہ وبا جغرافیائی سرحدوں سے آگے بڑھ جائے تو یہ عالمی وبا کہلاتی ہے۔ وبائی امراض دراصل چھوت کی بیماری ہوتے ہیں جوکہ نظر نہ آنے والے خردنامیوں کے ذریعے پھیلتے ہیں۔ انسانی بال کی موٹائی سے تقریباً 3500 گنا چھوٹے زندہ جسم کو ہم وائرس کے نام سے جانتے ہیں۔ سائنس کرۂ ارض پر اس سے چھوٹی کسی اور زندہ چیز سے واقف نہیں۔ وائرس بیکٹیریا سے تقریباً 500 گنا چھوٹے ہوتے ہیں۔
وائرس انسانوں میں نہیں پائے جاتے، یہ جانوروں سے انسانوں کی طرف آتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر وائرس جو جانور میں رہتا ہو وہ انسان میں بھی جینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کرونا وائرس دراصل وائرس کے اُس خاندان سے تعلق رکھتا ہے جو انسانوں کے پھیپھڑوں اور اس کے نظام میں نشوونما پاتے ہیں، جس کے نتیجے میں انسان بیمار ہوتا ہے،سانس کی بیماری کا موجب بنتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:کرونا وائرس کتنا خطرناک ہے؟
ڈاکٹر عبید علی: حضرتِ انسان پہلی بار اس خاندان کے نئے وائرس سے آشنا ہوئے ہیں۔ اعداد و شمار، معلومات، تجربات اور مشاورت ابھی بہت محدود ہے، لیکن اس کے پھیلنے کی صلاحیت حیرت انگیز طور بہت زیادہ ہے۔ جو معلومات ابھی تک سامنے آئی ہیں ان میں یہ بیماری تقریباً ایک سے چار فیصد تک موت کا باعث بن سکتی ہے۔ کمزور قوتِ مدافعت رکھنے والے اور خصوصاً بزرگ سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس بیماری کے پھیلائو کو محدود رکھنا ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ یہ وبا معیشت کے پہیّے جام کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ہمارے پاس کرونا وائرس کا علاج کیوں نہیں ہے؟
ڈاکٹر عبید علی:چونکہ یہ وائرس پہلی بار نمودار ہوا ہے، اس لیے اس کی علامات سے نہ ہم واقف تھے، نہ اس کو پہچان سکتے تھے، نہ اس کی تشخیص کرسکتے تھے، نہ اس کا علاج اور اس سے حفاظت کا سامان۔ پہچاننے کی علامات سے اب ہم کافی واقفیت حاصل کرچکے ہیں۔ تشخیص کی صلاحیت کافی مستحکم ہوچکی۔ علاج ترجیحات میں شامل نہیں، کیونکہ یہ جان لیوا بیماری نہیں، اور اس کا وائرس بھی دوسری تمام وائرل بیماریوں کی طرح ختم ہوجاتا ہے۔ ہاں اس کی ویکسین پر درجنوں ادارے دنیا میں جارحانہ کام کررہے ہیں اور امید ہے کہ بہت جلد اس کی ویکسین دستیاب ہوگی۔ وائرس میں ہونے والی تبدیلی کی قوت ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو ویکسین بنانے کی صلاحیت پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:کتنا عرصہ درکار ہے اس کی ویکسین کی تیاری میں؟
ڈاکٹر عبید علی: حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا جب تک وائرس کے بارے میں مکمل معلومات نہ آجائیں، اور اس کے نتیجے میں انسانی جسم کی قوتِ مدافعت کے ردعمل کو بڑھایا نہ جاسکے۔ ویکسین کی تیاری اور اس کے تجربات اس پر تنقیدی نظرثانی کے لیے کم از کم ایک سال درکار ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: اس وبا کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے وقت دنیا کی کیا صورتِ حال ہے ؟
ڈاکٹر عبید علی: دنیا پچھلے تقریباً سو سال سے اس عالمی وبا سے ناآشنا تھی۔ تقریباً سو سے زیادہ ممالک میں یہ وبا پہنچ چکی ہے۔ چین سے پھوٹنے والی اس وبا کا اب تک سب سے زیادہ شکار چین خود رہا جو کہ تقریباً 70 فیصد سے زیادہ ہے۔ چین کے بعد اٹلی، جنوبی کوریا، ایران، امریکہ اس کے مہلک اثرات سے متاثر ہوئے۔ جرمنی، انگلینڈ، فرانس، ہالینڈ بھی فہرست کے اوپری حصے میں آتے ہیں جہاں اس بیماری نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ دنیا اس بیماری کو روکنے کی پوری قوت سے کوشش کی جارہی ہے اور بیماری کے مضر اثرات کو کم کرنے کی انتھک محنت قابلِ ستائش ہے۔ پوری دنیا اس وائرس سے حالتِ جنگ میں ہے۔ ہر ملک اپنی استطاعت کے مطابق تحقیق میں مگن ہے۔ بہرکیف حالات بہت تشویشناک ہیں۔ ترقی پذیر ممالک انتہائی کمزور اور مخدوش حالات کے ساتھ غیبی قوت کے منتظر نظر آتے ہیں۔ لاچاری اور بے بسی نمایاں ہے۔ رابطہ کاری اور صحیح معلومات کا بہت زیادہ فقدان ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ کے خیال میں حکومت اور معاشرے کا کیا کردار ہے؟
ڈاکٹر عبید علی: حکومت کی منصوبہ سازی جامع اور سائنسی بنیادوں پر مخلصانہ استوار ہونی چاہیے۔ عوام کو آگاہ رکھنا ضروری ہے، لیکن غلط معلومات کی فراہمی انتہائی مضر ثابت ہوسکتی ہے۔ ساری توانائی اور ذرائع مریض کو فوری پہچاننے اور اس کی تشخیص میں خرچ کرکے اسے الگ تھلگ رکھنے کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہونی چاہئیں۔ تشخیص فوری ہونی چاہیے۔ بڑے بڑے قرنطینہ بنانے چاہئیں، شہر سے دور اُن کو رکھنا چاہیے۔سماج کو بھرپورحصہ ڈالنا پڑے گا۔ اپنے محلے میں قرنطینہ کی سہولتیں تیار رکھیں، غذا و اجناس کی فراہمی رکھیں۔ انتہائی پیچیدہ صورت حال ہوسکتی ہے، حفظِ ماتقدم اور پیشگی انتظامات سے بے بہرہ نہیں رہا جاسکتا۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ اس صورتِ حال میں پاکستانی قارئین کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟
ڈاکٹر عبید علی:جی ہم خود بہت کچھ کرسکتے ہیں، تیار رہیں، اگر ضرورت پڑے تو 20تا 30 دن الگ تھلگ ہوکر رہیں، اگر کرونا وائرس کی موجودگی ثابت ہوجائے یا امکان قوی ہو، توفوراً اپنے کپڑے،تکیے، بستر، تولیے، جانماز علیحدہ کرلیں۔ دھوپ کو گھر میں آنے دیں، سورج کی روشنی اس وائرس کو یقینی طور پر ختم کرتی ہے، کھانسی، چھینک کو پھیلنے نہ دیں، کاغذ سے یا کپڑے سے روکیں، اور اسے فوری طور پر تلف کریں یا دھولیں، دھوپ میں سُکھائیں۔ کوشش کی جائے کہ مریض کو گھر میں بالکل علیحدہ رکھا جائے، چھوت کے پیش نظر اس کے استعما ل کی چیزیں علیحدہ کردی جائیں، اپنے ہاتھ کو چہرے سے دور رکھنے کی عادت بنائیں۔ ہاتھ کو چہرے کے قریب لے جانے سے پہلے دھولیں، چاہے خود شکار ہوں یا دوسرا شکار ہو، مریض سے دور رہیں۔ تیماردار کو دور رکھیں، احتیاط ناگزیر ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اچانک محلے میں پھیل جانے کی صورت میں فوری طور پر کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر عبید علی: مریضوں کو الگ رکھیں، تیماردار احتیاط کریں۔ سورج کی روشنی وبا کی شدت میں کمی کو یقینی بناتی ہے۔ کھلی اور آبادی سے دور جگہ بہت مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔ مریض کی سانسوں سے نکلے ہوئے ذرات پر قابو پانا، ان میں موجود وائرس کو ختم کرنا لازمی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:کیا کرونا وائرس صحت مند لوگوں سے بھی پھیل سکتا ہے؟
ڈاکٹر عبید علی: بدقسمتی سے اس کا جواب ہاں میں ہے۔ کرونا وائرس میں مبتلا لوگوں میں ضروری نہیں کہ بیماری کی کیفیت ہمیشہ ہو، 80 فیصد لوگوں میں ابھی تک یہ پتا کرنا مشکل ہوتا ہے، اور اگر بیماری کی علامات بالکل موجود نہ ہوں تو ایسے شخص سے پھیلنے کا خدشہ یقینی طور پر زیادہ ہوتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:کیا تمام وائرس اتنی تیزی سے پھیلتے ہیں؟
ڈاکٹر عبید علی: نہیں، یہ وائرس متعدی نہیں ہوتا۔ چیچک، خسرہ، ایبولا کے وائرس بہت تیز پھیلتے ہیں۔ کرونا بھی تقریباً ایسی ہی رفتار ظاہر کررہا ہے لیکن بیماری کی شدت بہت کم ہے۔ 80فیصد لوگوں میں بیماری کی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ 15 فیصد بیمار ہوتے ہیں اور 5 فیصد خطرناک حد تک بیمار ہوتے ہیں۔ یہ سارے اعداد و شمار مَیں محدود معلومات سے بتانے کے قابل ہوں۔
فرائیڈے اسپیشل:کیا اس بیماری سے بچنے کا کوئی یقینی طریقہ ہے؟
ڈاکٹر عبید علی: جی ہاں، اپنے ہاتھ کو ناک، منہ اور آنکھ سے دور رکھنے کی عادت بنالیں۔ غیر ضروری طور پر ہاتھوں کو گندا نہ رکھیں، نزلہ اور چھینک کی صورت میں ٹشو پیپر کا محفوظ استعمال اور اس کا تلف کیا جانا ضروری ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:کن علامتوں پر ہمیں نظر رکھنا چاہیے؟
ڈاکٹر عبید علی: معمولی کھانسی سے چکر، شدید بیماری پر نظر رکھنے کے لیے بخار، سانس لینے میں تکلیف، یا لمبی سانس لینے میں دشواری کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: چہرے پر ماسک کب پہننا چاہیے؟
ڈاکٹر عبید علی: یہ ماسک ایک جزوی احساس فراہم کرتا ہے اور کچھ حد تک بیماری کو پھیلنے سے بچا سکتا ہے۔ چونکہ اگر آپ بیمار ہیں تو آپ سے وائرس ماحول میں جاسکتا ہے، اور اگر آپ بیمار سے مخاطب ہیں تو اُس کے منہ اور ناک سے وائرس ماحول میں آسکتا ہے۔ غیر ضروری طور پر ماسک پہننا بالکل غلط ہے۔ ماسک پہننا، ماسک کو تلف کرنا، ماسک کو استعمال کرنا… یہ سب سیکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ مریض کا استعمال شدہ ماسک بیماری پھیلانے کا سبب بن جاتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: سرکار کی کیا ذمہ داری آپ کی نظر میں ہونی چاہیے؟
ڈاکٹر عبید علی: سرکار کو مریض کی معلومات خفیہ رکھنی چاہیے، جن چیزوں سے بیماری پھیلنے کا خدشہ ہو اُن کے بارے میں فوراً عوام کو آگاہ کرنا چاہیے۔ خوف کو کم کرنے کے لیے کام، اور آگاہی بڑھانی چاہیے۔ وائرس کے پھیلنے کی صحیح رفتار سے لوگوں کو باخبر رکھنا چاہیے۔ کسی مخصوص طبقے کو ٹارگٹ بننے سے روکنا اور مخصوص متاثرہ طبقے سے رابطے کو مربوط کرنا چاہیے۔